(سوال نمبر 2166)
60 سال کا بوڑھا اگر روزہ نہ رکھ سکے تو؟
شیخ فانی کسے کہتے ہیں؟ فدیہ کون ادا کرسکتا ہے؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
کیا فرماتے ہیں علماء کرام و مفتیان شرع متین اس مسئلہ کے متعلق کہ
جس کی عمر 60 یا 65 سال ہو اور اسکا بلڈ پریشر ہائی اور لو ہوتا ہو۔یعنی وہ مریض ہو اور روزہ نہ رکھ سکے تو اسکے لئے کیا حکم ہے؟
شرعی راہنمائی فرما دیں
جزاک اللہ خیرا
سائلہ: ثوبیہ عطاریہ شہر بورے والا لاہور پاکستان
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نحمده و نصلي على رسوله الأمين
وعليكم السلام ورحمة الله وبركاته
الجواب بعونه تعالى عز وجل
مذکورہ صورت میں جس کی عمر 60 یا 65 سال کی ہو اور ساتھی ہی مریض بھی اور روزہ نہ رکھ سکے تو اس طرح کے افراد کے لئے شریعت کا حکم یہ ہے کہ اگر یہ اندیشہ ہو کہ مرض بڑھ جائے گا یا دیر سے اچھا ہوگا تو اجازت ہے کہ اس دن روزہ نہ رکھے بلکہ بعد میں اس کی قضا کرلے اور صرف اپنے خیال کا اعتبار نہ کرے بلکہ غالب گمان ہونا چاہئے اور غالب گمان اس طرح ہو سکتا ہے کہ اس کی ظاہری نشانی پائی جائے یا اس کا ذاتی تجربہ ہو یا کسی ماہر طبیب غیر فاسق نے بتایا ہوغیر فاسق طبیب میسر نہ ہو تو دینی ذہن رکھنے والے ڈاکٹر سے مراجعت کرے یا کوشش کرے کہ ایک سے زائد ڈاکٹر سے رائے لےاور اگر بغیر غالب گمان کے روزہ نہ رکھا تو قضاکے ساتھ ساتھ توبہ بھی کرنا ہوگی۔
رہی بات یہ کہ کوئی شخص رمضا ن کے روزے نہیں رکھ سکتا تو کیا وہ فدیہ ہی دے گا مطلقاً ایسا نہیں ہے اور اگر وہ قضا کے روزے گرمیوں میں نہ رکھ سکے توگرمیوں کے بجائے سردیوں میں روزہ رکھے کیونکہ سردیوں کے دن بھی چھوٹے ہوتے ہیں اور موسم بھی ٹھنڈا ہوتا ہے،اس میں ضروری نہیں کہ وہ مسلسل روزے رکھے کہ بعض مریض اس کی طاقت نہیں رکھتے بلکہ چھوڑ چھوڑ کر بھی رکھ سکتا ہے اور جتنے روزے قضا ہوئے ان کی تعداد پوری کرے۔ اور اگر وہ سردیوں میں بھی روزہ نہیں رکھ سکتے تو انتظار کریں گے یہاں تک کے بڑھاپے میں پہنچ کر ایسی کیفیت ہو جاے کہ روزہ رکھنے کی سکت نہ رہے کہ نہ اب روزہ رکھ سکتا ہے نہ آئندہ روزہ رکھنے کی امید ہو تو اس کیفیت پر پہنچے شخص کو شیخِ فانی کہتے ہیں۔ اور شیخِ فانی کے لئے حکم یہ ہے کہ ایک روزے کے بدلے میں فدیہ دے یعنی دو وقت ایک مسکین کو پیٹ بھر کے کھانا کھلائے یا ایک صدقہ فطر کی مقدار کسی مسکین کو دے۔ صدقہ فطر کی مقدار دو کلو سے 80گرام کم گندم (یعنی ایک کلو 920 گرام) یا اس کا آٹا یا اس کی رقم ہے۔لیکن یاد رکھیے کہ اگر فدیہ دینے کے بعد اتنی طاقت آگئی کہ اب روزہ رکھ سکتا ہے تو یہ فدیہ یا صدقہ نفل ہو جائیں گے اور اس کے لئے ان روزوں کی قضا کرنی ہو گی۔
(ماخوذ از درمختار ،ج 3،ص463، ردالمحتار،ج 3،ص471، بہارِ شریعت،ج 2،ص 1006 مکتبہ المدینہ)
والله ورسوله اعلم بالصواب
60 سال کا بوڑھا اگر روزہ نہ رکھ سکے تو؟
شیخ فانی کسے کہتے ہیں؟ فدیہ کون ادا کرسکتا ہے؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
کیا فرماتے ہیں علماء کرام و مفتیان شرع متین اس مسئلہ کے متعلق کہ
جس کی عمر 60 یا 65 سال ہو اور اسکا بلڈ پریشر ہائی اور لو ہوتا ہو۔یعنی وہ مریض ہو اور روزہ نہ رکھ سکے تو اسکے لئے کیا حکم ہے؟
شرعی راہنمائی فرما دیں
جزاک اللہ خیرا
سائلہ: ثوبیہ عطاریہ شہر بورے والا لاہور پاکستان
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نحمده و نصلي على رسوله الأمين
وعليكم السلام ورحمة الله وبركاته
الجواب بعونه تعالى عز وجل
مذکورہ صورت میں جس کی عمر 60 یا 65 سال کی ہو اور ساتھی ہی مریض بھی اور روزہ نہ رکھ سکے تو اس طرح کے افراد کے لئے شریعت کا حکم یہ ہے کہ اگر یہ اندیشہ ہو کہ مرض بڑھ جائے گا یا دیر سے اچھا ہوگا تو اجازت ہے کہ اس دن روزہ نہ رکھے بلکہ بعد میں اس کی قضا کرلے اور صرف اپنے خیال کا اعتبار نہ کرے بلکہ غالب گمان ہونا چاہئے اور غالب گمان اس طرح ہو سکتا ہے کہ اس کی ظاہری نشانی پائی جائے یا اس کا ذاتی تجربہ ہو یا کسی ماہر طبیب غیر فاسق نے بتایا ہوغیر فاسق طبیب میسر نہ ہو تو دینی ذہن رکھنے والے ڈاکٹر سے مراجعت کرے یا کوشش کرے کہ ایک سے زائد ڈاکٹر سے رائے لےاور اگر بغیر غالب گمان کے روزہ نہ رکھا تو قضاکے ساتھ ساتھ توبہ بھی کرنا ہوگی۔
رہی بات یہ کہ کوئی شخص رمضا ن کے روزے نہیں رکھ سکتا تو کیا وہ فدیہ ہی دے گا مطلقاً ایسا نہیں ہے اور اگر وہ قضا کے روزے گرمیوں میں نہ رکھ سکے توگرمیوں کے بجائے سردیوں میں روزہ رکھے کیونکہ سردیوں کے دن بھی چھوٹے ہوتے ہیں اور موسم بھی ٹھنڈا ہوتا ہے،اس میں ضروری نہیں کہ وہ مسلسل روزے رکھے کہ بعض مریض اس کی طاقت نہیں رکھتے بلکہ چھوڑ چھوڑ کر بھی رکھ سکتا ہے اور جتنے روزے قضا ہوئے ان کی تعداد پوری کرے۔ اور اگر وہ سردیوں میں بھی روزہ نہیں رکھ سکتے تو انتظار کریں گے یہاں تک کے بڑھاپے میں پہنچ کر ایسی کیفیت ہو جاے کہ روزہ رکھنے کی سکت نہ رہے کہ نہ اب روزہ رکھ سکتا ہے نہ آئندہ روزہ رکھنے کی امید ہو تو اس کیفیت پر پہنچے شخص کو شیخِ فانی کہتے ہیں۔ اور شیخِ فانی کے لئے حکم یہ ہے کہ ایک روزے کے بدلے میں فدیہ دے یعنی دو وقت ایک مسکین کو پیٹ بھر کے کھانا کھلائے یا ایک صدقہ فطر کی مقدار کسی مسکین کو دے۔ صدقہ فطر کی مقدار دو کلو سے 80گرام کم گندم (یعنی ایک کلو 920 گرام) یا اس کا آٹا یا اس کی رقم ہے۔لیکن یاد رکھیے کہ اگر فدیہ دینے کے بعد اتنی طاقت آگئی کہ اب روزہ رکھ سکتا ہے تو یہ فدیہ یا صدقہ نفل ہو جائیں گے اور اس کے لئے ان روزوں کی قضا کرنی ہو گی۔
(ماخوذ از درمختار ،ج 3،ص463، ردالمحتار،ج 3،ص471، بہارِ شریعت،ج 2،ص 1006 مکتبہ المدینہ)
والله ورسوله اعلم بالصواب
_________(❤️)_________
کتبہ :- فقیہ العصر حضرت علامہ مولانا مفتی محمد مجيب قادری صاحب قبلہ مدظلہ العالیٰ النورانی لهان ١٨خادم دارالافتاء البركاتي علماء فاونديشن شرعي سوال و
٦/٤/٢٠٢٢
٤ رمضان المبارك ١٤٤٣
٦/٤/٢٠٢٢
٤ رمضان المبارك ١٤٤٣