Type Here to Get Search Results !

نکاح کی کتنی قسمیں ہیں؟

 (سوال نمبر 2048)
نکاح کی کتنی قسمیں ہیں؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ 
کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین مسئلہ ذیل کے بارے میں کہ  
نکاح عرفی کیا ہے؟ اور اس کی تعریف کیا ہے؟
سائل:- اسرار حسین شاہ شہر اٹک پاکستان 
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نحمده و نصلي على رسوله الأمين 
وعليكم السلام ورحمة الله وبركاته 
الجواب بعونه تعالى عز وجل 

نکاح تو ایک ہی ہے جو نکاح شرعی ہے اور کتاب و سنت سے ثابت ہے ۔
باقی نکاح متعہ اور نکاح مسیار اور نکاح عرفی یہ سب حرام ہیں۔ 
نکاح عرفی عقد نکاح کے بغیر شادی کرنے کو کہتے ہیں یہ کچھ دنوں سے بعض جگہوں میں رائج ہے جو عقد نکاح تو ہوتا ہے لیکن ولی گواہ یا اعلان نکاح نہیں ہوتا یہ نکاح عرفی بعض علاقوں میں رائج ہے اس نکاح کا حکم یہ ہے کہ یہ تمام علماء کے نزدیک حرام اور باطل ہے۔
نکاح کے لغوی معنی۔ جذب ہونا ، ایک شے کا دوسری شے سے مل جانا۔
اصطلاحی معنی ۔نکاح اس عقد کو کہتے ہیں جو اس لیے مقرر کیا گیا ہو کہ مرد کو عورت سے جماع وغیرہ حلال ہو جائے۔ (بہارِ شریعت)
واضح رہے کہ جو شخص کسی عورت کے ساتھ ایسا عقدِ نکاح کرے جس میں بچے کی پیدائش اور اس کی تعلیم و تربیت وغیرہ جیسے مقاصدِ نکاح کے حصول کا ارادہ نہ کیا گیا ہو، بلکہ مدتِ معینہ مکمل ہونے پر عقد بھی ختم ہو جائے۔ یا ایسا نکاح جس میں مدت تو متعین نہ کی گئی ہو بلکہ یہ ارادہ کیا گیا ہو کہ عقد اس وقت تک قائم رہے گا جب تک شوہر اور بیوی اکٹھے رہیں گے، جب الگ ہو جائیں تو عقد ختم ہو جائے گا۔ نکاحِ متعہ، نکاحِ مؤقت اور متعین مدت کے لیے ہونے والے نکاح میں ایسا ہی ہوتا ہے۔
اس طرح ہونے والا ہر نکاح دراصل نکاحِ متعہ ہی ہے اگرچہ اس میں زوجیت کا لفظ استعمال کیا گیا ہو اور گواہ بھی حاضر ہوں
١/ نکاح عرفی عقد نکاح کے بغیر شادی کرنے کو کہتے ہیں ۔ عقد نکاح تو ہوتا ہے لیکن بعض شرطیں نہیں ہوتیں ۔یعنی ولی گواہ یا اعلان نکاح نہیں ہوتا یہ نکاح عرفی بعض علاقوں میں رائج ہے اس سے نکاح کا حکم یہ ہے کہ یہ تمام علماء کے نزدیک حرام اور باطل ہے
اس قسم کے نکاح کے ساتھ میاں بیوی ملاپ نہیں کرسکتے۔اگر کریں گے تو نافرمان ثابت ہونگے اور انہیں سزا دی جائیگی علیحدہ کردیا جائیگا اس نکاح کا نقصان سب سے پہلے تو یہ یہ ایک بہت بڑا گناہ اور بغاوت شریعت ہے ۔ دوسرا اس نکاح میں زوجین میں سے کوئی ایک اولاد سے انکاری ہوجاتا ہے ۔
زوجہ کو غالباً ضرر اور نقصان زیادہ پہنچتا ہے وراثت ضائع حق مہر ضائع اور عدت کا خرچہ بھی ضائع ہوجاتا ہے
عقد نکاح کن الفاظ سے منعقد ہوتا ہے اس سوال کا جواب یہ ہے کہ بعض علماء کے نزدیک نکاح کا انعقاد لفظ نکاح یا لفظ تزبیج کے ساتھ ہی ہوتا ہے لیکن راجح بات یہ ہے کہ ان کے علاوہ ہر اس لفظ سے بھی عقد نکاح ہوسکتا ہے جونکاح ایجاب قبول پر دلالت کرتا ہے ۔اس لیے فقہائے احناف کے نزدیک ایسا نکاح جو خاص مدت کی شرط پر کیا جائے وہ شرعاً جائز نہیں ہے اور سرے سے منعقد ہی نہیں ہوتا۔ ایسے مؤقت نکاح کی بناء پر قائم ازدواجی تعلق زنا کے مترادف ہے۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو دین کی سمجھ عطاء فرمائے 
صاحب مرآت رحمت اللہ علیہ فرماتے ہیں 
نکاح متعہ قطعًا حرام ہے اس کے بعد جو صحبت ہوگی تو محض زنا ہوگی،جس پر سارے احکام زنا جاری ہوں گے۔متعہ کی حرمت پر قرآنی آیات واحادیث شاہد ہیں،رب تعالٰی فرماتا ہے مُّحْصِنِیۡنَ غَیۡرَ مُسٰفِحِیۡنَ"اور فرماتا ہے: فَمَنِ ابْتَغٰی وَرَآءَ ذٰلِکَ فَاُولٰٓئِکَ ہُمُ الْعَادُوۡنَ
بیوی و لونڈی کے علاوہ اور کوئی عورت تلاش کرو کہ تم حد سے آگے بڑھنے والے ہو۔ممنوعہ بیوی نہ بیوی ہے نہ لونڈی اس لیے اس کو میراث نہیں ملتی۔
ہدایہ میں ہے کہ امام مالک کے ہاں نکاح متعہ حلال ہے اور میعاد کی شرط باطل ہے۔فتح القدیر میں ہےکہ یہ نسبت غلط ہے حق یہ ہےکہ متعہ کی حرمت پر امت رسول کا اجماع ہے۔
سیدنا عبد اللہ ابن عباس کو اس کے نسخ کی خبر نہ پہنچی تو اولًا وہ جواز کے قائل رہے خبر پہنچ جانے پر وہ بھی حرمت کے قائل ہوگئے ،دیکھئے مسلم ونووی عبد اللہ ابن عباس کا رجوع۔اس جگہ مرقات میں بھی بیان فرمایا شیعہ کے اکثر فرقے متعہ حرام جانتے ہیں الا البعض۔(مرقات)
حضرت ابن عباس کافرمان آگے مشکوۃ شریف میں بھی آرہا ہے کہ متعہ شروع اسلام میں تھا پھرحرام ہوگیا۔(المرات ج 5 ص 68 مکتبہ المدینہ)
مصنف بہار شریعت رحمت اللہ علیہ فرماتے ہیں 
 متعہ حرام ہے یوہیں اگر کسی خاص وقت تک کے لیے نکاح کیا تو یہ نکاح بھی نہ ہوا اگرچہ دو سو ۲۰۰ برس کے لیے کرے
مجتہد فی المسائل اعلی حضرت رضی اللہ عنہ
فتاوی رضویہ ج۱۱،ص ۲۳۶ پر فرماتے ہیں متعہ کی حرمت صحیح حدیثوں سے ثابت ہے
 امیرالمؤمنین مولی علی کرم اللہ تعالی وجہہ الکریم کے ارشادوں سے ثابت ہے ،صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے اقوال شریفہ سے ثابت ہے ، اور سب سے بڑھ کریہ کہ قراٰن عظیم سے ثابت ہے
 اللہ عزوجل فرماتاہے
 {وَ الَّذِیْنَ هُمْ لِفُرُوْجِهِمْ حٰفِظُوْنَۙ(۵) اِلَّا عَلٰۤى اَزْوَاجِهِمْ۔الخ }
(پ۱۸،المؤمنون ۷،۶،۵)عِلْمِیہ  (بہار ح 7 ص 36 مکتبہ المدینہ)
نکاح مسیار
اہل سنت خصوصاً عربوں میں رائج ایک قسم کا نکاح ہے جو عام نکاح کی طرح منعقد ہوتا ہے مگر اس میں مرد و عورت باہمی رضامندی سے اپنے اپنے کچھ حقوق سے دستبردار ہو جاتے ہیں۔ مثلاً عورت کے نان و نفقہ کا حق، ساتھ رہنے کا حق، باری کی راتوں کا حق، وغیرہ۔ عام طور پر اس میں وقت مقرر نہیں ہوتا مگر دیکھنے میں یہی آیا ہے کہ زیادہ تر یہ قلیل مدت کے بعد ختم ہو جاتا ہے اس لحاظ سے یہ نکاح متعہ سے شباہت رکھتا ہے مگر یہ نکاح متعہ نہیں ہے۔ کیونکہ اگرچہ اس نکاح کے بعد مروّجہ شادی نہیں ہوتی اور مرد و عورت اکثر ساتھ بھی نہیں رہتے اور اپنی جنسی ضروریات کو بوقت ضرورت حلال طریقہ سے پورا کرتے ہیں لیکن اس میں مدت متعین نہیں کی جاتی اور اس کا خاتمہ طلاق پر ہوتا ہے
نکاح متعہ
جسے عرف عام میں متعہ یا صیغہ کہا جاتا ہے؛ ولی (شہادت) کی موجودگی یا غیر موجودگی میں ہونے والا ایک ایسا نکاح ہے جس کی مدت ایک روز، چند روز، ماہ، سال یا کئی سال معین ہوتی ہے جو فریقین خود طے کرتے ہیں اور اس مدت کے اختتام پر خود بخود علیحدگی ہو جاتی ہے یا اگر مرد باقی ماندہ مدت بخش دے تب بھی عورت نکاح سے آزاد ہو جاتی ہے مگر ہر صورت میں عدت اپنی شرائط کے ساتھ پوری کرنی پڑتی ہے ؛ اور اولاد انہیں والدین سے منسوب ہو تی ہے؛ اگر فریقین چاہیں تو مدتِ اختتامِ متعہ پر علیحدگی کی بجائے اسے جاری (یا مستقل) بھی کر سکتے ہیں۔۔
والله ورسوله اعلم بالصواب
_________(❤️)_________ 
کتبہ :- فقیہ العصر حضرت علامہ مولانا مفتی محمد مجيب قادری صاحب قبلہ مدظلہ العالیٰ النورانی لهان ١٨خادم دارالافتاء البركاتي علماء فاونديشن شرعي سوال و جواب ضلع سرها نيبال
٦/٣/٢٠٢٢

Post a Comment

0 Comments
* Please Don't Spam Here. All the Comments are Reviewed by Admin.

Top Post Ad

Below Post Ad

Ads Area