(سوال نمبر 7010)
سر کے سفید بالوں کو کلر کرنا کیسا ہے؟
_________(❤️)_________
السلام علیکم و رحمة اللہ وبرکاتہ
کیا فرماتے ھیں علماۓ کرام و مفتیان عظام اس مسئلہ کے بارے میں سر کے سفید بالوں کو کلر کرنا کیسا ہے۔ اور کون سا رنگ لگانا جائز ہے تفصیلی کے ساتھ جواب عنایت فرمائیں
سائل:- محمد اعظم نواز برکاتی خوشحالپور بھاگلپور بہار انڈیا
_________(❤️)_________
نحمده ونشكره و نصلي علي رسوله الأمين الكريم
وعليكم السلام ورحمة الله وبركاته
الجواب بعونه تعالي عزوجل
مذکورہ صورت میں سرخ رنگ سے کلر کرنا سنت ہے پر
کسی بھی کلر سے سفید بالوں کو کلر کرنا جائز ہے ہاں خالص کالے رنگ کاخضاب لگاناجائز نہیں ہے
احادیثِ مبارکہ میں اس کی ممانعت اور سخت وعیدآئی ہے، صرف حالتِ جہاد میں دشمن کو مرعوب رکھنے اور اس کے سامنے جوانی اور طاقت کے اظہار کے لیے کالا خضاب استعمال کرنے کی اجازت دی گئی ہے۔
ابوداودشریف کی روایت میں ہے
حضرت عبداللہ ابن عباس رضی اللہ عنہماارشادفرماتے ہیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:آخری زمانہ میں کچھ لوگ ہوں گے جوسیاہ خضاب لگائیں گے،جیسے کبوترکاسینہ،ان لوگوں کوجنت کی خوشبو بھی نصیب نہ ہوگی۔
اس لئے خالص کالے رنگ کے علاوہ دیگر رنگوں کے خضاب لگانا جائز ہے۔
واضح رہے کہ یہی حکم آج کل بازار میں دست یاب بالوں کے جدید کلر رنگ کا بھی ہے یعنی خالص سیاہ کالا کلر بالوں پر لگانا ناجائز ہے جب کہ کالے رنگ کے علاوہ دوسرے کلر مثلاً خالص براؤن سیاہی مائل براؤن یا سرخ لال کلر لگانا جائز ہے۔
سنن النسائي میں ہے
أخبرنا عبد الرحمن بن عبيد الله الحلبي، عن عبيد الله وهو ابن عمرو، عن عبد الكريم، عن سعيد بن جبير، عن ابن عباس، رفعه أنه قال: «قوم يخضبون بهذا السواد آخر الزمان كحواصل الحمام، لايريحون رائحة الجنة»
(سنن النسائي (8/ 138)
صحيح مسلم میں ہے
وحدثني أبو الطاهر، أخبرنا عبد الله بن وهب، عن ابن جريج، عن أبي الزبير، عن جابر بن عبد الله، قال: أتي بأبي قحافة يوم فتح مكة ورأسه ولحيته كالثغامة بياضاً، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «غيروا هذا بشيء، واجتنبوا السواد»".
(صحيح مسلم (3/ 1663)
الفتاوى الهندية میں ہے
اتفق المشايخ رحمهم الله تعالى أن الخضاب في حق الرجال بالحمرة سنة وأنه من سيماء المسلمين وعلاماتهم وأما الخضاب بالسواد فمن فعل ذلك من الغزاة ليكون أهيب في عين العدو فهو محمود منه، اتفق عليه المشايخ رحمهم الله تعالى ومن فعل ذلك ليزين نفسه للنساء وليحبب نفسه إليهن فذلك مكروه وعليه عامة المشايخ۔
(الفتاوى الهندية (5/ 359)
والله ورسوله اعلم بالصواب
سر کے سفید بالوں کو کلر کرنا کیسا ہے؟
_________(❤️)_________
السلام علیکم و رحمة اللہ وبرکاتہ
کیا فرماتے ھیں علماۓ کرام و مفتیان عظام اس مسئلہ کے بارے میں سر کے سفید بالوں کو کلر کرنا کیسا ہے۔ اور کون سا رنگ لگانا جائز ہے تفصیلی کے ساتھ جواب عنایت فرمائیں
سائل:- محمد اعظم نواز برکاتی خوشحالپور بھاگلپور بہار انڈیا
_________(❤️)_________
نحمده ونشكره و نصلي علي رسوله الأمين الكريم
وعليكم السلام ورحمة الله وبركاته
الجواب بعونه تعالي عزوجل
مذکورہ صورت میں سرخ رنگ سے کلر کرنا سنت ہے پر
کسی بھی کلر سے سفید بالوں کو کلر کرنا جائز ہے ہاں خالص کالے رنگ کاخضاب لگاناجائز نہیں ہے
احادیثِ مبارکہ میں اس کی ممانعت اور سخت وعیدآئی ہے، صرف حالتِ جہاد میں دشمن کو مرعوب رکھنے اور اس کے سامنے جوانی اور طاقت کے اظہار کے لیے کالا خضاب استعمال کرنے کی اجازت دی گئی ہے۔
ابوداودشریف کی روایت میں ہے
حضرت عبداللہ ابن عباس رضی اللہ عنہماارشادفرماتے ہیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:آخری زمانہ میں کچھ لوگ ہوں گے جوسیاہ خضاب لگائیں گے،جیسے کبوترکاسینہ،ان لوگوں کوجنت کی خوشبو بھی نصیب نہ ہوگی۔
اس لئے خالص کالے رنگ کے علاوہ دیگر رنگوں کے خضاب لگانا جائز ہے۔
واضح رہے کہ یہی حکم آج کل بازار میں دست یاب بالوں کے جدید کلر رنگ کا بھی ہے یعنی خالص سیاہ کالا کلر بالوں پر لگانا ناجائز ہے جب کہ کالے رنگ کے علاوہ دوسرے کلر مثلاً خالص براؤن سیاہی مائل براؤن یا سرخ لال کلر لگانا جائز ہے۔
سنن النسائي میں ہے
أخبرنا عبد الرحمن بن عبيد الله الحلبي، عن عبيد الله وهو ابن عمرو، عن عبد الكريم، عن سعيد بن جبير، عن ابن عباس، رفعه أنه قال: «قوم يخضبون بهذا السواد آخر الزمان كحواصل الحمام، لايريحون رائحة الجنة»
(سنن النسائي (8/ 138)
صحيح مسلم میں ہے
وحدثني أبو الطاهر، أخبرنا عبد الله بن وهب، عن ابن جريج، عن أبي الزبير، عن جابر بن عبد الله، قال: أتي بأبي قحافة يوم فتح مكة ورأسه ولحيته كالثغامة بياضاً، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «غيروا هذا بشيء، واجتنبوا السواد»".
(صحيح مسلم (3/ 1663)
الفتاوى الهندية میں ہے
اتفق المشايخ رحمهم الله تعالى أن الخضاب في حق الرجال بالحمرة سنة وأنه من سيماء المسلمين وعلاماتهم وأما الخضاب بالسواد فمن فعل ذلك من الغزاة ليكون أهيب في عين العدو فهو محمود منه، اتفق عليه المشايخ رحمهم الله تعالى ومن فعل ذلك ليزين نفسه للنساء وليحبب نفسه إليهن فذلك مكروه وعليه عامة المشايخ۔
(الفتاوى الهندية (5/ 359)
والله ورسوله اعلم بالصواب
_________(❤️)_________
کتبہ :- فقیہ العصر حضرت علامہ مولانا مفتی محمد مجيب قادری صاحب قبلہ مدظلہ العالیٰ النورانی لهان ١٨خادم دارالافتاء البركاتي علماء فاونديشن شرعي سوال و جواب ضلع سرها نيبال
08/08/2023