Type Here to Get Search Results !

پیدائشی ایک ہاتھ سے لولے امام کے پیچھے نماز پڑھنا کیسا ہے ؟

 (سوال نمبر 255)
پیدائشی ایک ہاتھ سے لولے امام کے پیچھے نماز پڑھنا کیسا ہے ؟
_________(❤️)_________
    السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ 
کیا فرماتے ہیں علمائے کرام و مفتيان عظام اس مسئلہ کے بارے میں کى ايک امام صاحب ہے جو بچوں کو قاعدہ و قران پڑھاتے ہے اور پيدائشى طور پر وہ ایک ہاتھ سے لولہے ہے لوگوں نے انہیں مسجد میں امامت نماز پڑھانے سے منع فرمایا ہے يہ کہ کر کى آپ اپاہج ہے اور اپاہج کے پيچھے نماز درست نہیں 
تو کیا ايسے امام صاحب کى اقتداء میں نماز درست ہے يا نہیں اس کے بارے میں کیا مسئلہ ہے مدلل جواب عنايت فرمائے تاکہ امام صاحب اور لوگوں کے درمیان جو بحث و مباحثہ ہے اسے ختم کیا جائے اور ہر کسى کو مسئلہ حق معلوم ہوجائے جلد از جلد جواب ديکر شکریہ کا موقع دے 
سائل:- رياض رضا رضوى مہاراشٹر۔
_________(❤️)_________
نحمده ونشكره ونصلي على رسوله الأمين
وعليكم السلام ورحمة الله وبركاته
الجواب بإسمه عز وجل

مسئلہ مسئولہ میں امام جو ایک ہاتھ سے لولے ہیں اس کی اقتداء میں نماز درست ہے جبکہ دیگر شرائط امامت پائی جاتی ہو ایک ہاتھ سے لولا ہونا منافی امامت نہیں، لہذا اگر مذکورہ امام رکوع اورسجدہ ادا کرنے پر قادر ہیں، اور نماز میں باقاعدہ رکوع اور زمین پر سجدہ  کرتے ہیں تو ان کی اقتدا میں نماز پڑھنا درست ہے، البتہ اگر کوئی پاؤں سے معذور ہو اور بیٹھ کر اشارہ سے نماز پڑھتے ہوں اور باقاعدہ زمین پر بیٹھ کر رکوع سجدہ نہیں کرسکتے تو  رکوع اور سجدہ پر قادر مقتدیوں کے لیے ان کی  امامت  درست نہیں ہے۔
جو لوگ اپاہج کے نام پر منافی امامت قرار دیتے ہیں وہ درست نہیں ہے انہیں اپنے قول سے رجوع کرنی چاہئے کہ دین میں بدون علم جری ہونا درست نہیں اور ان لوگوں کی بات قابل مسموع نہیں ۔ 
البتہ مصنف بہار شریعت رحمة اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ فالج کی امامت مکروہ تنزیہی ہے ۔
اسی طرح اندھے کی امامت میں خفیف کراہت ہے ۔
(بہار شریعت ح ٣ص ٥٧٣دعوت اسلامی)
(الدرالمختار، کتاب الصلاۃ، باب الإمامۃ، ج ۲ص ۳۵۵، ۳۶۰۔و غنیۃ المتملي شرح منیۃ المصلي ص ۵۱۴)
       

مجتہد فی المسائل اعلی حضرت رضی اللہ عنہ لنگڑے کی امامت کے بابت فرماتے ہیں فرماتے ہیں 
ایسے شخص کی امامت بلا شبہ جائز ہے۔
(فتاویٰ رضویہ ج ٦ص ٥٥٦) 
کما فی الدر المختار 
(وصح اقتداء متوضئ) لا ماء معه (بمتيمم) ولو مع متوضئ بسؤر حمار مجتبى (وغاسل بماسح) ولو على جبيرة (وقائم بقاعد) يركع ويسجد؛ لأنه صلى الله عليه وسلم  صلى آخر صلاته قاعدا وهم قيام وأبو بكر يبلغهم  تكبيره(قوله وقائم بقاعد) أي قائم راكع ساجد أو موم، وهذا عندهما خلافا لمحمد. وقيد القاعد بكونه يركع ويسجد لأنه لو كان موميا لم يجز اتفاقاً ( الدر المختار 
1/588، باب الإمامة
)       
وفیہ ایضا.
'(و) لا (قادر على ركوع وسجود بعاجز عنهما) لبناء القوي على الضعيف (قوله: بعاجز عنهما) أي بمن يومئ بهما قائماً أو قاعداً، بخلاف ما لو أمكناه قاعداً فصحيح كما سيأتي. قال ط: والعبرة للعجز عن السجود، حتى لو عجز عنه وقدر على الركوع أومأ ۔ (الدر المختار 1/579، باب الإمامة)
والله ورسوله اعلم بالصواب
_________(❤️)_________ 
کتبہ :- فقیہ العصر حضرت علامہ مولانا مفتی محمد مجيب قادری صاحب قبلہ مدظلہ العالیٰ النورانی لهان ١٨خادم دارالافتاء البركاتي علماء فاونديشن شرعي سوال و جواب ضلع سرها نيبال
٢١/١٢/٢٠٢٠

Post a Comment

0 Comments
* Please Don't Spam Here. All the Comments are Reviewed by Admin.

Top Post Ad

Below Post Ad

Ads Area