Type Here to Get Search Results !

نکاح پڑھانے کا جو روپیہ ملتا ہے اسے امام کی اجازت کے بغیر نصف رقم مسجد میں صرف کرنا کیسا ہے؟

 (سوال نمبر 259)
نکاح پڑھانے کا جو روپیہ ملتا ہے اسے امام کی اجازت کے بغیر نصف رقم مسجد میں صرف کرنا کیسا ہے؟ 
.....................................
السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
کیا فرماتے ہیں علماۓ کرام ومفتیان عظام اس مسئلہ کے بارے میں
 نکاح پڑھانے کا جو روپیہ ملتا ہے اس روپیہ کو امام کے اجازت کے بغیر
 آدھے امام کو دینا اور آدھے مسجد میں لگانا درست ہے یا نہیں 
قرآن وحدیث کی روشنی میں مدلل جواب عنایت فرمایں
المستفتی:-  محمد کمال الدین مقیم حال۔آندھرا پردیش
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نحمده ونشكره ونصلي على رسوله الأمين
وعليكم السلام ورحمة الله وبركاته
الجواب بعونہ تعالى عز وجل
نکاحانہ ایک قسم کی اجرت ہے ۔جس طرح تعلیم دین و قرآن و امامت پر اجرت لینا جائز ہے نکاحانہ بھی اسی قبیل سے ہے۔ لمحہ فکر، خود اس قابل بنتے نہیں اور جو ہے ان کی قدر نہیں کرتے۔ پھر امام صاحب کی تنخواہ اور موجودہ دور کی مہگائی
 ۔۔اہل علم و دانش پر مخفی نہیں ۔
پھر بھی نظر نکاحانہ پر ہوتی ہے ۔اخلاقاعرفا اور شرعا نکاحانہ امام صاحب یعنی نکاح پڑھا نے والے کا حق ہے ۔ اسے مکمل دیا جائے ۔
فتاوی عالمگیری“ میں ہے وکل نکاح باشرہ القاضی وقد وجبت مباشرتہ علیہ، کنکاح الصغار والصغائر فلایحل لہ أخذ الأجرة علیہ ومالم تجب مباشرتہ علیہ حل لہ أخذ الآخرة علیہ، کذا فی المحیط، واختلفوا فی تقدیرہ والمختار للفتوی أنہ إذا عقد بکراً یاخذ دیناراً وفی الثیب نصف دیناراً ویحل لہ ذلک ہکذا قالوا ۔ کذا فی البرجندی (ص: ۳۴۵/۳) 
البتہ جو نکاح کے لئے امام صاحب کو بلائے نکاحانہ اسی کے ذمے ہے ۔یعنی اگر دولھا والے بلائے تو دولھے والے پر ورنہ دلہن والے ضامن ہوں گے ۔
اور نکاح پڑھانے والا پوری اجرت لینے کا حقدار ہوتا ہے، اس میں سے کسی قاضی اور کسی مسجد و مدرسہ کو اپنا حق لینا جائز نہیں۔
اور جبرا لینا ظلم ہے، اگر منتظمین و اہل محلہ مولانا سے پہلے سے اتفاق کرلیا ہے تب اہل مسجد و مدرسہ کا لینا جائز ہے ۔پر اتفاق نہیں کرنی چاہئے ۔
کہ مو لانا بوجہ مجبوری ہاں کردےتے ہیں ۔۔ کہ جو ہی ہاتھ وہی ساتھ ۔۔
ایسے لوگوں کو یوم الحساب حساب دینا بہت مشکل ہوگا ۔۔اور حقوق العباد کے تحت مواخذہ ہوگا ۔
والله ورسوله اعلم بالصواب
_________(❤️)_________ 
کتبہ :- فقیہ العصر حضرت علامہ مولانا مفتی محمد مجيب قادری صاحب قبلہ مدظلہ العالیٰ النورانی لهان ١٨خادم دارالافتاء البركاتي علماء فاونديشن شرعي سوال و جواب ضلع سرها نيبال
٢٤/١٢/٢٠٢٠

Post a Comment

0 Comments
* Please Don't Spam Here. All the Comments are Reviewed by Admin.

Top Post Ad

Below Post Ad

Ads Area