Type Here to Get Search Results !

عصر کی فرض نماز کے بعد ٢٥،منٹ تک امام کا درس دےکر دعاء مانگنا کیسا ہے

 (سوال نمبر 225)
 عصر کی فرض نماز کے بعد ٢٥،منٹ تک امام کا درس دےکر دعاء مانگنا کیسا ہے 
،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،
السلام علیکم و رحمۃ اللّٰہ وبرکاتہ
کیا فرماتے ہیں علمائے کرام و مفتیان اسلام مسئلہ ذیل میں
زید عصر کی فرض نماز کے بعد دعا نہ مانگ کر مقتدیوں کو ٢٥پچیس منٹ دینی کتابیں پڑھ کے سناتا ہے پھر دعا مانگتا ہےبکر جب منع کرتا ہے کہ یہ عمل قرآن وسنت کے خلاف ہے تو زید کہتا ہے کہ وہ حدیث دکھاؤ جس میں نبی کریم ﷺ نے منع فرمایا ہو اور دعا بھی مانگتا ہے مقتدیوں کی طرف منھ کر کے دونوں میں سے کس کا قول درست ہے؟ قرآن و حدیث کی روشنی میں جواب عنایت فرما کر شکریہ کا موقع دیں فقط والسلام
سائل:- حافظ عبد الوکیل مقام اچکوا بلئ گاؤں بہرائچ شریف یو پی انڈیا ۔
،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،
نحمده ونشكره ونصلي على رسوله الأمين
وعليكم السلام ورحمة الله وبركاته
الجواب بعونه تعالى عز وجل 
مسلئہ مسئولہ میں موجودہ دور میں تبلیغ دین اور ضروریات مسائل شرعیہ بھی لوگوں کو بتا نا ضروری ہے ۔انسب یہی ہے کہ زید بعد الدعاء دس سے پندرہ منٹ درس دے تاکہ سامعین و مصلیین کا رجحان درس کی طرف بنا رہے اور امام مصلی حضرات کا خیال ضرور رکھیں، بعد الصلوٰۃ مختصر تسبیح و تہلیل میں حرج نہیں، 
 امام صاحب كو چاہئے کہ دعا کو مؤخر نہ کریں بلکہ دعا پہلے کرلیا کریں تاکہ اجتماعی دعا ہوجائے جس کا فائدہ بہت ہے اور بعد میں کتاب پڑھیں اس سے یہ فائدہ بھی ہوگا کہ جن مقتدیوں کو جانیکی ضرورت ہوگی وہ جا بھی سکینگے۔
حالانکہ مقتدی اپنی دعا کرکے بھی جاسکتے ہیں مگر ہمارے یہاں اسکو عرفا معیوب سمجھا جاتا ہے لہذا امام صاحب دعا کے بعد وعظ کریں۔
 پچیس منٹ کا وقفہ زیادہ ہے ،بعد الصلوٰۃ دعاء مانگنا سنت ہے، آقا علیہ السلام نماز میں اپنے اصحاب کا خیال فرماتے، اسی لئے بہت زیادہ طویل قرات سے امام کو منع کیا گیا ہے ۔کہ مصلیین میں ہر قسم کے لوگ ہوتے ہیں، اور خود آقا علیہ السلام کی نماز کامل اور ہلکی ہوتی جب نماز میں مصلیین کا لحاظ کرنے کا حکم ہے تو درس و تدریس کو اس قدر طول دینا کہ نمازی متنفر ہو جائز نہیں ہے، مقتدی کی طرف منہ کر کے دعاء مانگنا جائز ہے اور امام کے لئے یہی صحیح ہے ۔
حدیث پاک میں ہے 
عَنْ أَبِي مَسْعُودٍ الأَنْصَارِيِّ قَالَ: قَالَ رَجُلٌ: يَا رَسُولَ اللهِ لاَ أَكَادُ أُدْرِكُ الصَّلاَةَ مِمَّا يُطَوِّلُ بِنَا فُلاَنٌ، فَمَا رَأَيْتُ النَّبِيَّ صلى الله عليه وسلم فِي مَوْعِظَةٍ أَشَدَّ غَضَبًا مِنْ يَوْمِئِذٍ، فَقَالَ: أَيُّهَا النَّاسُ إِنَّكُمْ مُنَفِّرُونَ! فَمَنْ صَلَّى بِالنَّاسِ فَلْيُخَفِّفْ؛ فَإِنَّ فِيهِمُ الْمَرِيضَ وَالضَّعِيفَ وَذَا الْحَاجَةِ،
 (صحیح البخاري،کتاب العلم، باب الْغَضَبِ فِي الْمَوْعِظَةِ وَالتَّعْلِيمِ إِذَا رَأَى مَا يَكْرَهُ، ج:1/19، ط:قدیمي کتب خانه کراچي)
حضرت ابومسعودانصاری سے منقول ہے وہ کہتے ہیں کہ ایک شخص نے (آکر) کہا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم، ہو سکتا ہے کہ میں نماز (جماعت کے ساتھ) نہ پاسکوں؛ کیوں کہ فلاں شخص ہمیں (بہت) طویل نماز پڑھایا کرتا ہے۔  ابومسعود کہتے ہیں کہ میں نے نصیحت کرنے میں اس دن سے زیادہ کبھی نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو غصہ میں نہیں دیکھا،  آپ ﷺ نے فرمایا: اے لوگو! تم ایسی سختیاں کر کے لوگوں کو دین سے نفرت دلاتے ہو، دیکھو!  جو کوئی لوگوں کو نماز پڑھائے اسے چاہیے کہ (قراء ت میں) تخفیف کرے؛ اس لیے کہ مقتدیوں میں مریض بھی ہوتے ہیں اور کم زور بھی ہوتے ہیں اور ضرورت والے بھی ہوتے ہیں۔
عَنْ أَبِي مَسْعُودٍ قَالَ: قَالَ رَجُلٌ: يَا رَسُولَ اللهِ إِنِّي لأَتَأَخَّرُ عَنِ الصَّلاَةِ فِي الْفَجْرِ مِمَّا يُطِيلُ بِنَا فُلاَنٌ فِيهَا، فَغَضِبَ رَسُولُ اللهِ صلى الله عليه وسلم مَا رَأَيْتُهُ غَضِبَ فِي مَوْضِعٍ كَانَ أَشَدَّ غَضَبًا مِنْهُ يَوْمَئِذٍ، ثُمَّ قَالَ: يَا أَيُّهَا النَّاسُ إِنَّ مِنْكُمْ مُنَفِّرِينَ، فَمَنْ أَمَّ النَّاسَ فَلْيَتَجَوَّزْ؛ فَإِنَّ خَلْفَهُ الضَّعِيفَ وَالْكَبِيرَ وَذَا الْحَاجَة". (صحیح البخاري،کتاب الصلاة، باب مَنْ شَكَا إِمَامَهُ إِذَا طَوَّلَ، 1/97،98، ط:قدیمي کتب خانه کراچي)
حضرت ابومسعود روایت کرتے ہیں کہ ایک شخص نے کہا کہ اے اللہ کے رسول ﷺ! اللہ کی قسم میں صبح  کی نماز سے صرف فلاں شخص کے باعث رہ جاتا ہوں؛ کیوں کہ وہ نماز میں طول دیتا ہے، پس میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو کبھی نصیحت کے وقت اس دن سے زیادہ غضب ناک نہیں دیکھا، اس کے بعد آپ ﷺ نے فرمایا: تم میں کچھ لوگ آدمیوں کو عبادت سے نفرت دلاتے ہیں؛ لہذا جو شخص تم میں سے لوگوں کو نماز پڑھائے،  سو اس کو ہلکی نماز پڑھانا چاہیے؛ کیوں کہ مقتدیوں میں ضعیف اور بوڑھے اور صاحبِ حاجت سب ہی قسم کے لوگ ہوتے ہیں۔
عن جابر أنه قال: صلّى معاذ بن جبل الأنصاري لأصحابه العشاء، فطول عليهم، فانصرف رجل منّا فصلّى، فأخبر معاذ عنه، فقال: إنه منافق. فلمّا بلغ ذلك الرجل دخل على رسول الله صلى الله عليه وسلم فأخبره ما قال معاذ، فقال له النبى صلى الله عليه وسلم: « أتريد أن تكون فَتّانَاً يا معاذ! إذا أمّمت الناس فاقرأ بـ {الشمس وضحاها}، و {سبح اسم ربك الأعلى} ، {واقرأ باسم ربك} ، {والليل إذا يغشى} 
 (الصحیح لمسلم، باب القرأة في العشاء،1/187، ط:قدیمي کتب خانه کراچي)
حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضرت معاذ بن جبل انصاری رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اپنے ساتھیوں کو عشاء کی نماز لمبی پڑھائی،  ہم میں سے ایک آدمی نے علیحدہ نماز ادا کی،  معاذ کو اس کی خبر دی گئی تو انہوں نے کہا کہ وہ منافق ہے،  جب اس آدمی کو خبر پہنچی تو اس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوکر معاذ (رضی اللہ عنہ) کی بات بتائی، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے معاذ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے کہا کیا تم فتنہ پرور بننا چاہتے ہو! اے معاذ !جب تم لوگوں کو نماز پڑھاؤ تو (الشَّمْسِ وَضُحَاهَا ، سَبِّحْ اسْمَ رَبِّکَ الْأَعْلَی ، اقْرَأْ بِاسْمِ رَبِّکَ، وَاللَّيْلِ إِذَا يَغْشَی) کے ساتھ نماز پڑھا کرو۔
عن أنس : أن النبي صلى الله عليه و سلم كان أخفّ الناس صلاة في تمام". (سنن النسائي، ماعلی الإمام من التخفیف،کتاب الصلاة، 1/132، ط:قدیمي کتب خانه کراچي)
حضرت انس سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تمام لوگوں سے ہلکی اور  کامل نماز پڑھا کرتے۔
والله ورسوله أعلم بالصواب 
کتبہ :- حضرت علامہ مولانا مفتی محمد مجيب قادری صاحب قبلہ مدظلہ العالیٰ النورانی لہان ١٨سرها نيبال. ٤/١٢/٢٠٢٠
الجواب صحيح ،قاضی نیپال، حضرت علامه مفتي محمد عثمان برکاتی مصباحی ، قاضی و مفتی مرکزی ادارہ شرعیہ کشمیری مسجد کاٹھمنڈو نیپال ۔۔

Post a Comment

0 Comments
* Please Don't Spam Here. All the Comments are Reviewed by Admin.

Top Post Ad

Below Post Ad

Ads Area