(سوال نمبر 6093)
دیوبندی و وہابی سے سلام و کلام کرنا کیسا ہے؟
_________(❤️)_________
کیا فرماتے ہیں علماء کرام مفتیان شرع اِس مسئلہ کے بارے میں کہ
اگر کوئی شخص کسی دیوبندی یا وہابی کے ساتھ صرف مجبوری کے تحت سلام یا گُفتگو رکھے اُس پر کیا حُکم لگے گا اور دیوبندی اور وہابیوں کو اہلِ سنت جماعت کی مسجد میں آنے کی اجازت دینی چاہیے یا نہیں اگر مسجد میں آجایں تو کیا کریں اس سورت میں
سائل:- عمر فاروق خان ضلع میانوالی
دیوبندی و وہابی سے سلام و کلام کرنا کیسا ہے؟
_________(❤️)_________
کیا فرماتے ہیں علماء کرام مفتیان شرع اِس مسئلہ کے بارے میں کہ
اگر کوئی شخص کسی دیوبندی یا وہابی کے ساتھ صرف مجبوری کے تحت سلام یا گُفتگو رکھے اُس پر کیا حُکم لگے گا اور دیوبندی اور وہابیوں کو اہلِ سنت جماعت کی مسجد میں آنے کی اجازت دینی چاہیے یا نہیں اگر مسجد میں آجایں تو کیا کریں اس سورت میں
سائل:- عمر فاروق خان ضلع میانوالی
دارالافتاء البرکاتی علماء فاونڈیشن
_________(❤️)_________
نحمده ونشكره و نصلي علي رسوله الأمين الكريم
وعليكم السلام ورحمة الله وبركاته
الجواب بعونه تعالي عزوجل
جب تک تیقن کے ساتھ یہ معلوم نہ ہوجائے کہ یہ کسی ضروریات دینیہ کا منکر ہے یا ضروریات اہل سنت کا منکر ہے یا عناصر اربعہ کی کفریہ عبارات کا معتقد ہے ازیں قبل ان سے سلام و کلام کرنے میں حرج نہیں ہے۔ اگر معاملہ اس کے برعکس ہوں سلام و کلام رواں نہیں
دوسری بات پڑوسی ہے یا محلے کے ہیں ایسوں سے معاملات کرنا جائز ہے۔
حدیث شریف میں جو بد مذہب گمراہ سے سلام کلام میل جول اٹھنا بیٹھنا منع اس لئے ہے کہ کہیں ہم ان کی بدمذہبی میں مبتلا نہ ہوجائے یا وہ ہمیں اپنی طرح گمراہ نہ کردے جبکہ یہاں صرف بات چیت کرنے میں ہم کسی صورت ان کی طرح نہیں ہو سکتے ہیں اور نہ وہ ہمیں ورغلا سکتے ہیں۔
١/ فتاوی شارح بخاری میں ہے
دیوبندی عوام جو دیوبندی بزرگوں کی کفریہ عبارات سے باخبر نہیں ہے اور انکی ظاہری حالت کو دیکھ کر یا کسی اور وجہ سےان کو اپنا بزرگ اور پیشوا مانتے ہیں وہ کافر نہیں ہیں۔ مفتی شریف الحق امجدی صاحب مزید لکھتے ہیں زیادہ تر دیوبندی عوام اسی طرح کے ہیں ۔
(فتاویٰ شارح بخاری ،جلد سوم ،ص۳۳۰ ناشر دائرۃ البرکات گھوسی ،ضلع مئو ،جون ۲۰۱۳)
فتاوی شارح بخاری میں ہے رہ گئے وہ لوگ جو ان چاروں کے کفریات میں سے کسی ایک پر مطلع نہیں۔ انہیں قطعی یقینی اطلاع نہیں ۔ وہ صرف دیوبندی مولویوں کی ظاہری اسلامی صورت،ان کی نماز، ان کے روزوں کو دیکھ کر انہیں عالم، مولانا جانتے ہیں۔ان کو اپنا مذہبی پیشوا مانتے ہیں۔ معمولات اہل سنت کو بدعت وحرام جانتے ہیں۔وہ حقیقت میں دیوبندی نہیں اور ان کا یہ حکم نہیں۔اگر چہ وہ اپنے آپ کو دیوبندی کہتے ہیں،اور دوسرے لوگ بھی ان کو دیوبندی کہتے ہوں (ج دوم:ص 389-دائرۃ البرکات گھوسی)
اسی میں ہے
اس لیے ایسا شخص جو اپنے آپ کو دیوبندی کہتا ہو، لوگ بھی اس کو دیوبندی کہتے ہوں، وہ ان چاروں علمائے دیوبندکو اپنا مقتدا وپیشوا بھی مانتا ہو،حتی کہ اہل سنت کو بدعتی بھی کہتا ہو،مگر ان چاروں کے مذکورہ بالا کفریات پر مطلع نہیں تووہ حقیقت میں دیوبندی نہیں۔ اس کا یہ حکم نہیں کہ یہ شخص کافر ہے،یا اس کی نماز جنازہ پڑھنی کفر ہے“۔ اھ (فتاویٰ شارح بخاری جلددوم ص 389-دائرۃ البرکات گھوسی)
٢/ علامہ سید احمد سعید کا ظمی قدس سرہ العزیز لکھتے ہیں : ہم کسی دیوبند یا لکھنے والے کو کافر نہیں کہتے ہمارے نزدیک صرف وہی لوگ کافر ہیں جنہوں نے معاذ اللہ ‘ اللہ تعالیٰ کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ومحبوبان ایزدی کی شان میں صریح گستاخیاں کیں ‘ اور باوجود تنبیہ شدید کے انہوں نے گستاخیوں سے توبہ نہیں کی ،نیز وہ لوگ جو ان کی گستاخیوں کو حق سمجھتے ہیں اور گستاخیاں کرنے والوں کو اھل حق ‘ مومن ‘ اپنا مقتداء اور پیشوا مانتے ہیں اور بس ‘ ان کے علاوہ ہم نے کسی مدعی اسلام کی تکفیر نہیں کی ‘ ایسے لوگ جن کی ہم نے تکفیر کی ہے اگر ان کو ٹٹولا جائے تو وہ بہت قلیل اور معدود افراد ہیں ان کے علاوہ نہ کوئی دیوبند کا رہنے والا کافر ہے نہ لیگی نہ ندوی ‘ ہم سب مسلمانوں کو مسلمان سمجھتے ہیں۔ (مقالات کا ظمی ج ٢ ص ٢٥٩۔ ٢٥٨)
اور بعض اعتقادی مسائل میں شبہ کی وجہ سے اختلاف کرتے ہیں مثلا علم غیب اور تصرف میں ذاتی اور عطائی کا فرق نہیں کرتے یا بدعت حسنہ کا انکار کرتے ہیں یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر نور کا اطلاق نہیں کرتے یا استمداد اور ندائے غیر اللہ کو ناجائز کہتے ہیں لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے علم کی وسعت آپ کے معجزانہ تصرفات اور آپ کے علمی روحانی اور بعض مواقع پر حسی نورانیت کے قائل ہیں ‘ آپ کی حیات کے معتقد ہیں اور قبر انور پر آپ سے شفاعت طلب کرنے اور یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کہنے کے معتقد ہیں، ان پر کفر کا حکم نہیں ہے ان مسائل میں اختلاف محض فروعی ہے جیسے بعض امورائمہ ثلاثہ کے نزدیک ناجائز ہیں اور امام ابوحنفیہ کے نزدیک جائز ہیں یا اس کے برعکس۔
(فتاویٰ رضویہ ج ٣ ص ٢٥٣‘ مطبوعہ سنی درالاشاعت ‘ لائل پور بحوالہ تفسیر تبیان القرآن - سورۃ نمبر 2 البقرةآیت نمبر 113)
٣ / ملک العلما، بہاری، حضرت محمد ظفر الدین قادری برکاتی رضوی شاگرد و خلیفہ ،اعلی حضرت رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں
محمد بن عبد الوھاب و اسماعیل دہلوی کے عقائد کفریہ نہ تھے اگرچہ بعض اقوال شان اسلام سے بہت گرے ہوئے ہیں مگر التزام کفر نہ ہونے کی وجہ سے محققین و محتاطین علمائے کرام نے ان دونوں اور ان کے ہم خیالوں کی تکفیر نہ کی ,
صرف گمراہ اور بدمذہب کہا ,,,,کافر کا یہ مطلب ہے کہ ضروریات دین میں سے کسی بات کا منکر ہے اس شخص کو نئے سرے سے کلمہ پڑھ کر مسلمانوں میں شامل ہونا چاہئے اور اپنے عقائد و خیالات سے بری ہونا چاہئے
اور بدمذہب کہنے کا مطلب یہ ہے کہ یہ شخص دائرہ اسلام میں ہے مگر اس کے خیالات مطابق عقیدہ اہلسنت نہیں ,اسے اپنے خیال سے توبہ کرنا چاہئے ,
(فتاویٰ ملک العلما کتاب السیر صفحہ ۲۲۹ )
٤/ مصنف تفسیر تبیان القران رحمة الله عليه فرماتے ہیں
جن مسائل اعتقادیہ میں ان فرقوں کو شبہات واقع ہوئے اور انہوں نے دلائل سے اپنی رائے کو حق سمجھا ‘ اور ان شبہات کو دور کرنے کے لئے علماء اہل سنت نے جو دلائل پیش کیے ہیں وہ ان تک نہیں پہنچ سکے وہ اس حکم میں داخل نہیں ہیں یا جن لوگوں تک وہ دلائل پہنچ گئے لیکن ان دلائل سے ان کا شرح صدر نہیں ہوسکا اور ہنوز ان کے شہبات باقی رہے ‘ وہ بھی معذور ہیں لیکن جن لوگوں پر حجت تمام ہوگئی اور وہ محض کج بحثی اور ہٹ دھرمی سے اپنے باطل موقف پر ڈٹے رہے تو اگر ان کا موقف کسی کفر کو مستلزم ہے تو وہ دائما دوزخ میں رہیں گے ‘ اور اگر ان کا موقف کسی گمراہی کو مستلزم ہے تو وہ دوزخ میں دخول کے مستحق ہیں الا یہ کہ اللہ تعالیٰ ان کو معاف فرما دے بحوالہ تفسیر تبیان القرآن - سورۃ نمبر 2 البقرة آیت نمبر 113)
٥/ فتاوی رضویہ میں ایک سوال ہوا کہ ندوی عالم دیوبندی کے پیچھے نماز پڑھنا کیسا ہے؟
اعلی حضرت رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں
ایسی جگہ تو یہ سوال کرنا چاہیے کہ رشید احمد گنگوہی و اشرف علی تھانوی و قاسم نانوتوی اور محمود حسن دیوبندی و خلیل احمد انبیٹھی اور ان سب سے گھٹ کر ان کے امام اسمعیل دہلوی اور ان کی کتابوں براہین قاطعہ وتحذیر الناس وحفظ الایمان و تقویۃ الایمان و ایضاح الحق کو کیسا جانتے ہو اور ان لوگوں کی نسبت علمائے حرمین شریف نے جو فتوے دیئے ہیں انہیں باطل سمجھتے ہو یا حق مانتے ہو اور اگر وہ ان فتوؤں سے اپنی ناواقفی ظاہر کرے تو بریلی مطبع اہلسنت سے حسام الحرمین منگالیجئے اور دکھائیے اگر بکشادہ پیشانی تسلیم کرے کہ بیشک علمائے حرمین شریفین کے یہ فتوے حق ہیں تو ثابت ہوگا کہ دیوبندیت کا اُس پر کچھ اثر نہیں ورنہ علمائے حرمین شریفین کا وہی فتوٰی ہے کہ:
من شک فی عذابہ وکفرہ فقد کفر ۔
جو اس کے عذاب اور کفر میں شک کرے وہ بھی کافر ہے۔ اس وقت آ پ کو ظاہر ہوجائے گا کہ جو شخص اللہ و رسول کو گالیاں دینے والوں کو کافر نہ جاننا درکنار علمائے دین واکابر مسلمین جانے وہ کیونکر مسلمان، پھر مسئلہ عرس وفاتحہ و فرعی مسائل ہے (حسام الحرمین مکتبہ نبویہ لاہور ص ۱۳)
(فتاویٰ رضویہ ج 29 ص 33 مکتبہ المدینہ )
والله ورسوله اعلم بالصواب
_________(❤️)_________
نحمده ونشكره و نصلي علي رسوله الأمين الكريم
وعليكم السلام ورحمة الله وبركاته
الجواب بعونه تعالي عزوجل
جب تک تیقن کے ساتھ یہ معلوم نہ ہوجائے کہ یہ کسی ضروریات دینیہ کا منکر ہے یا ضروریات اہل سنت کا منکر ہے یا عناصر اربعہ کی کفریہ عبارات کا معتقد ہے ازیں قبل ان سے سلام و کلام کرنے میں حرج نہیں ہے۔ اگر معاملہ اس کے برعکس ہوں سلام و کلام رواں نہیں
دوسری بات پڑوسی ہے یا محلے کے ہیں ایسوں سے معاملات کرنا جائز ہے۔
حدیث شریف میں جو بد مذہب گمراہ سے سلام کلام میل جول اٹھنا بیٹھنا منع اس لئے ہے کہ کہیں ہم ان کی بدمذہبی میں مبتلا نہ ہوجائے یا وہ ہمیں اپنی طرح گمراہ نہ کردے جبکہ یہاں صرف بات چیت کرنے میں ہم کسی صورت ان کی طرح نہیں ہو سکتے ہیں اور نہ وہ ہمیں ورغلا سکتے ہیں۔
١/ فتاوی شارح بخاری میں ہے
دیوبندی عوام جو دیوبندی بزرگوں کی کفریہ عبارات سے باخبر نہیں ہے اور انکی ظاہری حالت کو دیکھ کر یا کسی اور وجہ سےان کو اپنا بزرگ اور پیشوا مانتے ہیں وہ کافر نہیں ہیں۔ مفتی شریف الحق امجدی صاحب مزید لکھتے ہیں زیادہ تر دیوبندی عوام اسی طرح کے ہیں ۔
(فتاویٰ شارح بخاری ،جلد سوم ،ص۳۳۰ ناشر دائرۃ البرکات گھوسی ،ضلع مئو ،جون ۲۰۱۳)
فتاوی شارح بخاری میں ہے رہ گئے وہ لوگ جو ان چاروں کے کفریات میں سے کسی ایک پر مطلع نہیں۔ انہیں قطعی یقینی اطلاع نہیں ۔ وہ صرف دیوبندی مولویوں کی ظاہری اسلامی صورت،ان کی نماز، ان کے روزوں کو دیکھ کر انہیں عالم، مولانا جانتے ہیں۔ان کو اپنا مذہبی پیشوا مانتے ہیں۔ معمولات اہل سنت کو بدعت وحرام جانتے ہیں۔وہ حقیقت میں دیوبندی نہیں اور ان کا یہ حکم نہیں۔اگر چہ وہ اپنے آپ کو دیوبندی کہتے ہیں،اور دوسرے لوگ بھی ان کو دیوبندی کہتے ہوں (ج دوم:ص 389-دائرۃ البرکات گھوسی)
اسی میں ہے
اس لیے ایسا شخص جو اپنے آپ کو دیوبندی کہتا ہو، لوگ بھی اس کو دیوبندی کہتے ہوں، وہ ان چاروں علمائے دیوبندکو اپنا مقتدا وپیشوا بھی مانتا ہو،حتی کہ اہل سنت کو بدعتی بھی کہتا ہو،مگر ان چاروں کے مذکورہ بالا کفریات پر مطلع نہیں تووہ حقیقت میں دیوبندی نہیں۔ اس کا یہ حکم نہیں کہ یہ شخص کافر ہے،یا اس کی نماز جنازہ پڑھنی کفر ہے“۔ اھ (فتاویٰ شارح بخاری جلددوم ص 389-دائرۃ البرکات گھوسی)
٢/ علامہ سید احمد سعید کا ظمی قدس سرہ العزیز لکھتے ہیں : ہم کسی دیوبند یا لکھنے والے کو کافر نہیں کہتے ہمارے نزدیک صرف وہی لوگ کافر ہیں جنہوں نے معاذ اللہ ‘ اللہ تعالیٰ کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ومحبوبان ایزدی کی شان میں صریح گستاخیاں کیں ‘ اور باوجود تنبیہ شدید کے انہوں نے گستاخیوں سے توبہ نہیں کی ،نیز وہ لوگ جو ان کی گستاخیوں کو حق سمجھتے ہیں اور گستاخیاں کرنے والوں کو اھل حق ‘ مومن ‘ اپنا مقتداء اور پیشوا مانتے ہیں اور بس ‘ ان کے علاوہ ہم نے کسی مدعی اسلام کی تکفیر نہیں کی ‘ ایسے لوگ جن کی ہم نے تکفیر کی ہے اگر ان کو ٹٹولا جائے تو وہ بہت قلیل اور معدود افراد ہیں ان کے علاوہ نہ کوئی دیوبند کا رہنے والا کافر ہے نہ لیگی نہ ندوی ‘ ہم سب مسلمانوں کو مسلمان سمجھتے ہیں۔ (مقالات کا ظمی ج ٢ ص ٢٥٩۔ ٢٥٨)
اور بعض اعتقادی مسائل میں شبہ کی وجہ سے اختلاف کرتے ہیں مثلا علم غیب اور تصرف میں ذاتی اور عطائی کا فرق نہیں کرتے یا بدعت حسنہ کا انکار کرتے ہیں یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر نور کا اطلاق نہیں کرتے یا استمداد اور ندائے غیر اللہ کو ناجائز کہتے ہیں لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے علم کی وسعت آپ کے معجزانہ تصرفات اور آپ کے علمی روحانی اور بعض مواقع پر حسی نورانیت کے قائل ہیں ‘ آپ کی حیات کے معتقد ہیں اور قبر انور پر آپ سے شفاعت طلب کرنے اور یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کہنے کے معتقد ہیں، ان پر کفر کا حکم نہیں ہے ان مسائل میں اختلاف محض فروعی ہے جیسے بعض امورائمہ ثلاثہ کے نزدیک ناجائز ہیں اور امام ابوحنفیہ کے نزدیک جائز ہیں یا اس کے برعکس۔
(فتاویٰ رضویہ ج ٣ ص ٢٥٣‘ مطبوعہ سنی درالاشاعت ‘ لائل پور بحوالہ تفسیر تبیان القرآن - سورۃ نمبر 2 البقرةآیت نمبر 113)
٣ / ملک العلما، بہاری، حضرت محمد ظفر الدین قادری برکاتی رضوی شاگرد و خلیفہ ،اعلی حضرت رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں
محمد بن عبد الوھاب و اسماعیل دہلوی کے عقائد کفریہ نہ تھے اگرچہ بعض اقوال شان اسلام سے بہت گرے ہوئے ہیں مگر التزام کفر نہ ہونے کی وجہ سے محققین و محتاطین علمائے کرام نے ان دونوں اور ان کے ہم خیالوں کی تکفیر نہ کی ,
صرف گمراہ اور بدمذہب کہا ,,,,کافر کا یہ مطلب ہے کہ ضروریات دین میں سے کسی بات کا منکر ہے اس شخص کو نئے سرے سے کلمہ پڑھ کر مسلمانوں میں شامل ہونا چاہئے اور اپنے عقائد و خیالات سے بری ہونا چاہئے
اور بدمذہب کہنے کا مطلب یہ ہے کہ یہ شخص دائرہ اسلام میں ہے مگر اس کے خیالات مطابق عقیدہ اہلسنت نہیں ,اسے اپنے خیال سے توبہ کرنا چاہئے ,
(فتاویٰ ملک العلما کتاب السیر صفحہ ۲۲۹ )
٤/ مصنف تفسیر تبیان القران رحمة الله عليه فرماتے ہیں
جن مسائل اعتقادیہ میں ان فرقوں کو شبہات واقع ہوئے اور انہوں نے دلائل سے اپنی رائے کو حق سمجھا ‘ اور ان شبہات کو دور کرنے کے لئے علماء اہل سنت نے جو دلائل پیش کیے ہیں وہ ان تک نہیں پہنچ سکے وہ اس حکم میں داخل نہیں ہیں یا جن لوگوں تک وہ دلائل پہنچ گئے لیکن ان دلائل سے ان کا شرح صدر نہیں ہوسکا اور ہنوز ان کے شہبات باقی رہے ‘ وہ بھی معذور ہیں لیکن جن لوگوں پر حجت تمام ہوگئی اور وہ محض کج بحثی اور ہٹ دھرمی سے اپنے باطل موقف پر ڈٹے رہے تو اگر ان کا موقف کسی کفر کو مستلزم ہے تو وہ دائما دوزخ میں رہیں گے ‘ اور اگر ان کا موقف کسی گمراہی کو مستلزم ہے تو وہ دوزخ میں دخول کے مستحق ہیں الا یہ کہ اللہ تعالیٰ ان کو معاف فرما دے بحوالہ تفسیر تبیان القرآن - سورۃ نمبر 2 البقرة آیت نمبر 113)
٥/ فتاوی رضویہ میں ایک سوال ہوا کہ ندوی عالم دیوبندی کے پیچھے نماز پڑھنا کیسا ہے؟
اعلی حضرت رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں
ایسی جگہ تو یہ سوال کرنا چاہیے کہ رشید احمد گنگوہی و اشرف علی تھانوی و قاسم نانوتوی اور محمود حسن دیوبندی و خلیل احمد انبیٹھی اور ان سب سے گھٹ کر ان کے امام اسمعیل دہلوی اور ان کی کتابوں براہین قاطعہ وتحذیر الناس وحفظ الایمان و تقویۃ الایمان و ایضاح الحق کو کیسا جانتے ہو اور ان لوگوں کی نسبت علمائے حرمین شریف نے جو فتوے دیئے ہیں انہیں باطل سمجھتے ہو یا حق مانتے ہو اور اگر وہ ان فتوؤں سے اپنی ناواقفی ظاہر کرے تو بریلی مطبع اہلسنت سے حسام الحرمین منگالیجئے اور دکھائیے اگر بکشادہ پیشانی تسلیم کرے کہ بیشک علمائے حرمین شریفین کے یہ فتوے حق ہیں تو ثابت ہوگا کہ دیوبندیت کا اُس پر کچھ اثر نہیں ورنہ علمائے حرمین شریفین کا وہی فتوٰی ہے کہ:
من شک فی عذابہ وکفرہ فقد کفر ۔
جو اس کے عذاب اور کفر میں شک کرے وہ بھی کافر ہے۔ اس وقت آ پ کو ظاہر ہوجائے گا کہ جو شخص اللہ و رسول کو گالیاں دینے والوں کو کافر نہ جاننا درکنار علمائے دین واکابر مسلمین جانے وہ کیونکر مسلمان، پھر مسئلہ عرس وفاتحہ و فرعی مسائل ہے (حسام الحرمین مکتبہ نبویہ لاہور ص ۱۳)
(فتاویٰ رضویہ ج 29 ص 33 مکتبہ المدینہ )
والله ورسوله اعلم بالصواب
_________(❤️)_________
کتبہ :- فقیہ العصر حضرت علامہ مولانا مفتی محمد مجيب قادری صاحب قبلہ مدظلہ العالیٰ النورانی لهان ١٨خادم دارالافتاء البركاتي علماء فاونديشن شرعي سوال و جواب ضلع سرها نيبال
06/08/2023