Type Here to Get Search Results !

مفتی اعظم بہار مدظلہ العالی کی فقہائے احناف خصوصا مشائخ بریلی شریف کے اقوال کی روشنی میں قسط نمبر (6)

مفتی اعظم بہار مدظلہ العالی کی فقہائے احناف خصوصا مشائخ بریلی شریف کے اقوال کی روشنی میں قسط نمبر (6)
________(❤️)_________
 قسط ششم:-6
________(👇)_________
گر کوئی یہ کہے کہ مسجد کے اندر اذان دینا مکروہ تنزیہی ہے؛ کیا یہ قول صحیح ہے ؟ اس پر عمل کرنا جائز ہے؟ جیسا کہ زید فتاوی رضویہ کی ایک عبارت کو دلیل بنا کر کہتا ہے کہ مکروہ تنزیہی، خلاف اولی ہے
الجواب ۔
 اس کے متعلق قسط پنجم میں بھی بحث کی گئی ہے یعنی قسط پنجم ۔قسط ششم اور قسط ہفتم میں ہر اعتبار سے اسی عنوان پر بحث کی گئی ہے تاکہ مسجد کے اندر اذان کے جواز کے قائلین کا یا صرف خلاف اولی ہے؛کہنے والے کا رد بلیغ ہوجائے۔
مسجد کے اندر اذان دینا جائز نہیں ہے مکروہ تحریمی ہے
جیسا کہ ہمارے ائمہ اور فقہا نے کثرت کے ساتھ فقہ کی کتب معتمدہ میں مسجد کے اندر آذان کی ممانعت فرمائی کہ مکروہ ہے ۔اور ان حضرات نے نہ تو کسی جزء کا استشناء کیا نہ تخصیص کی طرف اشارہ فرمایا ۔اور بعد کے فقہا نے اس مکروہ سے مکروہ تحریمی مراد لیا کسی نے مکروہ تنزیہی کی طرف اشارہ تک نہیں کیا ۔بلکہ فرمایا کہ مکروہ تنزیہی کا قول ضعیف ہے اور قول ضعیف پر فتویٰ نہیں دیا جاتا اور صورت مسئولہ میں کئی وجوہات کی وجہ سے مکروہ تحریمی ہے  
مکروہ تنزیہی کہنے والے کی غلط فہمی یہاں سے شروع ہوئی کہ سرکار سیدی اعلی حضرت عظیم البرکت امام احمد رضا خان قادری بریلی شریف قدس سرہ سے سوال کیا گیا کہ یہ کون مکروہ ہے ؟
جواباً سرکار سیدی اعلی حضرت عظیم البرکت امام احمد رضا خان قادری بریلوی قدس سرہ العزیز فرماتے ہیں کہ ہمارے علمائے احناف نے ممنوع و مکروہ کی تصریح فرمائی ہے پھر تحریر فرماتے ہیں کہ ۔
(خیال رہے کہ آپ فرما رہے ہیں کہ ہمارے علما نے ممنوع و مکروہ کی تصریح فرمائی)
اور اس مسئلہ میں نوع کراہت کی تصریح کلمات علما سے اس وقت نظر فقیر میں نہیں (فتاویٰ رضویہ جلد جدید پنجم ص 364)
یہی وہ عبارت ہے جس سے ہمارے ایک دو سنی عالم دھوکا کھاگئے کہ سرکار سیدی اعلی حضرت عظیم البرکت امام احمد رضا خان بریلوی رحمۃ اللہ علیہ نے مکروہ تحریمی نہیں فرمایا ۔
اس سے واضح ہوا کہ سرکار سیدی اعلی حضرت عظیم البرکت کے پہلے علما نے اس کی تصریح نہیں فرمائی کہ یہ مکروہ تحریمی ہے یا تنزیہی ہے
اقول ۔( محمد ثناءاللہ خان ثناء القادری مرپاوی)
اس وقت تک کوئی ایسا قول حضرت کی نگاہ میں نہیں تھی اس لیے آپ نے فرمایا کہ اس وقت نظر فقیر میں نہیں ۔لہذا اس پر جزما حکم جاری نہیں کیا ۔علما کا ایسے مقامات میں بحث کا یہی طریقہ رہا ہے ۔تو اسے منافات نہیں کہ سکتے۔ ایک جگہ پر حکم منصوص سے مستفاد پر منحصرہے اور دوسری جگہ خود اپنی رائے کا اظہار ہے اس ترک و اظہار اور اقتصار و استظہار کے متعدد نظائر شارحین و محشیين اور خود علامہ شامی کے يہاں کثرت کے ساتھ موجود ہیں جیسا کہ سرکار سیدی اعلی حضرت عظیم البرکت نے فرمایا ۔
کیا مسجد کے اندر اذان دینا مکروہ تنزیہی ہے؟
سرکار سیدی اعلی حضرت عظیم البرکت امام احمد رضا فرماتے ہیں کہ:
ہاں صیغہ لایفعل سے متبادر کراہت تحریم ہے کہ فقہائے کرام کی یہ عبارت ظاہرا مشیر ممانعت و عدم اباحت ہوتی ہے۔(فتاویٰ رضویہ جلد جدید پنجم ص 363)
اس سے ظاہر ہوگیا کہ فقہا کے عبارات میں جو صرف مکروہ تحریر ہے اس میں "لا "آیا ہوا ہے جیسے" لایوذن فی المسجد" کہ مسجد میں اذان نہ کہو اس" لا "سے مراد ممانعت و عدم اباحت یعنی یہ کام منع ہے .صرف منع ہی نہیں بلکہ ناجائز ہے اور فقہائے کرام بعض مسائل میں دلائل کی وجوہات کی بنا پر ناجائز سے مکروہ تحریمی مراد لیتے ہیں آپ قسط دوم میں مطالعہ کئے ہوں گے اور یہاں بھی مراد مکروہ تحریمی ہی ہے۔
جیسا کہ اس عبارت سے واضح ہے سرکار سیدی اعلی حضرت عظیم البرکت مکروہ تحریمی ہونے کی وجہ بتلاریے ہیں کہ
علامہ محمد محمد محمد ابن امیر الحاج نے حلیہ میں فرمایا ۔
قول المص لا یزید یشیر الی عدم اباحۃ الزیادۃ ( مصنف کا قول "لایزید" اس طرف اشارہ کرتا ہے کہ زیادتی جائز نہیں) نظیر اس کی یفعل و یقول ہے کہ ظاہرا
مفید وجوب ہے کما نص علیہ ایضا فیھا (جیسا کہ اس پر بھی اس میں تصریح ہے)
دوسری دلیل یہ تحریر فرماتے ہیں کہ یونہی عبارت نظم میں لفظ' یکرہ آیا ہے اور غالبا کراہت مطلقہ سے کراہت تحریم مراد ہوتی ہے۔
(نظم کی عبادت یوں ہے "یکرہ ان یؤذن فی المسجد کما فی القہستانی عن النظم فان لم یکن ثمہ مکان مرتفع للاذان یوذن فی فناء المسجد کما فتح "۔یعنی مسجد میں اذان دینا مکروہ ہے جیسا کہ قہستانی میں نظم سے منقول ہے تو اگر وہاں اذان کے لئے کوئی بلند مکان نہ بنا ہو تو مسجد کے آس پاس اس کے متعلق زمین میں اذان دے جیسا کہ فتح القدیر میں ہے) اس عبارت میں "یکرہ" آیا ہوا ہے جو تحریم پر محمول ہے جیسا کہ ردالمحتار میں ایک مسئلہ کے ضمن میں ہے کہ 
لما فی رد المحتار قولہ و یکرہ ای تحریما لقول الکافی لایجوز والمجمع لایباح یعنی ردالمحتار میں ہے اور "قولہ یکرہ "یعنی تحریمی مراد ہے کیونکہ صاحب کافی نے کہا ؛ یہ جائز نہیں ۔اور مجمع میں ہے؛ یہ مباح نہیں (فتاویٰ رضویہ جلد ہفتم ص 155)
صورت مسئولہ میں بھی علما تحریر فرماتے ہیں کہ مسجد کے اندر اذان دینا جائز نہیں۔
کبھی فرماتے ہیں کہ ناجائز ہے کبھی فرماتے ہیں کہ بدعت سئیہ خلاف سنت مکروہ ہے کبھی فرماتے ہیں کہ مکروہ تحریمی ہے ۔
اب سرکار اعلی حضرت عظیم البرکت امام احمد مکروہ تحریمی ہونے کی تائید میں تیسری دلیل نقل فرماتے ہیں کہ
جیسا کہ درمختار ۔ردالمحتار اور دیگر معتبر کتب میں ہے ۔ اور مساجد میں بلند آواز سے منع کرنا بھی اس کی تائید کرتا ہے ( یعنی مکروہ تحریمی کی) جیسا کہ حدیث ابن ماجہ میں ہے ۔اپنی مساجد کو اپنے ناسمجھ بچوں سے،دیوانوں سے ،تلواروں کو سونتنے سے اور آوازوں کو بلند کرنے والوں سے محفوظ رکھو۔اور بار گاہ نبوی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم میں آواز بلند کرنے سے منع کیا گیا ہے اور اس پر تمام اعمال کے ضائع ہونے کی دھمکی دی گئی ہے۔اور بارگاہ خداوندی اس ادب و احترام کے زیادہ لائق ہے جیسا کہ تم قیامت کے روز دیکھو گے رحمن کے لئے تمام آوازیں پست ہو جائیں گی تو تو نہیں سنے گا مگر بہت آہستہ آواز ۔اس گفتگو سے یہ گمان و قول ؛ ضعیف ہوجاتا ہے کہ یہ عمل صرف خلاف سنت ہے تو اس میں صرف کراہت تنزیہی ہے۔(فتاویٰ رضویہ جلد جدید پنجم ص 365)
اس فتویٰ سے واضح ہوا کہ سرکار اعلی حضرت عظیم البرکت امام اہل سنت مجدد اعظم امام احمد رضا خان بریلوی رضی آللہ تعالیٰ عنہ نے اس قول کو ضعیف قرار فرمارہے ہیں جو مسجد کے اندر اذان دینے کو مکروہ تنزیہی کہتے ہیں یعنی اعلی حضرت عظیم البرکت کے نزدیک مسجد کے اندر اذان دینا مکروہ تنزیہی نہیں بلکہ ناجائز اور مکروہ تحریمی ہے اور قول ضعیف پر حکم فتویٰ نہیں ہے یعنی اس پر فتویٰ نہیں دیا جاتا ہے اب جو اپنے مجدد اعظم کی بات نہ مان کر اپنی تحقیق میں مکروہ تنزیہی کہتا ہے اسے خود ہی سمجھ لینا چاہیے کہ اس فتویٰ میں اعلی حضرت عظیم البرکت نے مکروہ تنزیہی کے قول کو ضعیف قرار دے کر رد بلیغ فرمادیا اور اسے برقرار رکھا لہذا قول ضعیف کے رد بلیغ کے لئے یہی کافی ہے۔
کوئی یہ بھی آپ کو کہ سکتا ہے کہ فلاں شہر میں مسجد کے اندر اذان دی جاتی ہے تو ہم کیوں نہیں دیں؟
اس کا جواب یہ ہے کہ کسی جگہ خلاف شرع کام کا ہونا جواز کی دلیل نہیں ہے اس بھرم کو دور فرمائیں
۔ سرکار سیدی اعلی حضرت عظیم البرکت امام اہل سنت فرماتے ہیں کہ
(2) جوف مسجد میں اذان کے جواز پر قرآن و حدیث سے کوئی دلیل نہیں
(2) اندرون مسجد اذان کو آج کل بعض مقامات میں شائع و ذائع ہو ۔مگر پورے عالم اسلام میں نہ تو اس پر اجماع ہوا ہے ۔نہ عہد رسالت سے اس کا توارث ثابت ہے ۔پس ایسے امر کے جواز نہ تو محتمل ہے نہ قابل قبول ۔اور جو فعل شرعا ناپسندیدہ ہو ۔گو لاکھ معروف و مشہور ہو ۔گو ہم اس کے ایجاد کا زمانہ متعین نہ کرسکیں ۔مقبول ومعروف شرعی نہیں ہوسکتا ۔( فتاویٰ رضویہ جلد جدید 28 ص 61) 
واللہ ورسولہ اعلم باالصواب
________(✍️)_________
کتبہ:- حضرت علامہ مولانا مفتی محمد ثناءاللہ خان ثناء القادری
 صاحب قبلہ مدظلہ العالیٰ النورانی مرپاوی سیتا مڑھی بہار
________(❤️)_________
بہ واسطہ:- حضرت علامہ مولانا محمّد جنید عالم شارق مصباحی
 صاحب قبلہ مدظلہ العالیٰ النورانی ساکن بیتاہی 
،خطیب و امام حضرت بلال جامع مسجد کوئیلی ،سیتامرھی

Post a Comment

0 Comments
* Please Don't Spam Here. All the Comments are Reviewed by Admin.

Top Post Ad

Below Post Ad

Ads Area