مفتی اعظم بہار مدظلہ العالی کی فقہائے احناف خصوصا مشائخ بریلی شریف کے اقوال کی روشنی میں قسط نمبر(10)
________(❤️)_________
قسط دہم:-10
داخل مسجد اذان دینے کے جواز کے قائلین کی پہلی دلیل اور اس کا رد بلیغ
بحمدہ سبحانہ وتعالی حضرت علامہ محمد جنید عالم شارق مصباحی صاحب خطیب و امام کوئیلی سیتا مڑھی خلیفہ سلسلہ ثنانیہ کے معرفت داخل مسجد اذان دینا مکروہ تحریمی ہے کے متعلق نو قسطوں پر مشتمل مضامین آپ لوگوں کے سامنے پہنچا دیا گیا اب یہاں سے قائلین جواز کے دلائل اور ان سب کا رد قاھر ملاحظہ فرمائیں۔
کوئی آپ سے کہ سکتا ہے کہ فتاوی عالمگیری کی اس دلیل سے مسجد کے اندر اذان دینے کا جواز ثابت ہے تو اس کے متعلق بھی رد بلیغ ملاحظہ فرمائیں ۔
(1) مسجد کے اندر اذان دینا مکروہ تنزیہی ہے اس قول کی تائید میں قائلین جواز اس عبارت سے دلیل لا تے ہیں کہ
ینبغی ان یوذن علی المئذنۃ او خارج المسجد ولایوذن فی المسجد
یعنی مناسب یہ ہے کہ اذان مئذنه (مینار)پر دی جائے یا مسجد سے باہر دی جائے اور مسجد کے اندر اذان نہ دی جائے۔(خانیہ اور فتاوی عالمگیری)
اس دلیل کی بنیاد پر کوئی آپ سے کہ سکتا ہے کہ یہاں خارج مسجد اذان دینے کا جواز ہے کیونکہ اس عبارت میں
داخل مسجد اذان دینے کے جواز کے قائلین کی پہلی دلیل اور اس کا رد بلیغ
بحمدہ سبحانہ وتعالی حضرت علامہ محمد جنید عالم شارق مصباحی صاحب خطیب و امام کوئیلی سیتا مڑھی خلیفہ سلسلہ ثنانیہ کے معرفت داخل مسجد اذان دینا مکروہ تحریمی ہے کے متعلق نو قسطوں پر مشتمل مضامین آپ لوگوں کے سامنے پہنچا دیا گیا اب یہاں سے قائلین جواز کے دلائل اور ان سب کا رد قاھر ملاحظہ فرمائیں۔
کوئی آپ سے کہ سکتا ہے کہ فتاوی عالمگیری کی اس دلیل سے مسجد کے اندر اذان دینے کا جواز ثابت ہے تو اس کے متعلق بھی رد بلیغ ملاحظہ فرمائیں ۔
(1) مسجد کے اندر اذان دینا مکروہ تنزیہی ہے اس قول کی تائید میں قائلین جواز اس عبارت سے دلیل لا تے ہیں کہ
ینبغی ان یوذن علی المئذنۃ او خارج المسجد ولایوذن فی المسجد
یعنی مناسب یہ ہے کہ اذان مئذنه (مینار)پر دی جائے یا مسجد سے باہر دی جائے اور مسجد کے اندر اذان نہ دی جائے۔(خانیہ اور فتاوی عالمگیری)
اس دلیل کی بنیاد پر کوئی آپ سے کہ سکتا ہے کہ یہاں خارج مسجد اذان دینے کا جواز ہے کیونکہ اس عبارت میں
ان یوذن علی المئذنۃ او خارج المسجد پر "ینبغی "لایا گیا ہے اور "ینبغی "مستحب کے لئے استعمال ہوتا ہے یا مناسب کے لئے . یہ "ینبغی" کبھی بھی واجب کے لئے نہیں لایا جاتا ہے لہزا داخل مسجد اذان دینا مکروہ تحریمی نہیں ہے بلکہ خلاف مستحب یا مکروہ تنزیہی ہے یا خلاف اولی ہے ۔کیونکہ اس کا ترجمہ ہوگا مناسب ہے کہ اذان مئذنۃ (مینار)پر یا خارج مسجد دی جائے ۔یہاں لفظ مناسب مکروہ تحریمی کے قول کو رد کرنے کے لئے کافی ہے۔
اذان کا مينار پر یا مسجد سے باہر ہونا مناسب ہے . مسجد کے اندر اذان دینا مناسب نہیں. اور یہی مفہوم ہے کراہت تنزیہی کا. کیونکہ کراہت تحریمی کو" لا ینبغی"(مناسب نہیں) کے لفظ سے تعبیر نہیں کیا جاتا بلکہ "لایجوز"(یعنی جائز نہیں) کے لفظ سے تعبیر کیا جاتا ہے .اور یہ بھی معلوم ہوا کہ جن فقہا کی عبارت میں صرف "مکروہ" کالفظ آیا ہے ان کی مراد بھی یہی" ینبغی" والی روایت ہے کراہت تحریمی مراد نہیں۔
الجواب:-
آپ ان سے کہ سکتے ہیں کہ آپ لوگ اس عبارت سے غلط فہمی کے شکار ہوگئے ہیں آپ اس کو سمجھیں ۔
خانیہ کی عبارت یوں ہے ۔
اذان کا مينار پر یا مسجد سے باہر ہونا مناسب ہے . مسجد کے اندر اذان دینا مناسب نہیں. اور یہی مفہوم ہے کراہت تنزیہی کا. کیونکہ کراہت تحریمی کو" لا ینبغی"(مناسب نہیں) کے لفظ سے تعبیر نہیں کیا جاتا بلکہ "لایجوز"(یعنی جائز نہیں) کے لفظ سے تعبیر کیا جاتا ہے .اور یہ بھی معلوم ہوا کہ جن فقہا کی عبارت میں صرف "مکروہ" کالفظ آیا ہے ان کی مراد بھی یہی" ینبغی" والی روایت ہے کراہت تحریمی مراد نہیں۔
الجواب:-
آپ ان سے کہ سکتے ہیں کہ آپ لوگ اس عبارت سے غلط فہمی کے شکار ہوگئے ہیں آپ اس کو سمجھیں ۔
خانیہ کی عبارت یوں ہے ۔
ینبغی ان یوذن علی المنارة او خارج المسجد و لا یوذن فی المسجد
مخالفین کا مطلب یہ ہے کہ لفظ "ینبغی" کا تعلق دونوں سے ہے یعنی مسجد کے باہر اور منارہ پر اذان دینا مناسب ہے ۔اور مسجد میں اذان دینا مناسب نہیں تو مسجد کی اذان زیادہ سے زیادہ خلاف اولی ہوئی ۔تو اگر اندرون مسجد میں اذان کا رواج ہوگیا تو کوئی حرج نہیں ۔پھر اتنا واویلا کیوں ؟
لیکن صحیح بات یہ ہے کہ لفظ "ینبغی" کا تعلق صرف پہلے جملہ سے ہے اور دوسرا جملہ" لایؤذن فی المسجد " اس سے خالی ہے جس کا مطلب اندرون مسجد اذان کی ممانعت ہے۔
دوسرے لفظوں میں اس کا صحیح مفہوم یہ ہے کہ اس عبارت میں (ینبغی) پہلے لفظ پر وارد ہوگا (ان یؤذن علی المئذنه او خارج المسجد ) اذان منارہ پر یا مسجد کے باہر دینا مناسب ہے دوسری عبارت کہ "ولا یؤذن فی المسجد "یعنی مسجد میں اذان نہیں کہی جائے ۔ اس پر داخل نہیں ہوگا ۔ کیونکہ مينار پر یا مسجد سے باہر ہی اذان دینے کی سنت ہے نہ کہ اندر اور ایسا بھی نہیں ہے کہ ہر حال میں مينار ہی پر اذان دینا سنت ہے بلکہ جہاں مينار نہیں وہاں خارج مسجد مثلا مسجد کے دروازہ پر کھڑے ہوکر یا وضو خانہ پر کھڑے ہوکر آذان دینا ہے ۔اور حدیث رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم و تصریحات جملہ فقہائے کرام کی رو سے کوئی اذان مسجد کے اندر جائز نہیں ۔جب جائز نہیں تو یہ" ینبغی" کا تعلق صرف پہلے جملہ سے ہے اور دوسرا جملہ "لا یؤذن فی المسجد" سے اُس کا کوئی تعلق نہ ہوگا ۔ جس کا مطلب اندرون مسجد اذان کی ممانعت ہے جیسا کہ دیگر کتب فقہ میں "لایوذن" یا" یکرہ فی المسجد" سے ظاہر ہے اسکی تائید فتح القدیر کی اس عبارت سے اور واضح ہو جاتی ہے کہ ؛
والاقامۃ فی المسجد ولا بد واما الاذان فعلی المئذنۃ فان لم یکن ففی فناء المسجد وقالوا لایؤذن فی المسجد یعنی اقامت تو ضرور مسجد میں ہوگی ۔رہی اذان تو مینارے پر ۔مینار نہ ہو تو بیرون مسجد زمین متعلق مسجد میں ہو ۔علما فرماتے ہیں مسجد میں اذان نہ ہو
مخالفین کا مطلب یہ ہے کہ لفظ "ینبغی" کا تعلق دونوں سے ہے یعنی مسجد کے باہر اور منارہ پر اذان دینا مناسب ہے ۔اور مسجد میں اذان دینا مناسب نہیں تو مسجد کی اذان زیادہ سے زیادہ خلاف اولی ہوئی ۔تو اگر اندرون مسجد میں اذان کا رواج ہوگیا تو کوئی حرج نہیں ۔پھر اتنا واویلا کیوں ؟
لیکن صحیح بات یہ ہے کہ لفظ "ینبغی" کا تعلق صرف پہلے جملہ سے ہے اور دوسرا جملہ" لایؤذن فی المسجد " اس سے خالی ہے جس کا مطلب اندرون مسجد اذان کی ممانعت ہے۔
دوسرے لفظوں میں اس کا صحیح مفہوم یہ ہے کہ اس عبارت میں (ینبغی) پہلے لفظ پر وارد ہوگا (ان یؤذن علی المئذنه او خارج المسجد ) اذان منارہ پر یا مسجد کے باہر دینا مناسب ہے دوسری عبارت کہ "ولا یؤذن فی المسجد "یعنی مسجد میں اذان نہیں کہی جائے ۔ اس پر داخل نہیں ہوگا ۔ کیونکہ مينار پر یا مسجد سے باہر ہی اذان دینے کی سنت ہے نہ کہ اندر اور ایسا بھی نہیں ہے کہ ہر حال میں مينار ہی پر اذان دینا سنت ہے بلکہ جہاں مينار نہیں وہاں خارج مسجد مثلا مسجد کے دروازہ پر کھڑے ہوکر یا وضو خانہ پر کھڑے ہوکر آذان دینا ہے ۔اور حدیث رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم و تصریحات جملہ فقہائے کرام کی رو سے کوئی اذان مسجد کے اندر جائز نہیں ۔جب جائز نہیں تو یہ" ینبغی" کا تعلق صرف پہلے جملہ سے ہے اور دوسرا جملہ "لا یؤذن فی المسجد" سے اُس کا کوئی تعلق نہ ہوگا ۔ جس کا مطلب اندرون مسجد اذان کی ممانعت ہے جیسا کہ دیگر کتب فقہ میں "لایوذن" یا" یکرہ فی المسجد" سے ظاہر ہے اسکی تائید فتح القدیر کی اس عبارت سے اور واضح ہو جاتی ہے کہ ؛
والاقامۃ فی المسجد ولا بد واما الاذان فعلی المئذنۃ فان لم یکن ففی فناء المسجد وقالوا لایؤذن فی المسجد یعنی اقامت تو ضرور مسجد میں ہوگی ۔رہی اذان تو مینارے پر ۔مینار نہ ہو تو بیرون مسجد زمین متعلق مسجد میں ہو ۔علما فرماتے ہیں مسجد میں اذان نہ ہو
( فتح القدیر۔ج ۔اول ۔ص 250)
نیز اسی فتح القدیر میں ہے
ھو ذکر اللہ فی المسجد ای فی حدود لکراھۃ الاذان فی داخلہ یعنی وہ اللہ کا ذکر ہے مسجد میں یعنی حدوود مسجد میں ۔اس لئے کہ مسجد کے اندر اذان دینا مکروہ ہے۔
ھو ذکر اللہ فی المسجد ای فی حدود لکراھۃ الاذان فی داخلہ یعنی وہ اللہ کا ذکر ہے مسجد میں یعنی حدوود مسجد میں ۔اس لئے کہ مسجد کے اندر اذان دینا مکروہ ہے۔
( فتح القدیر جلد دوم ص 56)
حاشیہ طحطاوی میں ہے
یکرہ ان یؤذن فی المسجد کما فی القہستانی عن النظم فان لم یکن ثمۃ مکان مرتفع للاذان یؤذن فی فناء المسجد کما فی الفتح یعنی مسجد میں اذان دینا مکروہ ہے جیسا کہ قہستانی میں نظم سے منقول ہے ۔تو اگر وہاں اذان کے لئے کوئی بلند مقام نہ بنا ہو تو مسجد کے آس پاس اس کے متعلق زمین میں اذان دے جیسا کہ فتح القدیر میں ہے ۔
*یہاں "ینبغی"ولایوذن فی المسجد پر داخل نہیں ہوگا کیونکہ مسجد کے اندر اذان مکروہ ہونے پر کثیر التعداد فقہی نصوص ہیں وہ بھی "صیغہ نفی" کے ساتھ ۔جو ممانعت میں "نہی "سے زیادہ موکد ہوتا ہے ۔
اور امام ابن الحاج مکی مالکی رحمتہ اللہ علیہ نے اپنی کتاب مدخل میں ایک فصل تحریر فرمائی جس میں تحریر فرماتے ہیں کہ
للنھی عنہ وفی نفی فعلہ من السلف الصالح مطلقا ۔فدخل فیھم ائمۃ المذاہب الاربعۃ جمیعا ومن قبلھم من الصحابۃ والتابعین رضی اللہ تعالیٰ عنھم اجمعین .یعنی مسجد کے اندر اذان کی کراہت بیان فرمائی ۔اور بتایا کہ مطلقا سلف صالحین نے اس فعل کی نفی کی ہے تو اس عموم میں ائمہ اربعہ داخل ہوگئے ۔اور ان سے پہلے کے صحابہ و تابعین بھی۔
کہنے کا مطلب یہ ہے کہ امام ابن الحاج کی تحقیق میں مسجد کے اندر اذان کی ممانعت؛ کئی وجوہ سے ثابت ہے ۔اول یہ کہ گزشتہ بزرگان دین مسجد کے اندر اذان نہیں دیتے تھے جب مطلقا سلف صالحین سے مسجد کے اندر اذان دینے کا ثبوت نہیں تو پھر ان میں ائمہ مذاہب اور صحابہ کرام اور تابعین بھی ہیں کہ ان بزرگوں نے بھی کبھی بھی مسجد میں اذان نہیں دی اور نہ دلوائی ۔
اور اصول فقہ سے یہ ظاہر ہے کہ فعل نکرہ کے حکم میں ہے ۔اور نفی کے تحت ہو تو عام ہے پس فقہا کا قول" لایوذن فی المسجد" عام ہے ۔اور باقی اقوال مطلق ہیں جن میں کوئی تخصیص و تقیید کا کوئی اثر نہیں تو ان کو اپنے عموم پر ہی جاری رکھنا ہوگا۔گویا کہ سلف صالحین سب حضرات صحابہ کرام اور ائمہ کرام بھی خارج مسجد ہی اذان دیتے ہیں۔
ان تصریحات سے واضح ہوا کہ مسجد کے اندر اذان دینا جائز نہیں ہے اور جو جائز نہیں وہ مکروہ تنزیہی نہیں کیونکہ مکروہ تنزیہی قسم اباحت میں داخل ہے جو جائز ہے وہ ناجائز نہیں اور جو ناجائز ہے وہ جائز نہیں پس قائلین جواز کی یہ دلیل ان کے موقف کی تائید میں مفید نہیں ہے.
سرکار سیدی اعلی حضرت عظیم البرکت سے بھی اُن کے مخالفین نے اسی دلیل کے متعلق پوچھا تھا تو سرکار اعلی حضرت نے جو جواب دیا وہ ملاحظہ فرمائیں۔
آپ تحریر فرماتے ہیں کہ
جب مخالفین کسی بات پر قادر نہ ہوئے تو ان میں سے بعض نے خانیہ اور خلاصہ میں آئے ہوئے لفظ:ینبغی کا سہارا لیا اور سمجھا کہ معالہ آسان ہے اس پر توجہ دینے کی ضرورت نہیں حالانکہ اولا دوسری کتابوں کی عبارتیں لفظ :ینبغی سے خالی ہیں اور جہاں یہ لفظ ہے جملہ: لا یؤذن فی المسجد پر داخل نہیں ۔خود صاحب بحر نے خلاصہ سے یہی عبارت نقل کی اور جملہ اولی میں آئے ہوئے لفظ ؛ ینبغی کی طرف توجہ نہ فرمائی
حاشیہ طحطاوی میں ہے
یکرہ ان یؤذن فی المسجد کما فی القہستانی عن النظم فان لم یکن ثمۃ مکان مرتفع للاذان یؤذن فی فناء المسجد کما فی الفتح یعنی مسجد میں اذان دینا مکروہ ہے جیسا کہ قہستانی میں نظم سے منقول ہے ۔تو اگر وہاں اذان کے لئے کوئی بلند مقام نہ بنا ہو تو مسجد کے آس پاس اس کے متعلق زمین میں اذان دے جیسا کہ فتح القدیر میں ہے ۔
*یہاں "ینبغی"ولایوذن فی المسجد پر داخل نہیں ہوگا کیونکہ مسجد کے اندر اذان مکروہ ہونے پر کثیر التعداد فقہی نصوص ہیں وہ بھی "صیغہ نفی" کے ساتھ ۔جو ممانعت میں "نہی "سے زیادہ موکد ہوتا ہے ۔
اور امام ابن الحاج مکی مالکی رحمتہ اللہ علیہ نے اپنی کتاب مدخل میں ایک فصل تحریر فرمائی جس میں تحریر فرماتے ہیں کہ
للنھی عنہ وفی نفی فعلہ من السلف الصالح مطلقا ۔فدخل فیھم ائمۃ المذاہب الاربعۃ جمیعا ومن قبلھم من الصحابۃ والتابعین رضی اللہ تعالیٰ عنھم اجمعین .یعنی مسجد کے اندر اذان کی کراہت بیان فرمائی ۔اور بتایا کہ مطلقا سلف صالحین نے اس فعل کی نفی کی ہے تو اس عموم میں ائمہ اربعہ داخل ہوگئے ۔اور ان سے پہلے کے صحابہ و تابعین بھی۔
کہنے کا مطلب یہ ہے کہ امام ابن الحاج کی تحقیق میں مسجد کے اندر اذان کی ممانعت؛ کئی وجوہ سے ثابت ہے ۔اول یہ کہ گزشتہ بزرگان دین مسجد کے اندر اذان نہیں دیتے تھے جب مطلقا سلف صالحین سے مسجد کے اندر اذان دینے کا ثبوت نہیں تو پھر ان میں ائمہ مذاہب اور صحابہ کرام اور تابعین بھی ہیں کہ ان بزرگوں نے بھی کبھی بھی مسجد میں اذان نہیں دی اور نہ دلوائی ۔
اور اصول فقہ سے یہ ظاہر ہے کہ فعل نکرہ کے حکم میں ہے ۔اور نفی کے تحت ہو تو عام ہے پس فقہا کا قول" لایوذن فی المسجد" عام ہے ۔اور باقی اقوال مطلق ہیں جن میں کوئی تخصیص و تقیید کا کوئی اثر نہیں تو ان کو اپنے عموم پر ہی جاری رکھنا ہوگا۔گویا کہ سلف صالحین سب حضرات صحابہ کرام اور ائمہ کرام بھی خارج مسجد ہی اذان دیتے ہیں۔
ان تصریحات سے واضح ہوا کہ مسجد کے اندر اذان دینا جائز نہیں ہے اور جو جائز نہیں وہ مکروہ تنزیہی نہیں کیونکہ مکروہ تنزیہی قسم اباحت میں داخل ہے جو جائز ہے وہ ناجائز نہیں اور جو ناجائز ہے وہ جائز نہیں پس قائلین جواز کی یہ دلیل ان کے موقف کی تائید میں مفید نہیں ہے.
سرکار سیدی اعلی حضرت عظیم البرکت سے بھی اُن کے مخالفین نے اسی دلیل کے متعلق پوچھا تھا تو سرکار اعلی حضرت نے جو جواب دیا وہ ملاحظہ فرمائیں۔
آپ تحریر فرماتے ہیں کہ
جب مخالفین کسی بات پر قادر نہ ہوئے تو ان میں سے بعض نے خانیہ اور خلاصہ میں آئے ہوئے لفظ:ینبغی کا سہارا لیا اور سمجھا کہ معالہ آسان ہے اس پر توجہ دینے کی ضرورت نہیں حالانکہ اولا دوسری کتابوں کی عبارتیں لفظ :ینبغی سے خالی ہیں اور جہاں یہ لفظ ہے جملہ: لا یؤذن فی المسجد پر داخل نہیں ۔خود صاحب بحر نے خلاصہ سے یہی عبارت نقل کی اور جملہ اولی میں آئے ہوئے لفظ ؛ ینبغی کی طرف توجہ نہ فرمائی
(رسالہ شمائم العنبر فی ادب النداء امام المںنبر 1334 ھجری مصنف سرکار اعلی حضرت عظیم البرکت)
قارئین کرام:
سرکار سیدی اعلی حضرت امام احمد رضا بریلوی قدس سرہ کا یہ جملہ کہ
جب مخالفین کسی بات پر قادر نہ ہوئے تو ان میں بعض نے خانیہ اور خلاصہ میں آئے ہوئے لفظ "ینبغی "کا سہارا لیا
اب مفتیان کرام ذرا سرکار اعلی حضرت عظیم البرکت امام احمد رضا خان بریلوی قدس سرہ العزیز کے اسی قول کو پڑھیں اور سمجھیں کہ اس قول کا سہارا مخالفین نے تب لیا جب وہ عاجز آگئے ۔
,*تعجب بالائے تعجب ہے کہ سرکار سیدی اعلی حضرت عظیم البرکت مجدد اعظم سیدنا امام احمد رضا خان قادری بریلی شریف قدس سرہ سے خانیہ کی اسی عبارت سے غیر عقائد کے علما نے بحث کی تھی لیکن آج کے دور میں مجھ فقیر قادری ثناء اللہ خاں ثناء القادری مرپاوی سیتا مڑھی بہار سے ایک سنی عالم نے اسی عبارت سے بحث کری ہے جس کے جواب میں یہ فتویٰ لکھا گیا ہے۔
خیال رہے کہ فقہی عبارت اور فقہی جزئیات کے متعلق سرکار سیدی اعلی حضرت عظیم البرکت امام احمد رضا خان بریلوی رضی آللہ تعالیٰ عنہ سے زیادہ ان کے دور سے لے کر آج تک کسی نے نہیں سمجھا تھا، نہ ہے ،نہ ہوگا ۔جب آپ خود فرمارہے ہیں کہ" ینبغی" پہلے جملہ پر داخل ہوگا اور بعد والے جملہ پر داخل نہ ہوگا تو اب ہمیں ان تصریحات کو مان لینا چاہیے باقی بحث کی ضرورت نہیں ہے ۔
کیا ینبغی کا دخول صرف مستحب پر ہوتا ہے؟
الجواب ۔سیدی سرکار اعلی حضرت عظیم البرکت فرماتے ہیں کہ مصباح المنیر میں ہے : "ینبغی"کے معنی وجوب اور اسستحاب دونوں ہی معني میں حسب طلب ہوسکتے ہیں ۔اور اس لفظ میں یعنی "ینبغی ان یؤذن علی المئذنه او خارج المسجد" ولا یؤذن فی المسجد" میں اس لفظ میں مستحب کے معنی سنت کو بھی شامل ہیں اور سنت کا معاملہ ایسا نہیں بلکہ لفظ :" ینبغی" بسا اوقات صرف معنی وجوب پر ہی دلالت کرتا ہے (المرجوع السابق)
ان ارشادات سیدی اعلی حضرت عظیم البرکت امام احمد رضا خان بریلوی رحمۃ اللہ علیہ سے اس دلیل کا بھی رد بلیغ ہوگیا اور قائلین جواز کے لئے مفید بھی ثابت نہ ہو سکی ۔
لفظ ینبغی سے کیا مراد ہوتا ہے:-
لفظ "ینبغی" کبھی مستحب اور کبھی "واجب "دونوں کے لئے بولا جاتا ہے لیکن اکثر واجب کے معنی میں ہی آتا ہے ۔ مصباح المنیر میں ہے:,
*قال فی المصباح ؛ ینبغی ان یکون کذا معناہ یجب او یندب یحسب مافیہ من الطلب* یعنی مصباح المنیر میں ہے کہ ۔:ینبغی کے معنی وجوب اور استحباب دونوں ہی حسب طلب ہوسکتے ہیں ۔
سرکار سیدی اعلی حضرت عظیم البرکت امام احمد رضا خان قادری بریلی شریف قدس سرہ ارشاد فرماتے ہیں کہ لفظ ینبغی کو مستحب کے معنی میں قرار دینا ائمہ متاخرین کی اصطلاح ہے ۔
لفظ ینبغی بسا اوقات صرف معنی وجوب پر ہی دلالت کرتا ہے ۔
ہدایہ و کنز وغیرہ میں ہے ۔
من حلف علی معصیۃ ینبغی ان یحنث ؛اھ؛ فان الحنث واجب قطعا یعنی جس نے گناہ کرنے کی قسم کھائی تو اسے قسم توڑ دینا چاہیے ۔" یہاں قدم توڑنا واجب ہے ۔
( یعنی اس مسئلہ میں ینبغی وجوب کے معنی میں استعمال ہوا )
اسی طرح امام قدوری اور صاحب ہدایہ وغیرہ کا قول ہے ۔
ینبغی للناس ان یلتمسوا الھلال فی الیوم التاسع والعشرین من شعبان
قارئین کرام:
سرکار سیدی اعلی حضرت امام احمد رضا بریلوی قدس سرہ کا یہ جملہ کہ
جب مخالفین کسی بات پر قادر نہ ہوئے تو ان میں بعض نے خانیہ اور خلاصہ میں آئے ہوئے لفظ "ینبغی "کا سہارا لیا
اب مفتیان کرام ذرا سرکار اعلی حضرت عظیم البرکت امام احمد رضا خان بریلوی قدس سرہ العزیز کے اسی قول کو پڑھیں اور سمجھیں کہ اس قول کا سہارا مخالفین نے تب لیا جب وہ عاجز آگئے ۔
,*تعجب بالائے تعجب ہے کہ سرکار سیدی اعلی حضرت عظیم البرکت مجدد اعظم سیدنا امام احمد رضا خان قادری بریلی شریف قدس سرہ سے خانیہ کی اسی عبارت سے غیر عقائد کے علما نے بحث کی تھی لیکن آج کے دور میں مجھ فقیر قادری ثناء اللہ خاں ثناء القادری مرپاوی سیتا مڑھی بہار سے ایک سنی عالم نے اسی عبارت سے بحث کری ہے جس کے جواب میں یہ فتویٰ لکھا گیا ہے۔
خیال رہے کہ فقہی عبارت اور فقہی جزئیات کے متعلق سرکار سیدی اعلی حضرت عظیم البرکت امام احمد رضا خان بریلوی رضی آللہ تعالیٰ عنہ سے زیادہ ان کے دور سے لے کر آج تک کسی نے نہیں سمجھا تھا، نہ ہے ،نہ ہوگا ۔جب آپ خود فرمارہے ہیں کہ" ینبغی" پہلے جملہ پر داخل ہوگا اور بعد والے جملہ پر داخل نہ ہوگا تو اب ہمیں ان تصریحات کو مان لینا چاہیے باقی بحث کی ضرورت نہیں ہے ۔
کیا ینبغی کا دخول صرف مستحب پر ہوتا ہے؟
الجواب ۔سیدی سرکار اعلی حضرت عظیم البرکت فرماتے ہیں کہ مصباح المنیر میں ہے : "ینبغی"کے معنی وجوب اور اسستحاب دونوں ہی معني میں حسب طلب ہوسکتے ہیں ۔اور اس لفظ میں یعنی "ینبغی ان یؤذن علی المئذنه او خارج المسجد" ولا یؤذن فی المسجد" میں اس لفظ میں مستحب کے معنی سنت کو بھی شامل ہیں اور سنت کا معاملہ ایسا نہیں بلکہ لفظ :" ینبغی" بسا اوقات صرف معنی وجوب پر ہی دلالت کرتا ہے (المرجوع السابق)
ان ارشادات سیدی اعلی حضرت عظیم البرکت امام احمد رضا خان بریلوی رحمۃ اللہ علیہ سے اس دلیل کا بھی رد بلیغ ہوگیا اور قائلین جواز کے لئے مفید بھی ثابت نہ ہو سکی ۔
لفظ ینبغی سے کیا مراد ہوتا ہے:-
لفظ "ینبغی" کبھی مستحب اور کبھی "واجب "دونوں کے لئے بولا جاتا ہے لیکن اکثر واجب کے معنی میں ہی آتا ہے ۔ مصباح المنیر میں ہے:,
*قال فی المصباح ؛ ینبغی ان یکون کذا معناہ یجب او یندب یحسب مافیہ من الطلب* یعنی مصباح المنیر میں ہے کہ ۔:ینبغی کے معنی وجوب اور استحباب دونوں ہی حسب طلب ہوسکتے ہیں ۔
سرکار سیدی اعلی حضرت عظیم البرکت امام احمد رضا خان قادری بریلی شریف قدس سرہ ارشاد فرماتے ہیں کہ لفظ ینبغی کو مستحب کے معنی میں قرار دینا ائمہ متاخرین کی اصطلاح ہے ۔
لفظ ینبغی بسا اوقات صرف معنی وجوب پر ہی دلالت کرتا ہے ۔
ہدایہ و کنز وغیرہ میں ہے ۔
من حلف علی معصیۃ ینبغی ان یحنث ؛اھ؛ فان الحنث واجب قطعا یعنی جس نے گناہ کرنے کی قسم کھائی تو اسے قسم توڑ دینا چاہیے ۔" یہاں قدم توڑنا واجب ہے ۔
( یعنی اس مسئلہ میں ینبغی وجوب کے معنی میں استعمال ہوا )
اسی طرح امام قدوری اور صاحب ہدایہ وغیرہ کا قول ہے ۔
ینبغی للناس ان یلتمسوا الھلال فی الیوم التاسع والعشرین من شعبان
یعنی لوگوں کو چاہیئے کہ شعبان المعظم کی انتیس تاریخ کو چاند تلاش کرے
(یہاں ینبغی لفظ لایا کہ چاند تلاش کریں )
قال المحققین فی الفتح:-
ای یجب علیھم وھو واجب علی الکفایۃ یعنی محقق ابن ہمام فتح القدیر میں فرماتے ہیں:۔یعنی ینبغی کے معنی ہیں کہ ان پر چاند کی تلاش واجب ہے ۔اور تلاش واجب علی الکفایہ ہے ۔
اور جوہرہ نیرہ میں ایسا ہی ہے ۔یعنی ای یجب یعنی قدوری میں ینبغی بمعنی یجب ہے (فتاویٰ رضویہ جلد جدید 28 ص 151.152.153)
اور ینبغی بمعنی واجب ہوتا ہے اس کے متعلق کسی کو مزید اطمینان قلب کے لئے اور دلیل کی حاجت ہے تو سرکار سیدی اعلی حضرت عظیم البرکت امام احمد رضا بریلوی قدس سرہ کا رسالہ
شمائم العنبر فی ادب النداء امام المنبر کا مطالعہ کریں تمام شک و شبہ اور اشکال دور ہوجایے گا ۔
(نوٹ). ,تعجب بالائے تعجب ہے کہ سرکار سیدی اعلی حضرت عظیم البرکت مجدد اعظم سیدنا امام احمد رضا خان قادری بریلی شریف قدس سرہ سے خانیہ کی اسی عبارت سے غیر عقائد کے علماء نے بحث کی تھی لیکن آج کے دور میں مجھ فقیر قادری ثناء اللہ خاں ثناء القادری مرپاوی سیتا مڑھی بہار سے ایک سنی عالم نے اسی عبارت سے بحث کی جس کے جواب میں یہ فتویٰ لکھا گیا ہے۔
(یہاں ینبغی لفظ لایا کہ چاند تلاش کریں )
قال المحققین فی الفتح:-
ای یجب علیھم وھو واجب علی الکفایۃ یعنی محقق ابن ہمام فتح القدیر میں فرماتے ہیں:۔یعنی ینبغی کے معنی ہیں کہ ان پر چاند کی تلاش واجب ہے ۔اور تلاش واجب علی الکفایہ ہے ۔
اور جوہرہ نیرہ میں ایسا ہی ہے ۔یعنی ای یجب یعنی قدوری میں ینبغی بمعنی یجب ہے (فتاویٰ رضویہ جلد جدید 28 ص 151.152.153)
اور ینبغی بمعنی واجب ہوتا ہے اس کے متعلق کسی کو مزید اطمینان قلب کے لئے اور دلیل کی حاجت ہے تو سرکار سیدی اعلی حضرت عظیم البرکت امام احمد رضا بریلوی قدس سرہ کا رسالہ
شمائم العنبر فی ادب النداء امام المنبر کا مطالعہ کریں تمام شک و شبہ اور اشکال دور ہوجایے گا ۔
(نوٹ). ,تعجب بالائے تعجب ہے کہ سرکار سیدی اعلی حضرت عظیم البرکت مجدد اعظم سیدنا امام احمد رضا خان قادری بریلی شریف قدس سرہ سے خانیہ کی اسی عبارت سے غیر عقائد کے علماء نے بحث کی تھی لیکن آج کے دور میں مجھ فقیر قادری ثناء اللہ خاں ثناء القادری مرپاوی سیتا مڑھی بہار سے ایک سنی عالم نے اسی عبارت سے بحث کی جس کے جواب میں یہ فتویٰ لکھا گیا ہے۔
________(❤️)_________
کتبہ :- حضرت علامہ مولانا مفتی محمد ثناء اللہ خاں ثناء القادری
صاحب قبلہ مدظلہ العالیٰ النورانی مرپاوی سیتا مڑھی بہار
مورخہ 21 جمادی الاول 1444
مطابق 16دسمبر 2022
________(⭐)_________
بہ واسطہ:- حضرت علامہ مولانا مولانا محمّد جنید عالم شارق مصباحی
مورخہ 21 جمادی الاول 1444
مطابق 16دسمبر 2022
________(⭐)_________
بہ واسطہ:- حضرت علامہ مولانا مولانا محمّد جنید عالم شارق مصباحی
صاحب قبلہ مدظلہ العالیٰ النورانی ساکن بیتاہی
خطیب و امام حضرت بلال جامع مسجد کوئیلی سیتا مڑھی بہار