(سوال نمبر 2167)
اگر کسی کو رقم قرض کے طور پر دی ہو تو کیا اس پر زکات فرض ہو گی۔؟
.....................................
السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
کیا فرماتے ہیں علماء کرام و مفتیان شرع متین اس مسئلہ کے متعلق کہ
اگر کسی کو رقم قرض کے طور پر دی ہو تو کیا اس پر زکات فرض ہو گی۔؟
شرعی راہنمائی فرما دیں
جزاک اللہ خیرا
سائلہ: آمنہ عطاریہ شہر لاہور پاکستان
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نحمده و نصلي على رسوله الأمين
وعليكم السلام ورحمة الله وبركاته
الجواب بعونه تعالى عز وجل
اگر کسی رقم قرض کے طور پر دی ہو اور قرض دینے والا شخص مالک نصاب ہے تو قرض دینے والے پر زکات فرض ہے
واضح رہے کہ قرض وصول ہونے کےبعد زکاۃ کی ادائیگی لازم ہوگی، اگرقرض وصول ہونےسے پہلے زکاۃ ادا کرے گا تو زکاۃ ادا ہوجائے گی، وصول ہونے کے بعد گزشتہ ادا کردہ زکاۃ دوبارہ دینا لازم نہیں ہوگی۔ اور اگر قرض وصول ہونے تک زکاۃ ادا نہ کی اور وصولی میں ایک سے زائد سال گزرگئے اور یہ شخص صاحبِ نصاب بھی ہو تو گزشتہ سالوں کی بھی زکاۃ ادا کرنی ہوگی، اس لیے بہتر ہے کہ سال بہ سال زکاۃ کا حساب کرتے وقت قرض دی ہوئی رقم کا بھی حساب کرکے زکاۃ ادا کردے۔
یہ حکم اس صورت میں ہے جب کسی شخص نے دوسرے کو قرض کی رقم قرضِ حسنہ کے طور پردی ہوئی، اور دوسراشخص یعنی مقروض چاہے اس سے تجارت کرے یا ذاتی استعمال میں لائے۔
فتاوی شامی میں ہے:
(و) اعلم أن الديون عند الإمام ثلاثة: قوي، ومتوسط، وضعيف؛ (فتجب) زكاتها إذا تم نصاباً وحال الحول، لكن لا فوراً بل (عند قبض أربعين درهماً من الدين) القوي كقرض (وبدل مال تجارة) فكلما قبض أربعين درهماً يلزمه درهم.
(قوله: عند قبض أربعين درهماً) قال في المحيط؛ لأن الزكاة لاتجب في الكسور من النصاب الثاني عنده ما لم يبلغ أربعين للحرج، فكذلك لايجب الأداء ما لم يبلغ أربعين للحرج. وذكر في المنتقى: رجل له ثلثمائة درهم دين حال عليها ثلاثة أحوال فقبض مائتين، فعند أبي حنيفة يزكي للسنة الأولى خمسة وللثانية والثالثة أربعة أربعة من مائة وستين، ولا شيء عليه في الفضل؛ لأنه دون الأربعين. اهـ
(رد مختار 2/ 305 کتاب الزکاة، باب زکاة المال،)
والله ورسوله اعلم بالصواب
_________(❤️)_________
کتبہ :- فقیہ العصر حضرت علامہ مولانا مفتی محمد مجيب قادری صاحب قبلہ مدظلہ العالیٰ النورانی لهان ١٨خادم دارالافتاء البركاتي علماء فاونديشن شرعي سوال و