Type Here to Get Search Results !

شوہر نے حاملہ بیوی کو حالت غصہ میں تین طلاق مغلظہ دیدیا اب رجوع کی کیا صورت ہوگی؟

 (سوال نمبر 224)
 زوج نے حاملہ زوجہ کو حالت غصہ میں تین طلاق مغلظہ دیدیا اب رجوع کی کیا صورت ہوگی؟ 
،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،
السلام علیکم ورحمتہ اللہْ و برکاتہ 
کیا فرماتے ہیں علماۓ کرام و مفتیان عظام مسئلہ ذیل کے بارے میں ایک شخص اپنی بیوی کو غصے کی حالت میں یہ کہد یا کہ 1میں نے تمکو طلاق دیا 2 میں نے تم کو طلاق دیا 3 میں نے تم کو طلاق دیا ،تین بار اسی کلمے کو بولا تو صورت ھذا میں کتنی طلاق واقع ہوئی اور وہ لڑکا اب اپنے اس فعل سے شرمندہ ہے اور اپنی بیوی کو رجوع کرنا چاہتا ہے تو اس صورت میں شریعت کا کیا حکم ہے ؟
 قرآن و حدیث کی روشنی میں جواب عنایت فرمائیں مہربانی ہوگی 
دس روز پہلے یہ بات پیش آئی تھی، بیوی اسکی 7 ماہ کی حمل سے ہے، 
سائل:- محمد صلا ح الدین پپرا گوپال گنج بہار انڈیا 
،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،
نحمده ونشكره ونصلي على رسوله الأمين
وعليكم السلام ورحمة الله وبركاته
الجواب بعونه تعالى عز وجل 
مسلئہ مسئولہ میں اگر معاملہ ایسا ہی ہے جیسا کہ سوال میں مذکور ہے تو دوران حمل تین طلاق دینے سے طلاق مغلظہ واقع ہوئی اور مطلقہ حاملہ کی عدت وضع حمل ہے
مذکورہ الفاظ سے زید کا نکاح ختم ہوا ،طلاقِ مغلظہ سے مراد ایسی طلاق ہے جس کے نتیجہ میں مرد اس عورت سے دوبارہ نکاح نہیں کر
سکتا، مذکورہ صورت میں وضع حمل کے بعد اس عورت کا نکاح کسی دوسرے مرد سے ہو، اور ہمبستری کرنے کے بعد زوج ثانی اسے طلاق دیدے پھر عدت گزار نے کے بعد زوج اول سے نکاح کرنا جائز ہے۔
اللہ رب العزت فرماتا ہے 
وَاللَّائِي يَئِسْنَ مِنَ الْمَحِيضِ مِن نِّسَائِكُمْ إِنِ ارْتَبْتُمْ فَعِدَّتُهُنَّ ثَلَاثَةُ أَشْهُرٍ وَاللَّائِي لَمْ يَحِضْنَ وَأُوْلَاتُ الْأَحْمَالِ أَجَلُهُنَّ أَن يَضَعْنَ حَمْلَهُنَّ وَمَن يَتَّقِ اللَّهَ يَجْعَل لَّهُ مِنْ أَمْرِهِ يُسْرًا،
اور تمہاری عورتوں میں سے جو حیض سے مایوس ہو چکی ہوں اگر تمہیں شک ہو (کہ اُن کی عدّت کیا ہوگی) تو اُن کی عدّت تین مہینے ہے اور وہ عورتیں جنہیں (ابھی) حیض نہیں آیا (ان کی بھی یہی عدّت ہے)، اور حاملہ عورتیں (تو) اُن کی عدّت اُن کا وضعِ حمل ہے، اور جو شخص اللہ سے ڈرتا ہے (تو) وہ اس کے کام میں آسانی فرما دیتا ہے۔
(الطَّلاَق، 65: 4)
حضرت عمرو بن میمون رضی اللہ عنہ اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ ام کلثوم رضی اللہ عنہا حضرت زبیر بن عوام رضی اللہ عنہ کے نکاح میں تھیں۔ انہوں نے حضرت زبیر بن عوام رضی اللہ عنہ سے کہا کہ مجھے ایک طلاق سے خوش کر دو جبکہ وہ حاملہ تھیں تو انہوں نے ایک طلاق دے دی، پھر نماز کو چلے گئے، جب وہ واپس آئے تو بچہ پیدا ہو چکا تھا۔ انہوں نے فرمایا اللہ اس کا ناس کرے اس نے میرے ساتھ مکر کیا، پھر حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:‌سَبَقَ الْكِتَابُ أَجَلَهُ، اخْطُبْهَا إِلَى نَفْسِهَا.
کتاب اللہ کے مطابق اس کی عدت پوری ہو گئی، اب پیغام (نکاح) دوبارہ بھیج دو۔
(ابن ماجه، السنن، كتاب الطلاق، باب المطلقة الحامل إذا وضعت ذا بطنها بانت، 1: 653، رقم: 2026، بيروت: دار الفكر) درج بالا آیت و روایت سے معلوم ہوا کہ دورانِ حمل بیوی کو دی گئی طلاق کی عدت وضع حمل ہے ...... 
نورمل غصہ کا، باب طلاق میں کوئی اعتبار نہیں،
 فقہاء کرام غصہ کی تین حالتیں بیان کرتے ہیں :
أحدها أن يحصل له مبادی الغضب بحيث لايتغيرعقله ويعلم مايقول ويقصده وهذالااشکال فيه.
الثانی أن يبلغ النهاية فلا يعلم ما يقول ولا يريده فهذا لاريب أنه لاينفذ شئی من اقواله.
الثالث من توسط بين المرتبتين بحيث لم يصر کالمجنون فهذا محل النظر والأدلة تدل علی عدم نفوذ أقواله.
پہلی یہ کہ ابتدائی حال ہو، عقل میں تبدیلی نہ آئے اور آدمی جانتا ہو کہ کیا کہہ رہا ہے اور کس کا ارادہ ہے اس میں اشکال نہیں کہ طلاق ہو جائے گی۔
دوسرا درجہ یہ ہے کہ غصہ انتہا کو پہنچ جائے اسے پتہ نہ چلے کہ کیا کہتا ہے اور کیا ارادہ ہے اس صورت میں بلاشبہ ا س کا کوئی محل نافذ نہ ہو گا۔
تیسرا درجہ یہ ہے کہ دونوں کے درمیان ہو کہ انسان پاگل کی طرح نہ ہو جائے یہ قابل غور ہے دلائل کی روشنی میں اس صورت میں بھی اس کی کسی بات کا اعتبار نہ ہوگا۔(ابن عابدين، ردالمحتار، 3 : 244، دارلفکرللطباعةوالنشر، بيروت،)
اعلی حضرت رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں ،
غضب اگر واقعی اس درجہ شدّت پر ہو کہ حدِّ جنون تک پہنچا دے تو طلاق نہ ہو گی۔
(فتاوٰی رضويه، 12 : 378،)
اسی طرح مصنف بہار شریعت رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں اگرغصہ اس حد کا ہوکہ عقل جاتی رہے تو (طلاق) واقع نہ ہوگی۔( بہارشريعت، 8 : 7، طبع لاهور)
مذکورہ مسئولہ میں زید کا غصہ اس درجے کا نہیں ہے کہ عقل زائل ہوگئی ہو، گن گن کر تین طلاق دیا بعدہ شرمندہ ہوا لہذا تین طلاق مغلظہ واقع ہوئی۔
والله ورسوله أعلم بالصواب 
کتبہ:- حضرت علامہ مولانا مفتی محمد مجيب قادری صاحب قبلہ مدظلہ العالیٰ النورانی لہان ١٨سرها نيبال ٣/١٢/

Post a Comment

0 Comments
* Please Don't Spam Here. All the Comments are Reviewed by Admin.

Top Post Ad

Below Post Ad

Ads Area