Type Here to Get Search Results !

دو دن قبل زید کے سگے چچا کا انتقال ہو گیا ہے اور زید کی شادی پہلے سے طے تھی پہلے سے سب کو دعوت ولیمہ دے دئے ہیں تو کیا اب وقت مقررہ پر شرعا نکاح کرنا جائز ہےیعنی دو دن بعد؟

 (سوال نمبر 2030)
دو دن قبل زید کے سگے چچا کا انتقال ہو گیا ہے اور زید کی شادی پہلے سے طے تھی پہلے سے سب کو دعوت ولیمہ دے دئے ہیں تو کیا اب وقت مقررہ پر شرعا نکاح کرنا جائز ہےیعنی دو دن بعد؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
السلام علیکم و رحمتہ اللہ و برکاتہ 
کیا فرماتے ھیں مفتیان کرام مسئلہ ذیل میں کہ 
زید کی شادی یعنی نکاح کی تاریخ ایک اجتماعی شادی کے پروگرام میں پہلے سے طئے شدہ تھا اب اس وقت مقررہ سے پہلے زید کے سگے چچا کا انتقال ہو ھو گیا ہے 
تو کیا زید کا نکاح سوگ کے دن میں (چچا کے انتقال کے دو دن بعد ) بغیر خوشی و اظہار زیب وزینت کر نا عند الشرع درست ہے ؟ جواب باحوالہ عنایت فر مائیں 
المستفتی:- سید محمد سلیم شاہ 'کچھ گجرات انڈیا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نحمده و نصلي على رسوله الأمين 
وعليكم السلام ورحمة الله وبركاته
الجواب بعونه تعالى عز وجل. 
اگر ممکن ہو تو شادی کو ٹال دے پر وقت مقررہ پر کرنے میں بھی شرعا کوئی قباحت نہیں ہے ۔
کیوں کہ بیوی کے علاوہ دیگر رشتے داروں کے انتقال پر سوگ تین دن مشروع ہے جو سنت مستحبہ ہے ۔اور بیوی کے لئے وفات شوہر پر سوگ منانا واجب ہے ۔
سوگ تین دن تک ہے ، تین دن کے بعد سوگ منانا جائز نہیں ، البتہ عورت عِدّت میں ہے تو عدت کے تمام دن عورت کے لئے سوگ کے ہیں ، ان دنوں میں عورت کو زیب و زینت اختیار کرنا منع ہے۔ عورت کے علاوہ دیگر گھر والے عید کے دن نئے کپڑے یا پُرانے کپڑوں میں سے جو عمدہ کپڑے ہیں وہ پہنیں ، عید منائیں اور مبارک باد پیش کرکے خوشی کا اظہار کریں۔ سوگ کے دن گزرجانے کے بعد پہلی عید پر سوگ یعنی غم منانا اور اس وجہ سے نئے کپڑے یا عمدہ کپڑے نہ پہننا گناہ ہے۔ جو لوگ ایسا کرتے ہیں یا ایسا کرنے کا کہتے ہیں ان کو توبہ کرنی چاہئے۔ (مدنی مذاکرہ ، 17رمضان المبارک1440ھ)
(مدنی مذاکرہ جون 2020 از ماہنامہ فیضان مدینہ)
حدیث پاک میں ہے 
شوہر کے علاوہ کسی کےانتقال کےبعد تین دن  سے زیادہ سوگ منانا بھی جائز نہیں۔ 
حدیث شریف میں ہے
عن زينب بنت أبي سلمة، قالت: لما جاء نعي أبي سفيان من الشأم، دعت أم حبيبة رضي الله عنها بصفرة في اليوم الثالث، فمسحت عارضيها، وذراعيها، وقالت: إني كنت عن هذا لغنية، لولا أني سمعت النبي صلى الله عليه وسلم يقول: «لايحل لامرأة تؤمن بالله واليوم الآخر، أن تحد على ميت فوق ثلاث، إلا على زوج، فإنها تحد عليه أربعة أشهر وعشراً». (البخاري ج:2 ص: 78)
حضرت زینب بنت ابی سلمہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ جب ام المؤمنین ام حبیبہ رضی اللہ عنہا کو ان کے والد حضرت ابو سفیان رضی اللہ عنہ کی وفات کی خبر شام سے پہنچی، تو حضرت ام حبیبہ رضی اللہ عنہا نے تیسرے دن زرد رنگ (جو بطورِ  خوش بوعورتیں استعمال کرتی تھیں) منگوایا، اور اپنے چہرے اور ہاتھوں پر لگایا، اور فرمایا: میں اس سے مستغنی ہوں، (یعنی مجھے بناؤ سنگھار کی ضرورت یا شوق نہیں ہے، اس لیے میں یہ کام نہ کرتی) اگر میں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے نہ سنا ہوتا کہ: اللہ اور آخرت پر ایمان رکھنے والی عورت کے لیے حلال نہیں ہے کہ وہ میت پر تین دن سے زیادہ سوگ کرے، سوائے شوہر کی وفات پر کہ اس میں چار ماہ دس دن سوگ منائے ۔
فتاوی ہندیہ میں ہے
و روى الحسن بن زیاد إذا عزى أهل المیت مرةً فلاینبغي أن یعزیه مرةً أخرى، كذا في المضمرات. و وقتها من حین یموت إلی ثلاثة أیام و یکره بعدها إلا أن یکون المعزى أو المعزى إلیه غائبًا فلا بأس به.
(هندیه ج:1 ص:167،کتاب الصلاة، الباب الحادي و العشرون، الفصل السادس )
واضح رہے کہ عدتِ وفات اور طلاق بائن کی عدت میں سوگ کاحکم ہے سوگ کے یہ معنی ہیں کہ عورت زینت کوترک کرے ۔اس کی تفصیل یہ ہے کہ اس دوران معتدہ  کسی قسم کے زیورات نہیں پہن سکتی۔ خوشبو کا استعمال کپڑے یا بدن پر نہیں کرسکتی۔ اسی طرح تیل سے بالوں کو سنوار نہیں سکتی نہ ہی آنکھوں میں سرمہ لگا سکتی ہے۔الغرض عدت کے دوران ہر طرح کی زینت اختیار کرنا ، ناجائز ہے  ، مگر یہ کہ ضرورت کی وجہ سے  ہو ،مثلاً سر میں تیل نہ لگانےکی وجہ سے درد ہو ، تو تیل لگانا یا آنکھوں میں درد ہو ، تو سرمہ لگانا یوں ہی سر میں درد کی وجہ سے موٹے دندان والی طرف سے کنگھی کرنا وغیرہ کی شرعاً اجازت ہے ۔ جیسا کہ معتمد کتبِ فقہ میں موجود ہے ۔
حدیث پاک میں ہے 
ام المو منین حضرت سیدتنا ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا جس عورت کا شوہر مر گیا ہے ، وہ نہ کُسُم کا رنگا ہوا کپڑا پہنے اور نہ گیرو کا رنگا ہوا اور نہ زیور پہنے اور نہ مہندی لگائے اور نہ سُرمہ ۔ (سنن ابوداود کتاب الطلاق باب فیما تجتنبہ۔۔۔ الخ،۲ / ۴۲۵، حدیث۲۳۰۴) (بہار شریعت،حصہ ۸، ۲ / ۲۴۱)
نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے شوہر کےعلاوہ دیگر رِشتہ داروں کے (اِنتقال پر) سوگ کےلیے تین دن مُقرَّر فرمائے ۔ 
(صحابۂ کرام کا عشقِ رسول صفحہ ۲۳۰) جبکہ بیوی اپنے شوہر کی وَفات پر عِدَّت کی مُدّت (چار مہینے دس دن) تک سوگ میں رہے گی ۔ اَلبتّہ کسی قریبی (رِشْتہ دار) کے مرجانے پر عورت کو تین دن تک سوگ کرنے کی اِجازت ہے اس سے زائد کی (اِجازت) نہیں ۔ (ردالمحتار کتاب الطلاق، فصل فی الحداد، جلد ۵ صفحہ ۲۲۳،چشتی)
تین دن سے زِیادہ سوگ مَنانے کی یہ رَسم زمانۂ جاہِلیَّت میں اگرچہ طویل عرصے سے رائج تھی لیکن جب نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اس سے منع فرمادیا، تو صحابیات رضی اللہ عنہن کا اس پرعمل کرنا مثالی تھا ۔چُنانچہ جب حضرت زینب بنتِ جحش رضی اللہ عنہا کے بھائی کا اِنتقال ہوگیا ، توچوتھے دن اُنہوں نے خوشبو لگائی اور کہا کہ مجھ کو خُوشبو کی ضرورت نہ تھی ، لیکن میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے مِنْبَر پر سُنا ہے کہ کسی مُسَلمان عورت کو شوہر کے سِوا تین دن سے زِیادہ کسی کا سوگ جائز نہیں اس لیے یہ اسی حکم کی تعمیل تھی ۔
(سنن ابی داود کتاب الطلاق باب احدادالمتوفی عنہا زوجھا، الحدیث:۲۲۹۹، ج۲،ص۴۲۲)
اسی طرح جب حضرت ام حبیبہ رضی اللہ عنہا کے والدکا  انتقال ہوا تو اُنہوں نے تین روز کے بعد اپنے رُخساروں پر خُوشبو ملی اور کہا مجھے اس کی ضرورت نہ تھی ، صرف اس حکم کی تعمیل مقصود تھی ۔ 
(سنن ابی داود،  کتاب الطلاق،باب احدادالمتوفی عنہا زوجھا الحدیث:۲۲۹۹، ج۲،ص۴۲۲)

مصنف بہار شریعت رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ 
میّت کے گھر والوں کو تین دن تک اس لیے بیٹھنا کہ لوگ آئیں اور تعزیت کر جائیں جائز ہے مگر ترک بہتر اور یہ اس وقت ہے کہ فروش اور دیگر آرائش نہ کرنا ہو ورنہ ناجائز ۔ یہ دس دن سوگ منانا آلتو فالتو باتیں کرنا صریح جہالت ہے لوگوں کو اس  سے بچنا چاہیے ۔ 
(بہار شریعت ج نمبر 1 ح چہارم ص 854،چشتی)
معلوم ہوا کہ صحابیات رضی اللہ عنہن اِطاعتِ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے جذبے سے سرشار اوردل وجاں سے اللہ اور اس کے پیارے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی اِطاعت گُزار تھیں ، وہیں یہ بھی معلوم ہوا کہ اسلام میں سوگ کی مُدّت تین دن ہے ، مگر جس عورت کا شوہر فوت ہوجائے تو وہ چار ماہ دس دن تک سوگ میں رہے گی ۔ عموماً دیکھا جاتا ہے کہ آج اگر کسی گھر میں میّت ہوجائے تو  افسوس صَد افسوس علمِ دین سے دُوری کے سبب بہت سے غیر شرعی کا موں کا اِرْتکاب کیا جاتا ہے ، جیسے نوحہ یعنی میِّت کے اَوصاف (خوبیاں) مُبالَغہ کے ساتھ (خُوب بڑھا چڑھا کر) بیان کر کے آواز سے رونا جس کو بَین (بھی) کہتے ہیں ، بِالاِ جماع حَرام ہے ۔ یُونہیں واوَیلا ، وَامُصِیْبَتَاہ (یعنی ہائے مُصیبت) کہہ کر چلّانا ، گَرِبیان پھاڑنا ، مُنہ نوچنا ، بال کھولنا ، سر پر خاک ڈالنا ، سینہ کُوٹنا ، ران پر ہاتھ مارنا یہ سب جاہِلیَّت کے کام ہیں اورحرام (ہیں اسی طرح) آواز سے رونا منع ہے ۔ (بہارشریعت ج ۱ ص ۸۵۴ ، ۸۵۵)
مذکورہ صورت میں معلوم ہوا کہ سوگ جو واجب ہے وفات شوہر پر بیوی کے لئے ہے سوگ سمیت چار ماہ دس دن باقی قریبی رشتہ داروں کو تین دن سوگ منا نا سنن مستحبہ ہے ۔
اور رہی بات تعزیت کی تو جو رشتے دار پہلے دن کر لئے دوسرے دن کرنا درست نہیں ہے ۔اگر تیسرے دن کر لئے تو پھر چوتھے دن درست نہیں ہے ۔ 
ہندیہ میں ہے إذا عزى أهل المیت مرةً فلاینبغي أن یعزیه مرةً أخرى، كذا في المضمرات۔
والله ورسوله اعلم بالصواب
_________(❤️)_________ 
کتبہ :- فقیہ العصر حضرت علامہ مولانا مفتی محمد مجيب قادری صاحب قبلہ مدظلہ العالیٰ النورانی لهان ١٨خادم دارالافتاء البركاتي علماء فاونديشن شرعي سوال و جواب ضلع سرها نيبال
١/٣/٢٠٢٢
تصدیق و تائیدات مفتیام کرام و علماء عظام
١/ حضرت مفتی ابو عطر عبد السلام برکاتی امجدی صاحب قبلہ  
٢/ شہاب ملت حضرت شہاب الدین صاحب قبلہ

Post a Comment

0 Comments
* Please Don't Spam Here. All the Comments are Reviewed by Admin.

Top Post Ad

Below Post Ad

Ads Area