کیا تقدیر کے منکر پر حکم کفر ہے؟
________(❤️)_________
السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین اس مسئلہ کے بارے میں کہ
ایک مفتی صاحب نے علمی گفتگو کے دوران مجھ سے یہ کہا۔ اگر کوئ شخص تقدیر کا انکار کردے ۔تو اس کے اوپر حکم کفر نہیں ہوگا ۔چونکہ تقدیر ضروریات دین میں سے نہیں ہے۔ برائے مہر بانی تفصیل سے مدلل جواب عطا فرمائے
بینوا و توجروا
کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین اس مسئلہ کے بارے میں کہ
ایک مفتی صاحب نے علمی گفتگو کے دوران مجھ سے یہ کہا۔ اگر کوئ شخص تقدیر کا انکار کردے ۔تو اس کے اوپر حکم کفر نہیں ہوگا ۔چونکہ تقدیر ضروریات دین میں سے نہیں ہے۔ برائے مہر بانی تفصیل سے مدلل جواب عطا فرمائے
بینوا و توجروا
________(👇)_________
وعلیکم السلام ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
وعلیکم السلام ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
الجواب ھو الھادی الی الصواب:-
تقدیر پر ایمان لانا ہر مسلمان پر فرض ہے۔ تقدیر اسلام کے بنیادی عقائد میں سے ہے۔ تقدیر کا انکار کرنا کفر ہے۔ انکار کرنے والے پر توبہ تجدید ایمان نکاح لازم ہے۔
تقدیر کا ثبوت کتاب سنت صحابہ مجتہدین سلف و خلف اجماع سے اس کا اثبات ہے۔ تقدیر کا منکر کافر ہے ۔
قران کریم میں اللہ عزول فرماتا ہے۔
تقدیر کا ثبوت کتاب سنت صحابہ مجتہدین سلف و خلف اجماع سے اس کا اثبات ہے۔ تقدیر کا منکر کافر ہے ۔
قران کریم میں اللہ عزول فرماتا ہے۔
انا کل شیء خلقنہ بقدر ۔
بیشک ہر چیز کو ہم نے تقدیر کے ساتھ پیدا فرمایا۔ (القمر۔ایت 49)
اس ایت سے ائمہ اہلسنت تقدیر کو ثابت کرتے ہیں۔جو کی مخلوق کی تخلیق سے پہلے ہی لکھی جا چکی ہے۔
صحیح مسلم شریف میں ہے
حضرت عبداللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ عنہما سے روایت کی ، کہا : میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا : اللہ تعالیٰ نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کرنے سے پچاس ہزار سال پہلے مخلوقات کی تقدیریں تحریر فرما دی تھی ۔ فرمایا : اور اس کا عرش پانی پر تھا ۔ تقدیر پر ایمان ان چھ ارکان میں سے ہے جن کے بغیر انسان مومن نہیں ہو سکتا۔جیسا کی عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے۔ کے جبریل نے نبی کریم صل اللہ علیہ وسلم سے ایمان کے بارے میں پوچھا۔ تو اپ صل اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔ ان تو مؤمن باللہ و ملائکتہ و کتبہ و رسلہ و الیوم الآخر و تؤمن بالقدر خیرہ و شرہ۔ اللہ فرشتوں کتب سماوی رسولوں اور یوم آخرت ہر ایمان لائے اور اچھی بری تقدیر پر ایمان لایا جاۓ۔
(صحیح مسلم حدیث نمبر93)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کوئی بندہ مومن نہیں ہو سکتا یہاں تک کہ اچھی اور بری تقدیر پر ایمان لے آئے، اور یہ یقین کر لے کہ جو کچھ اسے لاحق ہوا ہے چوکنے والا نہ تھا اور جو کچھ چوک گیا ہے اسے لاحق ہونے والا نہ تھا“۔
(سنن ترمذی حدیث نمبر 2144)
تقدیر کا انکار کرنا تو دور رہا۔ ہمیں نبی کریم صل اللہ علیہ وسلم نے ایسے الفاظ بولنے سے بھی منع فرمایا ہے جن الفاظ میں تقدیر کے انکار کا شک ظاہر ہوتا ہو۔
امام مسلم کتاب القدرمسلم شریف میں روایت کرتے ہیں
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے ، کہا : رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : طاقت ور مومن اللہ کے نزدیک کمزور مومن کی نسبت بہتر اور زیادہ محبوب ہے ، جبکہ خیر دونوں میں ( موجود ) ہے ۔ جس چیز سے تمہیں ( حقیقی ) نفع پہنچے اس میں حرص کرو اور اللہ سے مدد مانگو اور کمزور نہ پڑو ( مایوس ہو کر نہ بیٹھ ) جاؤ ، اگر تمہیں کوئی ( نقصان ) پہنچے تو یہ نہ کہو : کاش! میں ( اس طرح ) کرتا تو ایسا ایسا ہوتا ، بلکہ یہ کہو : ( یہ ) اللہ کی تقدیر ہے ، وہ جو چاہتا ہے کرتا ہے ، اس لیے کہ ( حسرت کرتے ہوئے ) کاش ( کہنا ) شیطان کے عمل ( کے دروازے ) کو کھول دیتا ہے ۔ اس حدیث کا منشا یہ ہے جب کوئ امر واقع ہو جائے تو پھر یہ نہ کہا جائے ۔کہ اگر میں فلاں کام کرلیتا تو مصیبت نہ اتی ۔اگر وہ یہ بات جزم یقین کے ساتھ کہتا ہے یعنی اگر میں یہ کام نہ کرتا تو یقینا مصیبت نہ آتی تو ایسا کہنا حرام ہے ۔ کیوںکہ اس سے تقدیر کا انکار ظاہر ہوتا ہے۔ اور اگر اظہار افسوس کے لئے کہتا ہے تو مکروہ تنزیہی ہے۔
تقدیر پر ایمان لانا فرض ہے ۔ تقدیر کے منکر کے بارے میں
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ہر امت کے مجوس ہوتے ہیں، اس امت کے مجوس وہ لوگ ہیں جو تقدیر کے منکر ہیں، ان میں کوئی مر جائے تو تم اس کے جنازے میں شرکت نہ کرو، اور اگر کوئی بیمار پڑے، تو اس کی عیادت نہ کرو، یہ دجال کی جماعت کے لوگ ہیں، اللہ ان کو دجال کے زمانے تک باقی رکھے گا ۔
(سنن ابو داؤد حدیث نمبر 4692)
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: قدریہ ( منکرین تقدیر ) اس امت ( محمدیہ ) کے مجوس ہیں، اگر وہ بیمار پڑیں تو ان کی عیادت نہ کرو، اور اگر وہ مر جائیں تو ان کے جنازے میں شریک مت ہو۔ (سنن ابودؤد حدیث نمبر 4691)
امام ترمذی روایت کرتے ہے حضرت عائشہ بیان کرتی ہے
نبی کریم صل اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔ میں چھ شخصوں پر لعنت کرتا ہوں اور ہر نبی نے ان پر لعنت کی ہیں۔ 1 جو اللہ کی کتاب میں زیادتی کرے 2 جو تقدیر کا انکار کرے 3 جو جبر سے لوگوں پر مسلط ہو جاۓ 4 جس کو اللہ نے حرام کیا اس کو حلال کرے 5 اور میری اولاد پر ان کاموں کو حلال کرے جن کاموں کو اللہ نے حرام کیا 6
اور میری سنت کو بطور اہانت ترک کرے۔
تقدیر پر ایمان نہ لایا جاۓ تو اعمال قبول نہیں ہوتے ۔
امام مسلم روایت کرتے ہے
کہمس سے ا بن بریدہ سے ، انہوں نے یحیی بن یعمر سےروایت کی ، انہوں نے کہا کہ سب سے پہلا شخص جس نے بصرہ میں تقدیر ( سے انکار ) کی بات کی ، معبد جہنی تھا میں ( یحیی ) اور حمید بن عبد الرحمن خمیری حج یا عمرے کے ارادے سے نکلے ، ہم نے ( آپس میں ) کہا : کاش! رسول اللہ ﷺ کے صحابہ میں سے کسی کے ساتھ ہماری ملاقات ہو جائے تو ہم ان سے تقدیر کے بارے میں ان ( آج کل کے ) لوگوں کی کہی ہوئی باتوں کے متعلق دریافت کر لیں ۔ توفیق الہٰی سے ہمیں حضرت عبد اللہ بن عمر بن خطاب رضی اللہ عنہما مسجد میں داخل ہوتے ہوئے مل گئے ۔ میں اور میرے ساتھ نے ان کو درمیان میں لے لیا ، ایک ان کی دائیں طرف تھا اور دوسرا ان کی بائیں طرف ۔ مجھے اندازہ تھا کہ میرا ساتھی گفتگو ( کامعاملہ ) میرے سپرد کرے گا ، چنانچہ میں نے عرض کی : اے ابو عبدالرحمن ! ( یہ عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کی کنیت ہے ) واقعہ یہ ہے کہ ہماری طرف کچھ ایسے لوگ ظاہر ہوئے جو قرآن مجید پڑھتے ہیں اور علم حاصل کرتے ہیں ( اور ان کے حالات بیان کیے ) ان لوگوں کا خیال ہے کہ تقدیر کچھ نہیں ، ( ہر ) کام نئے سرے سے ہو رہا ہے ( پہلے اس بارے میں نہ کچھ طے ہے ، نہ اللہ کو اس کاعلم ہے ۔ ) ابن عمر رضی اللہ عنہما نے فرمایا : جب تمہاری ان لوگوں سے ملاقات ہو تو انہیں بتا دینا کہ میں ان سے بری ہوں اور وہ مجھ سے بری ہیں ۔ اس ( ذات ) کی قسم جس ( کے نام ) کے ساتھ عبد اللہ بن عمر حلف اٹھاتا ہے ! اگر ان میں سے کسی کے پاس احد پہاڑ کے برابر سونا ہو اور وہ اسے خرچ ( بھی ) کر دے تو اللہ تعالیٰ اس کی طرف سے اس کوقبول نہیں فرمائے گا یہاں تک کہ وہ تقدیر پر ایمان لے آئے ، (صحیح مسلم حدیث نمبر 93)
خلاصہ کلام یہ ہے کتاب سنت بزرگو کی
ان تصریحات سے معلوم ہوا تقدیر کا انکر کرنا کفر ہے۔ جو کوئی انکار کرے اس پر توبہ تجدید ایمان نکاح لازم ہے۔ مفتی صاحب نے غلط کہا تقدیر کے منکر پر حکم کفر نہ ہوگا
واللہ ورسولہ اعلم بالصواب
اس ایت سے ائمہ اہلسنت تقدیر کو ثابت کرتے ہیں۔جو کی مخلوق کی تخلیق سے پہلے ہی لکھی جا چکی ہے۔
صحیح مسلم شریف میں ہے
حضرت عبداللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ عنہما سے روایت کی ، کہا : میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا : اللہ تعالیٰ نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کرنے سے پچاس ہزار سال پہلے مخلوقات کی تقدیریں تحریر فرما دی تھی ۔ فرمایا : اور اس کا عرش پانی پر تھا ۔ تقدیر پر ایمان ان چھ ارکان میں سے ہے جن کے بغیر انسان مومن نہیں ہو سکتا۔جیسا کی عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے۔ کے جبریل نے نبی کریم صل اللہ علیہ وسلم سے ایمان کے بارے میں پوچھا۔ تو اپ صل اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔ ان تو مؤمن باللہ و ملائکتہ و کتبہ و رسلہ و الیوم الآخر و تؤمن بالقدر خیرہ و شرہ۔ اللہ فرشتوں کتب سماوی رسولوں اور یوم آخرت ہر ایمان لائے اور اچھی بری تقدیر پر ایمان لایا جاۓ۔
(صحیح مسلم حدیث نمبر93)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کوئی بندہ مومن نہیں ہو سکتا یہاں تک کہ اچھی اور بری تقدیر پر ایمان لے آئے، اور یہ یقین کر لے کہ جو کچھ اسے لاحق ہوا ہے چوکنے والا نہ تھا اور جو کچھ چوک گیا ہے اسے لاحق ہونے والا نہ تھا“۔
(سنن ترمذی حدیث نمبر 2144)
تقدیر کا انکار کرنا تو دور رہا۔ ہمیں نبی کریم صل اللہ علیہ وسلم نے ایسے الفاظ بولنے سے بھی منع فرمایا ہے جن الفاظ میں تقدیر کے انکار کا شک ظاہر ہوتا ہو۔
امام مسلم کتاب القدرمسلم شریف میں روایت کرتے ہیں
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے ، کہا : رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : طاقت ور مومن اللہ کے نزدیک کمزور مومن کی نسبت بہتر اور زیادہ محبوب ہے ، جبکہ خیر دونوں میں ( موجود ) ہے ۔ جس چیز سے تمہیں ( حقیقی ) نفع پہنچے اس میں حرص کرو اور اللہ سے مدد مانگو اور کمزور نہ پڑو ( مایوس ہو کر نہ بیٹھ ) جاؤ ، اگر تمہیں کوئی ( نقصان ) پہنچے تو یہ نہ کہو : کاش! میں ( اس طرح ) کرتا تو ایسا ایسا ہوتا ، بلکہ یہ کہو : ( یہ ) اللہ کی تقدیر ہے ، وہ جو چاہتا ہے کرتا ہے ، اس لیے کہ ( حسرت کرتے ہوئے ) کاش ( کہنا ) شیطان کے عمل ( کے دروازے ) کو کھول دیتا ہے ۔ اس حدیث کا منشا یہ ہے جب کوئ امر واقع ہو جائے تو پھر یہ نہ کہا جائے ۔کہ اگر میں فلاں کام کرلیتا تو مصیبت نہ اتی ۔اگر وہ یہ بات جزم یقین کے ساتھ کہتا ہے یعنی اگر میں یہ کام نہ کرتا تو یقینا مصیبت نہ آتی تو ایسا کہنا حرام ہے ۔ کیوںکہ اس سے تقدیر کا انکار ظاہر ہوتا ہے۔ اور اگر اظہار افسوس کے لئے کہتا ہے تو مکروہ تنزیہی ہے۔
تقدیر پر ایمان لانا فرض ہے ۔ تقدیر کے منکر کے بارے میں
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ہر امت کے مجوس ہوتے ہیں، اس امت کے مجوس وہ لوگ ہیں جو تقدیر کے منکر ہیں، ان میں کوئی مر جائے تو تم اس کے جنازے میں شرکت نہ کرو، اور اگر کوئی بیمار پڑے، تو اس کی عیادت نہ کرو، یہ دجال کی جماعت کے لوگ ہیں، اللہ ان کو دجال کے زمانے تک باقی رکھے گا ۔
(سنن ابو داؤد حدیث نمبر 4692)
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: قدریہ ( منکرین تقدیر ) اس امت ( محمدیہ ) کے مجوس ہیں، اگر وہ بیمار پڑیں تو ان کی عیادت نہ کرو، اور اگر وہ مر جائیں تو ان کے جنازے میں شریک مت ہو۔ (سنن ابودؤد حدیث نمبر 4691)
امام ترمذی روایت کرتے ہے حضرت عائشہ بیان کرتی ہے
نبی کریم صل اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔ میں چھ شخصوں پر لعنت کرتا ہوں اور ہر نبی نے ان پر لعنت کی ہیں۔ 1 جو اللہ کی کتاب میں زیادتی کرے 2 جو تقدیر کا انکار کرے 3 جو جبر سے لوگوں پر مسلط ہو جاۓ 4 جس کو اللہ نے حرام کیا اس کو حلال کرے 5 اور میری اولاد پر ان کاموں کو حلال کرے جن کاموں کو اللہ نے حرام کیا 6
اور میری سنت کو بطور اہانت ترک کرے۔
تقدیر پر ایمان نہ لایا جاۓ تو اعمال قبول نہیں ہوتے ۔
امام مسلم روایت کرتے ہے
کہمس سے ا بن بریدہ سے ، انہوں نے یحیی بن یعمر سےروایت کی ، انہوں نے کہا کہ سب سے پہلا شخص جس نے بصرہ میں تقدیر ( سے انکار ) کی بات کی ، معبد جہنی تھا میں ( یحیی ) اور حمید بن عبد الرحمن خمیری حج یا عمرے کے ارادے سے نکلے ، ہم نے ( آپس میں ) کہا : کاش! رسول اللہ ﷺ کے صحابہ میں سے کسی کے ساتھ ہماری ملاقات ہو جائے تو ہم ان سے تقدیر کے بارے میں ان ( آج کل کے ) لوگوں کی کہی ہوئی باتوں کے متعلق دریافت کر لیں ۔ توفیق الہٰی سے ہمیں حضرت عبد اللہ بن عمر بن خطاب رضی اللہ عنہما مسجد میں داخل ہوتے ہوئے مل گئے ۔ میں اور میرے ساتھ نے ان کو درمیان میں لے لیا ، ایک ان کی دائیں طرف تھا اور دوسرا ان کی بائیں طرف ۔ مجھے اندازہ تھا کہ میرا ساتھی گفتگو ( کامعاملہ ) میرے سپرد کرے گا ، چنانچہ میں نے عرض کی : اے ابو عبدالرحمن ! ( یہ عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کی کنیت ہے ) واقعہ یہ ہے کہ ہماری طرف کچھ ایسے لوگ ظاہر ہوئے جو قرآن مجید پڑھتے ہیں اور علم حاصل کرتے ہیں ( اور ان کے حالات بیان کیے ) ان لوگوں کا خیال ہے کہ تقدیر کچھ نہیں ، ( ہر ) کام نئے سرے سے ہو رہا ہے ( پہلے اس بارے میں نہ کچھ طے ہے ، نہ اللہ کو اس کاعلم ہے ۔ ) ابن عمر رضی اللہ عنہما نے فرمایا : جب تمہاری ان لوگوں سے ملاقات ہو تو انہیں بتا دینا کہ میں ان سے بری ہوں اور وہ مجھ سے بری ہیں ۔ اس ( ذات ) کی قسم جس ( کے نام ) کے ساتھ عبد اللہ بن عمر حلف اٹھاتا ہے ! اگر ان میں سے کسی کے پاس احد پہاڑ کے برابر سونا ہو اور وہ اسے خرچ ( بھی ) کر دے تو اللہ تعالیٰ اس کی طرف سے اس کوقبول نہیں فرمائے گا یہاں تک کہ وہ تقدیر پر ایمان لے آئے ، (صحیح مسلم حدیث نمبر 93)
خلاصہ کلام یہ ہے کتاب سنت بزرگو کی
ان تصریحات سے معلوم ہوا تقدیر کا انکر کرنا کفر ہے۔ جو کوئی انکار کرے اس پر توبہ تجدید ایمان نکاح لازم ہے۔ مفتی صاحب نے غلط کہا تقدیر کے منکر پر حکم کفر نہ ہوگا
واللہ ورسولہ اعلم بالصواب
________(❤️)_________
کتبہ:- حضرت علامہ مولانا مفتی محمد دانش حنفی
کتبہ:- حضرت علامہ مولانا مفتی محمد دانش حنفی
صاحب قبلہ مدظلہ العالیٰ النورانی
ہلدوانی نینیتال
رابطہ نمبر:- 9917420179
ہلدوانی نینیتال
رابطہ نمبر:- 9917420179