(سوال نمبر 7009)
آن لائن بزنس اور جاب کرنا کیسا ہے؟ مکمل تفصیلی جواب
_________(❤️)_________
السلام علیکم و رحمتہ الله وبركاته
کیا فرماتے ہیں علمائے کرام و مفتیان عظام اس مسئلہ میں کے بارے میں کہ
آن لائن مارکیٹنگ یعنی بزنس کرنا جائز ہے یا نہیں؟
اسی طرح ان لائن جاب کرنا جائز ہے یا نہیں؟شرعی رہنمائی فرمائیں
سائلہ:- رمشہ عطاریہ گجرات پاکستان
_________(❤️)_________
نحمده ونشكره ونصلي على رسوله الأمين الكريم
وعليكم السلام ورحمة الله وبركاته
الجواب بعونه تعالي عزوجل
جو بزنس جو کام اور جاب زمینی سطح پر کرنا جائز ہے وہ آن لائن بھی جائز ہے جبکہ کوئی دیگر شرعی خرابی نہ ہو ۔اور احکام بیع و شراء پائے جاتے ہوں
آپ اپنے ویب سائٹ پر بزنس
کر سکتے ہیں اسی طرح آن لائن جاب منتھلی تنخواہ پر یا ٹائپنگ اکائونٹینگ وغیرہ وغیرہ کر سکتے ہیں اس کی اجرت اور اس کا منافع بھی جائز ہے ۔۔
آن لائن ایسا کام جس میں دھوکھا دھری شراب و خنزیر کا بیع و شراء فحش تصویری اشتہارات اور ایسا کام جس میں جوا شامل ہو یہ زمینی سطح پر بھی حرام ہے اور آن لائن بھی حرام ہے ۔
چونکہ موجودہ دور میں آن لائن سے بچنا مشکل ہے آپ سفر کریں ہوٹل میں جائیں سب آن لائن ہوں گے
الأصل إباحة الجائزة علی عمل مشروع سواء أکان دینیا أو دنیویا.(الموسوعة الفقہیة الکویتیة 15/ 77،صادر عن: وزارة الأوقاف والشئون الإسلامیة - الکویت)
پر یاد رہے خریدنے کے بعد جس چیز کو فروخت کرنا ہو،تو پہلےخرید کر خود یا اپنے وکیل کے ذریعے اس پرحقیقی یا حکمی قبضہ کر لے پھر فروخت کرے ،اگر خریدنے سے پہلے ہی بیچ دیا تو بیع ناجائز و باطل ہوگی کہ ایسی چیز کو بیچا جو ابھی اس کی ملکیت میں نہیں ہے اسی طرح منقولی چیز کو خریدنے کے بعد قبضہ کرنے سے پہلے بیچنا بھی ناجائز ہوتا ہے۔
بعض لوگ بزنس میں اس طرح کرتے ہیں کہ آن لائن پہلے بیچ دیتے ہیں کہ اس کی ملک یا اس کے پاس سامان نہیں ہوتا پھر آن لائن خرید کر اسے دیتا ہے یہ بیع و شراء جائز نہیں ہے
حدیث مبارکہ میں ہے حضرت حکیم بن حزام رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں میں نے رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم سے پوچھا قلت: يا رسول الله، يأتيني الرجل، فيسألني البيع ليس عندي أبيعه منه، ثم أبتاعه له من السوق، قال: ’’لا تبع ما ليس عندك
یعنی میں نے عرض کی یا رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ والہ وسلم میرے پاس ایک شخص آ کر ، اس چیز کو بیچنے کا کہتا ہے جو میرے پاس نہیں ہوتی، تو میں اس کو بیچ دیتا ہو ں، پھر میں اس کے لیے بازار سے خرید لیتا ہوں، تو نبی کریم صلی اللہ تعالی علیہ و الہ وسلم نے ارشاد فرمایا : جو چیز تیرے پاس نہیں اس کو نہ بیچ ۔ (سنن النسائی ،ج 7،ص 289،مكتبۃ المطبوعات الإسلامية،حلب)
بدائع الصنائع میں ہے
شرط انعقاد البيع للبائع أن يكون مملوكا للبائع عند البیع فإن لم يكن لا ينعقد، وإن ملكه بعد ذلك بوجه من الوجوه إلا السلم خاصة، وهذا بيع ما ليس عنده ، ونهى رسول اللہ صلى اللہ عليه وسلم عن بيع ما ليس عند الإنسان، ورخص في السلم ،۔۔ والمراد منه بيع ما ليس عنده ملكا؛ لأن قصة الحديث تدل عليه فإنه روي أن حكيم بن حزام كان يبيع الناس أشياء لا يملكها، ويأخذ الثمن منهم ثم يدخل السوق فيشتري، ويسلم إليهم فبلغ ذلك رسول اللہ صلى اللہ عليه وسلم ، فقال لا تبع ما ليس عندك
یعنی بیع منعقد ہونے کی شرط یہ ہے کہ چیز بیع کے وقت بائع کی ملکیت میں ہو،اگر اس کی ملکیت میں نہ ہو تو بیع منعقد نہیں ہوگی ،اگرچہ بعد میں کسی طریقے سے اس کا مالک ہو جائے ،سوائے سلم کے ، اوریہ اس چیز کو بیچنا ہے جو اس کے پاس نہیں ہے اور نبی کریم صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے اس چیز کو بیچنے سے منع فرمایا ہے، جو انسان کے پاس نہ ہو اور سلم میں رخصت دی ہے ، بیچنا اس کو جو اس کے پاس نہیں سے ،مراد ملک ہے کیونکہ حدیث کا قصہ اسی پر دلالت کرتا ہے ، حکیم بن حزام رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت کیا گیا ہے کہ وہ لوگوں کو وہ اشیا بیچ دیتے تھے جو ان کی ملک میں نہ ہوتیں اور ان سے ثمن لے لیتے پھر بازار جاتے اور وہ چیز خرید کر ان کے سپرد کر دیتے نبی کریم صلی اللہ تعالی علیہ و سلم کو اس معاملے کی جب خبر پہنچی، تو آپ نے فرمایا جو چیز تیرے پاس نہیں ہوتی اس کو نہ بیچ۔ (بدائع الصنائع، ج 5 ص 146،147، دار الکتب العلمیۃ،بیروت)
مسلم شریف میں ہے
قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم (من ابتاع طعاما فلا یبعہ حتی یقبضہ) قال ابن عباس وأحسب کل شیء بمنزلۃ الطعام ۔
رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے ارشادفرمایاکہ جو شخص غلہ خریدے تو اسے آگے نہ بیچے جب تک اس پرقبضہ نہ کرلے۔ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں : میں اس معاملے میں ہر چیز کوغلےکے درجہ میں شمار کرتا ہوں۔(صحیح مسلم،کتاب البیوع،ج 03،ص 1159،دار إحیاء التراث العربی،بیروت)
ایک دوسری حدیث میں ہے نھانا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم أن نبیعہ حتی ننقلہ من مکانہ
یعنی :صحابہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے ہمیں چیز کو خریدنے کے بعدجب تک اسے وہاں سے اٹھانہ لیں (یعنی قبضہ نہ کرلیں)آگے بیچنے سے منع فرمایا۔(صحیح مسلم،کتاب البیوع، ج 03،ص 1160،دار إحیاء التراث العربی ،بیروت)
محیط برہانی اور بنایہ شرح ہدایہ میں ہے
و النظم للاخر:بیع المنقول قبل القبض لایجوز بالإجماع‘‘ منقولی چیزکی قبضہ سے پہلے بیع بالاجماع ناجائز ہے ۔(البنایۃ شرح الھدایۃ،کتاب البیوع ،ج 8،ص 299،دار الکتب العلمیۃ ،بیروت)
یعنی آن لائن کاروبار میں اگر مبیع (جوچیزفروخت کی جارہی ہو) بیچنے والے کی ملکیت میں نہیں ہے اور وہ محض اشتہار ،تصویردکھلاکر کسی کو وہ سامان فروخت کرتا ہو (یعنی سودا کرتے وقت یوں کہے کہ فلاں چیز میں نے آپ کو اتنے میں بیچی وغیرہ) اور بعد میں وہ سامان کسی اور دکان اسٹوروغیرہ سے خرید کردیتا ہو تو یہ صورت بائع کی ملکیت میں مبیع موجود نہ ہونے کی وجہ سے جائز نہیں ہے اس لیے کہ جو چیز فروخت کرنا مقصود ہو وہ بائع کی ملکیت میں ہونا شرعاً ضروری ہوتا ہے۔
اس کے جواز کی صورتیں درج ذیل ہیں
١/ بائع مشتری سے یہ کہہ دے کہ یہ سامان میری ملکیت میں نہیں ، اگر آپ کو چاہیے تو میں اسے خرید کرآپ کو اتنی قیمت میں فروخت کرسکتاہوں، یوں بائع اس سامان کوخرید کر اپنے قبضہ میں لے کر باقاعدہ سودا کرکے مشتری کو فروخت کرے تو یہ درست ہے۔
٢/ آن لائن کام کرنے والا فرد یا کمپنی ایک فرد مشتری سے آرڈر لے اورمطلوبہ چیز کسی دوسرے فرد یا کمپنی سے لے کر خریدار تک پہنچائے اور اس عمل کی اجرت مقرر کرکے لے تو یہ بھی جائز ہے۔ یعنی بجائے اشیاء کی خرید وفروخت کے بروکری کی اجرت مقرر کرکے یہ معاملہ کرے۔
٣/ اگر مبیع بائع کی ملکیت میں موجود ہو اور تصویر دکھلا کر سودا کیا جا رہا ہو تو ایسی صورت میں بھی آن لائن خریداری شرعاً درست ہوگی۔ البتہ جواز کی ہر صورت میں خریدار کو مطلوبہ چیز ملنے کے بعد خیارِ رؤیت حاصل ہوگا، یعنی جب مبیع خریدار کو مل جائے تو دیکھنے کے بعد اس کی مطلوبہ شرائط کے مطابق نہ ہونے کی صورت میں اسےواپس کرنے کااختیار حاصل ہوگا۔
اگر مذکورہ جائز صورتوں میں سے کسی صورت کے مطابق فون یا موبائل یا کپڑے وغیرہ کی خرید وفروخت ہوئی ہو تو اس کا جواز ظاہر ہے اور اگر ممنوعہ صورت کے مطابق سودا ہوا تو ایسا سودا کینسل کرنے کا حکم ہے البتہ اگر سامان وغیرہ خریدار کے قبضے میں آچکا ہو اور اس نے قیمت بھی ادا کردی ہو تو اب خریدار کی ملکیت سامان وغیرہ پر ثابت ہوجائے گی آئندہ شرعی احکام کا لحاظ رکھ کر سودا کیا جائے
یاد رہے کہ کرنسی سونا اور چاندی کی آن لائن خرید و فروخت شرعاً درست نہیں ہے کیوں کہ ان اشیاء کی بیع درست ہونے کے لیے ضروری ہے کہ ہاتھ در ہاتھ ہو اور مجلسِ عقد میں جانبین سے عوضین پر قبضہ پایا جائے۔
والله ورسوله اعلم بالصواب
آن لائن بزنس اور جاب کرنا کیسا ہے؟ مکمل تفصیلی جواب
_________(❤️)_________
السلام علیکم و رحمتہ الله وبركاته
کیا فرماتے ہیں علمائے کرام و مفتیان عظام اس مسئلہ میں کے بارے میں کہ
آن لائن مارکیٹنگ یعنی بزنس کرنا جائز ہے یا نہیں؟
اسی طرح ان لائن جاب کرنا جائز ہے یا نہیں؟شرعی رہنمائی فرمائیں
سائلہ:- رمشہ عطاریہ گجرات پاکستان
_________(❤️)_________
نحمده ونشكره ونصلي على رسوله الأمين الكريم
وعليكم السلام ورحمة الله وبركاته
الجواب بعونه تعالي عزوجل
جو بزنس جو کام اور جاب زمینی سطح پر کرنا جائز ہے وہ آن لائن بھی جائز ہے جبکہ کوئی دیگر شرعی خرابی نہ ہو ۔اور احکام بیع و شراء پائے جاتے ہوں
آپ اپنے ویب سائٹ پر بزنس
کر سکتے ہیں اسی طرح آن لائن جاب منتھلی تنخواہ پر یا ٹائپنگ اکائونٹینگ وغیرہ وغیرہ کر سکتے ہیں اس کی اجرت اور اس کا منافع بھی جائز ہے ۔۔
آن لائن ایسا کام جس میں دھوکھا دھری شراب و خنزیر کا بیع و شراء فحش تصویری اشتہارات اور ایسا کام جس میں جوا شامل ہو یہ زمینی سطح پر بھی حرام ہے اور آن لائن بھی حرام ہے ۔
چونکہ موجودہ دور میں آن لائن سے بچنا مشکل ہے آپ سفر کریں ہوٹل میں جائیں سب آن لائن ہوں گے
الأصل إباحة الجائزة علی عمل مشروع سواء أکان دینیا أو دنیویا.(الموسوعة الفقہیة الکویتیة 15/ 77،صادر عن: وزارة الأوقاف والشئون الإسلامیة - الکویت)
پر یاد رہے خریدنے کے بعد جس چیز کو فروخت کرنا ہو،تو پہلےخرید کر خود یا اپنے وکیل کے ذریعے اس پرحقیقی یا حکمی قبضہ کر لے پھر فروخت کرے ،اگر خریدنے سے پہلے ہی بیچ دیا تو بیع ناجائز و باطل ہوگی کہ ایسی چیز کو بیچا جو ابھی اس کی ملکیت میں نہیں ہے اسی طرح منقولی چیز کو خریدنے کے بعد قبضہ کرنے سے پہلے بیچنا بھی ناجائز ہوتا ہے۔
بعض لوگ بزنس میں اس طرح کرتے ہیں کہ آن لائن پہلے بیچ دیتے ہیں کہ اس کی ملک یا اس کے پاس سامان نہیں ہوتا پھر آن لائن خرید کر اسے دیتا ہے یہ بیع و شراء جائز نہیں ہے
حدیث مبارکہ میں ہے حضرت حکیم بن حزام رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں میں نے رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم سے پوچھا قلت: يا رسول الله، يأتيني الرجل، فيسألني البيع ليس عندي أبيعه منه، ثم أبتاعه له من السوق، قال: ’’لا تبع ما ليس عندك
یعنی میں نے عرض کی یا رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ والہ وسلم میرے پاس ایک شخص آ کر ، اس چیز کو بیچنے کا کہتا ہے جو میرے پاس نہیں ہوتی، تو میں اس کو بیچ دیتا ہو ں، پھر میں اس کے لیے بازار سے خرید لیتا ہوں، تو نبی کریم صلی اللہ تعالی علیہ و الہ وسلم نے ارشاد فرمایا : جو چیز تیرے پاس نہیں اس کو نہ بیچ ۔ (سنن النسائی ،ج 7،ص 289،مكتبۃ المطبوعات الإسلامية،حلب)
بدائع الصنائع میں ہے
شرط انعقاد البيع للبائع أن يكون مملوكا للبائع عند البیع فإن لم يكن لا ينعقد، وإن ملكه بعد ذلك بوجه من الوجوه إلا السلم خاصة، وهذا بيع ما ليس عنده ، ونهى رسول اللہ صلى اللہ عليه وسلم عن بيع ما ليس عند الإنسان، ورخص في السلم ،۔۔ والمراد منه بيع ما ليس عنده ملكا؛ لأن قصة الحديث تدل عليه فإنه روي أن حكيم بن حزام كان يبيع الناس أشياء لا يملكها، ويأخذ الثمن منهم ثم يدخل السوق فيشتري، ويسلم إليهم فبلغ ذلك رسول اللہ صلى اللہ عليه وسلم ، فقال لا تبع ما ليس عندك
یعنی بیع منعقد ہونے کی شرط یہ ہے کہ چیز بیع کے وقت بائع کی ملکیت میں ہو،اگر اس کی ملکیت میں نہ ہو تو بیع منعقد نہیں ہوگی ،اگرچہ بعد میں کسی طریقے سے اس کا مالک ہو جائے ،سوائے سلم کے ، اوریہ اس چیز کو بیچنا ہے جو اس کے پاس نہیں ہے اور نبی کریم صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے اس چیز کو بیچنے سے منع فرمایا ہے، جو انسان کے پاس نہ ہو اور سلم میں رخصت دی ہے ، بیچنا اس کو جو اس کے پاس نہیں سے ،مراد ملک ہے کیونکہ حدیث کا قصہ اسی پر دلالت کرتا ہے ، حکیم بن حزام رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت کیا گیا ہے کہ وہ لوگوں کو وہ اشیا بیچ دیتے تھے جو ان کی ملک میں نہ ہوتیں اور ان سے ثمن لے لیتے پھر بازار جاتے اور وہ چیز خرید کر ان کے سپرد کر دیتے نبی کریم صلی اللہ تعالی علیہ و سلم کو اس معاملے کی جب خبر پہنچی، تو آپ نے فرمایا جو چیز تیرے پاس نہیں ہوتی اس کو نہ بیچ۔ (بدائع الصنائع، ج 5 ص 146،147، دار الکتب العلمیۃ،بیروت)
مسلم شریف میں ہے
قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم (من ابتاع طعاما فلا یبعہ حتی یقبضہ) قال ابن عباس وأحسب کل شیء بمنزلۃ الطعام ۔
رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے ارشادفرمایاکہ جو شخص غلہ خریدے تو اسے آگے نہ بیچے جب تک اس پرقبضہ نہ کرلے۔ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں : میں اس معاملے میں ہر چیز کوغلےکے درجہ میں شمار کرتا ہوں۔(صحیح مسلم،کتاب البیوع،ج 03،ص 1159،دار إحیاء التراث العربی،بیروت)
ایک دوسری حدیث میں ہے نھانا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم أن نبیعہ حتی ننقلہ من مکانہ
یعنی :صحابہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے ہمیں چیز کو خریدنے کے بعدجب تک اسے وہاں سے اٹھانہ لیں (یعنی قبضہ نہ کرلیں)آگے بیچنے سے منع فرمایا۔(صحیح مسلم،کتاب البیوع، ج 03،ص 1160،دار إحیاء التراث العربی ،بیروت)
محیط برہانی اور بنایہ شرح ہدایہ میں ہے
و النظم للاخر:بیع المنقول قبل القبض لایجوز بالإجماع‘‘ منقولی چیزکی قبضہ سے پہلے بیع بالاجماع ناجائز ہے ۔(البنایۃ شرح الھدایۃ،کتاب البیوع ،ج 8،ص 299،دار الکتب العلمیۃ ،بیروت)
یعنی آن لائن کاروبار میں اگر مبیع (جوچیزفروخت کی جارہی ہو) بیچنے والے کی ملکیت میں نہیں ہے اور وہ محض اشتہار ،تصویردکھلاکر کسی کو وہ سامان فروخت کرتا ہو (یعنی سودا کرتے وقت یوں کہے کہ فلاں چیز میں نے آپ کو اتنے میں بیچی وغیرہ) اور بعد میں وہ سامان کسی اور دکان اسٹوروغیرہ سے خرید کردیتا ہو تو یہ صورت بائع کی ملکیت میں مبیع موجود نہ ہونے کی وجہ سے جائز نہیں ہے اس لیے کہ جو چیز فروخت کرنا مقصود ہو وہ بائع کی ملکیت میں ہونا شرعاً ضروری ہوتا ہے۔
اس کے جواز کی صورتیں درج ذیل ہیں
١/ بائع مشتری سے یہ کہہ دے کہ یہ سامان میری ملکیت میں نہیں ، اگر آپ کو چاہیے تو میں اسے خرید کرآپ کو اتنی قیمت میں فروخت کرسکتاہوں، یوں بائع اس سامان کوخرید کر اپنے قبضہ میں لے کر باقاعدہ سودا کرکے مشتری کو فروخت کرے تو یہ درست ہے۔
٢/ آن لائن کام کرنے والا فرد یا کمپنی ایک فرد مشتری سے آرڈر لے اورمطلوبہ چیز کسی دوسرے فرد یا کمپنی سے لے کر خریدار تک پہنچائے اور اس عمل کی اجرت مقرر کرکے لے تو یہ بھی جائز ہے۔ یعنی بجائے اشیاء کی خرید وفروخت کے بروکری کی اجرت مقرر کرکے یہ معاملہ کرے۔
٣/ اگر مبیع بائع کی ملکیت میں موجود ہو اور تصویر دکھلا کر سودا کیا جا رہا ہو تو ایسی صورت میں بھی آن لائن خریداری شرعاً درست ہوگی۔ البتہ جواز کی ہر صورت میں خریدار کو مطلوبہ چیز ملنے کے بعد خیارِ رؤیت حاصل ہوگا، یعنی جب مبیع خریدار کو مل جائے تو دیکھنے کے بعد اس کی مطلوبہ شرائط کے مطابق نہ ہونے کی صورت میں اسےواپس کرنے کااختیار حاصل ہوگا۔
اگر مذکورہ جائز صورتوں میں سے کسی صورت کے مطابق فون یا موبائل یا کپڑے وغیرہ کی خرید وفروخت ہوئی ہو تو اس کا جواز ظاہر ہے اور اگر ممنوعہ صورت کے مطابق سودا ہوا تو ایسا سودا کینسل کرنے کا حکم ہے البتہ اگر سامان وغیرہ خریدار کے قبضے میں آچکا ہو اور اس نے قیمت بھی ادا کردی ہو تو اب خریدار کی ملکیت سامان وغیرہ پر ثابت ہوجائے گی آئندہ شرعی احکام کا لحاظ رکھ کر سودا کیا جائے
یاد رہے کہ کرنسی سونا اور چاندی کی آن لائن خرید و فروخت شرعاً درست نہیں ہے کیوں کہ ان اشیاء کی بیع درست ہونے کے لیے ضروری ہے کہ ہاتھ در ہاتھ ہو اور مجلسِ عقد میں جانبین سے عوضین پر قبضہ پایا جائے۔
والله ورسوله اعلم بالصواب
_________(❤️)_________
کتبہ :- فقیہ العصر حضرت علامہ مولانا مفتی محمد مجيب قادری صاحب قبلہ مدظلہ العالیٰ النورانی لهان ١٨خادم دارالافتاء البركاتي علماء فاونديشن شرعي سوال و جواب ضلع سرها نيبال
08/08/2023