(سوال نمبر 274)
زکوٰۃ کے باب میں سال گزرنے سے مراد کیا ہے اگر سال کے بیچ میں مالک نصاب نہ رہے تو؟
.....................................
السلام علیکم و رحمتہ اللہ وبرکاتہ
کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین مسئلہ ذیل کے بارے میں کہ ایک بندے کے پاس ساڑھے باون تولے چاندی کی رقم ہے مثلا 50 ہزار اسکی رقم بنتی ہے اب 50 ہزار ملکیت میں آیا تو مہینہ اور وقت لکھ لیا سال ہوا تو اسکے پاس 50 ہزار تھا جب کہ سال کے دوران یہ پیسے کبھی 30 ہزار بھی رہ جاتے تھے کبھی 20 یا 25 وغیرہ اب کیا جو پیسہ دوران سال استعمال ہوتا رہے آخر میں مکمل 50 ہو جاۓ تو زکاة ہوگی یا نہیں،؟جزاک اللہ خیرا کثیرا۔
سائل:- محمد احمد رضا دنیاپور
.....................................
نحمده ونشكره ونصلي على رسوله الأمين
وعليكم السلام ورحمة الله وبركاته
الجواب بعونه تعالى عز وجل
مسئلہ مسئولہ میں زکات کے باب میں سال گزرنے کی جو شرط ہے ۔اس کسی مطلب یہ ہے کہ کم از کم سال کے شروع اور اخیر میں بقدر مال زکات پائی جائے تو زکات فرض ہے ۔اور اگر سال کے بیچ میں ایک دو روپہ بھی باقی نہ رہے تو اس پر زکات نہیں ۔
پر سوال میں بہت کچھ باقی ہے اسی لئے مذکورہ صورت میں زکات فرض ہے ۔اور سال کے بیچ جو مال اپنے یا بچوں پر صرف کئے اسے حساب میں لانے کی حاجت نہیں ۔
وشرط کمال النصاب في طرفي الحول فی الابتداء للانعقاد وفی الانتھاء للوجوب فلا یضر نقصانہ بینھما، فلو ھلک کلہ بطل الحول
(الدر المختار مع رد المحتار، کتاب الزکاة، باب زکاة المال، ۳: ۲۳۳، ۲۳۴،)
قولہ:”فلو ھلک کلہ“: أي: في أثناء الحول بطل الحول، حتی لو استفاد فیہ غیرہ استأنف لہ حولاً جدیداً
(رد المحتار)،ونقصان النصاب فی الحول لا یضر إن کمل في طرفیہ، أي: إذا کان النصاب کاملاً فی ابتداء الحول وانتھائہ فنقصانہ فیما بین ذلک لا یسقط الزکاة،…… إلا أنہ لا بد من بقاء شیٴ من النصاب الذي انعقد علیہ الحول لیضم المستفاد إلیہ؛ لأن ھلاک الکل یبطل انعقاد الحول؛ إذ لا یمکن اعتبارہ بدون المال (تبیین الحقائق۱: ۲۸۰،المکتبة الإمدادیة، ملتان، باکستان)،
قولہ:”إلاإلا أنہ لا بد من بقاء شیٴ من النصاب الخ “:حتی لو بقي درھم أو فلس منہ ثم استفاد قبل فراغ الحول حتی تم علی نصاب زکاہ اھ، فتح (حاشیة الشلبي علی التبیین)، والمستفاد ولو بھبة أو إرث وسط الحول یضم إلی نصاب من جنسہ فیزکیہ بحول الأصل
(در المختار مع رد المحتار، کتاب الزکاة، باب زکاة الغنم، ۳: ۲۱۴)
والله ورسوله اعلم بالصواب
زکوٰۃ کے باب میں سال گزرنے سے مراد کیا ہے اگر سال کے بیچ میں مالک نصاب نہ رہے تو؟
.....................................
السلام علیکم و رحمتہ اللہ وبرکاتہ
کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین مسئلہ ذیل کے بارے میں کہ ایک بندے کے پاس ساڑھے باون تولے چاندی کی رقم ہے مثلا 50 ہزار اسکی رقم بنتی ہے اب 50 ہزار ملکیت میں آیا تو مہینہ اور وقت لکھ لیا سال ہوا تو اسکے پاس 50 ہزار تھا جب کہ سال کے دوران یہ پیسے کبھی 30 ہزار بھی رہ جاتے تھے کبھی 20 یا 25 وغیرہ اب کیا جو پیسہ دوران سال استعمال ہوتا رہے آخر میں مکمل 50 ہو جاۓ تو زکاة ہوگی یا نہیں،؟جزاک اللہ خیرا کثیرا۔
سائل:- محمد احمد رضا دنیاپور
.....................................
نحمده ونشكره ونصلي على رسوله الأمين
وعليكم السلام ورحمة الله وبركاته
الجواب بعونه تعالى عز وجل
مسئلہ مسئولہ میں زکات کے باب میں سال گزرنے کی جو شرط ہے ۔اس کسی مطلب یہ ہے کہ کم از کم سال کے شروع اور اخیر میں بقدر مال زکات پائی جائے تو زکات فرض ہے ۔اور اگر سال کے بیچ میں ایک دو روپہ بھی باقی نہ رہے تو اس پر زکات نہیں ۔
پر سوال میں بہت کچھ باقی ہے اسی لئے مذکورہ صورت میں زکات فرض ہے ۔اور سال کے بیچ جو مال اپنے یا بچوں پر صرف کئے اسے حساب میں لانے کی حاجت نہیں ۔
وشرط کمال النصاب في طرفي الحول فی الابتداء للانعقاد وفی الانتھاء للوجوب فلا یضر نقصانہ بینھما، فلو ھلک کلہ بطل الحول
(الدر المختار مع رد المحتار، کتاب الزکاة، باب زکاة المال، ۳: ۲۳۳، ۲۳۴،)
قولہ:”فلو ھلک کلہ“: أي: في أثناء الحول بطل الحول، حتی لو استفاد فیہ غیرہ استأنف لہ حولاً جدیداً
(رد المحتار)،ونقصان النصاب فی الحول لا یضر إن کمل في طرفیہ، أي: إذا کان النصاب کاملاً فی ابتداء الحول وانتھائہ فنقصانہ فیما بین ذلک لا یسقط الزکاة،…… إلا أنہ لا بد من بقاء شیٴ من النصاب الذي انعقد علیہ الحول لیضم المستفاد إلیہ؛ لأن ھلاک الکل یبطل انعقاد الحول؛ إذ لا یمکن اعتبارہ بدون المال (تبیین الحقائق۱: ۲۸۰،المکتبة الإمدادیة، ملتان، باکستان)،
قولہ:”إلاإلا أنہ لا بد من بقاء شیٴ من النصاب الخ “:حتی لو بقي درھم أو فلس منہ ثم استفاد قبل فراغ الحول حتی تم علی نصاب زکاہ اھ، فتح (حاشیة الشلبي علی التبیین)، والمستفاد ولو بھبة أو إرث وسط الحول یضم إلی نصاب من جنسہ فیزکیہ بحول الأصل
(در المختار مع رد المحتار، کتاب الزکاة، باب زکاة الغنم، ۳: ۲۱۴)
والله ورسوله اعلم بالصواب
_________(❤️)_________
کتبہ :- فقیہ العصر حضرت علامہ مولانا مفتی محمد مجيب قادری صاحب قبلہ مدظلہ العالیٰ النورانی لهان ١٨خادم دارالافتاء البركاتي علماء فاونديشن شرعي سوال و جواب ضلع سرها نيبال
1/1/2021