Type Here to Get Search Results !

جس امام سے لوگ ناراض ہوں تو ان کی امامت کا شرعی حکم کیا ہے؟


 
جس امام سے لوگ ناراض ہوں تو ان کی امامت کا شرعی حکم کیا ہے؟
✦•••••••••••••✦❀✦•••••••••••••✦
اَلسَلامُ عَلَيْكُم وَرَحْمَةُ اَللهِ وَبَرَكاتُهُ‎
کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین مسئلہ ذیل کے بارے میں کہ  زید مسجد کا امام ہے جس سے بہت سارے نمازی اسکے قول فعل کی وجہ سے خفا ہے اسکے پیچھے نماز نہیں پڑھتے ہیں امام صاحب محلہ کو دو بھاگ میں کردیۓ ہیں   
تو کیا ایسی صورت میں زید کو اس مسجد میں امامت کرنا یا ایسے امام کے پیچھے نماز پڑھنا جائز ہے حوالہ کے ساتھ قران و حدیث سے جواب مرحمت فرماۓ   
سائل:- محمد افتاب عالم حبیبی جامع مسجد باگ کھال رشڑا ویسٹ ضلع ہوگلی کلکتہ بنگال
✦•••••••••••••✦❀✦•••••••••••••✦
وعلیکم السلام و رحمۃ اللہ وبرکاتہ 
الجواب بعون الملک الوہاب
صورت مسئولہ اس شخص امام بننا جائز نہیں اور اسے امام بنانا بھی جائز نہیں اور کوئی بنایا تو وہ گنہگار ہوگا
اگر کسی شخص نے قوم کی امامت کی حالانکہ وہ لوگ اسے ناپسند کرتے ہوں تو اس کی تین صورتیں ہیں۔
(1) اگر کراہت اس خود امام میں فساد کی وجہ سے ہو 
(2):یا دوسرے لوگ اس سے امامت کے زیادہ حقدار اور لائق ہوں تو اس کا امام بننا مکروہ ہے
(3) اور اگر وہ امام ہی دوسروں سے زیادہ لائق امامت ہو اور بذات خود اس میں کوئی فساد نہ ہو اس کے باوجود لوگ ناپسند کرتے ہوں تو اس کا امام ہونا مکروہ نہیں کیونکہ جاہل اور فاسق عالم اور صالح افراد کو ناپسند کرتے ہیں ۔
اول و دوم میں اس کو امام بننا مکروہ تحریمی ہے کیونکہ اس شخص کو امام بننا جائز نہیں اور اگر پھر بھی بنا تو اس کی نماز ثواب سے خالی رہے گی
 اس کو امام نہ بننا کئی وجوہات کی وجہ سے ہے
(1) اول وجہ یہ ہے کہ۔کچھ لوگ اس کی امامت سے خوش نہیں ہے یعنی لوگوں کی نگاہ میں عام طور پر اس کا فعل اچھا نہیں قابل نفرت ہے ۔اس صورت میں اس کی امامت باعث تقلیل جماعت ہوگا کہ مقاصد شرع کے خلاف ہے مثلا اگر وہ لوگوں میں عام طور پر زانی مشہور ہو یا خائن مشہور ہو یعنی وہ فعل جو شرعاً و عقلا اور اخلاقا بہتر نہ ہو اس فعل سے وہ مشہور ہو ایسے کو امام بنانے سے احتراز چایئے اور نہ خود وہ امام بنے 
(2) دوسری وجہ کہ اس سے زیادہ علم والے وہاں موجود ہے امام احمد رضا خان قادری بریلوی قدس سرہ العزیز فرماتے ہیں کہ اس شخص کا امام بننا جائز نہیں اگر امامت کرے گا تو گنہگار ہوگا کہ جب لوگ کی امامت اس وجہ سے ناپسند رکھتے ہیں کہ اس سے زیادہ علم والے موجود ہیں تو اسے امامت کرنا شرعاً منع ہے ۔درمختار میں ہے کہ ۔لوام قوما وھم لہ کارھون ان الکراھۃ لفسادفیہ اولا انھم احق بالامامۃ منھ کرہ لہ ذالک تحریما 
یعنی اگر کسی نے کسی قوم کی امامت کی حالانکہ وہ قوم اسے ناپسند کرتی ہو خود اس میں فساد کی وجہ سے کراہت ہو یا اس لئے کہ دیگر لوگ فاسق سے زیادہ امامت کے اہل تھے اس صورت میں فاسق کا امام بننا مکروہ تحریمی ہے
( درمختار ۔باب الامامۃ ۔جلد اول ص 83)
 یعنی اگر کوئی کسی قوم کا امام بنا حالانکہ وہ لوگ اس کو برا جانتے ہیں تو اگر ان کی نفرت امام کے اندر کسی خرابی کی وجہ سے ہے ( مثلا نہ حافظ قرآن ہے نہ مسائل ضروریہ کا جانکار کیونکہ فتاوی رضویہ جلد جدید ششم ص 523 میں ہے کہ نماز کے مسائل ضروریہ کا نہ جاننا بھی فسق ہے اور نہ صحیح تلفظ سے قرآن شریف پڑھتا ہو ۔فاسق یعنی علانیہ گناہ کبیرہ کرنے والا یا پوشیدہ گناہ کبیرہ کرنے والا ۔مسلمانوں سے عداوت رکھنے والا ۔یا مسلمانوں میں پھوٹ ڈالنے والا ۔یا فحش گو ہو ۔گالی گلوج کرنے والا ہو یا کسی کا حق مارنے والا ہو ۔وغیرہ ) یا اس وجہ سے کہ دوسرا عالم بنسبت امام مذکور کے امامت کے زیادہ مستحق ہیں (یعنی اس سے صحیح قرآن پڑھنے والا ہو یا اس سے زیادہ تقوی والا ہو ۔وغیرہ) تو اس شخص کا امام ہونا مکروہ تحریمی ہے حدیث شریف میں ہے
ان سر کم ان تقبل صلوتکم فلیومکم علماو کم
یعنی اگر تمہیں اپنی نماز مقبول ہونا منظور ہے تو چاہئے کہ تمہارے علماء تمہاری امامت کریں (مجمع الزوائد۔جلد دوم 64)
  کیا وہ شخص جس کی جہل کے باعث اکثر نمازی اس کی امامت سے ناراض ہیں ان سخت وعیدوں سے خوف نہیں کرتا جو ایسے امام کے حق میں آئے ہیں
حضور صلی اللّٰہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں
ثلثۃ لا یقبل اللّٰہ منھم صلوۃ من تقدم قوما وھم لہ کارھون
 یعنی تین شخص ہیں جن کی نماز اللہ تعالیٰ قبول نہیں فرماتا ایک وہ جو لوگوں کی امامت کرے اور وہ اسے نا پسند رکھتے ہوں 
دوسری حدیث میں ہے کہ 
من ام قوما وفیھم اقراء لکتاب اللہ منھ اعلم کم یزل فی سفال الی یوم القیامۃ
یعنی جو کسی قوم کی امامت کرے اور ان میں وہ شخص موجود ہو جو اس سے زیادہ قاری قرآن (صحیح قرآن پڑھنے والا نہ کہ حافظ قرآن ) و ذی علم ہے (یعنی اس سے مسائل میں زیادہ علم رکھنے والا ہو)وہ قیامت تک پستی و خواری میں رہے گا۔
(فتاوی رضویہ جلد جدید ششم ص385.386) 
تیسری حدیث میں ہے کہ 
ثلثۃ لاترفع صلاتھم فوق روسھم شبرا رجل ام قوما وھم لہ کارھون والمراۃ باتت وزوجھا علیھا ساخط واخوان متصارمان (ابن ماجہ شریف)
 یعنی تین آدمیوں کی نماز ان کے سروں سے ایک بالشت برابر اوپر نہیں اٹھائی جاتی ۔ایک وہ شخص جو قوم کا امام بنے مگر لوگ اسے پسند نہ کرتے ہوں 
۔ایک وہ عورت جو اس حال میں رات بسر کرے کہ اس کا خاوند اس پر ناراض ہو اور دو بھائی جو آپس میں جھگڑا کرنے والے ہوں 
ایک اور حدیث شریف میں ہے کہ
ایما رجلا ام قوما وھم کارھون لم تجز صلاتہ اذنہ
یعنی جو شخص بھی قوم کا امام بنے حالانکہ وہ اسے ناپسند کرتے ہوں تو اس کی نماز کانوں سے اوپر نہیں جاتی (طبرانی شریف ) 
ایک اور حدیث شریف میں ہے کہ
ثلثۃ لا یقبل اللّٰہ منھم صلاۃ ۔ولا تصعد الی السماء ۔ولا تجاوز روسھم رجل ام قوما وھم لہ کارھون ورجل صلی علی جنازۃ ولم یؤمر والمراۃ دعاھا زوجھا من اللیل فابت علیہ
یعنی تین افراد کی نماز اللہ تعالیٰ قبول نہیں فرماتا نہ وہ آسمان کی طرف چڑھتی ہے اور نہ ان کے سروں سے بلند ہوتی ہے
(1) ایک وہ شخص جو قوم کا امام بنے حالانکہ وہ اسے پسند نہ کرتے ہوں۔
(2) دوسرا وہ شخص جو جنازہ پڑھائے حالانکہ اسے اجازت نہ دی گئی ہو 
(3) تیسری وہ عورت جسے رات کو خاوند طلب کرے تو وہ انکار کردے (ابن خزیمہ ) 
ان تمام احادیث شریف سے واضح ہوا کہ جس امام کو قوم پسند نہ کرتے ہوں وہ امام نہ بنے کیونکہ ایسے امام کی نماز 
(1) آسمان کی طرف نہ چڑھتی ہے 
(2) اور ایسی نماز نہ ان کے سروں سے بلند ہوتی ہے
(3) اور نہ ایسی نماز کو اللہ تعالیٰ قبول فرماتا ہے
(4):ایسی نماز ان کے سروں سے ایک بالشت برابر اوپر نہیں اٹھائی جاتی 
(5) ایسی نماز کانوں کے اوپر نہیں جاتی 
(6) ایسی نماز پر کوئی ثواب نہیں 
(7) جسے لوگ پسند نہیں کرتے اس کی امامت کی وجہ سے جماعت میں کمی آجائے گی ۔جبکہ تکثیر جماعت شرع کو مطلوب ہے اسی واسطے جن کی امامت میں احتمال لوگوں کی قلت رغبت وکمی جماعت کا تھا ان امام کی اقتداء مکروہ ٹھہری کیونکہ جو اس امام کے حال سے آگاہ ہوتا جائے نماز چھوڑتا جائے اس کی امامت شرع کو کیونکر پسند آئے گی البحر الرائق میں ہے کہ
کراہت کی وجہ یہ ہے کہ ان کی اقتداء کی رغبت لوگوں میں کم پائی جاتی ہے اس وجہ سے جماعت میں حاضری کم لوگوں کی ہوگی حالانکہ کثرت اجر کے پیش نظر جماعت میں کثیر افراد کی حاضری مطلوب ہے (فتاوی رضویہ جلد جدید ششم ص 448) 
 لہذا امام صاحب ان سخت وعیدوں سے خوف نہیں کرتا اور زبردستی پارٹی بناکر امامت کرتا ہے پس ان وعیدوں سے خوف کرکے فورا امامت سے الگ ہوجائیں   
 ۔اگر قوم کی کراہت شرعی عذر کے بغیر ہو جیسا کہ صالح اور عالم کی امامت کے آپ بعض دنیاوی تنازعے کی وجہ سے مکروہ سمجھتے ہوں یا غلام ۔نابینا وغیرہ کی امامت کو مکروہ سمجھتے ہو حالانکہ وہ قوم سے افضل ہوں۔تو ایسی صورت میں وہ قوم کی اپنی ناپاسندگی کو کوئی معنی نہیں رکھتی لہذا ان افراد کی امامت میں وہ اثر انداز نہ ہوگی ۔
اگر کراہت کسی شرعی عذر سے ہو مثلا امام فاسق یا مسلمانوں کو دو پارٹیوں میں باٹنے والا یا غیبت کرنے والا یا دنیاوی سیاسی میں حصہ کے کر جھوٹ بولنے والے یا بدعتی ہو یا چار مذکورہ افراد غلام ۔اعرابی ۔ولدالزنا اور نابینا دوسرے سے افضل و اعلم نہ ہو ۔یا قوم میں ایسا شخص موجود ہو جس میں شرعی ترجیحات ہوں ۔
مثلا علم زیادہ رکھتا ہے جو
تجوید و قرات کا ماہر ہے تو یہ خود امامت کے زیادہ لائق اور حقدار ہے ایسی صورت میں جس شخص کو امام بنانا مکروہ جانے اس شخص کو امام بننا ۔ ممنوع و مکروہ تحریمی ہے اگر اس کے فسق کی وجہ سے بھی لوگ اس کو امام بنانا پسند نہیں کرتے تو اسے امام بننا یا بنانا جائز نہیں ہے اس کی اور مقتدیوں کی نماز کو اللہ تعالیٰ قبول نہیں فرماتا ہے اسے امامت سے ہٹ جانا چاہیئے اور لوگوں کو بھی اسے بحال نہیں کرنا چاہئے اور جب امام صاحب مسلمانوں کے درمیان پھوٹ ڈالتا ہے تو یہ فسق ہے اسے امامت سے فورا ہٹا دیا جائے چونکہ درمختار کے حوالہ سے اوپر گزرا کہ اگر کوئی کسی قوم کا امام بنا حالانکہ وہ لوگ اس کو برا جانتے ہیں تو اگر ان کی نفرت امام کے اندر کسی خرابی کی وجہ سے ہے تو اس شخص کو امام ہونا مکروہ تحریمی ہے  
نابینا کی امامت:-
نابینا مثلا جو قوم سے زیادہ عالم نہ ہو اور قوم اس کے تقدم پر راضی نہ ہو تو اس کا امام بننا مکروہ تحریمی ہوگا اور اس کے پیچھے نماز مکروہ تنزییی ہوگی ۔اگر قوم اس کے تقدم پر راضی ہو تو پہلی کراہت ساقط اور دوسری باقی رہے گی۔
(فتاوی رضویہ جلد جدید چھ ص 475) 
یعنی اگر نابینا کی امامت سے لوگ خوش نہ ہوں تو اس نابینا کو امام بننا مکروہ تحریمی ہوگا اور اگر امام بن کر نماز پڑھایا تو نماز مکروہ تنزییی ہوگی اور اگر لوگ اس سے راضی ہے کہ یہی امام رہے گا تو پھر اس کی امامت مکروہ تحریمی نہیں ہوگی مگر نماز مکروہ تنزییی ضرور ہوگی
الحاصل کہ کوئی شخص خود بخود لوگوں کی نفرت کے باوجود آگے بڑھے یعنی امام بنے اور لوگوں کو اپنی اقتداء میں نماز ادا کرنے پر مجبور کرے تو اس صورت پر مکروہ تحریمی کا حکم لگایا جائے گا یعنی اس امام کو ایسا کرنا جائز نہیں وہ لوگوں کی پسند اور ناپسند اور ان وعیدوں کا خیال رکھنا ضروری ہے 
واللہ اعلم باالصواب
_________(❤️)_________ 
کتبہ :- حضرت علامہ مولانا مفتی محمد ثناء اللہ خان ثناء القادری
صاحب قبلہ مدظلہ العالیٰ النورانی مرپاوی سیتا مڑھی بہار 
1/5/1445
16/11/2023

Post a Comment

0 Comments
* Please Don't Spam Here. All the Comments are Reviewed by Admin.

Top Post Ad

Below Post Ad

Ads Area