Type Here to Get Search Results !

پرشاد کھانا کیسا ہے؟

 کیا پرشاد کھانا جائز ہے
________(❤️)_________
السلام علیکم و رحمتہ اللہ وبرکاتہ 
کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ 
ہنود جو اپ نے معبودان باطلہ کو طعام شیرنی و غیرہ چڑھاتے ہیں ۔، اور اس کو پرشاد نام رکھتے ہیں۔، اس کا کھانا حلال ہے یا نہیں ۔، بینوا توجروا
________(❤️)_________
و علیکم السلام و رحمتہ اللہ وبرکاتہ 
الجواب ھو الھادی الی الصواب۔
اس پرشاد کو ہنود اگر تصدق بانٹ رہے ہوں۔، تو ہر گز نہ لے مگر یہ کی بضرورت شدیدہ۔کہ صدقہ کے طور پر لینے میں مسلمان کی ذلت اور گویا کافر کا ہاتھ لینے والے ہاتھ سے بالا کرنا ہے ۔، نبی کریم صل اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں۔،
اونچا ہاتھ نیچے ہاتھ سے بہتر ہے۔اور دینے والا ہاتھ اونچا ہے مانگنے والا ہاتھ نیچا ہے ۔، اسی وجہ سے بلا ضرورت شدیدہ پرشاد نہ لیا جائے ۔ایک ایسے ہی سوال کے جواب میں۔، امام اہلسنت سیدی اعلی حضرت فرماتے ہیں
پرشاد بھوگ کا لینا حلال ہے لعدم المحرم (حرمت کی دلیل نہ ہونے کی وجہ سے۔ت)مگر مسلمان کو احتراز چاہئے لخبث النسبۃ (نسبت خباثت کی وجہ سے ) عالمگیری میں ہے:
مسلم ذبح شاۃ المجوسی لبیت نارھم اوالکافر لالھتہم توکل لانہ سمی اﷲ تعالٰی ویکرہ للمسلم کذا فی التاتارخانیۃ ناقلا عن جامع الفتاوٰی۔، اقول: فاذا حلت ھذہ وھی ذبیحۃ فالمسئول عنہ اولٰی بالحل۔
اگر کسی مسلمان نے آتش پر ست کی بکری اس کے آتشکدہ کے لئے یا کافر کے جھوٹے خداؤں کے لئے ذبح کر ڈالی تو اسے کھایا جائے گا(یعنی کھانا چاہے تو کھاسکتاہے)اس لئے کہ مسلمان نے اس پر خدا کا نام لیاہے لیکن ایسا کرنا مسلمان کے لئے مکروہ ہے تاتارخانیہ میں جامع الفتاوٰی کے حوالہ
سے اسی طرح منقول ہے،۔اقول:(میں کہتاہوں)جب یہ ذبیحہ ہونے کے بعد حلال ہے تو پھر جس مسئلہ کے متعلق سوال کیا گیا وہ بطریق اولٰی حلال ہے۔
اور شیخ محقق رحمۃ اﷲ تعالٰی نے مجمع البرکات میں فرماتے ہیں:
مایاتی المجوس فی نیروز ھم من الاطعمۃ یحل اخذ ذلك ولا حتراز عنہ اسلم کذا فی مطالب المومنین ناقلا عن الذخیرۃ 
 اقول فاذا کان الاحتراز عن ھذا اسلم مع انہ لیس الاطعاما صنعہ لیوم زینتہم فالمستفسر عنہ اجدر بالاحتراز واحری کما لا یخفی۔
آتش پرست اپنی عیدمیں جو کھانے وغیرہ لاتے ہیں ان کالینا حلال ہے ہاں البتہ ان سے بچنا زیادہ سلامتی کی راہ ہے۔اسی طرح مطالب المومنین میں ذخیرہ کے حوالے سے منقول ہے ،اقول(میں کہتاہوں)جب اس سے بچنا زیادہ سلامتی ہے باجود کہ یہ صرف وہ کھانا ہے جو انھوں نے اپنی زیب وزینت کے دن کے لئے تیار کیا ہے لہذا جس کے متعلق سوال کیاگیا وہ بچنے کے زیادہ قابل اور لائق ہے جیسا کہ پوشیدہ نہیں 
اگر کفار اس پرشاد کو بطور تصدق بانٹ رہے ہوں جب تو ہر گز پاس نہ جائے مگر بضرورت شدیدہ کہ صدقہ کے طور پر لینے میں معاذ ﷲ مسلمان کی ذلت اور گویا کافر کے ہاتھ اس کے ہاتھ پر بالا کرنا ہے۔حضور صلی ﷲ تعالٰی علیہ وسلم فرماتے ہیں:
الیدالعلیا خیر من الید السفلی والید العلیا ھی المنفقۃ والید السفلی ھی السائلۃ اخرجۃ الشیخان وغیرھما عن ابن عمر رضی اﷲ تعالٰی عنہما۔وﷲ تعالٰی اعلم۔
اونچا ہاتھ نیچے ہاتھ سے بہتر ہے اور دینے والا ہاتھ اونچا ہے اور مانگنے والا نیچا،(بخاری،مسلم اور ان دو کے علاوہ باقی لوگوں نے عبدﷲ ابن عمر رضی اﷲ تعالٰی عنہما سے اس کی تخریج کی۔ وﷲ تعالٰی اعلم
(فتاویٰ رضویہ 21 جلد صفحہ 697)
مزید فرماتے ہیں
مشرکین اپنے بتوں کے لئے سانڈ چھوڑتے اسے سائبہ کہتے جسے کان چیر کر چھوڑتے اسے بحیرہ کہتے اور ان جانوروں کو حرام جانتے،الله تعالٰی نے ان کو رد فرمایا کہ:
" مَا جَعَلَ اللہُ مِنۡۢ بَحِیۡرَۃٍ وَّلَا سَآئِبَۃٍ وَّلَا وَصِیۡلَۃٍ وَّلَا حَامٍ ۙ وَّلٰکِنَّ الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡا یَفْتَرُوۡنَ عَلَی اللہِ الْکَذِبَ ؕ وَ اَکْثَرُہُمْ لَا یَعْقِلُوۡنَ 
الله نے مقرر نہیں کیا ہے کان چرا ہوا اور نہ بحار اور نہ وصیلہ اور نہ حامی،ہاں کافر لوگ الله پر جھوٹا افتراء باندھتے ہیں اور ان میں اکثر نرے بے عقل ہیں،
یعنی یہ باتیں الله نے تو ٹھہرائیں نہیں لیکن کافر ان پر جھوٹ باندھتے ہیں،تو ان جانوروں کو حرام بنانا کافروں کا
قول،اور قرآن مجید کے خلاف ہے۔اور آیہ مااہل بہ لغیر ﷲ اس جانور کے لئے ہے جس کے ذبح میں غیر خدا کا نام پکارا جائے، چھوڑے ہوئے جانور سے اسے کوئی تعلق نہیں نہ کہ مٹھائی تك پہنچے،یہ تعصب وہابیوں کے جاہلانہ خیال ہیں کہ"جانداریا بے جان ذبیحہ ہو یا غیر،جس چیز کو غیر خدا کی طرف منسوب کرکے پکاریں گے حرام ہوجائیں گی"ایسا ہو تو ان کی عورتیں بھی ان پر حرام ہوں کہ وہ بھی انھیں کی عورتیں کہہ کر پکاری جاتی ہیں الله تعالٰی کا نام ان پر نہیں لیا جاتا،ایسے بیہودہ خیالوں سے بچنا لازم ہے۔ہاں بت کے چڑھاوے کی مٹھائی پر شاد مسلمانوں کو نہ لینا چاہئے کہ کافر اسے صدقہ کے طور پر بانٹتے ہیں،وہ لینا ذلت بھی ہے اور معاذالله جو چیز انھوں نے تعظیم بت کے لئے بانٹی اس کا ان کے موافق مراد استعمال بھی ہے بخلاف چھوڑے ہوئے جانور کے کہ اس کا کھانا کافروں کے خلاف مراد اور ان کی ذلت ہے،اس میں حرج نہیں مگر شرط یہ ہے کہ فتنہ نہ ہو،ورنہ فتنہ سے بچنا لازم ہے۔
قال اﷲ تعالٰی " الْفِتْنَۃُ اَشَدُّ مِنَ الْقَتْلِۚ ۔،واﷲ تعالٰی اعلم۔
الله تعالٰی نے فرمایا:فتنہ قتل سے شدید تر ہے۔والله تعالٰی اعلم۔
مزید فرماتے ہیں
ذبح میں ذابح کی نیت شرط معتبر ہے،اگر کافر اپنے معبودوں کے لئے ذبح کرائے اور مسلمان الله عزوجل کے لئے اس کانام لے کر ذبح کرے جانور حلال ہوجائے گا مگریہ فعل مسلمان کے لئے مکروہ ہے،اور اس گوشت کا اس سے لینا بھی نہ چاہئے کہ اس میں کافر کے زعم میں اس کے مقصد باطل کو پورا کرنا ہے اور یہ گوشت گویا اس کی طرف سے تصدق لینا ہے۔
والید العلیا خیر من الید السفلٰی
اوپر والا ہاتھ نیچے والے ہاتھ سے بہتر ہے۔تو یہ
( فتاویٰ رضویہ 20 جلد صفحہ 62)
واللہ ورسولہ اعلم بالصواب 
________(❤️)_________
کتبہ:- حضرت علامہ مولانا مفتی
 محمد دانش حنفی صاحب قبلہ مدظلہ العالیٰ النورانی 
ہلدوانی نینیتال۔، 
رابطہ نمبر:-9917420179

Post a Comment

0 Comments
* Please Don't Spam Here. All the Comments are Reviewed by Admin.

Top Post Ad

Below Post Ad

Ads Area