Type Here to Get Search Results !

مفتی اعظم بہار مدظلہ العالی کی فقہائے احناف خصوصا مشائخ بریلی شریف کے اقوال کی روشنی میں قسط نمبر (4)

مفتی اعظم بہار مدظلہ العالی کی فقہائے احناف خصوصا مشائخ بریلی شریف کے اقوال کی روشنی میں قسط نمبر 4 چہارم
________(❤️)_________
قسط نمبر 4 
مسجد کے اندر اذان دینا مکروہ تحریمی ہے
(1) اذا کان الغراب دلیل قوم
(2)سیھدیھم طریق الھا الکینا۔
جب قوم کا رہبر کوا ہوگا تو ان کو ہلاکت ہی دکھائے گا :
اسی لئے دنیاوی اور دینی امور میں امرا صاحب اختیار یعنی قوم مسلم کے تمام دنیوی اور دینی پیشوا کا اہم فریضہ ہے کہ اپنے علاقہ جہاں مسجد کے اندر اذان دی جاتی ہے وہاں جاکر خارج مسجد اذان دلوانے کی حتی الامکان کوشش کریں ان شاءاللہ کامیابی و کامرانی حاصل ہوگی اور قوم ہلاکت سے بچ جائے گی۔
(3) شاخ گل ہر جاکہ رویدہم گل ست۔
پھول کی شاخ جہاں بھی اگے گی وہ پھول بن کر ہی اگے گی : یعنی نیک نیت سے کوشش کرنے والے پھول بن کر سب کو معطر کردیں گے
(4).المرء یقیس علی نفسہ یعنی آدمی اپنے ہی احوال پر(دوسرے کو) قیاس کرتا ہے حالانکہ اس کو اپنی اصلاح پر دھیان دینی چاہئے : آج کل نئے نئے مفتیان کرام مشائخ بریلی شریف کے تفقہ فی الدین کو اپنے علم پر قیاس کرکے اکابرین کے خلاف کمزور اور بے بنیاد غیر مفید تحقیق کرنے میں مشغول ہیں سب کو اپنے سے کم علم والے سمجھتے ہیں استغفرُللہ جبکہ وہ ان مشائخ کے کسی مقابل میں نہیں ہے
بزرگوں نے لکھا ہے کہ
(5) کسی کا بہترین ہتھیار اس کی اپنی اصلاح ہے۔ (اخبار الاخبار)
 اس لیے پہلے اپنی اصلاح کریں اسی میں دونوں جہاں کی بھلائیاں پوشیدہ ہے
(5)کسی بھی اکابرین کے اقوال کا بغیر دلائل کے رد کرنا مناسب بات نہیں ہے اختلاف رحمت ہے لیکن لفاظی اور شخصیت پرحملہ کرکے نہیں بلکہ ٹھوس دلائل سے کریں
)6) اور یہ کہنا کہ یہ میرا فیصلہ ہے ہم فروعی مسائل میں اختلاف کرسکتے ہیں یہ وہی کہے گا جو علم سے نابلد ہوگا کیونکہ یہ اختیار آج کل کے مفتی ناقل کو حاصل نہیں ہے ہاں جہل مرکب کو حاصل ہوسکتا ہے
معلوم ہونا چایئے کہ مسجد کے باہر اذان دینا سنت ہے اور جہاں اس کے خلاف اذان داخل مسجد میں دی جاتی وہاں یہ سنت مردہ ہوگئی اب جو اسے باہر سے اذان دلوائے گا اور کوشش کرےگا اسے سو شہیدوں کا ثواب ملے گا اب مرضی آپ کی داخل مسجد اذان دلواکر یا دے کر خلاف سنت اور مکروہ و ممنوع کا ارتکاب کریں یا خارج مسجد اذان دے کر یا دلواکر سو شہیدوں کا ثواب حاصل کریں۔
پنچوقتی اذان یا جمعہ کی نماز کے لئے اذان اول اور اذان ثانی مسجد سے باہر دلوانے امام اور مسلمان کو سو شہیدوں کا ثواب حاصل ہو گا
الجواب ۔بے شک سنت کو زندہ کرنے والا مستحق ثواب ہیں ۔حضرت انس رضی آللہ تعالیٰ عنہ کی حدیث ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں کہ
من احیا سنتی فقد احبنی و من احبنی کان معی فی الجنۃ۔ ( رواہ الجزری فی الابانۃ والترمذی ںلفظ من احب )
یعنی جس نے میری سنت زندہ کی بے شک اسے مجھ سے محبت ہے اور جو مجھ سے محبت کرے گا وہ جنت میں میرے ساتھ ہوگا ۔(اللھم ارزقنا )
حضرت بلال رضی آللہ تعالیٰ عنہ کی حدیث ہے رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں
من احیا سنۃ من سنتی فقد امیتت بعدی فان لہ من من الاجر مثل اجور من من عمل بھا من غیر ان ینقض من اجورھم شیئا۔یعنی جو میری کوئی سنت زندہ کرے کہ لوگوں نے میرے بعد چھوڑ دی ہو جتنے اس پر عمل کریں سب کے برابر ثواب ملے اور ان کے ثوابوں میں کچھ کمی نہ ہو (رواہ الترمذی و رواہ ابن ماجۃ عن عمرو بن عوف )
ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما کی حدیث ہے رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں
من تمسک بسنتی عند فساد امتی فلہ اجر مآۃ شھید
یعنی جو فساد کے وقت میری سنت مضبوط تھامے اسے سو شہیدوں کا ثواب ملے (رواہ البیہقی فی الزہد)
ظاہر ہے کہ زندہ وہی سنت کہلائے گی جو مردہ ہوگئی اور سنت مردہ جب ہی ہوگی کہ اس کے خلاف رواج پڑجائے ۔
لہزا جہاں جہاں مسجد کے اندر اذان دی جارہی ہے وہاں وہاں سنت مردہ ہورہی ہے اب اس جگہ کوئی امام یا عالم یا عوام باہر سے اذان دلوائے گا اسے سو شہیدوں کا ثواب حاصل ہو گا
مسجد کے اندر اذان مکروہ تحریمی ہے یا مکروہ تنزیہی
الجواب ۔ہمارے تمام علمائے اہل سنت وجماعت کے نزدیک داخل مسجد اذان دینا مکروہ تحریمی ہے کسی ایک سے بھی مکروہ تنزیہی ہونے پر کوئی قول کسی کتاب میں منقول نہیں ہے ۔مثلا فتاوی رضویہ ۔فتاوی حجۃالاسلام ۔فتاوی مفتی اعظم ۔فتاوی صدر الافاضل ۔فتاوی بحرالعلوم ۔فتاوی فیض رسول ۔فتاوی فقیہ ملت ۔فتاوی مرکزتربیت افتاء فتاوی برکاتیہ ۔فتاوی تاج الشریعہ ۔فتاوی حبیب اللہ اور بہار شریعت وغیرہ سب میں مکروہ تحریمی ہے ایک کتاب میں بھی داخل مسجد اذان دینا مکروہ تنزیہی یا خلاف اور یا سنت یا جائز لکھا ہوا کوئی دیکھا نہیں سکتا ہے۔
بہار شریعت میں ہے کہ مسجد میں اذان کہنا مکروہ ہے ۔یہ حکم ہر اذان کے لئے ہے ۔فقہ کی کسی کتب میں کوئی اذان اس سے مستثنی نہیں ۔اذان ثانی جمعہ بھی اس میں داخل ہے ۔(بہار شریعت جلد سوم اذان کا۔ بیان )
آج کل نئے مفتی لوگ اپنی قابلیت کی بنا پر اس مکروہ سے مراد مکروہ تنزیہی کہتے ہیں جبکہ اس کے پاس اس پر دلیل نہیں ہے صرف ہٹ دھرمی ضدي پن ہے ۔ اس فقیر نے قسط دوم اور سوم میں مکروہ سے مراد مکروہ تحریمی ہے کافی دلائل سے جواب لکھنے کا شرف حاصل کرکے آپ لوگوں کی خدمت میں پیش کردیا ہے ۔
*آخر فقہا لکھتے ہیں کہ مسجد میں اذان نہ دی جائے یا پھر علماصرف مکروہ لکھتے ہیں اسی لئے علمائے دیوبند اور سرکار سیدی اعلی حضرت عظیم البرکت امام احمد رضا خان قادری بریلی شریف قدس سرہ کے درمیان اس مسئلہ میں اختلاف کا سلسلہ شروع ہوگیا اسی بنیاد پر کوئی مکروہ کہتا ہے کوئی خلاف اولی کہتا ہے کوئی جائز کہتا ہے آج بھی سنی بریلوی مسلمان کی مسجدوں میں اذان خارج مسجد دی جاتی ہے اور وہابیوں اور دیوبندیوں کی مساجدوں میں مسجد کے اندر اذان دی جاتی ہے اور سب کے دلائل وہی فقہا کی عبادت لایوذن فی المسجد یعنی مسجد میں اذان نہ دے۔
بے شک آپ کی بات مسلم ہے لیکن دلائل پر غور فرمائیں گے تو سب اشکال دور ہو جائیں گے کوئی شک وشبہ باقی نہیں رہے گا
فتاوی قاضی خان میں ہے کہ
ینبغی ان یؤذن علی المئذنۃ او خارج المسجد ولا یؤذن فی المسجد (فتاویٰ قاضی خان جلد اول ص 37)
اس میں ' لا ' ہے جو ظاہرا مفید وجوب ہے
علامہ زین بن نجیم علامہ عبد العلی برجندی نے ان سے اور فتاوی ہندیہ میں امام قاضی خان سے عبارات مذکورہ کو نقل فرماکر مقرر رکھیں ۔یعنی اس کے خلاف کوئی حکم صادر نہیں فرمایا ۔
علامہ سید احمد مصری نے فرمایا ۔
یکرہ ان یؤذن فی المسجد کما فی القہستانی عن النظم یعنی مسجد میں اذان دینا مکروہ ہے جیسا کہ قہستانی نے نظم سے نقل کیا ہے ۔( حاشیہ الطحطاوی علی مراقی الفلاح ص 107)
اس عبارت میں یکرہ آیا ہوا ہے یکرہ یعنی مطلقا مکروہ ہے ۔ اب دیکھا جائے کہ صورت مباحثہ میں مکروہ یاکراہت کا اطلاق ان دونوں میں کس پر ہوتا ہے تو سماعت فرمائیں ۔
حضرت علامہ مولانا مفتی حبیب اللہ نعیمی فرماتے ہیں کہ داخل مسجد اذان دینے کو علمائے کرام نے کراہت لکھی ہے اور اسے مطلق رکھا اور مطلق کراہت تحریمی پر محمول ہوتی ہے ۔( حبیب الفتاوی جلد اول ص 154)
اس سے واضح ہوا کہ مکروہ سے مراد مکروہ تحریمی ہے نہ کہ مکروہ تنزیہی ہے ۔
حضور فقیہ ملت مفتی جلال الدین امجدی رحمۃاللہ علیہ فرماتے ہیں کہ فتاوی قاضی خان ۔فتاوی عالمگیری ۔بحر الرائق اور طحاوی وغیرہ کتب فقہ میں مسجد کے اندر اذان پڑھنے کو مکروہ و منع لکھا ہے (فتاویٰ برکاتیہ ص 76)
یہاں داخل مسجد اذان دینا مکروہ وممنوع لکھا ہوا ہے جہاں بھی مکروہ تحریمی نہیں نقل ہے تو پھر کیسے ثابت کردیا کہ مکروہ سے مراد تحریمی ہے ؟
فقہاء جب ممنوع کہتے ہیں اس سے کیا مراد ہوتا ہے سماعت فرمائیں۔
۔حضور مجدد اعظم امام اہل سنت امام احمد رضا خان بریلوی قدس سرہ العزیز فرماتے ہیں کہ مسجد میں اذان دینا مکروہ و منع ہے
اب آپ مفتیان کرام سے گزارش ہے کہ اس عبارت پر غور فرمائیں کہ مسجد میں اذان دینا مکروہ و ممنوع ہے تو آپ بتائیں کہ
ممنوع کس کے مقابل میں آتا ہے۔؟
الجواب ۔فتاوی بریلی شریف میں ہے کہ ممنوع کبھی مکروہ تحریمی کے مقابل بولا جاتا ہے اور اس کا کرنا عبادت کو ناقص کردیتا ہے اور کرنے والا گنہگار ہوتا ہے اگرچہ اس کا گناہ حرام سے کم ہے اور کئی بار اس کا ارتکاب کبیرہ ہے اور حرام یہ فرض کا مقابل ہے اس کا ایک بار بھی قصدا کرنا گناہ کبیرہ و فسق اور بچنا فرض ہے ( فتاوی بریلی جلد دوم ص 384)
ہمارے علمائے کرام فرماتے ہیں کہ ممنوع مکروہ تحریمی کے مقابل میں آتا ہے ۔اب آپ فیصلہ فرمائیں کہ مکروہ وممنوع سے کیا مراد ہوسکتا ہے ۔
اور سرکار سیدی اعلی حضرت عظیم البرکت امام اہل سنت حضور مجدد اعظم سیدنا امام احمد رضا خان قادری قدس سرہ ارشاد فرماتے ہیں کہ
منع مکروہ تحریمی ہے
*لقولہ یمنع منہ و انما المنع عن المکرو تحریما واما کراھۃ التنزیہۃ فتجامع الاباحۃ*.یعنی کیونکہ اس کا قول ہے اس سے منع کیا گیا ہے اور منع مکروہ تحریمی سے ہوتا ہے کراہت تنزیہی تو اباحت کے ساتھ جمع ہوتا ہے ( فتاوی رضویہ جلد جدید ہشتم ص 93)
فتاوی بریلی شریف سے صاف واضح ہوا کہ ممنوع مکروہ تحریمی کے مقابل میں بولا جاتا ہے
اب امام اہل سنت وجماعت حضور مجدد اعظم سیدنا امام احمد رضا خان قادری بریلی شریف قدس سرہ ارشاد فرماتے ہیں کہ منع مکروہ تحریمی ہے معلوم ہوا کہ جہاں جہاں مکروہ و ممنوع آتا ہے وہاں دونوں سے مراد مکروہ تحریمی ہے ۔سرکار مفتی اعظم ہند قدس سرہ نے بھی مکروہ تحریمی فرمایا اور حصور تاج الشریعہ نے بھی مکروہ تحریمی فرمایا ۔
  مکروہ و منع سے مراد مکروہ تنزیہی لیا جائے تو پھر سوال اٹھتا ہے کہ مکروہ تنزیہی اباحت میں داخل ہے ممانعت میں داخل نہیں ہے لہذا مکروہ تحریمی ہی مراد لیا جائے گا اور اس کی تائید حبیب الفتاوی سے بھی ہورہی ہے ۔
حضور سرکار اعلی حضرت عظیم البرکت امام احمد رضا خان قادری بریلوی قدس سرہ العزیز فرماتے ہیں کہ اور اس مسئلہ نوع کراہت کی تصریح کلمات علما سے اس وقت نظر فقیر میں نہیں ہاں صیغہ لا یفعل سے متبادر کراہت تحریم ہے کہ فقہائے کرام کی یہ عبارت ظاہرا مشیر ممانعت وعدم و اباحت ہوتی ہے
اس سے واضح ہے کہ امام اہل سنت کے نزدیک کراہت تحریم مراد ہے ۔اور پھر سرکار اعلی حضرت عظیم البرکت امام احمد رضا خان بریلوی رضی آللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ یونہی عبارت نظم ( یکرہ ان یؤذن فی المسجد ) میں لفظ یکرہ کہ غالبا کراہت مطلقہ سے کراہت تحریم مراد ہوتی ہے
بس اصح قول یہی ہے کہ داخل مسجد اذان کہنا مکروہ تحریمی ہے ۔
واللہ ورسولہ اعلم باالصواب
_________(❤️)_________
کتبہ :- حضرت علامہ مولانا مفتی محمد ثناءاللہ خان ثناء القادری
 صاحب قبلہ مدظلہ العالیٰ النورانی مرپاوی سیتا مڑھی بہار
14 جمادی الاول 1444
, 9 دسمبر 2023

بہ واسطہ:-حضرت علامہ مولانا محمد جنید عالم شارق مصباحی
 صاحب قبلہ مدظلہ العالیٰ و النورانی ساکن بیتاہی 
خطیب و امام حضرت بلال جامع مسجد کوئیلي ،سیتا مرهی

Post a Comment

0 Comments
* Please Don't Spam Here. All the Comments are Reviewed by Admin.

Top Post Ad

Below Post Ad

Ads Area