•┈┈┈┈•••✦﷽✦•••┈┈┈┈•
(سوال نمبر 4294)
چین والی گھڑی پہن کر نماز پڑھنا کیسا ہے ؟
✦•••••••••••••✦❀✦•••••••••••••✦
السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین مسئلہ ذیل کے بارے میں کہ چین والی گھڑی پہن کر نماز پڑھنا کیسا ہے ۔ شریعت مطہرہ کی روشنی میں جواب عنایت فرمائیں۔
سائل:- ریاض احمد عزیزی ضلع مہراج گنج انڈیا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نحمده ونصلي علي رسوله الكريم
وعلیکم السلام ورحمة الله وبركاته
الجواب بعونه تعالي عز وجل
چین کی گھڑی کے بابت علماء کے مابین اختلاف ہے
پر چین کی گھڑی پہن کر نماز پڑھنا جائزہے البتہ خلاف اولی ہے ۔
امام کا بچنا انسب پے اس میں کوئی حرج نہیں ہے بلا کرایت جائز ہے ۔واضح رہے کہ فتاویٰ شارح بخاری میں اس مسئلہ کی وضاحت کچھ اسطرح سے مذکور ہے،،،
سیدی حضور مفتی اعظم ہند حضرت مولانا مفتی شاہ مصطفی رضا خاں صاحب علیہ الرحمۃ والرضوان کا فتوی یہ ہے کہ نا جائز ہے اور تقریبا یہی موقف عامہ علماے اہل سنت کا بھی ہے
لیکن اس کے برخلاف حضرت نائب مفتی اعظم ہند علیہ الرحمہ شارح بخاری جوازکا موقف اختیار کرتے ہیں آپ رقم طراز ہیں؛؛
دھات کی چیں گھڑی کے ساتھ باندھنا علما کے مابین مختلف فیہ سے بہت سے علماے کرام اس کو نا جائز و حرام کہتے ہیں ایسی صورت میں اسے پیس کر نماز مکر وہ تحر یمی واجب الاعادہ ہوگی ۔ لیکن اس حادم نے بہتت غور وفکر کی ، اور کافی تلاش کیا مگر اب تک اس کے ناجائز ہونے کی کوئی وجہ سمجھ میں نہیں آئی اور اصل اشیا میں اباحت ہے اس لیے خادم یہ حکم دیتا ہے کہ اسے باندھنا جائز ہے اور اسے باندھ کر
نماز پڑھنی بلا کراہت درست ہے،،
بعض لوگ اس سلسلے میں اعلی حضرت امام احمد رضا قدس سرہ کا حوالہ دیتے ہیں کہ انھوں نے اسے ناجائز فرما ہے جیسا کہ الملفوظ اور احکام شریعت میں ہے ۔ لیکن الطبيب الوجیز میں اعلی حضرت نے یہ فرمایا :
*پس بچنا ہی بہتر ہے* *او کما قال* الملفوظ کا جو حال ہے، واہل علم سے مخفی نہیں ، اس میں سیکڑوں غلطیاں اب تک مل چکی ہیں ، احکام شریعت ایک میلا دخواں کی جمع کردہ ہے، یہ دونوں کتابیں اعلی حضرت کے وصال کے بعد چھپی ہیں اس لیے اس میں غلطی
کا امکان بعید نہیں ہے اسی وجہ سے خام اس پرفتوی دیتا ہے۔۔ علاوہ ازیں اسٹیل کی یہ چیں جواب کلائی پر باندھی جاتی ہے، اعلی حضرت کے زمانے میں نہیں تھی ، اعلی حضرت کے زمانے میں جیبی گھڑیوں میں چین لگائی جاتی تھی اسی کے بارے میں ان تینوں کتابوں میں حکم ہے، اسی کے بارے میں احکام شریعت میں بھی ہے ۔ اس لیے اس کے ناجائز ہونے پر اعلی حضرت کی کسی کتاب کا
حوالہ دینا بےمحل ہے ۔ اب بات وہیں پہونچی کی اصل اشیا میں اباحت اور اس چین کے ناجائز ہونے پر کوئی دلیل شرعی نہیں ، اس لیے یہ جائز ہے مگر چوں کہ اختلاف علما سے بچنا اولی ہے اس لیے احتیاط اس میں ہے کہ اسے نہ استعمال کیا جاۓ ۔
(فتاوی شارح بخاری ج 1 ص 36)
مذکورہ توضیحات سے معلوم ہوا کہ چین کی گھڑی نہ پہننے میں عزیمت اور پہننے میں رخصت ہے ۔
والله ورسوله اعلم بالصواب
چین والی گھڑی پہن کر نماز پڑھنا کیسا ہے ؟
✦•••••••••••••✦❀✦•••••••••••••✦
السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین مسئلہ ذیل کے بارے میں کہ چین والی گھڑی پہن کر نماز پڑھنا کیسا ہے ۔ شریعت مطہرہ کی روشنی میں جواب عنایت فرمائیں۔
سائل:- ریاض احمد عزیزی ضلع مہراج گنج انڈیا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نحمده ونصلي علي رسوله الكريم
وعلیکم السلام ورحمة الله وبركاته
الجواب بعونه تعالي عز وجل
چین کی گھڑی کے بابت علماء کے مابین اختلاف ہے
پر چین کی گھڑی پہن کر نماز پڑھنا جائزہے البتہ خلاف اولی ہے ۔
امام کا بچنا انسب پے اس میں کوئی حرج نہیں ہے بلا کرایت جائز ہے ۔واضح رہے کہ فتاویٰ شارح بخاری میں اس مسئلہ کی وضاحت کچھ اسطرح سے مذکور ہے،،،
سیدی حضور مفتی اعظم ہند حضرت مولانا مفتی شاہ مصطفی رضا خاں صاحب علیہ الرحمۃ والرضوان کا فتوی یہ ہے کہ نا جائز ہے اور تقریبا یہی موقف عامہ علماے اہل سنت کا بھی ہے
لیکن اس کے برخلاف حضرت نائب مفتی اعظم ہند علیہ الرحمہ شارح بخاری جوازکا موقف اختیار کرتے ہیں آپ رقم طراز ہیں؛؛
دھات کی چیں گھڑی کے ساتھ باندھنا علما کے مابین مختلف فیہ سے بہت سے علماے کرام اس کو نا جائز و حرام کہتے ہیں ایسی صورت میں اسے پیس کر نماز مکر وہ تحر یمی واجب الاعادہ ہوگی ۔ لیکن اس حادم نے بہتت غور وفکر کی ، اور کافی تلاش کیا مگر اب تک اس کے ناجائز ہونے کی کوئی وجہ سمجھ میں نہیں آئی اور اصل اشیا میں اباحت ہے اس لیے خادم یہ حکم دیتا ہے کہ اسے باندھنا جائز ہے اور اسے باندھ کر
نماز پڑھنی بلا کراہت درست ہے،،
بعض لوگ اس سلسلے میں اعلی حضرت امام احمد رضا قدس سرہ کا حوالہ دیتے ہیں کہ انھوں نے اسے ناجائز فرما ہے جیسا کہ الملفوظ اور احکام شریعت میں ہے ۔ لیکن الطبيب الوجیز میں اعلی حضرت نے یہ فرمایا :
*پس بچنا ہی بہتر ہے* *او کما قال* الملفوظ کا جو حال ہے، واہل علم سے مخفی نہیں ، اس میں سیکڑوں غلطیاں اب تک مل چکی ہیں ، احکام شریعت ایک میلا دخواں کی جمع کردہ ہے، یہ دونوں کتابیں اعلی حضرت کے وصال کے بعد چھپی ہیں اس لیے اس میں غلطی
کا امکان بعید نہیں ہے اسی وجہ سے خام اس پرفتوی دیتا ہے۔۔ علاوہ ازیں اسٹیل کی یہ چیں جواب کلائی پر باندھی جاتی ہے، اعلی حضرت کے زمانے میں نہیں تھی ، اعلی حضرت کے زمانے میں جیبی گھڑیوں میں چین لگائی جاتی تھی اسی کے بارے میں ان تینوں کتابوں میں حکم ہے، اسی کے بارے میں احکام شریعت میں بھی ہے ۔ اس لیے اس کے ناجائز ہونے پر اعلی حضرت کی کسی کتاب کا
حوالہ دینا بےمحل ہے ۔ اب بات وہیں پہونچی کی اصل اشیا میں اباحت اور اس چین کے ناجائز ہونے پر کوئی دلیل شرعی نہیں ، اس لیے یہ جائز ہے مگر چوں کہ اختلاف علما سے بچنا اولی ہے اس لیے احتیاط اس میں ہے کہ اسے نہ استعمال کیا جاۓ ۔
(فتاوی شارح بخاری ج 1 ص 36)
مذکورہ توضیحات سے معلوم ہوا کہ چین کی گھڑی نہ پہننے میں عزیمت اور پہننے میں رخصت ہے ۔
والله ورسوله اعلم بالصواب
_________(❤️)_________
کتبہ :- فقیہ العصر حضرت علامہ مولانا مفتی محمد مجيب قادری صاحب قبلہ مدظلہ العالیٰ النورانی لهان ١٨خادم دارالافتاء البركاتي علماء فاونديشن شرعي سوال و جواب ضلع سرها نيبال
03/09/2023