Type Here to Get Search Results !

کیا قسم کھانے کے بعد اسے پورا کرنا ضروری ہے؟

 (سوال نمبر 229)
 کیا قسم کھانے کے بعد اسے پورا کرنا ضروری ہے؟
،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،
السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ 
مفتی صاحب حضور ایک ۔مسئلہ پیش آگیا کہ گھر والوں نے کل صبح کہا کہ گھر میں آٹا نہیں ھے، جبکہ میرے پاس پیسے موجود نہیں تھے مگر ایک بندے سے 740 روپے لینے تھے۔لہذا اس کو کہا کہ میری رقم دیدے میں نے آٹا خریدنا ھے مگر کل پیسے تو نہ ملے مگر ادھار آٹا خرید لیا۔آج صبح پھر اس بندے کو کہا کہ پیسے دے دو اللہ کی قسم آٹا لینا ھے۔۔ اور 500 روپے وصول پائے 240 روپے بقایا اسکی طرف رہ گئے۔
سوال یہ ھے کہ کیا ان 500 کا اب آٹا خریدنا پڑے گا یا کل والے آٹا کا ادھار چکا سکتا ھوںاگر ان کا آٹا نہ خریدوں تو کیا قسم ٹوٹ جائے گی۔
کیا بقایا 240 روپے (معلوم نہیں کب ملیں) بھی ملنے پر قسم میں شمار ھوں گے۔
جواب مرحمت فرما کر تشفیئ فرمائیں۔ جزاکم اللہ خیرا کثیرا۔
سائل:- میاں محمد امجد عطاری(ممبر اشرف العلماء گروپ)
فیصل آباد ڈویژن۔ پاکستان

،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،
نحمده ونشكره ونصلي على رسوله الأمين
وعليكم السلام ورحمة الله وبركاته
الجواب بعونه تعالى عز وجل
مسلئہ مسئولہ میں جبکہ آپ نے آٹا خرید لیا تھا اگرچہ ادھار ہی سہی آپ نے جھوٹی قسم کھایا، آپ یوں کہتے آٹا ادھار لے چکا ہوں اسے روپئے دینے ہیں،پر آپ نے ایسا نہیں کہا ،اس پانچ سو سے مزید آٹے خریدنے کی حاجت نہیں ادھار چکا دیں، نہ خریدنے پر کفارہ بھی نہیں ۔کہ ایسی قسم کو قسم غموس کہتے ہیں ۔آپ سخت گنہگار ہوے آپ پر استغفار و توبہ فرض ہے مگر کفارہ لازم نہیں،
اور باقی رقم آپ کی ملکیت ہے، قسم سے کوئی نسبت نہیں 
مصنف بہار شریعت رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں 
قسم کی تین قسم ہے،
١/ غموس
٢/لغو
٣/منعقدہ
اگر کسی ایسی چیز کے متعلق قسم کھائی جو ہوچکی ہے، یا اب ہے یا نہیں  ہوئی ہے یا اب نہیں ہے مگروہ قسم جھوٹی ہے مثلاً قسم کھائی فلاں  شخص آیا اور وہ اب تک نہیں آیا ہے یا قسم کھائی کہ نہیں آیا اور وہ آگیا ہے یا قسم کھائی کہ فلاں شخص یہ کام کر رہا ہے اور حقیقتاً وہ اس وقت نہیں کر رہا ہے یا قسم کھائی کہ یہ پتھر ہے اور واقع میںوہ پتھر نہیں ،غرض یہ کہ اس طرح جھوٹی قسم کی  دو صورتیں ہیں جان بوجھ کر جھوٹی قسم کھائی یعنی مثلاً جس کے آنے کی  نسبت جھوٹی قسم کھائی تھی یہ خود بھی جانتا ہے کہ نہیں  آیا ہے تو ایسی قسم کو غموس کہتے ہیں ۔
 غموس میں سخت گنہگار ہوا استغفار و توبہ فرض ہے مگر کفارہ لازم نہیں،
(بہار شریعت ح 9 ص 302دعوت اسلامی)
صحیح مسلم ،کتاب الأیمان، باب ندب من حلف یمینًا
 إلخ، الحدیث :۷۔(۱۶۴۹)ص ۸۹۵۔ 2،صحیح مسلم ،،کتاب الأیمان، باب ندب من حلف یمیناً ،إلخ، الحدیث '۱۱۔(۱۶۵۰) ص  ۸۹۷۔3/صحیح البخاری ،،کتاب الأیمان،باب قول اللہ  تعا لٰی الحدیث  ۶۶۲۵، ج ۴ ص ۲۸۱)

اسی طرح کے ایک سوال کے جواب میں اعلی حضرت رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں اس صورت میں کفارہ کچھ نہیں توبہ ہے کفارہ اس قسم کا ہوتا ہے جو آئندہ کے لئے کسی کام کے کرنے نہ کرنے پر کھائی اور اس کے خلاف کیا گزشتہ پر قسم کھانے سے کفارہ نہیں ۔
(بحوالہ ملفوظات اعلی حضرت ح ١ص ١٤٤ ،الفتاوى الهنديه كتاب الإيمان باب الأول ج ١ص ٥دعوت اسلامي)
كما في الدر المختار 
وإن كان كاذبا فهي يمين الغموس فلا توجب الكفارة،
(الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) - 1663/4257)
والله ورسوله أعلم بالصواب
کتبہ:- حضرت علامہ مولانا مفتی محمد مجيب قادری صاحب قبلہ مدظلہ العالیٰ النورانی لہان ١٨سرها نيبال۔٦/١٢/٢٠٢٠

Post a Comment

0 Comments
* Please Don't Spam Here. All the Comments are Reviewed by Admin.

Top Post Ad

Below Post Ad

Ads Area