قرآن حکیم سے واقعہ بنی اسرائیل کی گائے کا
___________(❤️)___________
بنی اسرائیل میں سے ایک شخص نا معلوم طور پر قتل ہو جاتا ہے۔ اس کے قاتل کا کسی طرح پتا نہیں چلتا ۔ تاریخ اور تفاسیر سے جو کچھ ظاہر ہوتا ہے وہ یہ ہے کہ قتل کا سبب مال تھا یا شادی!۔ بعض مفسرین کہتے ہیں کہ بنی اسرائیل میں ایک ثروت مند شخص تھا۔ اس کے پاس بے پناہ دولت تھی۔ اس دولت کا وارث اس کے چچا زاد بھائی کے علاوہ کوئی نہ تھا۔ وہ دولت مند کافی عمر رسیدہ ہو چکا تھا۔ اس کے چچازاد بھائی نے بہت انتظار کیا کہ وہ دنیا سے چلا جائے تا کہ اس کا وارث بن سکے لیکن اس کا انتظار بے نتیجہ رہا لہذا اس نے اسے ختم کر دینے کا تہیہ کر لیا۔ بالآخر ایک دن اُسے تنہائی میں پا کر قتل کر دیا اور اس کی لاش سڑک پر رکھ دی اور گریہ وزاری کرنے لگا۔ پھر حضرت موسی علی نبینا وعلیہ الصلوۃ والسلام کی بارگاہ میں مقدمہ پیش کیا کہ بعض لوگوں نے میرے چچا زاد بھائی کو قتل کر دیا ہے۔
جب کہ بعض دیگر مفسرین کے نزدیک قتل کا سبب یہ تھا کہ اپنے چچا زاد بھائی کو قتل کرنے والے نے اس سے اس کی بیٹی کا رشتہ مانگا تھا، لیکن اس نے یہ درخواست رد کر دی اور لڑکی کو بنی اسرائیل کے ایک نیک اور پاکباز نوجوان سے بیاہ دیا۔ شکست خوردہ چچازاد بھائی نے لڑکی کے باپ کو قتل کرنے کا ارادہ کر لیا اور ایک روز چھپ کر اسے قتل کرنے میں کامیاب ہو گیا۔ اب بنی اسرائیل کے قبائل کے
چونکہ عام اور معروف طریقوں سے اس قضیہ کا فیصلہ ممکن نہ تھا اور دوسری طرف اس کشمکش کے جاری رہنے سے ممکن تھا کہ بنی اسرائیل میں ایک عظیم فتنہ کھڑا ہو جاتا ؛ لہذا جیسا کہ آپ ان آنے والی ابحاث میں پڑھیں گے حضرت موسیٰ علیہ السلام پروردگار سے مدد لے کر اعجاز کے راستے اس مشکل کو کیونکر حل کرتے ہیں۔ قرآن نے فرمایا: "یاد کرو اس وقت کو جب موسیٰ نے اپنی قوم سے کہا تھا ( قاتل کو تلاش
کرنے کے لیے ) پہلی گائے ( جو تمہیں مل جائے اس ) کو ذبح کرو۔ اور اس ذبح شدہ گائے کا ایک حصہ اس مقتول کے جسم پر لگاؤ جس کا قاتل معلوم نہیں ہے؟ تا کہ وہ زندہ ہو جائے اور اپنے قاتل کو بتائے۔
انہوں نے بطور تعجب کہا: ” کیا تم ہم سے تمسخر کرتے ہو؟“۔
موسی علیہ السلام نے ان کے جواب میں کہا: ” میں خدا سے پناہ مانگتا ہوں کہ میں جاہلوں میں سے ہو جاؤں۔ یعنی استہزا اور تمسخر کرنا نادان افراد اور جاہل افراد کا کام ہے، اور خدا کا رسول یقیناً ایسا
نہیں ہے۔
بنی اسرائیل کے اعتراضات :
جب کہ بعض دیگر مفسرین کے نزدیک قتل کا سبب یہ تھا کہ اپنے چچا زاد بھائی کو قتل کرنے والے نے اس سے اس کی بیٹی کا رشتہ مانگا تھا، لیکن اس نے یہ درخواست رد کر دی اور لڑکی کو بنی اسرائیل کے ایک نیک اور پاکباز نوجوان سے بیاہ دیا۔ شکست خوردہ چچازاد بھائی نے لڑکی کے باپ کو قتل کرنے کا ارادہ کر لیا اور ایک روز چھپ کر اسے قتل کرنے میں کامیاب ہو گیا۔ اب بنی اسرائیل کے قبائل کے
چونکہ عام اور معروف طریقوں سے اس قضیہ کا فیصلہ ممکن نہ تھا اور دوسری طرف اس کشمکش کے جاری رہنے سے ممکن تھا کہ بنی اسرائیل میں ایک عظیم فتنہ کھڑا ہو جاتا ؛ لہذا جیسا کہ آپ ان آنے والی ابحاث میں پڑھیں گے حضرت موسیٰ علیہ السلام پروردگار سے مدد لے کر اعجاز کے راستے اس مشکل کو کیونکر حل کرتے ہیں۔ قرآن نے فرمایا: "یاد کرو اس وقت کو جب موسیٰ نے اپنی قوم سے کہا تھا ( قاتل کو تلاش
کرنے کے لیے ) پہلی گائے ( جو تمہیں مل جائے اس ) کو ذبح کرو۔ اور اس ذبح شدہ گائے کا ایک حصہ اس مقتول کے جسم پر لگاؤ جس کا قاتل معلوم نہیں ہے؟ تا کہ وہ زندہ ہو جائے اور اپنے قاتل کو بتائے۔
انہوں نے بطور تعجب کہا: ” کیا تم ہم سے تمسخر کرتے ہو؟“۔
موسی علیہ السلام نے ان کے جواب میں کہا: ” میں خدا سے پناہ مانگتا ہوں کہ میں جاہلوں میں سے ہو جاؤں۔ یعنی استہزا اور تمسخر کرنا نادان افراد اور جاہل افراد کا کام ہے، اور خدا کا رسول یقیناً ایسا
نہیں ہے۔
بنی اسرائیل کے اعتراضات :
اس کے بعد انہیں اطمینان ہو گیا کہ یہ استہزا مذاق نہیں بلکہ سنجیدہ گفتگو ہے، تو کہنے لگے: اب اگر ایسا ہی ہے تو اپنے پروردگار سے کیسے وہ ہمارے لیے شخص و معین کرے کہ وہ گائے کس قسم کی ہو؟۔
بہر حال ! حضرت موسیٰ علیہ السلام نے ان کے جواب میں فرمایا : خدا فرماتا ہے: ایسی گائے ہو جو نہ بہت بوڑھی ہو کہ بے کار ہو چکی ہو اور نہ ہی جوان، بلکہ ان کے درمیان ہو۔
اس مقصد سے کہ وہ اس سے زیادہ اس مسئلے کو طول نہ دیں اور بہانہ تراشی سے حکم خدا میں تاخیر نہ کریں، اپنے کلام کے آخر میں مزید کہا: جو تمہیں حکم دیا گیا ہے ( جتنی جلدی ہو سکے) اسے انجام دو۔
درمیان جھگڑا اور نزاع شروع ہو جاتا ہے۔ان میں سے ہر ایک دوسرے قبیلے اور دیگر لوگوں کو اس کا ذمہ دار گردانتا ہے اور اپنے کو بری الذمہ قرار دیتا ہے۔ جھگڑا ختم کرنے کے لیے مقدمہ حضرت موسی علیہ السلام کی خدمت میں پیش ہوتا ہے اور لوگ آپ سے اس موقع پر مشکل کشائی کی درخواست کرتے ہیں اور اس کا حل چاہتے ہیں۔
لیکن انہوں نے پھر بھی زیادہ باتیں بنانے اور ڈھٹائی دکھانے سے ہاتھ نہیں اٹھایا اور کہنے لگے: اپنے پروردگار سے دعا کریں کہ وہ ہمارے لیے واضح کرے کہ اس کا رنگ کیسا ہو؟۔ موسیٰ علیہ السلام نے جواب میں کہا: وہ گائے ساری کی ساری زرد رنگ کی ہو جس کا رنگ دیکھنے والوں کو بھلا لگے۔
خلاصہ یہ کہ وہ گائے مکمل طور پر خوش رنگ اور چمکیلی ہو۔ ایسی دیدہ زیب کہ دیکھنے والوں کو تعجب میں ڈال دے!۔ تعجب کی بات یہ ہے کہ انہوں نے اس پر بھی اکتفا نہ کیا اور اس طرح ہر مرتبہ بہانہ جوئی ہ بہانہ جوئی سے کام لے کر اپنے آپ کو اور مشکل میں ڈالتے چلے گئے۔ پھر کہنے لگے اپنے پروردگار سے کہیے کہ ہمیں واضح کرے کہ یہ گائے ( کام کرنے کے لحاظ سے) کیسی ہونی چاہیے؛ کیونکہ یہ گائے ہمارے لیے مبہم ہوگئی ہے۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے پھر سے کہا: خدا فرماتا ہے وہ ایسی گائے ہو جو اتنی سدھائی ہوئی نہ ہو کہ زمین جوتے اور کھیت سینچے، ہر عیب سے پاک ہو جتی کہ اس میں کسی قسم کا دوسرا رنگ نہ ہو۔ اب جب کہ بہانہ سازی کے لیے اُن کے پاس کوئی سوال باقی نہ تھا جتنے سوالات وہ کر سکتے تھے سب ختم ہو گئے تو کہنے لگے: اب آپ نے حق بات کہی ہے ، پھر جس طرح ہو سکا انہوں نے وہ گائے مہیا کی اور اسے ذبح کیا لیکن دراصل وہ یہ کام کرنا نہیں چاہتے تھے۔ پھر ہم نے کہا کہ اس گائے کا ایک حصہ مقتول پر مارو؛ تا کہ وہ زندہ ہو کر اپنے قاتل کا تعارف کرائے۔
بنی اسرائیل نے ان خصوصیات کی گائے تلاش کی اور اس کو ذبح کیا اور اس کا خون مقتول کے جسم پر لگایا تو وہ زندہ ہو گیا اور اپنے قاتل (جو اس کا چچازاد بھائی تھا) شناخت کرا دی۔
بہر حال ! حضرت موسیٰ علیہ السلام نے ان کے جواب میں فرمایا : خدا فرماتا ہے: ایسی گائے ہو جو نہ بہت بوڑھی ہو کہ بے کار ہو چکی ہو اور نہ ہی جوان، بلکہ ان کے درمیان ہو۔
اس مقصد سے کہ وہ اس سے زیادہ اس مسئلے کو طول نہ دیں اور بہانہ تراشی سے حکم خدا میں تاخیر نہ کریں، اپنے کلام کے آخر میں مزید کہا: جو تمہیں حکم دیا گیا ہے ( جتنی جلدی ہو سکے) اسے انجام دو۔
درمیان جھگڑا اور نزاع شروع ہو جاتا ہے۔ان میں سے ہر ایک دوسرے قبیلے اور دیگر لوگوں کو اس کا ذمہ دار گردانتا ہے اور اپنے کو بری الذمہ قرار دیتا ہے۔ جھگڑا ختم کرنے کے لیے مقدمہ حضرت موسی علیہ السلام کی خدمت میں پیش ہوتا ہے اور لوگ آپ سے اس موقع پر مشکل کشائی کی درخواست کرتے ہیں اور اس کا حل چاہتے ہیں۔
لیکن انہوں نے پھر بھی زیادہ باتیں بنانے اور ڈھٹائی دکھانے سے ہاتھ نہیں اٹھایا اور کہنے لگے: اپنے پروردگار سے دعا کریں کہ وہ ہمارے لیے واضح کرے کہ اس کا رنگ کیسا ہو؟۔ موسیٰ علیہ السلام نے جواب میں کہا: وہ گائے ساری کی ساری زرد رنگ کی ہو جس کا رنگ دیکھنے والوں کو بھلا لگے۔
خلاصہ یہ کہ وہ گائے مکمل طور پر خوش رنگ اور چمکیلی ہو۔ ایسی دیدہ زیب کہ دیکھنے والوں کو تعجب میں ڈال دے!۔ تعجب کی بات یہ ہے کہ انہوں نے اس پر بھی اکتفا نہ کیا اور اس طرح ہر مرتبہ بہانہ جوئی ہ بہانہ جوئی سے کام لے کر اپنے آپ کو اور مشکل میں ڈالتے چلے گئے۔ پھر کہنے لگے اپنے پروردگار سے کہیے کہ ہمیں واضح کرے کہ یہ گائے ( کام کرنے کے لحاظ سے) کیسی ہونی چاہیے؛ کیونکہ یہ گائے ہمارے لیے مبہم ہوگئی ہے۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے پھر سے کہا: خدا فرماتا ہے وہ ایسی گائے ہو جو اتنی سدھائی ہوئی نہ ہو کہ زمین جوتے اور کھیت سینچے، ہر عیب سے پاک ہو جتی کہ اس میں کسی قسم کا دوسرا رنگ نہ ہو۔ اب جب کہ بہانہ سازی کے لیے اُن کے پاس کوئی سوال باقی نہ تھا جتنے سوالات وہ کر سکتے تھے سب ختم ہو گئے تو کہنے لگے: اب آپ نے حق بات کہی ہے ، پھر جس طرح ہو سکا انہوں نے وہ گائے مہیا کی اور اسے ذبح کیا لیکن دراصل وہ یہ کام کرنا نہیں چاہتے تھے۔ پھر ہم نے کہا کہ اس گائے کا ایک حصہ مقتول پر مارو؛ تا کہ وہ زندہ ہو کر اپنے قاتل کا تعارف کرائے۔
بنی اسرائیل نے ان خصوصیات کی گائے تلاش کی اور اس کو ذبح کیا اور اس کا خون مقتول کے جسم پر لگایا تو وہ زندہ ہو گیا اور اپنے قاتل (جو اس کا چچازاد بھائی تھا) شناخت کرا دی۔
باپ سے نیکی کا صلہ :
اس قسم کی گائے اس علاقے میں ایک ہی تھی ، بنی اسرائیل نے اسے بہت مہنگے داموں خریدا۔ کہا جاتا ہے کہ اس گائے کا مالک ایک انتہائی نیک شخص تھا جو اپنے باپ کا بہت احترام کرتا اور جی جان سے اس کی خدمت کیا کرتا تھا
ایک دن جب اس کا باپ سویا ہوا تھا اسے ایک نہایت نفع بخش معاملہ در پیش آیا، صندوق کی چابی اس کے باپ کے پاس تھی؛ لیکن اس خیال سے کہ تکلیف اور بے آرام نہ ہو اس نے اسے بیدار نہ کیا اور اس معاملے سے صرف نظر کر لیا۔ بعض مفسرین کے نزدیک بیچنے والا ایک جنس ستر ہزار میں اس شرط پر بیچنے کو تیار تھا کہ قیمت فوراً ادا کی جائے اور قیمت کی ادائیگی اس بات پر موقوف تھی کہ خریدنے کے لیے اپنے باپ کو بیدار کر کے صندوقوں کی چابیاں اس سے حاصل کرے، وہ ستر ہزار میں خریدنے کو تیار تھا لیکن نوجوان کہتا تھا کہ قیمت باپ کے بیدار ہونے پر ہی دوں گا۔ خلاصہ یہ کہ سودا نہ ہو سکا۔ خداوند عالم نے اس نقصان اور کمی کو اس طرح پورا کیا کہ اس جو ان کے لیے گائے کی فروخت کا یہ نفع بخش موقع فراہم کیا۔
بعض مفسرین یہ کہتے ہیں کہ باپ بیدار ہوا تو اسے واقعہ سے آگاہی ہوئی۔ تو اس نیکی کی وجہ سے اس نے وہ گائے اپنے بیٹے کو بخش دی اور اس طرح اسے یہ بے پناہ نفع میسر آیا ۔
ایک دن جب اس کا باپ سویا ہوا تھا اسے ایک نہایت نفع بخش معاملہ در پیش آیا، صندوق کی چابی اس کے باپ کے پاس تھی؛ لیکن اس خیال سے کہ تکلیف اور بے آرام نہ ہو اس نے اسے بیدار نہ کیا اور اس معاملے سے صرف نظر کر لیا۔ بعض مفسرین کے نزدیک بیچنے والا ایک جنس ستر ہزار میں اس شرط پر بیچنے کو تیار تھا کہ قیمت فوراً ادا کی جائے اور قیمت کی ادائیگی اس بات پر موقوف تھی کہ خریدنے کے لیے اپنے باپ کو بیدار کر کے صندوقوں کی چابیاں اس سے حاصل کرے، وہ ستر ہزار میں خریدنے کو تیار تھا لیکن نوجوان کہتا تھا کہ قیمت باپ کے بیدار ہونے پر ہی دوں گا۔ خلاصہ یہ کہ سودا نہ ہو سکا۔ خداوند عالم نے اس نقصان اور کمی کو اس طرح پورا کیا کہ اس جو ان کے لیے گائے کی فروخت کا یہ نفع بخش موقع فراہم کیا۔
بعض مفسرین یہ کہتے ہیں کہ باپ بیدار ہوا تو اسے واقعہ سے آگاہی ہوئی۔ تو اس نیکی کی وجہ سے اس نے وہ گائے اپنے بیٹے کو بخش دی اور اس طرح اسے یہ بے پناہ نفع میسر آیا ۔
(