سلسلہ وار قسط چہارم
◆ــــــــــــــــــــ۩۞۩ـــــــــــــــــــــ◆
(1) مدرسہ کھولنا اور اس میں دینی تعلیم دنیا یا مدرسہ میں جاگیری بچے رکھ لینا اس بات پر دلالت نہیں ہے کہ بغیر حیلہ شرعی کے صدقات واجبہ یا غلے خرچ کرنا جائز ہے
(2) اور بغیر ضرورت اور حاجت کے حیلہ شرعی کا سہارا لینا بھی درست نہیں ہے
(3) صرف اسی مدرسہ میں حیلہ شرعی کی اجازت ہے جو دینیہ ہو اہل سنت و جماعت کا ہو اور دنیاوی کاموں میں خرچ کرنے کے لئے حیلہ شرعی کا سہارا لینا جائز نہیں ہے جیسے اسکول۔
(1) مدرسہ کھولنا اور اس میں دینی تعلیم دنیا یا مدرسہ میں جاگیری بچے رکھ لینا اس بات پر دلالت نہیں ہے کہ بغیر حیلہ شرعی کے صدقات واجبہ یا غلے خرچ کرنا جائز ہے
(2) اور بغیر ضرورت اور حاجت کے حیلہ شرعی کا سہارا لینا بھی درست نہیں ہے
(3) صرف اسی مدرسہ میں حیلہ شرعی کی اجازت ہے جو دینیہ ہو اہل سنت و جماعت کا ہو اور دنیاوی کاموں میں خرچ کرنے کے لئے حیلہ شرعی کا سہارا لینا جائز نہیں ہے جیسے اسکول۔
(1) حاجت و ضرورت کی تعریف کیا ہے ؟
(2) علم دین سے کیا مراد ہے ؟
(3) جس مدرسہ میں مطبخ چل رہا ہے وہاں زکوہ عشرہ اور صدقہ فطر میں جو چاول ۔گیہوں ۔سبزی۔ دال آثا وغیرہ غلے لوگ دیتے ہیں اور باورچی ان غلے سے بغیر حیلہ شرعی کے بچوں و مدرسین اور ملازمین کے لئے کھانا بناتے ہیں اور اراکین یا مدرسین منع نہیں کرتے ہیں بلکہ مدرسین بخوشی کھانا بھی کھاتے ہیں کیا یہ صورت جائز ہے ؟
(1) یہ دستور آرہا ہے کہ آجناس غلہ اسٹور میں جمع رہتا ہے اسی میں سے باورچی کھانا بناتا ہے حیلہ شرعی اجناس کانہیں کیا جاتا ہے
(2)کیا مدرسین اور جاگیری بچے کے کھانے کے لئےاجناس کا بھی حیلہ شرعی کیا جائے گا ؟
(2) علم دین سے کیا مراد ہے ؟
(3) جس مدرسہ میں مطبخ چل رہا ہے وہاں زکوہ عشرہ اور صدقہ فطر میں جو چاول ۔گیہوں ۔سبزی۔ دال آثا وغیرہ غلے لوگ دیتے ہیں اور باورچی ان غلے سے بغیر حیلہ شرعی کے بچوں و مدرسین اور ملازمین کے لئے کھانا بناتے ہیں اور اراکین یا مدرسین منع نہیں کرتے ہیں بلکہ مدرسین بخوشی کھانا بھی کھاتے ہیں کیا یہ صورت جائز ہے ؟
(1) یہ دستور آرہا ہے کہ آجناس غلہ اسٹور میں جمع رہتا ہے اسی میں سے باورچی کھانا بناتا ہے حیلہ شرعی اجناس کانہیں کیا جاتا ہے
(2)کیا مدرسین اور جاگیری بچے کے کھانے کے لئےاجناس کا بھی حیلہ شرعی کیا جائے گا ؟
••────────••⊰۩۞۩⊱••───────••
الجواب (1)
خیال رہے کہ حیلہ شرعی کے لئے تین چیزیں لازم ہے
/1/حاجت /2/ضرورت/3/تملیک/
حاجت کی تعریف امام اہلسنت مجدداعظم امام احمد رضا خان بریلوی رضی اللہ تعالیٰ عنہ ارشاد فرماتے ہیں کہ حاجت یہ ہے کہ حرج ومشقت میں پڑے مثلا جیسے معثیت کے لئے چراغ /یعنی روشنی کا انتظام /کہ موقوف علیہ نہیں ۔ابتدایے زمانہ رسالت علی صاحبھا افضل الصلاۂ والتحیۃ میں ان مبارک مقدس کا شانوں میں چراغ نہ ہوتا ۔ام المومنین رضی آللہ تعالیٰ عنھما فرماتی ہیں
الجواب (1)
خیال رہے کہ حیلہ شرعی کے لئے تین چیزیں لازم ہے
/1/حاجت /2/ضرورت/3/تملیک/
حاجت کی تعریف امام اہلسنت مجدداعظم امام احمد رضا خان بریلوی رضی اللہ تعالیٰ عنہ ارشاد فرماتے ہیں کہ حاجت یہ ہے کہ حرج ومشقت میں پڑے مثلا جیسے معثیت کے لئے چراغ /یعنی روشنی کا انتظام /کہ موقوف علیہ نہیں ۔ابتدایے زمانہ رسالت علی صاحبھا افضل الصلاۂ والتحیۃ میں ان مبارک مقدس کا شانوں میں چراغ نہ ہوتا ۔ام المومنین رضی آللہ تعالیٰ عنھما فرماتی ہیں
والبیوت یومئذ لیس فیھا مصابیح یعنی گھروں میں ان دنوں چراغ نہیں ہوتے تھے ۔*مگر عامہ کے لئے گھر میں بالکل روشنی نہ ہونا ضرور باعث مشقت وحرج ہے ۔اور اگر یہ بھی نہ ہوگر حصول مفید ہے نفس فائدہ مقصود اس سے حاصل ہوتا ہے۔
(فتاویٰ رضویہ جلد جدید 21ص 206/
اور حضرت مفتی محمد نظام الدین عفی عنہ فرماتے ہیں کہ حاجت کا مطلب یہ ہے کہ مدرسہ تو چل سکتا ہے مگر اس کے لئے مشقتوں کاسامنا کرنا پڑے /تحصیل صدقات پر کمیشن کا حکم ص43/
(2) ضرورت:- ضرورت اسے کہتے ہیں کہ وہ چیز نہ ہونے سے آدمی ہلاک ہوجائے یا مدرسہ بند ہو جائے یا بند ہوجانے کے قریب ہوجائے سرکار سیدی اعلی حضرت عظیم البرکت علیہ الرحمۃ والرضوان ارشاد فرماتے ہیں کہ ۔امام محقق علی الطلاق نے ضرورت یہ بتلائی کہ بے اس کے ہلاک یا قریب ہو اور سرکار اعلی حضرت مثال میں یوں تحریر فرماتے ہیں کہ ۔ضرورت یہ ہے کہ جیسے دین کے لئے تعلیم ایمانات و فرائض عین ۔ عقل ونسب کے لئے ترک خمر ونشہ ۔نفس کے لئے اکل و شرب بقدر قیام بنیہ ۔مال کے لئے کسب ودفع غضب وامثال ذلک ۔اور اگر توقف نہیں مگر ترک میں لحوق وضرر وحرج ہے۔
اور حضرت مفتی محمد نظام الدین عفی عنہ فرماتے ہیں کہ حاجت کا مطلب یہ ہے کہ مدرسہ تو چل سکتا ہے مگر اس کے لئے مشقتوں کاسامنا کرنا پڑے /تحصیل صدقات پر کمیشن کا حکم ص43/
(2) ضرورت:- ضرورت اسے کہتے ہیں کہ وہ چیز نہ ہونے سے آدمی ہلاک ہوجائے یا مدرسہ بند ہو جائے یا بند ہوجانے کے قریب ہوجائے سرکار سیدی اعلی حضرت عظیم البرکت علیہ الرحمۃ والرضوان ارشاد فرماتے ہیں کہ ۔امام محقق علی الطلاق نے ضرورت یہ بتلائی کہ بے اس کے ہلاک یا قریب ہو اور سرکار اعلی حضرت مثال میں یوں تحریر فرماتے ہیں کہ ۔ضرورت یہ ہے کہ جیسے دین کے لئے تعلیم ایمانات و فرائض عین ۔ عقل ونسب کے لئے ترک خمر ونشہ ۔نفس کے لئے اکل و شرب بقدر قیام بنیہ ۔مال کے لئے کسب ودفع غضب وامثال ذلک ۔اور اگر توقف نہیں مگر ترک میں لحوق وضرر وحرج ہے۔
(فتاویٰ رضویہ جلد جدید ص 21)
اور محقق عصر مفتی نظام الدین رضوی صاحب قبلہ تحریر فرماتے ہیں کہ مدرسہ میں ضرورت کی تعریف یوں تحریر فرماتے ہیں کہ ضرورت کا مطلب یہ ہے کہ مدرسہ بند ہو جائے یا بند ہونے کے قریب ہو جائے۔
(تحصیل صدقات پر کمیشن کا حکم ص 43)
مندرجہ تصریحات سے روشن ہے کہ علماء نے بمجبوری حاجت و ضرورت کے تحت مدارس دینیہ میں صدقات واجبات دینے لینے کا حکم فرمایا لہذا بانی و ناظم و سکریٹری یا مدرسین خوب غور کریں کہ واقعی میں مدرسہ صدقات نافلہ سے نہیں چل رہا ہے اس لئے صدقات واجبہ لینے کی سخت حاجت و ضرورت ہے تب لیں ورنہ نہیں لیں تانکہ یہ رقوم مستحقین زکوۃ کو آسانی سے مل جائیں اور ان کی حق تلفی نہ ہوں انما الاعمال بالنیات وانما لکل امرئی مانوی یعنی اعمال نیتوں پر ہیں اور ہر ایک کے لئے اس کی نیت ہے اگر مدرسہ میں سخت ضرورت نہیں ہے تو نہیں لیں تاکہ وہ فقراء و مساکین بھی خوب عیش و آرام میں زندگی گزر بسر کریں ان کی تنگ دستی و محتاجی دور ہو جائے اور رقوم فطرے سے وہ لوگ بھی عید کی خوشیاں منائیں ان کے بچے ترسیں نہیں وہ کسی کا منہ نہ دیکھیں آخر یہ ہی لوگ صحیح حقدار ہے اس لئے انہیں ضرور دیا جائے تاکہ وہ بآسانی اپنی فوری ضروریات کا اہتمام کرسکیں حضور صلی اللّٰہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا لما قال لمعاذ حین وجھہ الی الیمن اعلمھم ان اللہ قد فرض علیھم الصدقۃ توخذ من اغنیائھم و تقسم علی فقرائھم یعنی کیونکہ حضور صلی اللّٰہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت معاذ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو یمن بھیجتے وقت حکم دیا تھا کہ وہاں کے لوگوں کو بتانا کہ صدقہ اللہ تعالیٰ نے تم پر فرض کیا ہے جو ان کے غنیوں سے لیا جائے گا اور ان کے فقیروں پر تقسیم کیا جائے گا
حیلہ شرعی کرنے میں فقیر مسلم عاقل غیر نصاب کو اس مال کا مالک بھی بنانا ضروری ہے جیسے ہم لوگ تملیک کہتے ہیں
(3) تملیک کی تعریف:- تملیک کا معنی یہ ہے کہ کسی شخص کو کسی چیز یا کسی مال کا مالک کرنا ۔اور اس کے قبضہ میں دینا (فیروز اللغات) لہذا رقم زکوۃ ۔فطرے ۔عشرہ کو خواہ مصارف زکوۃ کو دینے میں یا غیر مصارف یعنی دوسرے نیک کام میں دینے کے لئے تملیک یعنی فقیر کو اس رقم کا مالک بنانا ہوگا تانکہ اس فقیر کو اس مال پر ملکیت تامہ حاصل ہوجائے
ملکیت تامہ کی تعریف یہ ہے کہ انسان کے پاس جو مال ہوں اس میں اسے تصرف کرنے کا اور اس سے فائدہ حاصل کرنے مکمل حق حاصل ہو
(2) علم ملکیت تامہ کا معنی یہ ہے کہ انسان کو اس مال پر حق تصرف کے ساتھ قبضہ اور اختیار بھی ہر طرح حاصل ہو اور اسے اس میں تصرف کرنے سے کوئی چیز مانع نہ ہو لہذا حیلہ شرعی میں فقیر مسلم غیر صاحب نصاب یا طالب علم کی ملکیت اور ملکیت تامہ دونوں ضروری ہے ورنہ حیلہ شرعی جائز نہیں ہوگا
(3) مدرسہ میں علم دینیہ کی بقاء و تحفظ کی بناء پر صدقات واجبہ حیلہ شرعی کے بعد خرچ کرنے کی اجازت ہے
علم مراد وہ علم ہے جو قران و حدیث شریف سے تعلق رکھتا ہے اس کی دو قسمیں ہیں ایک وہ ہے جس پر قرآن و حدیث شریف سمجھنے کا دار و مدار ہے جیسے لغت نحو صرف وغیرہ دوسرے وہ کہ جو عقیدے ۔عمل اور اخلاص سے تعلق رکھتا ہے ۔ان کے علاؤہ ایک علم ہے جو ایک نور ہے اس سے معرفت الہی حاصل ہوتی ہے ۔اس کو علم حقیقت کہتے ہیں۔حضرت انس رضی آللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ حضور صلی اللّٰہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا :
مندرجہ تصریحات سے روشن ہے کہ علماء نے بمجبوری حاجت و ضرورت کے تحت مدارس دینیہ میں صدقات واجبات دینے لینے کا حکم فرمایا لہذا بانی و ناظم و سکریٹری یا مدرسین خوب غور کریں کہ واقعی میں مدرسہ صدقات نافلہ سے نہیں چل رہا ہے اس لئے صدقات واجبہ لینے کی سخت حاجت و ضرورت ہے تب لیں ورنہ نہیں لیں تانکہ یہ رقوم مستحقین زکوۃ کو آسانی سے مل جائیں اور ان کی حق تلفی نہ ہوں انما الاعمال بالنیات وانما لکل امرئی مانوی یعنی اعمال نیتوں پر ہیں اور ہر ایک کے لئے اس کی نیت ہے اگر مدرسہ میں سخت ضرورت نہیں ہے تو نہیں لیں تاکہ وہ فقراء و مساکین بھی خوب عیش و آرام میں زندگی گزر بسر کریں ان کی تنگ دستی و محتاجی دور ہو جائے اور رقوم فطرے سے وہ لوگ بھی عید کی خوشیاں منائیں ان کے بچے ترسیں نہیں وہ کسی کا منہ نہ دیکھیں آخر یہ ہی لوگ صحیح حقدار ہے اس لئے انہیں ضرور دیا جائے تاکہ وہ بآسانی اپنی فوری ضروریات کا اہتمام کرسکیں حضور صلی اللّٰہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا لما قال لمعاذ حین وجھہ الی الیمن اعلمھم ان اللہ قد فرض علیھم الصدقۃ توخذ من اغنیائھم و تقسم علی فقرائھم یعنی کیونکہ حضور صلی اللّٰہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت معاذ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو یمن بھیجتے وقت حکم دیا تھا کہ وہاں کے لوگوں کو بتانا کہ صدقہ اللہ تعالیٰ نے تم پر فرض کیا ہے جو ان کے غنیوں سے لیا جائے گا اور ان کے فقیروں پر تقسیم کیا جائے گا
حیلہ شرعی کرنے میں فقیر مسلم عاقل غیر نصاب کو اس مال کا مالک بھی بنانا ضروری ہے جیسے ہم لوگ تملیک کہتے ہیں
(3) تملیک کی تعریف:- تملیک کا معنی یہ ہے کہ کسی شخص کو کسی چیز یا کسی مال کا مالک کرنا ۔اور اس کے قبضہ میں دینا (فیروز اللغات) لہذا رقم زکوۃ ۔فطرے ۔عشرہ کو خواہ مصارف زکوۃ کو دینے میں یا غیر مصارف یعنی دوسرے نیک کام میں دینے کے لئے تملیک یعنی فقیر کو اس رقم کا مالک بنانا ہوگا تانکہ اس فقیر کو اس مال پر ملکیت تامہ حاصل ہوجائے
ملکیت تامہ کی تعریف یہ ہے کہ انسان کے پاس جو مال ہوں اس میں اسے تصرف کرنے کا اور اس سے فائدہ حاصل کرنے مکمل حق حاصل ہو
(2) علم ملکیت تامہ کا معنی یہ ہے کہ انسان کو اس مال پر حق تصرف کے ساتھ قبضہ اور اختیار بھی ہر طرح حاصل ہو اور اسے اس میں تصرف کرنے سے کوئی چیز مانع نہ ہو لہذا حیلہ شرعی میں فقیر مسلم غیر صاحب نصاب یا طالب علم کی ملکیت اور ملکیت تامہ دونوں ضروری ہے ورنہ حیلہ شرعی جائز نہیں ہوگا
(3) مدرسہ میں علم دینیہ کی بقاء و تحفظ کی بناء پر صدقات واجبہ حیلہ شرعی کے بعد خرچ کرنے کی اجازت ہے
علم مراد وہ علم ہے جو قران و حدیث شریف سے تعلق رکھتا ہے اس کی دو قسمیں ہیں ایک وہ ہے جس پر قرآن و حدیث شریف سمجھنے کا دار و مدار ہے جیسے لغت نحو صرف وغیرہ دوسرے وہ کہ جو عقیدے ۔عمل اور اخلاص سے تعلق رکھتا ہے ۔ان کے علاؤہ ایک علم ہے جو ایک نور ہے اس سے معرفت الہی حاصل ہوتی ہے ۔اس کو علم حقیقت کہتے ہیں۔حضرت انس رضی آللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ حضور صلی اللّٰہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا :
طلب العلم فریضۃ علی کل مسلم یعنی علم کا حاصل کرنا ہر مسلمان پر (وعورت )پر فرض ہے (مشکوٰۃ شریف ) حضرت ملا علی قاری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں شارحین حدیث نے فرمایا علم سے مراد ،، وہ مذہبی علم ہے جس کا حاصل کرنا بندے کے لئے ضروری ہے ۔خدا تعالی کو پہچاننا۔اس کی وحدانیت اس کے رسول کی نبوت کی شناخت اور ضروری مسائل کے ساتھ نماز پڑھنے کے طریقے کو جاننا ۔مسلمان کے لئے ان چیزوں کا علم فرض عین ہے ۔اور فتویٰ و اجتہاد کے مرتبے کو پہچنا فرض کفایہ ہے (مرقاۃ جلد اول ص 233)
اور حرام کا جاننا اور حلال کاجاننںا بھی ضروری ہے علم دین حاصل کرنے والے کو طالب علم کہا جاتا ہے جس کا جمع طلباء ہیں بعض علماء نے فی سبیل اللہ سے طلباء مراد لیا ہے یعنی اسے بھی برائے راست صدقات واجبہ دینا جائز ہے بلکہ بہت زیادہ نیکیاں ہیں ۔اسی علم دین کی تحفظ و بقاء کی وجہ سے علماء نے مدارس اسلامیہ دینیہ کے لیے سخت ضرورت و حاجت کی بنا پر حیلہ شرعی کرنے کی اجازت دی نہ کہ دنیاوی اسکول یا کالج یا تعلیم کے لئے اجازت دی ہے
مطبخ میں اجناس خرچ کرنے کا طریقہ
نقدی روپئے ہوں یا غلہ بغیر حیلہ شرعی کا خرچ کرنا حرام ہے حضور فقیہ ملت مفتی جلال الدین احمد الامجدی رحمتہ اللہ علیہ تحریر فرماتے ہیں کہ مدرسین کا کھانا اور تنخواہ ان کے کام کی اجرت ہے اور زکوۃ وغیرہ کے پیسے و غلے کو اجرت میں دینا جائز نہیں لہذا زکوۃ 'فطرہ عشر حاصل رقم کو اگر منتظمین مدرسہ نے بلا حیلہ شرعی مدرسین کی تنخواہ اور کھانے پر خرچہ کیا تو وہ گنہگار ہوئے اور مدرسین جان بوجھ کر لیا اور کھایا تو وہ بھی گنہگار ہوئے اور اس طرح زکوۃ بھی ادا نہیں ہوئی۔
مطبخ میں اجناس خرچ کرنے کا طریقہ
نقدی روپئے ہوں یا غلہ بغیر حیلہ شرعی کا خرچ کرنا حرام ہے حضور فقیہ ملت مفتی جلال الدین احمد الامجدی رحمتہ اللہ علیہ تحریر فرماتے ہیں کہ مدرسین کا کھانا اور تنخواہ ان کے کام کی اجرت ہے اور زکوۃ وغیرہ کے پیسے و غلے کو اجرت میں دینا جائز نہیں لہذا زکوۃ 'فطرہ عشر حاصل رقم کو اگر منتظمین مدرسہ نے بلا حیلہ شرعی مدرسین کی تنخواہ اور کھانے پر خرچہ کیا تو وہ گنہگار ہوئے اور مدرسین جان بوجھ کر لیا اور کھایا تو وہ بھی گنہگار ہوئے اور اس طرح زکوۃ بھی ادا نہیں ہوئی۔
بہار شریعت حصہ پنجم ص 85 پر ہے بہت سے لوگ مال زکوۃ اسلامی مدارس میں بھیج دیتے ہیں ان کو چاہئے کہ متولی مدرسہ کو اطلاع دیں کہ یہ مال زکوۃ ہے تاکہ متولی اس مال کو جدا رکھے اور مال میں نہ ملائے اور غریب طلباء پر خرچ کرے کسی کام کی اجرت میں نہ دے ورنہ زکوۃ ادا نہ ہوگی ۔اھ
(فتاویٰ فیض رسول جلد اول ص 494)
اسی طرح باورچی یا خزانچی یا ناظم یامدرس گیہوں ۔چاول ۔دال یا نقدی پیسے سے سبزی ۔ ۔وغیرہ خرید کر لاتے ہیں اور بغیر حیلہ شرعی کئے بچوں کو کھلاتے ہیں تو یہ جائز نہیں ہے ۔فتاوی رضویہ میں ہے کہ :عام طور پرمدارس اسلامیہ میں طلبہ کو جو کھانا کھلایا جاتا ہے اس میں تملیک نہیں پائی جاتی ہے اباحت پائی جاتی ہے (جلد 4ص 380)
آج کل جاگیری بچوں کو اسی طرح کھانا کھلایا جاتا ہے اور دلیل یہ دیتے ہیں یہ غلے بچے ہی کے لئے آئیں ہوئے ہیں اس لئے کھانا جائز ہے اسی کے ضمن میں فتاوی فقیہ ملت میں ہے کہ :بلکہ عام طور پر مدارس عربیہ میں جس طرح غریب طلباء کو کھانا کھلایا جاتا ہے اس طرح انہیں کھانا کھانے پر بھی زکوۃ ادا نہ ہوگی۔ (جلد اول ص 306)
چونکہ بغیر حیلہ شرعی کئے اس غلے سے کھانا اباحت ہے مگر تملیک نہیں پائی گئی اور زکوۃ اور دیگر صدقات واجبہ کی ادائیگی کے لئے تملیک شرط ہے لہذا اس طرح جب تک اس غلے کو بھی حیلہ شرعی نہیں کیا جائے گا اس وقت زکوہ دینے والے کی زکوۃ ادا نہ ہوگی کہ ان میں تملیک فقیر نہیں پائی جاتی اور فتاوی فقیہ ملت میں فتاویٰ رضویہ جلد چہارم ص 477,کے حوالے سے تحریر ہے کہ :اعلی حضرت امام احمد رضا خان بریلوی رضی اللہ تعالیٰ عنہ تحریر فرماتے ہیں کہ :زکاۃ کا رکن تملیک فقیر ہے جس کام میں فقیر کی تملیک نہ ہو کیسا ہی کار حسن ہو جیسے تعمیر مسجد یا تکفین میں ۔یا تنخواہ مدرسین علم دین اس سے زکاۃ ادا نہیں ہوسکتی(فتاوی رضویہ) لہذا اگر زید نے زکاۃ و عشر اور صدقہ فطر کی رقم حیلہ شرعی کے بغیر تعمیر مدرسہ تنخواہ مدرسین اور دیگر ضروریات میں خرچ کردی تو زکاۃ دینے والوں کا زکوۃ ادا نہیں ہوئی اور اس رقم کے خرچ ہوجانے کے بعد اب حیلہ کی کوئی صورت نہیں ۔جو کچھ خرچ کیا گیا تبرع ہے اس پر لازم ہے کہ ان تمام روپیوں کا تاوان دے (یعنی جن جن سے لیا انہیں واپس کرے )ورنہ سخت گنہگار ہوگا ۔اور یہ کہنا کہ زید کم پڑھا لکھا ہے حیلہ کے بارے میں کچھ نہیں جانتا تھا اور مدرسہ کے کسی عالم نے نہیں بتایا اس لئے وہ حیلہ شرعی نہیں کرتے ہیں یہ بہانا بھی قابل قبول نہیں ہے کیونکہ علم سیکھنا ہر مسلمان کے لئے بقدر ضرورت فرض ہے حدیث شریف میں ہے :
طلب العلم فریضۃ علی کل مسلم اور عالم اگر یہ جانتے رہے کہ زکاۃ عشر اور صدقہ فطر کی رقم بغیر حیلہ شرعی مدرسہ میں خرچ ہو رہی ہے اور انہوں نے حیلہ شرعی کرنے کے لئے سختی نہیں کیا تو وہ بھی سخت گنہگار ہوگا۔
(فتاویٰ فقیہ ملت جلد اول ص 311)
اس لئے عالم کا فریضہ ہے کہ ناظم یا بانی یا سکریٹری یا خزانچی یا محصلین پر حیلہ شرعی کرنے کے لئے سختی سے کام لیں اگر پھر بھی اراکین نہیں مانتے تو استعفی دے کر وہاں سے الگ ہوجائے تاکہ گنہگار ہونے سے بچ جائے
حضور آمین شریعت مفتی عبدالواجد رحمتہ اللہ علیہ صاحب تحریر فرماتے ہیں کہ ۔کسی بھی اسلامیہ مدرسہ ۔جامع ۔انجمن ۔کو زکوۃ و فطرہ کی رقم اس شرط پر دینی جائز ہے کہ اس کا مہتمم یا سکریٹری اس رقم کو خاص تملیک فقیر مسلم میں صرف کرے۔کیونکہ ادائے زکوۃ کے لئے کسی مسلمان فقیر یا مسکین کا اس مال زکوۃ پر قبضہ کرنا ضروری (شرط،)ہے بالفرض اگر جامعہ کے مہتمم نے مال زکوۃ و فطرہ سے صرف مطبخ چلایا اور اس کا کھانا فقیر و مساکین طلباء کو کھلاتا رہا پھر بھی زکوۃ ادا نہ ہوگی ۔کیونکہ کھلانے میں صرف اباحت کی صورت پائی گئی ۔ملکیت کی نہیں ۔اور یہاں ملکیت ضروری ہے ۔زکوۃ و فطر کی رقم سے جامعہ ۔یا مدرسہ دینیہ کی تعمیر فرش کا انتظام اور ملازمین و مدرسین کی تنخواہ نہیں دی جاسکتی ۔اگر مہتمم و ناظم نے زکوۃ کے پیسے سے یہ سب کام کیا تو وہ سخت گنہگار مستحق عذاب نار ہوئے اس پر واجب ہے کہ توبہ کریں ۔زکوۃ اس وقت تک ادا نہ ہوتی ہے جب تک کہ زکوۃ کی رقم مصارف زکوۃ میں نہ پہنچ جائے ۔اور اس پر تملیک فقیر ثابت نہ ہو جائے۔
(فتاوی یوروپ ص 269)
مندرجہ بالا توضیحات سے واضح ہوا کہ اگر ناظم مہتمم مدرس باورچی اراکین ادارہ کو معلوم ہے کہ بغیر حیلہ شرعی کے غلے سے کھانا بن رہا ہے یا اس روپیے سے غلے خریدا جاریا ہے اور تنخواہ دی جارہی ہے ۔تعمیر مدرسہ میں خرچ کیا جارہا ہے تو اس صورت میں سب گنہگار ہوئے اور سب ہر توبہ لازم ۔اور مدرسین کو کھانا جائز نہیں اور بچوں کو بھی کھلانے سے گنہگار ہوئے اور اس صورت میں گناہ و توبہ کے علاؤہ کسی کی بھی زکوۃ ادا نہ ہوئی۔
مندرجہ بالا توضیحات سے واضح ہوا کہ اگر ناظم مہتمم مدرس باورچی اراکین ادارہ کو معلوم ہے کہ بغیر حیلہ شرعی کے غلے سے کھانا بن رہا ہے یا اس روپیے سے غلے خریدا جاریا ہے اور تنخواہ دی جارہی ہے ۔تعمیر مدرسہ میں خرچ کیا جارہا ہے تو اس صورت میں سب گنہگار ہوئے اور سب ہر توبہ لازم ۔اور مدرسین کو کھانا جائز نہیں اور بچوں کو بھی کھلانے سے گنہگار ہوئے اور اس صورت میں گناہ و توبہ کے علاؤہ کسی کی بھی زکوۃ ادا نہ ہوئی۔
لہذا جتنے سال تک بغیر حیلہ شرعی و تملیک کے مال زکوۃ ۔عشرہ ۔فطرہ سے۔ غلے خرچ کئے گئے یا خرید کر لایا گیا یا تعمیر میں ۔تنخواہ میں خرچ ہوا ان تمام روپئے اور غلے زکوۃ ۔عشر ۔فطر دینے والے کو واپس کریں خواہ وہ روپیے لاکھوں میں ہوں یا غلے ہزاروں کوئنٹل میں ہوں سب واپس کرنا ہوگا اور حقوقِ اللہ اور حقوق العباد میں غفلت سے توبہ کریں
ان تینوں میں تملیک تو مصارف زکوۃ کو زکوۃ دینے میں یا غیر مصارف زکوۃ کو حیلہ شرعی کے بعد دینے میں دونوں کے لیے تملیک ضروری ہے جیسا کہ درمختار میں زکوۃ کے بارے میں ہے کہ /ھی / لغۃ الطہارۃ والنماء ۔و شرعاً /تملیک /خرج الاباحۃ یعنی زکوۃ کا لغوی معنی پاکیزہ اور بڑھنا ہے ۔اور شرعاً مالک بنانا ہے اباحت اس سے خارج ہوگی(درمختار ۔کتاب الزکواۃ )
ان تینوں میں تملیک تو مصارف زکوۃ کو زکوۃ دینے میں یا غیر مصارف زکوۃ کو حیلہ شرعی کے بعد دینے میں دونوں کے لیے تملیک ضروری ہے جیسا کہ درمختار میں زکوۃ کے بارے میں ہے کہ /ھی / لغۃ الطہارۃ والنماء ۔و شرعاً /تملیک /خرج الاباحۃ یعنی زکوۃ کا لغوی معنی پاکیزہ اور بڑھنا ہے ۔اور شرعاً مالک بنانا ہے اباحت اس سے خارج ہوگی(درمختار ۔کتاب الزکواۃ )
یعنی بغیر تملیک کے زکوۃ دینے میں اباحت ہے پس زکوۃ کی ادائیگی میں اباحت کافی نہیں ہے اس لئے تملیک اور ملکیت تامہ کا پایا جانا لازم ہے کیونکہ زکوۃ نام ہے کسی کو مال کا مالک بنانے کا اور دوسرے کو وہ مال تبھی دے سکتا ہے کہ یداور رقبۃ اسے ملک تام حاصل ہوجائے اسلامی فقہ میں ملکا تاما یدا و رقبۃ
کے الفاظ استعمال ہوتے ہیں یدا سے مراد یہ ہوتا ہے کہ مال اس کے ہاتھ میں ہو کسی کو ادھار نہیں دیا ہو اور رقبۃ کا مطلب ہے کہ اس کی ملکیت میں کوئی دوسرا شامل نہ ہو یا کسی وجہ سے ملکیت میں نقص نہ ہو الحاصل جس کو یعنی جو مصارف زکوۂ ہیں انہیں بھی برائے راست زکوۃ دی جائے اس میں اسے ملکیت تامہ کا پایا جانا ضروری ہے پھر اس مال پر زکوۃ دینے والےیا کسی دوسرے کا تصرف نہ ہو اور نہ کوئی اس میں شامل ہو تب ہی زکوۃ ادا ہوگی ۔اور یہی اصول مصارف غیر زکوۃ کو دینے میں ہوگا یعنی جس فقیر غیر نصاب کے ہاتھ تملیک کی جائے گی اسے مکمل ملکیت تام میں دینا ہوگا پھرپور قبضہ کرانا ہوگا یہ نہیں کہ میں تم کو دیتا ہوں اور تم پھر ہم کو دے دینا یہ صحیح نہیں جیسے
اگر ایک آدمی نے یتیم یا فقیر یا مسکین یا طالب علم کو اپنے گھر بلاکر کھانا کھلایا اور زکوۃ کی نیت کرلی کہ یہ کھانا زکوۃ کا کھلا رہا ہوں تو یہ اسے کافی نہیں یعنی زکوۃ کی ادائیگی نہیں ہوئی کیونکہ۔ یہ کھانا اباحت میں شمار ہے ملکیت میں نہیں اس پر اس کا قبضہ نہیں ہوا اگر وہ کھانا اسے دیکر اس کے حوالہ کردے اس پر اس کی ملکیت ہو جائے تو اب زکوۃ ادا ہوگئی
یہی مدرسہ کے مطبخ کا طریقہ ہے کہ بغیر حیلہ شرعی کےب اجناس سے کھانا بنایا اور بچوں کو کھلایا تو اس صورت میں اباحت پائی جارہی ہے ملکیت تامہ نہیں پائی جارہی ہے اس لئے زکوٰۃ ادا نہیں ہوئی جس کی وجہ مدرسین کو کھانا منع ہے اگر کھا یا تو وہ گنہگار ہوگا اس پر توبہ لازم ہوگا اگر توبہ نہیں کیا تو سخت مستحق عذاب ہوگا اللہ کی پناہ خلاصہ یہ حاصل ہوا کہ مطبخ سے بھی جس غلے سے بغیر حیلہ شرعی کے کھانا بناکر بچوں کو کھانا دیا جاتا ہے اس میں اباحت کی صورت پائی جاتی ہے مگر تملیک کی نہیں لہذا اس صورت سے بھی زکوۃ دینے والے کی زکوۃ ادا نہیں ہوئی ان تمام پر زکوۃ کی ادائیگی ابھی بھی باقی ہے پھر سے انہیں زکوۃ دینی ہوگی اور جو اراکین یا بانی یا مطبخ انچارچ نے اجناس بغیر بن حیلہ شرعی کے بچے کے کھانے پر خرچ کیا وہ تمام اجناس دینے والے کو تاوان میں جوڑ کر کہ جتنا خرچ ہو وہ سب واپس کریں ورنہ روز محشر جس دن لوگ نفسی نفسی کے عالم میں ہوں گیں اس دن خدا تعالیٰ کی بارگاہ میں حساب دینا ہوگا اور اس کی ادائیگی آپ کی نیکیوں سے کاٹ کر ان لوگوں کو دی جائے گی سوائے افسوس کے کچھ نہیں بچے گا۔
واللہ و رسولہ اعلم بالصواب
کے الفاظ استعمال ہوتے ہیں یدا سے مراد یہ ہوتا ہے کہ مال اس کے ہاتھ میں ہو کسی کو ادھار نہیں دیا ہو اور رقبۃ کا مطلب ہے کہ اس کی ملکیت میں کوئی دوسرا شامل نہ ہو یا کسی وجہ سے ملکیت میں نقص نہ ہو الحاصل جس کو یعنی جو مصارف زکوۂ ہیں انہیں بھی برائے راست زکوۃ دی جائے اس میں اسے ملکیت تامہ کا پایا جانا ضروری ہے پھر اس مال پر زکوۃ دینے والےیا کسی دوسرے کا تصرف نہ ہو اور نہ کوئی اس میں شامل ہو تب ہی زکوۃ ادا ہوگی ۔اور یہی اصول مصارف غیر زکوۃ کو دینے میں ہوگا یعنی جس فقیر غیر نصاب کے ہاتھ تملیک کی جائے گی اسے مکمل ملکیت تام میں دینا ہوگا پھرپور قبضہ کرانا ہوگا یہ نہیں کہ میں تم کو دیتا ہوں اور تم پھر ہم کو دے دینا یہ صحیح نہیں جیسے
اگر ایک آدمی نے یتیم یا فقیر یا مسکین یا طالب علم کو اپنے گھر بلاکر کھانا کھلایا اور زکوۃ کی نیت کرلی کہ یہ کھانا زکوۃ کا کھلا رہا ہوں تو یہ اسے کافی نہیں یعنی زکوۃ کی ادائیگی نہیں ہوئی کیونکہ۔ یہ کھانا اباحت میں شمار ہے ملکیت میں نہیں اس پر اس کا قبضہ نہیں ہوا اگر وہ کھانا اسے دیکر اس کے حوالہ کردے اس پر اس کی ملکیت ہو جائے تو اب زکوۃ ادا ہوگئی
یہی مدرسہ کے مطبخ کا طریقہ ہے کہ بغیر حیلہ شرعی کےب اجناس سے کھانا بنایا اور بچوں کو کھلایا تو اس صورت میں اباحت پائی جارہی ہے ملکیت تامہ نہیں پائی جارہی ہے اس لئے زکوٰۃ ادا نہیں ہوئی جس کی وجہ مدرسین کو کھانا منع ہے اگر کھا یا تو وہ گنہگار ہوگا اس پر توبہ لازم ہوگا اگر توبہ نہیں کیا تو سخت مستحق عذاب ہوگا اللہ کی پناہ خلاصہ یہ حاصل ہوا کہ مطبخ سے بھی جس غلے سے بغیر حیلہ شرعی کے کھانا بناکر بچوں کو کھانا دیا جاتا ہے اس میں اباحت کی صورت پائی جاتی ہے مگر تملیک کی نہیں لہذا اس صورت سے بھی زکوۃ دینے والے کی زکوۃ ادا نہیں ہوئی ان تمام پر زکوۃ کی ادائیگی ابھی بھی باقی ہے پھر سے انہیں زکوۃ دینی ہوگی اور جو اراکین یا بانی یا مطبخ انچارچ نے اجناس بغیر بن حیلہ شرعی کے بچے کے کھانے پر خرچ کیا وہ تمام اجناس دینے والے کو تاوان میں جوڑ کر کہ جتنا خرچ ہو وہ سب واپس کریں ورنہ روز محشر جس دن لوگ نفسی نفسی کے عالم میں ہوں گیں اس دن خدا تعالیٰ کی بارگاہ میں حساب دینا ہوگا اور اس کی ادائیگی آپ کی نیکیوں سے کاٹ کر ان لوگوں کو دی جائے گی سوائے افسوس کے کچھ نہیں بچے گا۔
واللہ و رسولہ اعلم بالصواب
◆ــــــــــــــــــــ۩۞۩ـــــــــــــــــــــ◆
کتبہ :- شیخ طریقت مصباح ملت محقق مسائل کنز الدقائق
حضور مفتی اعظم بہار حضرت علامہ مولانا مفتی محمد ثناء اللہ خان ثناء القادری مرپاوی سیتا مڑھی بہار صاحب قبلہ مدظلہ العالیٰ النورانی
مورخہ 4 شوال المکرم
1443 بمطابق 7 مئی 2022
پیش کردہ:- محمد محب اللہ خاں صاحبزادے حضور مفتی اعظم بہار ناظم اعلی حضور مفتی اعظم بہار ایجوکیشنل ٹرسٹ اذاد چوک سیتامڑھی بہار
بانی:-تحقیق مسائل جدیدہ اکیڈمی دارالعلوم امجدیہ ثناءالمصطفی مرپاشریف
سربراہ اعلی:- حضور تاج السنہ ولی ابن ولی خطیب عرب و ایشیاء حضرت علامہ مفتی محمد توصیف رضا خان بریلوی شریف
نائب گدی نشین خانقاہ عالیہ قادریہ برکاتیہ رضویہ بریلی شریف
صدر رکن ۔شیر مہاراشٹر مفسر قرآن قاضی شہر ممبئی مصنف تصانیف کثیرہ حضرت علامہ مفتی محمد علاؤ الدین رضوی صاحب
رکن اکیڈمی ۔ماہر درس وتدریس خطیب باکمال مقررشیریں بیان ساحراللسان حضرت علامہ مفتی محمد نعمت اللہ صاحب بریلوی
رکن اکیڈمی ۔حضرت علامہ مفتی عبد الغفار صاحب نوری صدرالمدرسین مدرسہ ھذا
رکن اکیڈمی ۔عزیزم بابو مستجاب رضا صاحبزادے حضور شیر مہاراشٹر
رکن اکیڈمی۔۔حضرت علامہ قاری محمد شاہد رضا بچھارپور فی الوقت میرا روڈ ممبئی
رکن اکیڈمی۔ استادالعلماء ناشر مسلک اعلی حضرت ماہر چترودی حضرت علامہ مولانا محمد جمیل اختر صاحب مصباحی
ناظم اعلی ۔دارالعلوم ھذا
رکن اکیڈمی ۔ماہر علم وسخن ناشر مسلک اعلی حضرت حضرت علامہ مولانا محمد جنید رضا مصباحی بیتاہی فی الوقت ناسک
مورخہ 4 شوال المکرم
1443 بمطابق 7 مئی 2022
پیش کردہ:- محمد محب اللہ خاں صاحبزادے حضور مفتی اعظم بہار ناظم اعلی حضور مفتی اعظم بہار ایجوکیشنل ٹرسٹ اذاد چوک سیتامڑھی بہار
بانی:-تحقیق مسائل جدیدہ اکیڈمی دارالعلوم امجدیہ ثناءالمصطفی مرپاشریف
سربراہ اعلی:- حضور تاج السنہ ولی ابن ولی خطیب عرب و ایشیاء حضرت علامہ مفتی محمد توصیف رضا خان بریلوی شریف
نائب گدی نشین خانقاہ عالیہ قادریہ برکاتیہ رضویہ بریلی شریف
صدر رکن ۔شیر مہاراشٹر مفسر قرآن قاضی شہر ممبئی مصنف تصانیف کثیرہ حضرت علامہ مفتی محمد علاؤ الدین رضوی صاحب
رکن اکیڈمی ۔ماہر درس وتدریس خطیب باکمال مقررشیریں بیان ساحراللسان حضرت علامہ مفتی محمد نعمت اللہ صاحب بریلوی
رکن اکیڈمی ۔حضرت علامہ مفتی عبد الغفار صاحب نوری صدرالمدرسین مدرسہ ھذا
رکن اکیڈمی ۔عزیزم بابو مستجاب رضا صاحبزادے حضور شیر مہاراشٹر
رکن اکیڈمی۔۔حضرت علامہ قاری محمد شاہد رضا بچھارپور فی الوقت میرا روڈ ممبئی
رکن اکیڈمی۔ استادالعلماء ناشر مسلک اعلی حضرت ماہر چترودی حضرت علامہ مولانا محمد جمیل اختر صاحب مصباحی
ناظم اعلی ۔دارالعلوم ھذا
رکن اکیڈمی ۔ماہر علم وسخن ناشر مسلک اعلی حضرت حضرت علامہ مولانا محمد جنید رضا مصباحی بیتاہی فی الوقت ناسک