(سوال نمبر 277)
عقیقہ کی دعوت یا دیگر دعوت میں آنے والوں سے ہدیہ لینا کیسا ہے؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
عقیقہ کی دعوت یا دیگر دعوت میں آنے والوں سے ہدیہ لینا کیسا ہے؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
کیا فرماتے ہیں علماے دین و مفتیان شرع متین مسئلہ ذیل کے بارے میں
اگر کسی نے منت مانی اگر میرا فلاں کام ہو جائے تو اونٹ ذبح کرکے کھلا دونگا اس کا کام پورا وہ لوگوں کو کھانے پر دعوت دئے، پھر کھانا کھلانے کے بعد گھر والے کاپی قلم لیکر بیٹھ جاتے ہیں اور مہمانوں سے ہدیہ لیتے ہیں ۔ تو یہ ہدیہ لینا کہاں تک درست ہے؟شریعت کی روشنی میں نیز اگر جانور عقیقہ کا ہو تو اس میں لینا کیسا؟
المستفتی :- محمد ذوالفقار علی نظامی اسلام پور (بنگال )
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نحمدہ و نصلی علی رسولہ الامین
وعلیکم السلام و رحمت اللہ و برکاتہ
الجواب بعونہ تعالیٰ عزوجل
کیا فرماتے ہیں علماے دین و مفتیان شرع متین مسئلہ ذیل کے بارے میں
اگر کسی نے منت مانی اگر میرا فلاں کام ہو جائے تو اونٹ ذبح کرکے کھلا دونگا اس کا کام پورا وہ لوگوں کو کھانے پر دعوت دئے، پھر کھانا کھلانے کے بعد گھر والے کاپی قلم لیکر بیٹھ جاتے ہیں اور مہمانوں سے ہدیہ لیتے ہیں ۔ تو یہ ہدیہ لینا کہاں تک درست ہے؟شریعت کی روشنی میں نیز اگر جانور عقیقہ کا ہو تو اس میں لینا کیسا؟
المستفتی :- محمد ذوالفقار علی نظامی اسلام پور (بنگال )
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نحمدہ و نصلی علی رسولہ الامین
وعلیکم السلام و رحمت اللہ و برکاتہ
الجواب بعونہ تعالیٰ عزوجل
ولیمہ، عقیقہ یا ان جیسی دعوتوں میں دعوت کھانے والوں سے رقم وصولی کرنا ایک جاہلانہ رسم و رواج ہے شریعت میں اس کی کوئی حقیقت نہیں ۔البتہ اگر کوئی ضیوف اپنی خوشی سے بطور ہدیہ دے دیں تو اس میں کوئی مضائقہ نہیں ۔
اور اگر صاحب خانہ عار دیلانے کے لئے لکھتے ہوں تاکہ وہ کچھ نہ کچھ رقم دیں تو یہ شرعا درست نہیں اس فعل سے احتراز چاہئے
اور اگر صاحب خانہ نے دعوت ہی اس نیت سے دیئے ہوں کہ لوگ دعوت کھانے کے بعد کچھ نہ کچھ ہدیہ دیں پس ہدیہ لینا درست ہے پر ثواب نہیں ملے گا اور برکت بھی نہ ہو گی
اللّٰہ تعالٰی قرآن مجید میں ارشاد فرماتا ہے۔
وَ مَاۤ اٰتَیْتُمْ مِّنْ رِّبًا لِّیَرْبُوَاۡ فِیْۤ اَمْوَالِ النَّاسِ فَلَا یَرْبُوْا عِنْدَ اللّٰهِۚ
اور تم جو چیز زیادہ لینے کو دو کہ دینے والے کے مال بڑھیں تو وہ اللہ کے یہاں نہ بڑھے گی۔ (پ21، الروم، آیت 39)
اس آیت مبارکہ کی تفسیر میں صدر الافاضل مفتی نعیم الدین مراد آبادی علیہ الرحمہ
فرماتے ہیں۔
لوگوں کا دستور تھا کہ وہ دوست احباب اور آشناؤں کو یا اور کسی شخص کو اس نیّت سے ہدیہ دیتے تھے کہ وہ انہیں اس سے زیادہ دے گا، یہ جائز تو ہے لیکن اس پر ثواب نہ ملے گا اور اس میں برکت نہ ہوگی کیونکہ یہ عمل خالصاً للہ نہیں ہوا
(خزائن العرفان، ص 754، مکتبۃ المدینہ، باب المدینہ کراچی)
واضح رہے کہ شادی میں جو بطور نیوتا لیتے دیتے ہیں وہ اصلا قرض ہے اور یہ امر مباح ہے۔
مگر بشکل قرض کو بند کر دیا جائے بطور ہدیہ رکھا جائے تاکہ معاملات میں آسانی ہو
اعلی حضرت رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں۔
نیوتا وصول کرنا شرعاً جائز ہے اور دینا ضروری ہے کہ وہ قرض ہے۔
(فتاویٰ رضویہ، جلد 23، ص 268، رضا فاؤنڈیشن، مرکزالاولیا لاہور)
ایک اور مقام پر آپ اس کی وضاحت یوں فرماتے ہیں:اب جو نیوتا جاتا ہے وہ قرض ہے، اس کا ادا کرنا لازم ہے، اگر رہ گیا تو مطالبہ رہے گا اور بے اس کے معاف کئے معاف نہ ہوگا والمسئلۃ فی الفتاوی الخیریۃ چارہ کار یہ ہے کہ لانے والوں سے پہلے صاف کہہ دے کہ جو صاحب بطورِ امداد عنایت فرمائیں، مضائقہ نہیں مجھ سے ممکن ہوا تو اُن کی تقریب میں امداد کروں گا لیکن میں قرض لینا نہیں چاہتا، اس کے بعد جو شخص دے گا وہ اس کے ذمّہ قرض نہ ہوگا ہدیہ ہے جس کا بدلہ ہوگیا فبہا، نہ ہوا تو مطالبہ نہیں۔
(فتاویٰ رضویہ، جلد 23، ص586، رضا فاؤنڈیشن، مرکزالاولیا لاہور)
اور اگر صاحب خانہ عار دیلانے کے لئے لکھتے ہوں تاکہ وہ کچھ نہ کچھ رقم دیں تو یہ شرعا درست نہیں اس فعل سے احتراز چاہئے
اور اگر صاحب خانہ نے دعوت ہی اس نیت سے دیئے ہوں کہ لوگ دعوت کھانے کے بعد کچھ نہ کچھ ہدیہ دیں پس ہدیہ لینا درست ہے پر ثواب نہیں ملے گا اور برکت بھی نہ ہو گی
اللّٰہ تعالٰی قرآن مجید میں ارشاد فرماتا ہے۔
وَ مَاۤ اٰتَیْتُمْ مِّنْ رِّبًا لِّیَرْبُوَاۡ فِیْۤ اَمْوَالِ النَّاسِ فَلَا یَرْبُوْا عِنْدَ اللّٰهِۚ
اور تم جو چیز زیادہ لینے کو دو کہ دینے والے کے مال بڑھیں تو وہ اللہ کے یہاں نہ بڑھے گی۔ (پ21، الروم، آیت 39)
اس آیت مبارکہ کی تفسیر میں صدر الافاضل مفتی نعیم الدین مراد آبادی علیہ الرحمہ
فرماتے ہیں۔
لوگوں کا دستور تھا کہ وہ دوست احباب اور آشناؤں کو یا اور کسی شخص کو اس نیّت سے ہدیہ دیتے تھے کہ وہ انہیں اس سے زیادہ دے گا، یہ جائز تو ہے لیکن اس پر ثواب نہ ملے گا اور اس میں برکت نہ ہوگی کیونکہ یہ عمل خالصاً للہ نہیں ہوا
(خزائن العرفان، ص 754، مکتبۃ المدینہ، باب المدینہ کراچی)
واضح رہے کہ شادی میں جو بطور نیوتا لیتے دیتے ہیں وہ اصلا قرض ہے اور یہ امر مباح ہے۔
مگر بشکل قرض کو بند کر دیا جائے بطور ہدیہ رکھا جائے تاکہ معاملات میں آسانی ہو
اعلی حضرت رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں۔
نیوتا وصول کرنا شرعاً جائز ہے اور دینا ضروری ہے کہ وہ قرض ہے۔
(فتاویٰ رضویہ، جلد 23، ص 268، رضا فاؤنڈیشن، مرکزالاولیا لاہور)
ایک اور مقام پر آپ اس کی وضاحت یوں فرماتے ہیں:اب جو نیوتا جاتا ہے وہ قرض ہے، اس کا ادا کرنا لازم ہے، اگر رہ گیا تو مطالبہ رہے گا اور بے اس کے معاف کئے معاف نہ ہوگا والمسئلۃ فی الفتاوی الخیریۃ چارہ کار یہ ہے کہ لانے والوں سے پہلے صاف کہہ دے کہ جو صاحب بطورِ امداد عنایت فرمائیں، مضائقہ نہیں مجھ سے ممکن ہوا تو اُن کی تقریب میں امداد کروں گا لیکن میں قرض لینا نہیں چاہتا، اس کے بعد جو شخص دے گا وہ اس کے ذمّہ قرض نہ ہوگا ہدیہ ہے جس کا بدلہ ہوگیا فبہا، نہ ہوا تو مطالبہ نہیں۔
(فتاویٰ رضویہ، جلد 23، ص586، رضا فاؤنڈیشن، مرکزالاولیا لاہور)
والله ورسوله اعلم بالصواب
_________(❤️)_________
کتبہ :- فقیہ العصر حضرت علامہ مولانا مفتی محمد مجيب قادری صاحب قبلہ مدظلہ العالیٰ النورانی لهان ١٨خادم دارالافتاء البركاتي علماء فاونديشن شرعي سوال و جواب ضلع سرها نيبال
3/1/2021