Type Here to Get Search Results !

کیا محفل میلاد میں خطیب خطاب چھوڑ کر لائوڈ اسپیکر کی اذان کا جواب دے

 (سوال نمبر 307)
 کیا محفل میلاد میں خطیب خطاب چھوڑ کر لائوڈ اسپیکر کی اذان کا جواب دے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ 
کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین مسئلہ ذیل کے بارے میں کہ 
 اگر کہیں محفل میلاد ہو رہی ہو اور اسی مابین لاؤڈ سپیکر سے آذان کی آواز آرہی ہو تو کیا لاؤڈ اسپیکر کی آذان سنکر مقرر یا شاعر اپنی تقریر و نعت کو روک دیں اس سلسلے میں تحقیقی جواب عنايت فرمائیں کرم ہوگا
سائل:- محمد انصار رضا رضوی (انڈیا)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نحمده ونشكره ونصلي على رسوله الأمين
وعليكم السلام ورحمة الله وبركاته
الجواب بعونه تعالى عز وجل
لائوڈ اسپیکر کی آواز اصل میں متکلم کی آواز ہے یا نہیں ۔
اس بابت علماء دین کا اختلاف ہے بعض کے نزدیک اصل آواز ہے اور بعض کے نزدیک اصل آواز نہیں ہے
جن کے نزدیک اصل آواز ہے وہ محفل میلاد مقرر و شاعر اذان کا جواب دیں گے نعت خوانی و خطاب بند کر کے اور جنکے نزدیک اصل آواز نہیں ہے ان کے نزدیک مائک کی اذان کا جواب دینا ضروری نہیں ہے ۔
دونوں میں جو جس فتویٰ پر عمل کرنا چاہیں کر سکتے ہیں ۔
مصنف بہار شریعت رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں 
جب اَذان ہو، تو اتنی دیر کے لیے سلام کلام اور جواب سلام، تمام اشغال موقوف کر دے یہاں تک کہ قرآن مجید کی تلاوت میں اَذان کی آواز آئے، تو تلاوت موقوف کر دے اور اَذان کو غور سے سُنے اور جواب دے۔ یوہیں اِقامت میں ۔جو اَذان کے وقت باتوں  میں  مشغول رہے، اس پر معاذ اﷲ خاتمہ برا ہونے کا خوف ہے۔راستہ چل رہا تھا کہ اَذان کی آواز آئی تو اتنی دیر کھڑا ہو جائے سُنے اور جواب دے۔
(بہار شریعت ح ٣ص ٤٧٧ دعوت اسلامی سوفٹویر) (الفتاوی الھندیۃ کتاب الصلاۃ، الباب الثاني في الأذان، الفصل الثاني، ج ۱ ، ص ۵۷۔جامع الرموز،ص ۱۲۴)(الفتاوی الھندیۃ ‘کتاب الصلاۃ، الباب الثاني في الأذان، الفصل الثاني، ج ۱ ، ص ۵۷۔)  
  آقا علیہ السلام فرمایا 

إِذَا سَمِعْتُمُ النِّدَاءَ، فَقُوْلُوْا مِثْلَ مَا يَقُوْلُ الْمُؤَذِّنُ.
(بخاری، الصحيح، کتاب الاذان، باب ما يقول اذا سمع المنادی، 1/ 221، رقم : 586)
’جب تم اذان سنو، تو اُسی طرح کہو جس طرح مؤذن کہہ رہا ہو۔‘‘
لیکن جب مؤذن حَیَّ عَلَی الصَّلٰوة اور حَیَّ عَلَی الْفَلَاح کہے تو سننے والے کو یہی الفاظ نہیں بلکہ لَا حَوْلَ وَلَا قُوَّةَ اِلَّا بِاﷲِ کہنا چاہیے جیسا کہ حدیث مبارکہ سے ثابت ہے :
قَالَ يَحيی : وَحَدَّثَنِي بَعْضُ إِخْوَانِنَا : أَنَّهُ قَالَ : لَمَّا قَالَ حَيَّ عَلَی الصَّلاةِ، قَالَ : لَا حَوْلَ وَلَا قُوَّهَ اِلاَّ بِاﷲِ، وَقَالَ : هٰکَذَا سَمِعْنَا نَبِيَّکُمْ صلی الله عليه وآله وسلم يَقُوْلُ.
(بخاری، الصحيح، کتاب الأذان، باب ما يقول اذا سمع المنادي، 1 : 222، رقم : 588)
حضرت یحییٰ کا بیان ہے کہ مجھ سے میرے بعض بھائیوں نے بیان کیا کہ مؤذن نے جب حَیَّ عَلَی الصَّلٰوۃ کہا تو حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ نے لَا حَوْلَ وَلَا قُوَّۃَ اِلَّا بِاﷲِ پڑھا اور کہا : میں نے تمہارے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اسی طرح کہتے ہوئے سنا ہے۔‘
اسی طرح فجر کی اذان میں جب مؤذن اَلصَّلٰوةُ خَيْرٌ مِّنَ النَّوْمِ کہے تو سامع کو قَدْ صَدَقْتَ وَبَرَرْتَ کہنا چاہیے۔
فتاوی شامی میں ہے
وذكر في البدائع أيضاً: أن أذان الصبي الذي لايعقل لايجزي ويعاد؛ لأن ما يصدر لا عن عقل لا يعتد به، كصوت الطيور .ن المقصود الأصلي من الأذان في الشرع الإعلام بدخول أوقات الصلاة, ثم صار من شعار الإسلام في كل بلدة أو ناحية من البلاد الواسعة على ما مر، فمن حيث الإعلام بدخول الوقت وقبول قوله لا بد من الإسلام والعقل والبلوغ والعدالة". (فتاویٰ شامی 1/394 ط: سعید)
والله ورسوله اعلم بالصواب
_________(❤️)_________ 
کتبہ :- فقیہ العصر حضرت علامہ مولانا مفتی محمد مجيب قادری صاحب قبلہ مدظلہ العالیٰ النورانی لهان ١٨خادم دارالافتاء البركاتي علماء فاونديشن شرعي سوال و جواب ضلع سرها نيبال
 14/1/2021

Post a Comment

0 Comments
* Please Don't Spam Here. All the Comments are Reviewed by Admin.

Top Post Ad

Below Post Ad

Ads Area