(سوال نمبر 291)
نماز میں مکبر کو امام سے کتنی دروی پر کھڑا ہونا چاہیے ؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
السلام علیکم رحمتہ اللہ وبرکاتہ
نماز میں مکبر کو امام سے کتنی دروی پر کھڑا ہونا چاہیے ؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
السلام علیکم رحمتہ اللہ وبرکاتہ
کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین مسئلہ ذیل کے بارے میں کہ مکبر کو امام سے کتنے دوری رکھا جائی بعض مساجد میں جو مکبر ٹھیک امام کے پیچھے کھڑے ہوکر تکبیرات اداکرتے ہیں جبکہ امام کی آواز مکبر سے بلند ہے توکیا یہ صحیح ہے براۓ کرم اقوال فقہا اور قرآن وحدیث کی روشنی میں جواب عنایت فرمائیں کہ امام سے کتنی دوری پر مکبر ہو اور دوسری بات یہ کہ جس مسجد میں مائک سے نماز برسوں سے ہورہی ہو جمعہ اور عیدین کی اب اگر مائک بند کروانے کی نے امام کوشش کرے تو سخت فتنہ کا اندیشہ ہو حتی کہ امام صاحب کو امامت سے معزولی کا اندیشہ ہی نہیں یقین ہو جاہل ٹرسٹ و متولی کے سبب تو امام صاحب کے بارے کیا حکم ہے جواب عطا فرمائیں نوازش ہوگی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نحمدہ و نصلی علی رسولہ الامین
وعلیکم السلام و رحمتہ اللہ و برکاتہ
الجواب بعونه تعالى عز وجل
١/مکبر کو ٹھیک امام کے پیچھے کھڑا ہونا درست نہیں ،مکبر وہاں کھڑا ہو جہاں تک امام کی آواز کی اینڈ ہو ورنہ مکبر کا اصلا کوئی فائدہ نہیں ۔
یعنی جہاں ضرورت ہو ۔وہاں مکبر کھڑا ہوگا ۔واضح رہے کہ مکبر میں بھی شرائط امامت موجود ہو ۔
مصنف بہار شریعت رحمت اللہ علیہ فرماتے ہیں
مکبّر کو چاہیے کہ اس جگہ سے تکبیر کہے جہاں سے لوگوں کو اس کی حاجت ہے، پہلی یا دوسری صف میں
جہاں تک امام کی آواز بلا تکلف پہنچتی ہے ،یہاں سے تکبیر کہنے کا کیا فائدہ نیز یہ بہت ضروری ہے کہ امام کی آواز کے ساتھ تکبیر کہے امام کے کہہ لینے کے بعد تکبیر کہنے سے لوگوں کو دھوکا لگے گا، نیز یہ کہ اگر مکبّر نے تکبیر میں مد کیا تو امام کے تکبیر کہہ لینے کے بعد اس کی تکبیر ختم ہونے کا انتظار نہ کریں ، بلکہ تشہد وغیرہ پڑھنا شروع کر دیں یہاں تک کہ اگر امام تکبیر کہنے کے بعد اس کے انتظار میں تین بار سبحان اﷲ کہنے کے برابر خاموش رہا، اس کے بعد تشہد شروع کیا ترک واجب ہوا، نماز واجب الاعادہ ہے۔
بہار شریعت ح ٣ص ٥٢٦دعوت اسلامي
٢/ برسوں سے مائک پر نماز ہو رہی ہے اور شرعا جائز بھی ہے تو امام کو بند کرانا درست نہیں ۔
اللہ تعالیٰ ارشاد ہے :
(آیت) ” وما جعل علیکم فی الدین من حرج “۔ (الحج : ٧٨)
ترجمہ : اللہ نے دین میں تم پر کسی قسم کی تنگی نہیں رکھی۔
(آیت) ” یرید اللہ بکم الیسر ولا یرید بکم العسر “۔ (البقرۃ : ١٨٥)
اللہ تمہارے ساتھ آسانی کا ارادہ فرماتا ہے اور تم کو مشکل میں ڈالنے کا ارادہ نہیں فرماتا۔
امام محمد بن اسماعیل بخاری متوفی ٢٥٦ ھ روایت کرتے ہیں :
حضرت ابوہریرہ (رضی اللہ عنہ ) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا تم آسان احکام بیان کرنے کے لیے بھیجے گئے ہو اور لوگوں کو مشکل میں ڈالنے کے لیے نہیں بھیجے گئے۔
(صحیح بخاری ج ١٠ ص ٣٥‘ مطبوعہ نور محمد اصح المطابع ‘ کراچی ‘ ١٣٨١ ھ)
جبکہ فتنہ و فساد کا بھی خدشہ ہے ۔
جب شریعت نے اجازت دی ہے تو امام کو ایسا کرنا ہرگز رواں نہیں ۔
مکبّر کو چاہیے کہ اس جگہ سے تکبیر کہے جہاں سے لوگوں کو اس کی حاجت ہے، پہلی یا دوسری صف میں
جہاں تک امام کی آواز بلا تکلف پہنچتی ہے ،یہاں سے تکبیر کہنے کا کیا فائدہ نیز یہ بہت ضروری ہے کہ امام کی آواز کے ساتھ تکبیر کہے امام کے کہہ لینے کے بعد تکبیر کہنے سے لوگوں کو دھوکا لگے گا،
بہار شریعت ح ٣ص ٥٢٦دعوت اسلامي
٢/ جمہور علماء کے نزدیک لاوڈ اسپیکر کے ساتھ نماز بلا کراہت جائز ہے، سوائے ہند و پاک کے بعض علماء کے نزدیک جائز نہیں ہے وہ بھی آج سے بیس پچیس سال قبل عدم جواز کے قائل تھے پر آج بیس پچیس سال بعد اکثریت جواز کے قائل ہیں ،
اسپیکر کی ایجاد کے ابتدائی دور میں اہلِ علم کی آراء نماز میں اس کے استعمال کے حوالے سے مختلف تھیں کہ آیا اس کی آواز کی بنیاد پر مقتدی کی نماز درست ہوگی یا نہیں؟ اور اس اختلاف کا منشا یہ تھا کہ خود سائنس دانوں کا اس نکتے پر اختلاف تھا کہ آیا اسپیکر سے سنائی دینے والی آواز قائل کی اصل آواز ہی ہے یا اس کی صدائے بازگشت؟ دونوں آراء تھیں، نتیجتاً اہلِ علم میں بھی دونوں آراء سامنے آئیں، اور اسی بنا پر بعض اہلِ علم نے احتیاطاً فرض نماز میں اس کے استعمال کو منع کیا۔
لیکن بعد میں تقریباً تمام اہلِ علم اس کے استعمال کے جواز پر متفق ہوگئے، الا ما شاء اللہ ،تمام اہل علم سے میری مراد پوری دنیا کے اہل علم ہے اس لئے موجودہ وقت میں لاؤڈ اسپیکر کے ساتھ نماز ہوجاتی ہے اس میں کوئی حرج نہیں ہے، اس لیے کہ وہ مکبرکے قائم قام ہے۔ مکبر سے مراد وہ شخص ہے جو امام کے پیچھے کھڑا ہو کر اونچی آواز میں اللہ اکبر اور ربنا لک الحمد پڑھتا ہے تاکہ پیچھے نمازیوں کو آواز پہنچ سکے، اس لیے مکبر بنانا جائز ہے۔ البتہ اس بات کا خیال رکھنا چاہیے کہ لاؤڈ اسپیکر سے نماز ادا کرتے وقت کو ئی عمل کثیر نہ ہو یعنی امام صاحب دوران نماز مائک کو بار بار درست نہ کریں۔ وغیرہ وغیرہ۔
یاد رہے یہ مختلف فیہ مسئلہ ہے اس لئے لاوڈ اسپیکر کے ذریعے سن کر اقتداء کرنے والے کے بابت نماز صحیح ہونے اور نہ ہونے کے بابت علماء اہل سنت ہند کے درمیان اختلاف ہے ،بڑی تعداد میں اقتداء کو غلط اور اس طرح پڑھی جانے والی نماز کو ناجائز کہتی ہے،( واضح رہے کہ بڑی تعداد آج سے بیس پچیس سال قبل تھی موجودہ دور میں بڑی تعداد جواز والوں کی ہے ) اور کم تعداد میں علماء کرام اسے جائز قرار دیتے ہیں، اب اس صورت میں جن میں قلیل التعداد کے نزدیک لاوڈ اسپیکر کی آواز عین امام کی آواز ہے ان کے نزدیک سب مقتدیوں کی نماز ہوگئی اور جن کثیر العلماء کے نزدیک لاوڈ اسپیکر کی آواز(امام بولنے والے )کی آواز کے غیر ہے ان کی نماز صحیح نہیں ہوگی ،
اسی طرح فتاوی بحرالعلوم میں ہے ۔
(فتاوی بحر العلوم ج ١ ص ٣٢٥،،كتاب الصلاة )
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نحمدہ و نصلی علی رسولہ الامین
وعلیکم السلام و رحمتہ اللہ و برکاتہ
الجواب بعونه تعالى عز وجل
١/مکبر کو ٹھیک امام کے پیچھے کھڑا ہونا درست نہیں ،مکبر وہاں کھڑا ہو جہاں تک امام کی آواز کی اینڈ ہو ورنہ مکبر کا اصلا کوئی فائدہ نہیں ۔
یعنی جہاں ضرورت ہو ۔وہاں مکبر کھڑا ہوگا ۔واضح رہے کہ مکبر میں بھی شرائط امامت موجود ہو ۔
مصنف بہار شریعت رحمت اللہ علیہ فرماتے ہیں
مکبّر کو چاہیے کہ اس جگہ سے تکبیر کہے جہاں سے لوگوں کو اس کی حاجت ہے، پہلی یا دوسری صف میں
جہاں تک امام کی آواز بلا تکلف پہنچتی ہے ،یہاں سے تکبیر کہنے کا کیا فائدہ نیز یہ بہت ضروری ہے کہ امام کی آواز کے ساتھ تکبیر کہے امام کے کہہ لینے کے بعد تکبیر کہنے سے لوگوں کو دھوکا لگے گا، نیز یہ کہ اگر مکبّر نے تکبیر میں مد کیا تو امام کے تکبیر کہہ لینے کے بعد اس کی تکبیر ختم ہونے کا انتظار نہ کریں ، بلکہ تشہد وغیرہ پڑھنا شروع کر دیں یہاں تک کہ اگر امام تکبیر کہنے کے بعد اس کے انتظار میں تین بار سبحان اﷲ کہنے کے برابر خاموش رہا، اس کے بعد تشہد شروع کیا ترک واجب ہوا، نماز واجب الاعادہ ہے۔
بہار شریعت ح ٣ص ٥٢٦دعوت اسلامي
٢/ برسوں سے مائک پر نماز ہو رہی ہے اور شرعا جائز بھی ہے تو امام کو بند کرانا درست نہیں ۔
اللہ تعالیٰ ارشاد ہے :
(آیت) ” وما جعل علیکم فی الدین من حرج “۔ (الحج : ٧٨)
ترجمہ : اللہ نے دین میں تم پر کسی قسم کی تنگی نہیں رکھی۔
(آیت) ” یرید اللہ بکم الیسر ولا یرید بکم العسر “۔ (البقرۃ : ١٨٥)
اللہ تمہارے ساتھ آسانی کا ارادہ فرماتا ہے اور تم کو مشکل میں ڈالنے کا ارادہ نہیں فرماتا۔
امام محمد بن اسماعیل بخاری متوفی ٢٥٦ ھ روایت کرتے ہیں :
حضرت ابوہریرہ (رضی اللہ عنہ ) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا تم آسان احکام بیان کرنے کے لیے بھیجے گئے ہو اور لوگوں کو مشکل میں ڈالنے کے لیے نہیں بھیجے گئے۔
(صحیح بخاری ج ١٠ ص ٣٥‘ مطبوعہ نور محمد اصح المطابع ‘ کراچی ‘ ١٣٨١ ھ)
جبکہ فتنہ و فساد کا بھی خدشہ ہے ۔
جب شریعت نے اجازت دی ہے تو امام کو ایسا کرنا ہرگز رواں نہیں ۔
مکبّر کو چاہیے کہ اس جگہ سے تکبیر کہے جہاں سے لوگوں کو اس کی حاجت ہے، پہلی یا دوسری صف میں
جہاں تک امام کی آواز بلا تکلف پہنچتی ہے ،یہاں سے تکبیر کہنے کا کیا فائدہ نیز یہ بہت ضروری ہے کہ امام کی آواز کے ساتھ تکبیر کہے امام کے کہہ لینے کے بعد تکبیر کہنے سے لوگوں کو دھوکا لگے گا،
بہار شریعت ح ٣ص ٥٢٦دعوت اسلامي
٢/ جمہور علماء کے نزدیک لاوڈ اسپیکر کے ساتھ نماز بلا کراہت جائز ہے، سوائے ہند و پاک کے بعض علماء کے نزدیک جائز نہیں ہے وہ بھی آج سے بیس پچیس سال قبل عدم جواز کے قائل تھے پر آج بیس پچیس سال بعد اکثریت جواز کے قائل ہیں ،
اسپیکر کی ایجاد کے ابتدائی دور میں اہلِ علم کی آراء نماز میں اس کے استعمال کے حوالے سے مختلف تھیں کہ آیا اس کی آواز کی بنیاد پر مقتدی کی نماز درست ہوگی یا نہیں؟ اور اس اختلاف کا منشا یہ تھا کہ خود سائنس دانوں کا اس نکتے پر اختلاف تھا کہ آیا اسپیکر سے سنائی دینے والی آواز قائل کی اصل آواز ہی ہے یا اس کی صدائے بازگشت؟ دونوں آراء تھیں، نتیجتاً اہلِ علم میں بھی دونوں آراء سامنے آئیں، اور اسی بنا پر بعض اہلِ علم نے احتیاطاً فرض نماز میں اس کے استعمال کو منع کیا۔
لیکن بعد میں تقریباً تمام اہلِ علم اس کے استعمال کے جواز پر متفق ہوگئے، الا ما شاء اللہ ،تمام اہل علم سے میری مراد پوری دنیا کے اہل علم ہے اس لئے موجودہ وقت میں لاؤڈ اسپیکر کے ساتھ نماز ہوجاتی ہے اس میں کوئی حرج نہیں ہے، اس لیے کہ وہ مکبرکے قائم قام ہے۔ مکبر سے مراد وہ شخص ہے جو امام کے پیچھے کھڑا ہو کر اونچی آواز میں اللہ اکبر اور ربنا لک الحمد پڑھتا ہے تاکہ پیچھے نمازیوں کو آواز پہنچ سکے، اس لیے مکبر بنانا جائز ہے۔ البتہ اس بات کا خیال رکھنا چاہیے کہ لاؤڈ اسپیکر سے نماز ادا کرتے وقت کو ئی عمل کثیر نہ ہو یعنی امام صاحب دوران نماز مائک کو بار بار درست نہ کریں۔ وغیرہ وغیرہ۔
یاد رہے یہ مختلف فیہ مسئلہ ہے اس لئے لاوڈ اسپیکر کے ذریعے سن کر اقتداء کرنے والے کے بابت نماز صحیح ہونے اور نہ ہونے کے بابت علماء اہل سنت ہند کے درمیان اختلاف ہے ،بڑی تعداد میں اقتداء کو غلط اور اس طرح پڑھی جانے والی نماز کو ناجائز کہتی ہے،( واضح رہے کہ بڑی تعداد آج سے بیس پچیس سال قبل تھی موجودہ دور میں بڑی تعداد جواز والوں کی ہے ) اور کم تعداد میں علماء کرام اسے جائز قرار دیتے ہیں، اب اس صورت میں جن میں قلیل التعداد کے نزدیک لاوڈ اسپیکر کی آواز عین امام کی آواز ہے ان کے نزدیک سب مقتدیوں کی نماز ہوگئی اور جن کثیر العلماء کے نزدیک لاوڈ اسپیکر کی آواز(امام بولنے والے )کی آواز کے غیر ہے ان کی نماز صحیح نہیں ہوگی ،
اسی طرح فتاوی بحرالعلوم میں ہے ۔
(فتاوی بحر العلوم ج ١ ص ٣٢٥،،كتاب الصلاة )
والله ورسوله اعلم بالصواب
_________(❤️)_________
کتبہ :- فقیہ العصر حضرت علامہ مولانا مفتی محمد مجيب قادری صاحب قبلہ مدظلہ العالیٰ النورانی لهان ١٨خادم دارالافتاء البركاتي علماء فاونديشن شرعي سوال و جواب ضلع سرها نيبال