بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْم
حکایت :-
اے کاش مجھے عمیررضی اللہ تعا لیٰ عنہ جیسے گورنر مل جا ئیں
حکایت :-
اے کاش مجھے عمیررضی اللہ تعا لیٰ عنہ جیسے گورنر مل جا ئیں
_________(❤️)_________
حضرت سیدنا عمیر بن سعد الانصاری رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ حضرت سیدنا عمربن خطاب رضی اللہ تعا لیٰ عنہ نے انہیں حَمص کا گورنر بناکر بھیجا۔ایک سال گزر گیا لیکن ان کی کوئی خبر نہ آئی۔ چنانچہ حضرت سید ناعمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کاتب کو بلایا اور فرمایا:’’ عمیررضی اللہ تعالیٰ عنہ کی طرف خط لکھو کہ جیسے ہی تمہیں میر ایہ خط ملے فوراً میرے پاس چلے آؤ، مالِ غنیمت و خَراج وغیرہ بھی ساتھ لیتے آنا۔‘‘جب حضرت سیدنا عمیر بن سعدرضی اللہ تعالیٰ عنہ کو امیر المومنین رضی اللہ تعالیٰ عنہکا پیغام ملا تو آپ نے اپنا تھیلا اٹھایا،اس میں زادِ راہ اور ایک پیالہ رکھا، پانی کا برتن لیا پھر اپنی لاٹھی اٹھاکر پیدل ہی سفر کرتے ہوئے مدینہ منوّرہ پہنچ گئے۔ آپ رضی اللہ تعا لیٰ عنہ حضرت سیدنا عمررضی اللہ تعالیٰ عنہ کی خدمت میں اس حال میں حاضر ہوئے کہ آپ کاچہرہ گرد آلود اوررنگ متغیر ہو چکا تھا اور طویل سفر کے آثار چہرے پر ظاہر تھے۔ آپ رضی اللہ تعا لیٰ عن نے حاضر ہوتے ہی اَلسَّلَامُ عَلَیکُمْ یَااَمِیْرَ الْمُؤمِنِیْن وَرَحْمَۃُ اللہِ وَبَرَکَاتُہٗ کہا۔ حضرت سیدنا عمررضی اللہ تعالیٰ عنہ نے سلام کا جواب دیااورپوچھا:’’اے عمیررضی اللہ تعالیٰ عنہ ! تمہارا کیا حال ہے؟‘‘ حضرت سیدنا عمیررضی اللہ تعا لیٰ عنہ نے عرض کی:’’ میراوہی حال ہے جو آپ رضی اللہ تعا لیٰ عنہ دیکھ رہے ہیں ، کیا آپ نہیں دیکھ رہے کہ میں صحیح وسالم ہوں اور دنیا میرے ساتھ ہے جسے میں کھینچ رہا ہوں۔
حضرت سیدنا عمررضی اللہ تعالیٰ عنہ نے پوچھا:’’تم کیا کچھ لے کر آئے ہو؟‘‘ آپ رضی اللہ تعا لیٰ عنہ کا گما ن تھا کہ شاید حضرت عمیررضی اللہ تعالیٰ عنہ مالِ غنیمت وغیرہ لائے ہوں گے، حضرت سیدنا عمیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے عرض کی:’’ میرے پاس میرا تھیلا ہے جس میں اپنا زادِراہ رکھتاہوں ، ایک پیالہ ہے جس میں کھانا کھاتا ہوں اور اسی سے اپنا سر اور کپڑے وغیرہ دھوتا ہوں ،ایک پانی کا برتن ہے جس میں پانی پیتا ہوں اور وضو وغیرہ کرتاہوں اورایک لاٹھی ہے جس پر ٹیک لگاتا ہوں اور اگر کوئی دشمن آ جائے تو اسی لاٹھی سے اس کامقابلہ کرتاہوں ، خدا عزوجل کی قسم!اس کے علاوہ میرے پاس دنیاوی مال ومتاع نہیں۔‘‘حضرت سیدنا عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے دریافت فرمایا:’’اے عمیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ! کیاتم پیدل آئے ہو ؟‘‘انہوں نے عرض کی:’’جی ہاں۔‘‘آپ رضی اللہ تعا لیٰ عنہ نے پوچھا: ’’کیا مسلمانوں میں سے کوئی ایسا نہ تھاجو تمہیں سواری دیتاتا کہ تم اس پر سوار ہوکر آتے ؟‘‘آپ رضی اللہ تعا لیٰ عنہ نے عرض کی :’’نہیں ، ان میں سے کسی نے مجھے کہا نہ ہی میں نے کسی سے سوال کیا۔‘‘حضرت سیدنا عمررضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا:’’وہ کتنے برُ ے لوگ ہیں جن کے پاس سے تم آئے ہو ۔ حضرت سیدنا عمیررضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا :’’اے عمررضی اللہ تعالیٰ عنہ ! انہیں برانہ کہئے ،میں ان لوگوں کو صبح کی نماز پڑھتے چھوڑ کر آیا ہوں ، وہ اللہ عزوجل کی عبادت کرنے والے ہیں۔‘‘ حضرت سیدنا عمررضی اللہ تعالیٰ عنہ نے پوچھا: ’’تم جس مال کی وصولی کے لئے بھیجے گئے تھے وہ کہاں ہے ؟ ا ور تم نے وہاں رہ کر کیا کیا کام سر انجام دیئے؟‘‘حضرت سیدنا عمیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے عرض کی: ’’آپ مجھ سے کیا پوچھنا چاہتے ہیں ؟‘‘حضرت سیدنا عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا: ’’سبحان اللہ عزوجل! میں جو پوچھنا چاہتا ہوں وہ بالکل واضح ہے۔‘‘
حضرت سیدنا عمیررضی اللہ تعالیٰ عنہ نے عرض کی:’’اللہ عزوجل کی قسم! اگر مجھے اس بات کاخوف نہ ہوتاکہ میرے نہ بتانے سے آپ کو غم ہو گاتو میں ہر گز آپ کو نہ بتاتا،سنئے!جب آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے مجھے بھیجا تھا تو وہاں پہنچ کرمیں نے وہاں کے تمام نیک لوگو ں کو جمع کیا اور انہیں مال جمع کرنے کے لئے کہا۔جب انہوں نے مالِ غنیمت اور جزیہ وغیرہ جمع کر لیا تو میں نے اس مال کواس کے مصارف(یعنی خرچ کرنے کی جگہوں )میں خرچ کر دیا۔اگراس میں سے کچھ بچتا تو میں یہاں ضرور لے کر آتا۔‘‘ حضرت سید ناعمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے دریافت فرمایا:’’ تم یہاں کچھ بھی نہیں لے کر آئے؟‘‘ انہوں نے عرض کی:’’نہیں۔‘‘حضرت سید نا عمررضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا: ’’حضرت عمیررضی اللہ تعا لیٰ عنہ کو دوبارہ وہاں کا حاکم بناکر بھیجا جاتا ہے اس کے لئے عہد لکھو۔‘‘حضرت سیدنا عمیر رضی اللہ تعا لیٰ عنہ نے جب یہ سنا تو عرض کی:’’ اب میں یہ کام نہ تو آپ کے لئے کروں گانہ آپ کے بعد کسی اور کے لئے، کیونکہ اس کام میں مَیں اپنے آپ کو گناہوں سے نہیں بچا سکتا بلکہ مجھ سے ایک خطا بھی سر زد ہوئی ہے، میں نے ایک نصرانی کو یہ کہہ دیاتھا کہ’’ اللہ عزوجل تجھے رسوا کرے حالانکہ وہ ہمیں جزیہ دیا کرتاتھا اور ذمی کافر کو اذیت دینا منع ہے لہٰذا میں اب یہ عہدہ قبول نہیں کروں گا۔‘‘پھر انہوں نے حضرت سید نا عمررضی اللہ تعا لیٰ عنہ سے اجازت چاہی اور اپنے گھر کی طرف روانہ ہو گئے۔
ان کا گھر مدینہ منورہ سے کافی دور تھا۔وہ پیدل ہی گھر کی جانب چل دیئے۔ جب وہ چلے گئے تو حضرت سیدنا عمررضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا:’’ ان کے بارے میں تحقیق کرنی چاہئے۔ لہٰذا آ پ رضی اللہ تعا لیٰ عنہ نے حارث نامی ایک شخص کو بلایا اور اسے ایک سو دینار دے کر فرمایا:’’ تم حضرت عمیررضی اللہ تعا لیٰ عنہ کے پاس جاؤ اور وہاں مہمان بن کر رہو، اگر وہاں دولت کے آثار دیکھو تو واپس آ جا نا اور اگر انہیں تنگدستی اور فقر وفاقہ کی حالت میں پاؤ تو یہ دینار اُنہیں دے دینا۔‘‘
جب وہ شخص وہا ں پہنچا تو دیکھاکہ حضرت سیدنا عمیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ ایک دیوار سے ٹیک لگا ئے بیٹھے ہیں اور اپنے کُرتے سے گردوغبار وغیرہ صاف کر رہے ہیں۔وہ ان کے پاس گئے اور سلام عرض کیا،آپ رضی اللہ تعا لیٰ عنہ نے جواب دیا اور ر فرمایا:’’ اللہ عزوجل آپ پررحم فرمائے، آپ ہمارے ہاں مہمان ہو جائیے۔ لہٰذا وہ ان کے ہاں بطورِ مہمان ٹھہر گیا پھر حضرت سیدنا عمیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اس سے پوچھا:’’آپ کہاں سے تشریف لائے ہیں ؟ ‘‘اس نے کہا:’’میں مدینہ منورہ سے آیا ہوں۔‘‘ حضرت سیدنا عمیررضی اللہ تعالیٰ عنہ نے پوچھا:’’ امیر المؤمنین کو کس حال میں چھوڑ کر آئے ہو ؟‘‘جواب دیا:’’اچھی حالت میں۔‘‘پھر آپ رضی اللہ
تعالیٰ عنہ نے پوچھا:’’کیا حضرت سیدنا عمررضی اللہ تعالیٰ عنہ مجرموں کو سزا نہیں دیتے ؟‘‘اس نے کہا:’’کیوں نہیں۔‘‘وہ حدود قائم فرماتے ہیں اور انہوں نے تو اپنے بیٹے پر بھی کسی خطا ۱؎پر حد قائم فرمائی یہاں تک کہ وہ فوت ہو گئے ۔‘‘ حضرت سیدنا عمیررضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا،اے اللہ عزوجل !تو حضرت سیدنا عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو عزت عطافرما،ان کی مدد فرما، بے شک وہ تجھ سے بہت زیا دہ محبت کرتے ہیں۔
وہ شخص حضرت سید نا عمیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ہاں تین دن مہمان رہا۔ آپ رضی اللہ تعا لیٰ عنہ کے ہاں جَوکی ایک روٹی ہوتی جو اسے کھلا دیتے اور خود بھوکے رہتے ۔ یہاں تک کہ آپ رضی اللہ تعا لیٰ عنہ مشقت میں پڑ گئے اور آپ رضی اللہ تعا لیٰ عنہ کو بہت زیادہ پریشانی ہونے لگی۔چنانچہ آپ رضی اللہ تعا لیٰ عنہ نے اس سے معذرت کرتے ہوئے فرمایا:’’ہمیں بہت زیادہ پریشانی کاسامنا ہے ،اگر آپ مناسب سمجھیں تو ہم سے رخصت ہو جائیں ،جب اس نے یہ سنا تو دینار نکال کر آپ رضی اللہ تعا لیٰ عنہ کی بارگاہ میں پیش کئے اور کہا:’’ یہ امیر المومنین رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے آپ رضی اللہ تعا لیٰ عنہ کے لئے بھیجے ہیں ،انہیں قبول فرمائیے اور اپنی ضروریات میں استعمال کیجئے۔‘‘جب آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے یہ سنا تو ایک زور دار چیخ ماری اور فرمایا:’’مجھے ان کی کچھ حاجت نہیں ،انہیں واپس لے جاؤ۔‘‘یہ دیکھ کر آپ رضی اللہ تعا لیٰ عنہ کی زوجۂ محترمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے عر ض کی:’’ آپ انہیں قبول کر لیجئے، اگر ان کی ضرورت محسوس ہو تو استعمال کر لینا ورنہ حاجت مندوں اور فقراء میں تقسیم فرما دینا۔‘‘حضرت سید نا عمیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا: ’’اللہ عزوجل کی قسم! میرے پاس کوئی ایسی چیز نہیں جس میں انہیں رکھ سکوں۔‘‘یہ سن کر آپ رضی اللہ تعا لیٰ عنہ کی زوجۂ محترمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے اپنے کرتے کا نیچے والاحصہ پھاڑ کر دیا،اور کہا:’’اس میں رکھ لیجئے۔‘‘آپ رضی اللہ تعا لیٰ عنہ نے وہ دینار لے کر اس کپڑے میں رکھ لئے پھر گھر سے باہر تشریف لے گئے اور تمام دینار شہداء کے اقرباء اور فقراء ومساکین میں تقسیم فرما دیئے ۔ جب واپس گھر آئے تو آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس ایک دینار بھی نہ تھا،دینار لانے والے کا گمان تھا کہ شاید مجھے بھی کچھ حصہ ملے گا لیکن آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے سب دینار فقراء میں تقسیم فرما دئیے تھے۔ پھر حضرت سیدنا عمیررضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اس سے فرمایا:’’امیر المؤمنین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو میرا سلام عرض کرنا۔‘‘ پھر وہ شخص وہاں سے روانہ ہوکر حضرت سیدنا عمررضی اللہ تعالیٰ عنہ کی بارگاہ میں حاضر ہوا۔آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اس سے پوچھا:’’تم نے وہاں کیا دیکھا؟‘‘ عرض کی: ’’بہت تنگدستی اور فقر وفاقہ کی حالت میں زندگی گزار رہے ہیں ،پھر آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے پوچھا :’’ انہوں نے دیناروں کا کیا کیا؟‘‘عرض کی:’’ مجھے معلوم نہیں۔‘‘ پھر حضرت سیدنا عمر فاروقِ اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ان کی طرف خط بھیجا اور اس میں لکھا:’’ جیسے ہی ہمارا یہ خط پہنچے فوراً ہمارے پاس چلے آؤ ،لہٰذا خط پاکر حضرت سیدنا عمیررضی اللہ تعالیٰ عنہ آپ رضی اللہ تعا لیٰ عنہ کی بارگاہ میں حاضر ہو گئے ،حضرت سیدنا عمرِ فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ان سے پوچھا:’’ آپ نے دینار کہاں خرچ کئے ؟بولے: ’’میں نے جہاں چاہا انہیں خرچ کیا،آپ ان کے متعلق کیوں پوچھ رہے ہیں ؟‘‘آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا:’’میں تمہیں قسم دے کر کہتا ہوں مجھے بتاؤ تم نے وہ دینار کہاں خرچ کئے؟‘‘حضرت سیدنا عمیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے عرض کی:’’ میں نے وہ دینار اپنی آخرت کے لئے ذخیرہ کر لئے ہیں۔‘‘
حضرت سیدنا عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے یہ سن کر فرمایا:’’اللہ عزوجل آپ پر رحم فرمائے اور آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو خوش وخرم رکھے، اسی طرح حضرت سیدنا عمررضی اللہ تعالیٰ عنہ آپ کو دعائیں دیتے رہے، پھر حکم فرمایا: انہیں چھ من گندم اور کچھ کپڑے د ے دیئے جائیں۔‘‘ آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے یہ سن کر کہاـ:’’ مجھے گندم کی کوئی حاجت نہیں ، مَیں گھر میں دو صاع گندم چھوڑ کر آیا ہوں ، جب وہ ختم ہوجائے گی تو اللہ عزوجل ہمیں اور عطافرمائے گا ۔پس آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے گندم قبول نہ فرمائی اور کپڑے بھی یہ کہہ کر لئے کہ فلاں غریب عورت کو ان کی حاجت ہے ،میں یہ کپڑے اسے دے دوں گا، پھر آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ اپنے گھر کی طرف روانہ ہوگئے اور کچھ عرصہ بعد آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا اِنتقال ہو گیا۔(اللہ عزوجل کی ان پر رحمت ہو اور ان کے صدقے ہماری مغفرت ہو۔آمین)
جب حضرت سیدنا عمر فاروقِ اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ کوان کے وصال کی خبر ملی تو آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو بہت صدمہ ہوا اور آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ ا ن کی تد فین کے لئے پیدل ہی جنت البقیع کی طرف چل پڑے، بہت سے لو گ بھی آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ساتھ تھے، جب حضرت سیدنا عمیررضی اللہ تعالیٰ عنہ کو دفن کر دیا گیا تو حضرت سیدنا عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے لوگوں سے کہا:’’تم اپنی اپنی خواہش کااظہار کرو۔‘‘ ان میں سے ایک شخص بولا: ’’اے امیر المؤمنین رضی اللہ تعا لیٰ عنہ !میری یہ خواہش ہے کہ میرے پاس بہت سا مال ہو اورمیں اس کے ذریعے غلاموں کو آزاد کرواؤں تاکہ اللہ عزوجل کی رضا نصیب ہو۔‘‘ دوسرے نے کہا:’’میری یہ خواہش ہے کہ میرے پاس بہت سا مال ہو جسے میں اللہ عزوجل کی راہ میں خرچ کردوں۔‘‘ایک اور شخص نے کہا:’’میری خواہش ہے کہ اللہ عزوجل مجھے بہت زیادہ قوت عطا فرمائے تا کہ میں بئرِ زمزم سے پانی نکال کر حجاج کو سیراب کروں۔‘‘ پھر حضرت سیدنا عمرفاروق اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ارشاد فرمایا: ’’میری تو یہ خواہش ہے کہ مجھے عمیر بن سعدرضی اللہ تعالیٰ عنہ جیسے لوگ مل جائیں جنہیں میں گورنر بناؤں او ر مسلمانوں کے کاموں کا والی بنا دوں۔‘‘
{اللہ عزوجل کی اُن پر رحمت ہو۔۔اور۔۔ اُن کے صدقے ہماری مغفرت ہو۔آمین بجاہ النبی الامین صلی اللہ تعالی علیہ وسلم}
حضرت سیدنا عمررضی اللہ تعالیٰ عنہ نے پوچھا:’’تم کیا کچھ لے کر آئے ہو؟‘‘ آپ رضی اللہ تعا لیٰ عنہ کا گما ن تھا کہ شاید حضرت عمیررضی اللہ تعالیٰ عنہ مالِ غنیمت وغیرہ لائے ہوں گے، حضرت سیدنا عمیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے عرض کی:’’ میرے پاس میرا تھیلا ہے جس میں اپنا زادِراہ رکھتاہوں ، ایک پیالہ ہے جس میں کھانا کھاتا ہوں اور اسی سے اپنا سر اور کپڑے وغیرہ دھوتا ہوں ،ایک پانی کا برتن ہے جس میں پانی پیتا ہوں اور وضو وغیرہ کرتاہوں اورایک لاٹھی ہے جس پر ٹیک لگاتا ہوں اور اگر کوئی دشمن آ جائے تو اسی لاٹھی سے اس کامقابلہ کرتاہوں ، خدا عزوجل کی قسم!اس کے علاوہ میرے پاس دنیاوی مال ومتاع نہیں۔‘‘حضرت سیدنا عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے دریافت فرمایا:’’اے عمیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ! کیاتم پیدل آئے ہو ؟‘‘انہوں نے عرض کی:’’جی ہاں۔‘‘آپ رضی اللہ تعا لیٰ عنہ نے پوچھا: ’’کیا مسلمانوں میں سے کوئی ایسا نہ تھاجو تمہیں سواری دیتاتا کہ تم اس پر سوار ہوکر آتے ؟‘‘آپ رضی اللہ تعا لیٰ عنہ نے عرض کی :’’نہیں ، ان میں سے کسی نے مجھے کہا نہ ہی میں نے کسی سے سوال کیا۔‘‘حضرت سیدنا عمررضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا:’’وہ کتنے برُ ے لوگ ہیں جن کے پاس سے تم آئے ہو ۔ حضرت سیدنا عمیررضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا :’’اے عمررضی اللہ تعالیٰ عنہ ! انہیں برانہ کہئے ،میں ان لوگوں کو صبح کی نماز پڑھتے چھوڑ کر آیا ہوں ، وہ اللہ عزوجل کی عبادت کرنے والے ہیں۔‘‘ حضرت سیدنا عمررضی اللہ تعالیٰ عنہ نے پوچھا: ’’تم جس مال کی وصولی کے لئے بھیجے گئے تھے وہ کہاں ہے ؟ ا ور تم نے وہاں رہ کر کیا کیا کام سر انجام دیئے؟‘‘حضرت سیدنا عمیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے عرض کی: ’’آپ مجھ سے کیا پوچھنا چاہتے ہیں ؟‘‘حضرت سیدنا عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا: ’’سبحان اللہ عزوجل! میں جو پوچھنا چاہتا ہوں وہ بالکل واضح ہے۔‘‘
حضرت سیدنا عمیررضی اللہ تعالیٰ عنہ نے عرض کی:’’اللہ عزوجل کی قسم! اگر مجھے اس بات کاخوف نہ ہوتاکہ میرے نہ بتانے سے آپ کو غم ہو گاتو میں ہر گز آپ کو نہ بتاتا،سنئے!جب آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے مجھے بھیجا تھا تو وہاں پہنچ کرمیں نے وہاں کے تمام نیک لوگو ں کو جمع کیا اور انہیں مال جمع کرنے کے لئے کہا۔جب انہوں نے مالِ غنیمت اور جزیہ وغیرہ جمع کر لیا تو میں نے اس مال کواس کے مصارف(یعنی خرچ کرنے کی جگہوں )میں خرچ کر دیا۔اگراس میں سے کچھ بچتا تو میں یہاں ضرور لے کر آتا۔‘‘ حضرت سید ناعمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے دریافت فرمایا:’’ تم یہاں کچھ بھی نہیں لے کر آئے؟‘‘ انہوں نے عرض کی:’’نہیں۔‘‘حضرت سید نا عمررضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا: ’’حضرت عمیررضی اللہ تعا لیٰ عنہ کو دوبارہ وہاں کا حاکم بناکر بھیجا جاتا ہے اس کے لئے عہد لکھو۔‘‘حضرت سیدنا عمیر رضی اللہ تعا لیٰ عنہ نے جب یہ سنا تو عرض کی:’’ اب میں یہ کام نہ تو آپ کے لئے کروں گانہ آپ کے بعد کسی اور کے لئے، کیونکہ اس کام میں مَیں اپنے آپ کو گناہوں سے نہیں بچا سکتا بلکہ مجھ سے ایک خطا بھی سر زد ہوئی ہے، میں نے ایک نصرانی کو یہ کہہ دیاتھا کہ’’ اللہ عزوجل تجھے رسوا کرے حالانکہ وہ ہمیں جزیہ دیا کرتاتھا اور ذمی کافر کو اذیت دینا منع ہے لہٰذا میں اب یہ عہدہ قبول نہیں کروں گا۔‘‘پھر انہوں نے حضرت سید نا عمررضی اللہ تعا لیٰ عنہ سے اجازت چاہی اور اپنے گھر کی طرف روانہ ہو گئے۔
ان کا گھر مدینہ منورہ سے کافی دور تھا۔وہ پیدل ہی گھر کی جانب چل دیئے۔ جب وہ چلے گئے تو حضرت سیدنا عمررضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا:’’ ان کے بارے میں تحقیق کرنی چاہئے۔ لہٰذا آ پ رضی اللہ تعا لیٰ عنہ نے حارث نامی ایک شخص کو بلایا اور اسے ایک سو دینار دے کر فرمایا:’’ تم حضرت عمیررضی اللہ تعا لیٰ عنہ کے پاس جاؤ اور وہاں مہمان بن کر رہو، اگر وہاں دولت کے آثار دیکھو تو واپس آ جا نا اور اگر انہیں تنگدستی اور فقر وفاقہ کی حالت میں پاؤ تو یہ دینار اُنہیں دے دینا۔‘‘
جب وہ شخص وہا ں پہنچا تو دیکھاکہ حضرت سیدنا عمیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ ایک دیوار سے ٹیک لگا ئے بیٹھے ہیں اور اپنے کُرتے سے گردوغبار وغیرہ صاف کر رہے ہیں۔وہ ان کے پاس گئے اور سلام عرض کیا،آپ رضی اللہ تعا لیٰ عنہ نے جواب دیا اور ر فرمایا:’’ اللہ عزوجل آپ پررحم فرمائے، آپ ہمارے ہاں مہمان ہو جائیے۔ لہٰذا وہ ان کے ہاں بطورِ مہمان ٹھہر گیا پھر حضرت سیدنا عمیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اس سے پوچھا:’’آپ کہاں سے تشریف لائے ہیں ؟ ‘‘اس نے کہا:’’میں مدینہ منورہ سے آیا ہوں۔‘‘ حضرت سیدنا عمیررضی اللہ تعالیٰ عنہ نے پوچھا:’’ امیر المؤمنین کو کس حال میں چھوڑ کر آئے ہو ؟‘‘جواب دیا:’’اچھی حالت میں۔‘‘پھر آپ رضی اللہ
تعالیٰ عنہ نے پوچھا:’’کیا حضرت سیدنا عمررضی اللہ تعالیٰ عنہ مجرموں کو سزا نہیں دیتے ؟‘‘اس نے کہا:’’کیوں نہیں۔‘‘وہ حدود قائم فرماتے ہیں اور انہوں نے تو اپنے بیٹے پر بھی کسی خطا ۱؎پر حد قائم فرمائی یہاں تک کہ وہ فوت ہو گئے ۔‘‘ حضرت سیدنا عمیررضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا،اے اللہ عزوجل !تو حضرت سیدنا عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو عزت عطافرما،ان کی مدد فرما، بے شک وہ تجھ سے بہت زیا دہ محبت کرتے ہیں۔
وہ شخص حضرت سید نا عمیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ہاں تین دن مہمان رہا۔ آپ رضی اللہ تعا لیٰ عنہ کے ہاں جَوکی ایک روٹی ہوتی جو اسے کھلا دیتے اور خود بھوکے رہتے ۔ یہاں تک کہ آپ رضی اللہ تعا لیٰ عنہ مشقت میں پڑ گئے اور آپ رضی اللہ تعا لیٰ عنہ کو بہت زیادہ پریشانی ہونے لگی۔چنانچہ آپ رضی اللہ تعا لیٰ عنہ نے اس سے معذرت کرتے ہوئے فرمایا:’’ہمیں بہت زیادہ پریشانی کاسامنا ہے ،اگر آپ مناسب سمجھیں تو ہم سے رخصت ہو جائیں ،جب اس نے یہ سنا تو دینار نکال کر آپ رضی اللہ تعا لیٰ عنہ کی بارگاہ میں پیش کئے اور کہا:’’ یہ امیر المومنین رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے آپ رضی اللہ تعا لیٰ عنہ کے لئے بھیجے ہیں ،انہیں قبول فرمائیے اور اپنی ضروریات میں استعمال کیجئے۔‘‘جب آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے یہ سنا تو ایک زور دار چیخ ماری اور فرمایا:’’مجھے ان کی کچھ حاجت نہیں ،انہیں واپس لے جاؤ۔‘‘یہ دیکھ کر آپ رضی اللہ تعا لیٰ عنہ کی زوجۂ محترمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے عر ض کی:’’ آپ انہیں قبول کر لیجئے، اگر ان کی ضرورت محسوس ہو تو استعمال کر لینا ورنہ حاجت مندوں اور فقراء میں تقسیم فرما دینا۔‘‘حضرت سید نا عمیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا: ’’اللہ عزوجل کی قسم! میرے پاس کوئی ایسی چیز نہیں جس میں انہیں رکھ سکوں۔‘‘یہ سن کر آپ رضی اللہ تعا لیٰ عنہ کی زوجۂ محترمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے اپنے کرتے کا نیچے والاحصہ پھاڑ کر دیا،اور کہا:’’اس میں رکھ لیجئے۔‘‘آپ رضی اللہ تعا لیٰ عنہ نے وہ دینار لے کر اس کپڑے میں رکھ لئے پھر گھر سے باہر تشریف لے گئے اور تمام دینار شہداء کے اقرباء اور فقراء ومساکین میں تقسیم فرما دیئے ۔ جب واپس گھر آئے تو آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس ایک دینار بھی نہ تھا،دینار لانے والے کا گمان تھا کہ شاید مجھے بھی کچھ حصہ ملے گا لیکن آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے سب دینار فقراء میں تقسیم فرما دئیے تھے۔ پھر حضرت سیدنا عمیررضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اس سے فرمایا:’’امیر المؤمنین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو میرا سلام عرض کرنا۔‘‘ پھر وہ شخص وہاں سے روانہ ہوکر حضرت سیدنا عمررضی اللہ تعالیٰ عنہ کی بارگاہ میں حاضر ہوا۔آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اس سے پوچھا:’’تم نے وہاں کیا دیکھا؟‘‘ عرض کی: ’’بہت تنگدستی اور فقر وفاقہ کی حالت میں زندگی گزار رہے ہیں ،پھر آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے پوچھا :’’ انہوں نے دیناروں کا کیا کیا؟‘‘عرض کی:’’ مجھے معلوم نہیں۔‘‘ پھر حضرت سیدنا عمر فاروقِ اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ان کی طرف خط بھیجا اور اس میں لکھا:’’ جیسے ہی ہمارا یہ خط پہنچے فوراً ہمارے پاس چلے آؤ ،لہٰذا خط پاکر حضرت سیدنا عمیررضی اللہ تعالیٰ عنہ آپ رضی اللہ تعا لیٰ عنہ کی بارگاہ میں حاضر ہو گئے ،حضرت سیدنا عمرِ فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ان سے پوچھا:’’ آپ نے دینار کہاں خرچ کئے ؟بولے: ’’میں نے جہاں چاہا انہیں خرچ کیا،آپ ان کے متعلق کیوں پوچھ رہے ہیں ؟‘‘آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا:’’میں تمہیں قسم دے کر کہتا ہوں مجھے بتاؤ تم نے وہ دینار کہاں خرچ کئے؟‘‘حضرت سیدنا عمیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے عرض کی:’’ میں نے وہ دینار اپنی آخرت کے لئے ذخیرہ کر لئے ہیں۔‘‘
حضرت سیدنا عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے یہ سن کر فرمایا:’’اللہ عزوجل آپ پر رحم فرمائے اور آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو خوش وخرم رکھے، اسی طرح حضرت سیدنا عمررضی اللہ تعالیٰ عنہ آپ کو دعائیں دیتے رہے، پھر حکم فرمایا: انہیں چھ من گندم اور کچھ کپڑے د ے دیئے جائیں۔‘‘ آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے یہ سن کر کہاـ:’’ مجھے گندم کی کوئی حاجت نہیں ، مَیں گھر میں دو صاع گندم چھوڑ کر آیا ہوں ، جب وہ ختم ہوجائے گی تو اللہ عزوجل ہمیں اور عطافرمائے گا ۔پس آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے گندم قبول نہ فرمائی اور کپڑے بھی یہ کہہ کر لئے کہ فلاں غریب عورت کو ان کی حاجت ہے ،میں یہ کپڑے اسے دے دوں گا، پھر آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ اپنے گھر کی طرف روانہ ہوگئے اور کچھ عرصہ بعد آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا اِنتقال ہو گیا۔(اللہ عزوجل کی ان پر رحمت ہو اور ان کے صدقے ہماری مغفرت ہو۔آمین)
جب حضرت سیدنا عمر فاروقِ اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ کوان کے وصال کی خبر ملی تو آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو بہت صدمہ ہوا اور آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ ا ن کی تد فین کے لئے پیدل ہی جنت البقیع کی طرف چل پڑے، بہت سے لو گ بھی آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ساتھ تھے، جب حضرت سیدنا عمیررضی اللہ تعالیٰ عنہ کو دفن کر دیا گیا تو حضرت سیدنا عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے لوگوں سے کہا:’’تم اپنی اپنی خواہش کااظہار کرو۔‘‘ ان میں سے ایک شخص بولا: ’’اے امیر المؤمنین رضی اللہ تعا لیٰ عنہ !میری یہ خواہش ہے کہ میرے پاس بہت سا مال ہو اورمیں اس کے ذریعے غلاموں کو آزاد کرواؤں تاکہ اللہ عزوجل کی رضا نصیب ہو۔‘‘ دوسرے نے کہا:’’میری یہ خواہش ہے کہ میرے پاس بہت سا مال ہو جسے میں اللہ عزوجل کی راہ میں خرچ کردوں۔‘‘ایک اور شخص نے کہا:’’میری خواہش ہے کہ اللہ عزوجل مجھے بہت زیادہ قوت عطا فرمائے تا کہ میں بئرِ زمزم سے پانی نکال کر حجاج کو سیراب کروں۔‘‘ پھر حضرت سیدنا عمرفاروق اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ارشاد فرمایا: ’’میری تو یہ خواہش ہے کہ مجھے عمیر بن سعدرضی اللہ تعالیٰ عنہ جیسے لوگ مل جائیں جنہیں میں گورنر بناؤں او ر مسلمانوں کے کاموں کا والی بنا دوں۔‘‘
{اللہ عزوجل کی اُن پر رحمت ہو۔۔اور۔۔ اُن کے صدقے ہماری مغفرت ہو۔آمین بجاہ النبی الامین صلی اللہ تعالی علیہ وسلم}