(سوال نمبر 306)
خلع کسے کہتے ہیں کیا خلع کی عدت طلاق کی عدت کی طرح ہے؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
السلام علیکم ورحمۃاللہ تعالیٰ وبرکاتہ
کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین مسئلہ ذیل کے بارے میں کہ
خلع کسے کہتے ہیں کیا خلع کی عدت طلاق کی عدت کی طرح ہے؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
السلام علیکم ورحمۃاللہ تعالیٰ وبرکاتہ
کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین مسئلہ ذیل کے بارے میں کہ
خلع کا صحیح طریقہ کیا ہے
اور خلع کی عدت طلاق کی عدت کیطرح ہے یا الگ
شریعت مطہرہ کی روشنی میں جواب عنایت فرمائیں نوازش ہوگی
سائل :- محمد زاہد رضا بہرائچ شریف یوپی
.....................................
نحمده ونشكره ونصلي على رسوله الأمين
وعليكم السلام ورحمة الله وبركاته
الجواب بعونه تعالى عز وجل
اگر بیوی شوہر کے ساتھ کسی وجہ سے نہ رہنا چاہے اور شوہر کی طرف سے کوئی خرابی بھی نہ ہو تو وہ خلع کا مطالعہ کر سکتی ہے اور علاحدگی کی صورت میں مرد مہر واپس لے سکتا ہے اگر شوہر راضی برضا طلاق دیدے کسی بھی مالی رقم کے عوض جو مہر میں دئے جاتے ہوں ۔تو بعد عدت عورت دوسری شادی کر سکتی ہے اور اگر مرد طلاق نہ دیں اور عورت ساتھ رہنا نہ چاہے تو عورت معاملہ شرعی قاضی کے پاس لے جانے پھر قاضی حتی الامکان دونوں میں مصالحت کرائے اگر یہ نہ ہو سکے تو قاضی شوہر کو رضاکارانہ طور پر طلاق دینے کو کہے آگر شوہر راضی نہ ہو تو بیوی کچھ لین دین کرکے شوہر کو طلاق دے پر راضی کرلے اسی کو خلع کہتے ہیں
اگر شوہر خود طلاق دے رہا ہے تو وہ ہر صورت میں ایک، صرف ایک، بس ایک طلاق دے۔ دو یا تین دینے کا سوچے بھی نا، ذہن میں دو یا تین طلاق دینے کا خیال بھی نہ لائے۔ طلاق یا خلع کے بعد بیوی عدت کے ایام گزارے گی اور اس کے بعد جہاں چاہے نکاح کر سکتی ہے۔
مصنف بہار شریعت رحمت اللہ علیہ فرماتے ہیں
مال کے بدلے میں نکاح زائل کرنے کو خلع کہتے ہیں عورت کا قبول کرنا شرط ہے بغیر اُس کے قبول کیے خلع نہیں ہو سکتا اور اس کے الفاظ معین ہیں ان کے علاوہ اور لفظوں سے نہ ہو گا۔
اگر زوج و زوجہ میں نا اتفاقی رہتی ہو اور یہ اندیشہ ہو کہ احکام شرعیہ کی پابندی نہ کرسکیں گے تو خلع میں مضایقہ نہیں اور جب خلع کر لیں تو طلاق بائن واقع ہو جائے گی ۔(بہار شریعت ح ٨ ص ١٩٦دعوت اسلامی سوفٹویر)
قرآنِ مجید میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
فَاِنْ خِفْتُمْ اَلاَّ يُقِيْمَا حُدُوْدَ اﷲِ فَلاَ جُنَاحَ عَلَيْهِمَا فِيْمَا افْتَدَتْ بِه.
پھر اگر تمہیں اندیشہ ہو کہ دونوں اﷲ کی حدود کو قائم نہ رکھ سکیں گے، سو (اندریں صورت) ان پر کوئی گناہ نہیں کہ بیوی (خود) کچھ بدلہ دے کر (اس تکلیف دہ بندھن سے) آزادی لے لے۔(البقرة، 2: 229)
حدیث مبارکہ میں ہے:
عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ أَنَّ امْرَأَةَ ثَابِتِ بْنِ قَيْسٍ أَتَتْ النَّبِيَّ فَقَالَتْ يَا رَسُولَ اﷲِ ثَابِتُ بْنُ قَيْسٍ مَا أَعْتِبُ عَلَيْهِ فِي خُلُقٍ وَلَا دِينٍ وَلَکِنِّي أَکْرَهُ الْکُفْرَ فِي الْإِسْلَامِ فَقَالَ رَسُولُ اﷲِ: أَتَرُدِّينَ عَلَيْهِ حَدِيقَتَهُ قَالَتْ نَعَمْ قَالَ رَسُولُ اﷲِ: اقْبَلْ الْحَدِيقَةَ وَطَلِّقْهَا تَطْلِيقَةً.
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ حضرت ثابت بن قیس رضی اللہ عنہ کی بیوی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمتِ عالیہ میں آ کر کہنے لگی یا رسول اﷲ میں نہ ثابت بن قیس کے اخلاق سے ناراض ہوں اور نہ ان کے دین پر عیب لگاتی ہوں، مگر میں اسلام میں آ کر کفرانِ نعمت پسند نہکرتی۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ان کا باغ (جو حق مہر میں تم نے لیا تھا) واپس کرو گی؟ وہ بولیں جی ہاں۔ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: باغ لو اور اسے ایک طلاق دے دو۔(البخاري، الصحيح، 5: 2021، رقم: 4971، بيروت، لبنان: دار ابن کثير اليمامة)
واضح رہے کہ خلع کی عدت طلاق کی عدت کی طرح ہے۔
اور خلع کی عدت طلاق کی عدت کیطرح ہے یا الگ
شریعت مطہرہ کی روشنی میں جواب عنایت فرمائیں نوازش ہوگی
سائل :- محمد زاہد رضا بہرائچ شریف یوپی
.....................................
نحمده ونشكره ونصلي على رسوله الأمين
وعليكم السلام ورحمة الله وبركاته
الجواب بعونه تعالى عز وجل
اگر بیوی شوہر کے ساتھ کسی وجہ سے نہ رہنا چاہے اور شوہر کی طرف سے کوئی خرابی بھی نہ ہو تو وہ خلع کا مطالعہ کر سکتی ہے اور علاحدگی کی صورت میں مرد مہر واپس لے سکتا ہے اگر شوہر راضی برضا طلاق دیدے کسی بھی مالی رقم کے عوض جو مہر میں دئے جاتے ہوں ۔تو بعد عدت عورت دوسری شادی کر سکتی ہے اور اگر مرد طلاق نہ دیں اور عورت ساتھ رہنا نہ چاہے تو عورت معاملہ شرعی قاضی کے پاس لے جانے پھر قاضی حتی الامکان دونوں میں مصالحت کرائے اگر یہ نہ ہو سکے تو قاضی شوہر کو رضاکارانہ طور پر طلاق دینے کو کہے آگر شوہر راضی نہ ہو تو بیوی کچھ لین دین کرکے شوہر کو طلاق دے پر راضی کرلے اسی کو خلع کہتے ہیں
اگر شوہر خود طلاق دے رہا ہے تو وہ ہر صورت میں ایک، صرف ایک، بس ایک طلاق دے۔ دو یا تین دینے کا سوچے بھی نا، ذہن میں دو یا تین طلاق دینے کا خیال بھی نہ لائے۔ طلاق یا خلع کے بعد بیوی عدت کے ایام گزارے گی اور اس کے بعد جہاں چاہے نکاح کر سکتی ہے۔
مصنف بہار شریعت رحمت اللہ علیہ فرماتے ہیں
مال کے بدلے میں نکاح زائل کرنے کو خلع کہتے ہیں عورت کا قبول کرنا شرط ہے بغیر اُس کے قبول کیے خلع نہیں ہو سکتا اور اس کے الفاظ معین ہیں ان کے علاوہ اور لفظوں سے نہ ہو گا۔
اگر زوج و زوجہ میں نا اتفاقی رہتی ہو اور یہ اندیشہ ہو کہ احکام شرعیہ کی پابندی نہ کرسکیں گے تو خلع میں مضایقہ نہیں اور جب خلع کر لیں تو طلاق بائن واقع ہو جائے گی ۔(بہار شریعت ح ٨ ص ١٩٦دعوت اسلامی سوفٹویر)
قرآنِ مجید میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
فَاِنْ خِفْتُمْ اَلاَّ يُقِيْمَا حُدُوْدَ اﷲِ فَلاَ جُنَاحَ عَلَيْهِمَا فِيْمَا افْتَدَتْ بِه.
پھر اگر تمہیں اندیشہ ہو کہ دونوں اﷲ کی حدود کو قائم نہ رکھ سکیں گے، سو (اندریں صورت) ان پر کوئی گناہ نہیں کہ بیوی (خود) کچھ بدلہ دے کر (اس تکلیف دہ بندھن سے) آزادی لے لے۔(البقرة، 2: 229)
حدیث مبارکہ میں ہے:
عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ أَنَّ امْرَأَةَ ثَابِتِ بْنِ قَيْسٍ أَتَتْ النَّبِيَّ فَقَالَتْ يَا رَسُولَ اﷲِ ثَابِتُ بْنُ قَيْسٍ مَا أَعْتِبُ عَلَيْهِ فِي خُلُقٍ وَلَا دِينٍ وَلَکِنِّي أَکْرَهُ الْکُفْرَ فِي الْإِسْلَامِ فَقَالَ رَسُولُ اﷲِ: أَتَرُدِّينَ عَلَيْهِ حَدِيقَتَهُ قَالَتْ نَعَمْ قَالَ رَسُولُ اﷲِ: اقْبَلْ الْحَدِيقَةَ وَطَلِّقْهَا تَطْلِيقَةً.
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ حضرت ثابت بن قیس رضی اللہ عنہ کی بیوی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمتِ عالیہ میں آ کر کہنے لگی یا رسول اﷲ میں نہ ثابت بن قیس کے اخلاق سے ناراض ہوں اور نہ ان کے دین پر عیب لگاتی ہوں، مگر میں اسلام میں آ کر کفرانِ نعمت پسند نہکرتی۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ان کا باغ (جو حق مہر میں تم نے لیا تھا) واپس کرو گی؟ وہ بولیں جی ہاں۔ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: باغ لو اور اسے ایک طلاق دے دو۔(البخاري، الصحيح، 5: 2021، رقم: 4971، بيروت، لبنان: دار ابن کثير اليمامة)
واضح رہے کہ خلع کی عدت طلاق کی عدت کی طرح ہے۔
والله ورسوله اعلم بالصواب
_________(❤️)_________
کتبہ :- فقیہ العصر حضرت علامہ مولانا مفتی محمد مجيب قادری صاحب قبلہ مدظلہ العالیٰ النورانی لهان ١٨خادم دارالافتاء البركاتي علماء فاونديشن شرعي سوال و جواب ضلع سرها نيبال
14/1/2021
14/1/2021