(سوال نمبر 7066)
کیا تعلیم کے لئے سود لینا جائز ہے؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
السلام عليكم و رحمتہ اللہ و برکاتہ
کیا فرماتے ہیں علماء کرام اس مسئلہ کے بارے میں سود لینا اور دینا حرام ہے
کیا ایجوکیشن پڑھائی کے لیے سود لے سکتے ہیں یا نہیں ۔کون سی صورت میں لے سکتے ہیں اور کون سی صورت میں نہیں۔مہربانی فرما کر مدلل اور مفصّل جواب عنایت فرمائیں۔
سائل:- محمد کاشف جموں کشمیر انڈیا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نحمده ونشكره و نصلي علي رسوله الأمين الكريم
وعليكم السلام ورحمة الله وبركاته
الجواب بعونه تعالي عزوجل
تعلیم کے لئے سود یا سود پر قرض لینا جائز نہیں ہے۔
البتہ اگر کوئی نرا جاہل ہو کہ فرض علوم بھی معلوم نہیں نماز روزہ حج زکات کا بھی علم نہیں اور پیسے دیے بغیر سیکھا بھی نہ جا سکتا ہو اور رقم کی دوسری کوئی صورت نہ ہو تو چونکہ اس قدر علم حاصل کرنا فرض ہے اس لئے بمقدار ضرورت سودی قرض لے سکتے ہیں
اسی طرح رہنے کا مکان نہ ہو پھر بھی بمقدار ضرورت سودی قرض لے سکتے ہیں۔
یعنی اس کی وہ حاجت ایسی ہو کہ جسے شریعت بھی حاجت تسلیم کرتی ہواور سودی قرض کے بغیر اس کا حل ممکن نہ ہو تو اس صورت میں اسے حاجت کے مطابق سودی قرض لینے کی اجازت ہوگی ۔
جیسےبرہائش کے لئے ایک ایسا مکان کہ جس میں سردی گرمی وغیرہ امور سے حفاظت ہوسکے انسانی حاجات میں سے ہے ، تو اگر کسی کے پاس رہائشی مکان نہیں ہے اور اس کے پاس دیگر اسباب و ذرائع بھی نہیں کہ جن سے رہائش کے قابل ضروری مکان خرید سکے اور کہیں سے سود کے بغیر قرض بھی نہ مل رہا ہو ، تو اس صورت میں اسے مجبوراً رہائشی مکان کے لئے سودی قرض لینے کی اجازت ہوگی،یونہی مکان موجود ہے مگر اس میں تعمیرات کی حاجت ہے مثلاً چھت نہیں ہے یا کھڑکی ،دروازے کہ جن سے سردی ،گرمی،اورچوری وغیرہ سے حفاظت ہوسکے ، نہیں ہیں تو اس صورت میں بھی مذکورہ بالا شرائط کے ساتھ قرض لینے کی اجازت ہوگی۔
یاد رہے کہ اپنے پاس زیور وغیرہ ایسے اسباب موجود ہیں کہ جن کے ذریعے حاجت پوری ہوسکتی ہے یا کہیں سے سود کے بغیر قرض مل رہا ہے تو ان تمام صورتوں میں سودی قرض لینا جائز نہیں ۔
فتاوی رضویہ میں ہے
وہ زیادت کہ عوض سے خالی ہواور معاہدہ میں اس کا استحقاق قرار پایا ہو،سود ہے ۔ مثلا سو(100) روپے قرض دئے اور یہ ٹھہرالیا کہ پیسہ اوپر سو (100)لے گا تو یہ پیسہ عوض شرعی سے خالی ہے لہٰذا سود،حرام ہے (فتاوٰی رضویہ ج 17، ص 326، ط رضا فاونڈیشن، لاھور)
مزید فرماتے ہیں
سود جس طرح لینا حرام ہے ،دینا بھی حرام ہے ۔ مگر شریعت مطہرہ کا قاعدہ مقررہ ہے کہ الضرورات تبیح المحظورات، اسی لئے علماء فرماتے ہیں کہ محتاج کو سودی قرض لینا جائز ہے۔ اقول:محتاج کے یہ معنی جو واقعی حقیقی ضرورت قابل قبول شرع رکھتا ہو کہ نہ اس کے بغیر چارہ ہو، نہ کسی طرح بے سودی روپیہ ملنے کا یارا، ورنہ ہرگز جائز نہ ہوگا، جیسے لوگوں میں رائج ہے کہ اولاد کی شادی کرنی چاہی ، سو روپے پاس ہیں ، ہزار روپے لگانے کو جی چاہا ، نو سو سودی نکلوائے یا مکان رہنے کو موجود ہے دل پکے محل کو ہوا، سودی قرض لے کر بنایا ، یا سو،دو سو کی تجارت کرتے ہیں قوت اہل و عیال بقدر کفایت ملتا ہے ، نفس نے بڑا سوداگر بننا چاہا ،پانچ چھ سو ،سودی نکلوا کر لگادیئے یا گھر میں زیور وغیرہ موجود ہے جسے بیچ کر روپیہ حاصل کرسکتے ہیں ،نہ بیچا بلکہ سودی قرض لیا، وعلی ھذا القیاس صدہا صورتیں ہیں کہ یہ ضرورتیں نہیں ، تو ان میں حکم جواز نہیں ہوسکتا اگرچہ لوگ اپنے زعم میں ضرورت سمجھیں۔ملخصا “(فتاوی رضویہ، ج17،ص 298، 299، مطبوعہ رضا فاؤنڈیشن، لاھور )
ایک اور مقام پر فرماتے ہیں
سود دلینا، مطلقاً عموماً قطعاً سخت کبیرہ ہے اور سود دینا اگر بضرورت شرعی و مجبوری ہو تو جائز ہے ، ہاں بلاضرورت جیسے بیٹی بیٹے کی شادی یا تجارت بڑھانا، یا پکا مکان بنانے کے لئے سودی روپیہ لینا حرام ہے۔“(فتاوی رضویہ، جلد 17، صفحه 359، مطبوعہ رضا فاؤنڈیشن، لاھور)
نیز آپ فرماتے ہیں
حاجت یہ کہ بے اس کے ضرر ہو،جیسے مکان اتنا کہ گرمی ،جاڑے برسات کی تکلیفوں سے بچا سکے۔(فتاویٰ رضویہ،ج 1 ح ب، ص 844 ، مطبوعہ رضا فاؤنڈیشن ، لاھور)
والله ورسوله اعلم بالصواب
کیا تعلیم کے لئے سود لینا جائز ہے؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
السلام عليكم و رحمتہ اللہ و برکاتہ
کیا فرماتے ہیں علماء کرام اس مسئلہ کے بارے میں سود لینا اور دینا حرام ہے
کیا ایجوکیشن پڑھائی کے لیے سود لے سکتے ہیں یا نہیں ۔کون سی صورت میں لے سکتے ہیں اور کون سی صورت میں نہیں۔مہربانی فرما کر مدلل اور مفصّل جواب عنایت فرمائیں۔
سائل:- محمد کاشف جموں کشمیر انڈیا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نحمده ونشكره و نصلي علي رسوله الأمين الكريم
وعليكم السلام ورحمة الله وبركاته
الجواب بعونه تعالي عزوجل
تعلیم کے لئے سود یا سود پر قرض لینا جائز نہیں ہے۔
البتہ اگر کوئی نرا جاہل ہو کہ فرض علوم بھی معلوم نہیں نماز روزہ حج زکات کا بھی علم نہیں اور پیسے دیے بغیر سیکھا بھی نہ جا سکتا ہو اور رقم کی دوسری کوئی صورت نہ ہو تو چونکہ اس قدر علم حاصل کرنا فرض ہے اس لئے بمقدار ضرورت سودی قرض لے سکتے ہیں
اسی طرح رہنے کا مکان نہ ہو پھر بھی بمقدار ضرورت سودی قرض لے سکتے ہیں۔
یعنی اس کی وہ حاجت ایسی ہو کہ جسے شریعت بھی حاجت تسلیم کرتی ہواور سودی قرض کے بغیر اس کا حل ممکن نہ ہو تو اس صورت میں اسے حاجت کے مطابق سودی قرض لینے کی اجازت ہوگی ۔
جیسےبرہائش کے لئے ایک ایسا مکان کہ جس میں سردی گرمی وغیرہ امور سے حفاظت ہوسکے انسانی حاجات میں سے ہے ، تو اگر کسی کے پاس رہائشی مکان نہیں ہے اور اس کے پاس دیگر اسباب و ذرائع بھی نہیں کہ جن سے رہائش کے قابل ضروری مکان خرید سکے اور کہیں سے سود کے بغیر قرض بھی نہ مل رہا ہو ، تو اس صورت میں اسے مجبوراً رہائشی مکان کے لئے سودی قرض لینے کی اجازت ہوگی،یونہی مکان موجود ہے مگر اس میں تعمیرات کی حاجت ہے مثلاً چھت نہیں ہے یا کھڑکی ،دروازے کہ جن سے سردی ،گرمی،اورچوری وغیرہ سے حفاظت ہوسکے ، نہیں ہیں تو اس صورت میں بھی مذکورہ بالا شرائط کے ساتھ قرض لینے کی اجازت ہوگی۔
یاد رہے کہ اپنے پاس زیور وغیرہ ایسے اسباب موجود ہیں کہ جن کے ذریعے حاجت پوری ہوسکتی ہے یا کہیں سے سود کے بغیر قرض مل رہا ہے تو ان تمام صورتوں میں سودی قرض لینا جائز نہیں ۔
فتاوی رضویہ میں ہے
وہ زیادت کہ عوض سے خالی ہواور معاہدہ میں اس کا استحقاق قرار پایا ہو،سود ہے ۔ مثلا سو(100) روپے قرض دئے اور یہ ٹھہرالیا کہ پیسہ اوپر سو (100)لے گا تو یہ پیسہ عوض شرعی سے خالی ہے لہٰذا سود،حرام ہے (فتاوٰی رضویہ ج 17، ص 326، ط رضا فاونڈیشن، لاھور)
مزید فرماتے ہیں
سود جس طرح لینا حرام ہے ،دینا بھی حرام ہے ۔ مگر شریعت مطہرہ کا قاعدہ مقررہ ہے کہ الضرورات تبیح المحظورات، اسی لئے علماء فرماتے ہیں کہ محتاج کو سودی قرض لینا جائز ہے۔ اقول:محتاج کے یہ معنی جو واقعی حقیقی ضرورت قابل قبول شرع رکھتا ہو کہ نہ اس کے بغیر چارہ ہو، نہ کسی طرح بے سودی روپیہ ملنے کا یارا، ورنہ ہرگز جائز نہ ہوگا، جیسے لوگوں میں رائج ہے کہ اولاد کی شادی کرنی چاہی ، سو روپے پاس ہیں ، ہزار روپے لگانے کو جی چاہا ، نو سو سودی نکلوائے یا مکان رہنے کو موجود ہے دل پکے محل کو ہوا، سودی قرض لے کر بنایا ، یا سو،دو سو کی تجارت کرتے ہیں قوت اہل و عیال بقدر کفایت ملتا ہے ، نفس نے بڑا سوداگر بننا چاہا ،پانچ چھ سو ،سودی نکلوا کر لگادیئے یا گھر میں زیور وغیرہ موجود ہے جسے بیچ کر روپیہ حاصل کرسکتے ہیں ،نہ بیچا بلکہ سودی قرض لیا، وعلی ھذا القیاس صدہا صورتیں ہیں کہ یہ ضرورتیں نہیں ، تو ان میں حکم جواز نہیں ہوسکتا اگرچہ لوگ اپنے زعم میں ضرورت سمجھیں۔ملخصا “(فتاوی رضویہ، ج17،ص 298، 299، مطبوعہ رضا فاؤنڈیشن، لاھور )
ایک اور مقام پر فرماتے ہیں
سود دلینا، مطلقاً عموماً قطعاً سخت کبیرہ ہے اور سود دینا اگر بضرورت شرعی و مجبوری ہو تو جائز ہے ، ہاں بلاضرورت جیسے بیٹی بیٹے کی شادی یا تجارت بڑھانا، یا پکا مکان بنانے کے لئے سودی روپیہ لینا حرام ہے۔“(فتاوی رضویہ، جلد 17، صفحه 359، مطبوعہ رضا فاؤنڈیشن، لاھور)
نیز آپ فرماتے ہیں
حاجت یہ کہ بے اس کے ضرر ہو،جیسے مکان اتنا کہ گرمی ،جاڑے برسات کی تکلیفوں سے بچا سکے۔(فتاویٰ رضویہ،ج 1 ح ب، ص 844 ، مطبوعہ رضا فاؤنڈیشن ، لاھور)
والله ورسوله اعلم بالصواب
_________(❤️)_________
کتبہ :- فقیہ العصر حضرت علامہ مولانا مفتی محمد مجيب قادری صاحب قبلہ مدظلہ العالیٰ النورانی لهان ١٨خادم دارالافتاء البركاتي علماء فاونديشن شرعي سوال و جواب ضلع سرها نيبال
14_08/2023
14_08/2023