(سوال نمبر 6094)
خمس کیا چیز ہے اس سے مراد کیا ہے؟
خمس اور زکوٰۃ میں کیا فرق ہے؟
_________(❤️)_________
السلامُ علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
کیا فرماتے ہیں علمائے دیں مفتیان شرع متین اس مسئلہ کے بارہ میں کہ
خمس کیا چیز ہے؟ اس سے مراد کیا ہے؟ خمس اور زکوٰۃ میں کیا فرق ہے؟
کیا خمس صرف اہل بیت کے لئے ہے یا کہ کسی دوسرے پر بھی خرچ کیا جاسکتا ہے؟
اس کے خرچ کرنے کا طریقہ کیا ہے؟ مہربانی فرما کر اس مسئلہ پر میری راہنمائی کیجئے جزاک اللہ خیرا
سائل:- سید محمد آصف علی بخاری شاہدرہ لاہور پنجاب پاکستان
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نحمده ونشكره و نصلي علي رسوله الأمين الكريم
وعليكم السلام ورحمة الله وبركاته
الجواب بعونه تعالي عزوجل
زکات اور مال خمس میں فرق ہے۔
زکات ہر مالک نصاب پر فرض ہے اور وہ مال تجارت سونا چاندی جانور میں جب نصاب کو پہنچ جائے۔
اور مال خمس اس مال کو کہتے ہیں کہ مالِ غنیمت میں سے خُمُسْ یعنی پانچواں حصہ خاص اللہ اور اس کے رسول صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کیلئے ہے پانچواں حصہ نکال کرباقی چار حصے مجاہدین پر تقسیم کر دئیے جائیں گے اور مالِ فَئے مکمل طور پربیتُ المال میں رکھا جائے گا (درمختار مع ردّ المحتار، کتاب الجھاد، باب المغنم وقسمتہ، ۶ / ۲۱۸-۲۱۹ ملتقطاً بحوالہ تفسیر صراطالجنان)
واضح رہے کہ رسولِ کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے بعد اب حضورِ اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ اور آپ کے اہلِ قرابت کے حصے ساقط ہو گئے۔ اب مالِ غنیمت کا جو پانچواں حصہ خمس نکالا جائے تو اس کے تین حصے کئے جائیں گے۔ ایک حصہ یتیموں کے لئے، ایک مسکینوں اور ایک مسافروں کے لئے اوراگر یہ تینوں حصے ایک ہی قسم مثلاً یتیموں یا مسکینوں پر خرچ کردئیے جب بھی جائز ہے اور مجاہدین کو حاجت ہو تو ان پر خرچ کرنا بھی جائز ہے۔(مدارک، الانفال، تحت الآیۃ: ۴۱، ص۴۱۳، درّ مختار مع ردّ المحتار، کتاب الجہاد، باب المغنم وقسمتہ، فصل فی کیفیۃ القسمۃ، ۶ / ۲۳۷)
یاد رہے اب مال خمس میں سے اہل بیت کے لیے کوئی حصہ نہیں ہے
ہاں بنی ہاشم وبنی مُطَِّلب کے یتیم اور مساکین اور مسافر اگر فقیر ہوں تو یہ لوگ دوسروں کی بہ نسبت خمس کے زیادہ حقدار ہیں کیونکہ او فُقرا تو زکوٰۃ بھی لے سکتے ہیں لیکن یہ نہیں لے سکتے اور یہ لوگ غنی ہوں تو خمس میں ان کا کچھ حق نہیں۔(درّ مختار مع ردّ المحتار، کتاب الجہاد، باب المغنم وقسمتہ، فصل فی کیفیۃ القسمۃ، ۶ / ۲۳۷-۲۳۸)
خُمُس کے علاوہ باقی چار حصے مجاہدین پر اس طرح تقسیم کئے جائیں گے کہ سوار کو پیدل کے مقابلے میں دگنا ملے گا یعنی ایک اس کا حصہ اور ایک گھوڑے کا اور گھوڑا عربی ہو یا کسی اور قسم کا سب کا ایک حکم ہے۔ لشکر کا سردار اور سپاہی دونوں برابر ہیں یعنی جتنا سپاہی کو ملے گا اتنا ہی سردار کو بھی ملے گا۔ اونٹ اور گدھے اور خچر کسی کے پاس ہوں توان کی وجہ سے کچھ زیادہ نہ ملے گا یعنی اسے بھی پیدل والے کے برابر ملے گا اور اگر کسی کے پاس چند گھوڑے ہوں جب بھی اتنا ہی ملے گا جتنا ایک گھوڑے کے لیے ملتا تھا۔(عالمگیری، کتاب السیر، الباب الرابع فی الغنائم وقسمتہا، الفصل الثانی فی کیفیۃ القسمۃ، ۲ / ۲۱۲)
اللہ کا فرمان ہے
وَ اعْلَمُوْۤا اَنَّمَا غَنِمْتُمْ مِّنْ شَیْءٍ فَاَنَّ لِلّٰهِ خُمُسَهٗ وَ لِلرَّسُوْلِ وَ لِذِی الْقُرْبٰى وَ الْیَتٰمٰى وَ الْمَسٰكِیْنِ وَ ابْنِ السَّبِیْلِۙ-اِنْ كُنْتُمْ اٰمَنْتُمْ بِاللّٰهِ وَ مَاۤ اَنْزَلْنَا عَلٰى عَبْدِنَا یَوْمَ الْفُرْقَانِ یَوْمَ الْتَقَى الْجَمْعٰنِؕ-وَ اللّٰهُ عَلٰى كُلِّ شَیْءٍ قَدِیْرٌ(41)
اور جان لو کہ جو کچھ غنیمت لو تو اس کا پانچواں حصہ خاص اللہ اور رسول و قرابت والوں اور یتیموں اور محتاجوں اور مسافروں کا ہے اگر تم ایمان لائے ہو اللہ پر اور اس پر جو ہم نے اپنے بندے پر فیصلہ کے دن اتارا جس دن دونوں فوجیں ملی تھیںاور اللہ سب کچھ کرسکتا ہے۔(کنزالایمان)
نوٹ غنیمت کے مزید مسائل جاننے کے لئے بہار شریعت ح 9 سے غنیمت کا بیان مطالعہ کیجئے۔
والله ورسوله اعلم بالصواب
خمس کیا چیز ہے اس سے مراد کیا ہے؟
خمس اور زکوٰۃ میں کیا فرق ہے؟
_________(❤️)_________
السلامُ علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
کیا فرماتے ہیں علمائے دیں مفتیان شرع متین اس مسئلہ کے بارہ میں کہ
خمس کیا چیز ہے؟ اس سے مراد کیا ہے؟ خمس اور زکوٰۃ میں کیا فرق ہے؟
کیا خمس صرف اہل بیت کے لئے ہے یا کہ کسی دوسرے پر بھی خرچ کیا جاسکتا ہے؟
اس کے خرچ کرنے کا طریقہ کیا ہے؟ مہربانی فرما کر اس مسئلہ پر میری راہنمائی کیجئے جزاک اللہ خیرا
سائل:- سید محمد آصف علی بخاری شاہدرہ لاہور پنجاب پاکستان
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نحمده ونشكره و نصلي علي رسوله الأمين الكريم
وعليكم السلام ورحمة الله وبركاته
الجواب بعونه تعالي عزوجل
زکات اور مال خمس میں فرق ہے۔
زکات ہر مالک نصاب پر فرض ہے اور وہ مال تجارت سونا چاندی جانور میں جب نصاب کو پہنچ جائے۔
اور مال خمس اس مال کو کہتے ہیں کہ مالِ غنیمت میں سے خُمُسْ یعنی پانچواں حصہ خاص اللہ اور اس کے رسول صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کیلئے ہے پانچواں حصہ نکال کرباقی چار حصے مجاہدین پر تقسیم کر دئیے جائیں گے اور مالِ فَئے مکمل طور پربیتُ المال میں رکھا جائے گا (درمختار مع ردّ المحتار، کتاب الجھاد، باب المغنم وقسمتہ، ۶ / ۲۱۸-۲۱۹ ملتقطاً بحوالہ تفسیر صراطالجنان)
واضح رہے کہ رسولِ کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے بعد اب حضورِ اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ اور آپ کے اہلِ قرابت کے حصے ساقط ہو گئے۔ اب مالِ غنیمت کا جو پانچواں حصہ خمس نکالا جائے تو اس کے تین حصے کئے جائیں گے۔ ایک حصہ یتیموں کے لئے، ایک مسکینوں اور ایک مسافروں کے لئے اوراگر یہ تینوں حصے ایک ہی قسم مثلاً یتیموں یا مسکینوں پر خرچ کردئیے جب بھی جائز ہے اور مجاہدین کو حاجت ہو تو ان پر خرچ کرنا بھی جائز ہے۔(مدارک، الانفال، تحت الآیۃ: ۴۱، ص۴۱۳، درّ مختار مع ردّ المحتار، کتاب الجہاد، باب المغنم وقسمتہ، فصل فی کیفیۃ القسمۃ، ۶ / ۲۳۷)
یاد رہے اب مال خمس میں سے اہل بیت کے لیے کوئی حصہ نہیں ہے
ہاں بنی ہاشم وبنی مُطَِّلب کے یتیم اور مساکین اور مسافر اگر فقیر ہوں تو یہ لوگ دوسروں کی بہ نسبت خمس کے زیادہ حقدار ہیں کیونکہ او فُقرا تو زکوٰۃ بھی لے سکتے ہیں لیکن یہ نہیں لے سکتے اور یہ لوگ غنی ہوں تو خمس میں ان کا کچھ حق نہیں۔(درّ مختار مع ردّ المحتار، کتاب الجہاد، باب المغنم وقسمتہ، فصل فی کیفیۃ القسمۃ، ۶ / ۲۳۷-۲۳۸)
خُمُس کے علاوہ باقی چار حصے مجاہدین پر اس طرح تقسیم کئے جائیں گے کہ سوار کو پیدل کے مقابلے میں دگنا ملے گا یعنی ایک اس کا حصہ اور ایک گھوڑے کا اور گھوڑا عربی ہو یا کسی اور قسم کا سب کا ایک حکم ہے۔ لشکر کا سردار اور سپاہی دونوں برابر ہیں یعنی جتنا سپاہی کو ملے گا اتنا ہی سردار کو بھی ملے گا۔ اونٹ اور گدھے اور خچر کسی کے پاس ہوں توان کی وجہ سے کچھ زیادہ نہ ملے گا یعنی اسے بھی پیدل والے کے برابر ملے گا اور اگر کسی کے پاس چند گھوڑے ہوں جب بھی اتنا ہی ملے گا جتنا ایک گھوڑے کے لیے ملتا تھا۔(عالمگیری، کتاب السیر، الباب الرابع فی الغنائم وقسمتہا، الفصل الثانی فی کیفیۃ القسمۃ، ۲ / ۲۱۲)
اللہ کا فرمان ہے
وَ اعْلَمُوْۤا اَنَّمَا غَنِمْتُمْ مِّنْ شَیْءٍ فَاَنَّ لِلّٰهِ خُمُسَهٗ وَ لِلرَّسُوْلِ وَ لِذِی الْقُرْبٰى وَ الْیَتٰمٰى وَ الْمَسٰكِیْنِ وَ ابْنِ السَّبِیْلِۙ-اِنْ كُنْتُمْ اٰمَنْتُمْ بِاللّٰهِ وَ مَاۤ اَنْزَلْنَا عَلٰى عَبْدِنَا یَوْمَ الْفُرْقَانِ یَوْمَ الْتَقَى الْجَمْعٰنِؕ-وَ اللّٰهُ عَلٰى كُلِّ شَیْءٍ قَدِیْرٌ(41)
اور جان لو کہ جو کچھ غنیمت لو تو اس کا پانچواں حصہ خاص اللہ اور رسول و قرابت والوں اور یتیموں اور محتاجوں اور مسافروں کا ہے اگر تم ایمان لائے ہو اللہ پر اور اس پر جو ہم نے اپنے بندے پر فیصلہ کے دن اتارا جس دن دونوں فوجیں ملی تھیںاور اللہ سب کچھ کرسکتا ہے۔(کنزالایمان)
نوٹ غنیمت کے مزید مسائل جاننے کے لئے بہار شریعت ح 9 سے غنیمت کا بیان مطالعہ کیجئے۔
والله ورسوله اعلم بالصواب
_________(❤️)_________
کتبہ :- فقیہ العصر حضرت علامہ مولانا مفتی محمد مجيب قادری صاحب قبلہ مدظلہ العالیٰ النورانی لهان ١٨خادم دارالافتاء البركاتي علماء فاونديشن شرعي سوال و جواب ضلع سرها نيبال
06/08/2023