Type Here to Get Search Results !

انگوٹھی میں فیروزہ یا عقیق پہننا کیسا ہے؟

 (سوال نمبر 228)
انگوٹھی میں فیروزہ یا عقیق پہننا کیسا ہے؟
،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،
السلامُ علیکم و رحمۃ اللہ وبرکاتہ
کیا فرماتے ہیں علماء دین و مفتیان شرع متین اس بارے کہ فیروزہ نگینہ (پتھر) کے متعلق پہننا کیسا ہے؟ کسی دوست عالم دین نے غالبا کہا تھا کہ فیروزہ یا عقیق پہننا سنت سرکار صلی اللہ علیہ وسلم ہے۔مگر ایک عالم دین مفتی ثمر عباس عطاری صاحب نے ایک کلپ میں کہا کہ فیروزہ نہیں پہننا چاھیے کیونکہ یہ پتھر ابولؤلو فیروز قاتل حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے نام سے منسوب ہے اسکو شیعہ خوشی میں پہنتے ہیں۔کیا حقیقت ہے اسکی ۔برائے کرم راہنمائی فرمائیں۔
سائل:- عبد المصطفیٰ قادری
،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،
نحمدہ و نصلی علی رسولہ الامین
وعلیکم السلام و رحمت اللہ و برکاتہ
الجواب باسمہ تعالی عزوجل
مسئلہ مسئولہ میں مرد کے لئے چاندی کی ایک انگوٹھی جو وزن میں ساڑھے چار ماشہ سے کم ہو بشکل نگینہ ہر قسم کا پتھر لگا سکتے ہیں۔مثلا عقیق، یاقوت،زمرد، فیروزہ وغیرہا،
یاد رہے انگوٹھی میں فقط ایک ہی نگینہ لگا سکتے ہیں ۔کیونکہ مرد کو ایک انگوٹھی میں ایک ہی نگینہ والی انگوٹھی پہننا جائز ہے ۔
انگوٹھی یا کوئی سی بھی نگینے والی انگوٹھی پہننا سنت ہے ۔اس میں پتھر کی کوئی تخصیص نہیں ہے،
مصنف بہار شریعت رحمت اللہ علیہ فرماتے ہیں مرد کو زیور پہننا مطلقا حرام ہے صرف چاندی کی ایک انگوٹھی جائز ہے، جو وزن میں ایک مثقال یعنی ساڑھے چار ماشہ سے کم ہو اور سونے کی انگوٹھی بھی حرام ہےنگینہ ہر قسم کے پتھر کا ہو سکتا ہے ۔عقیق،یاقوت، زمرد، فیروزہ وغیرہا سب کا نگینہ جائز ہے ۔اگلے صفحہ پر فرماتے ہیں :انگوٹھی وہی جائز ہے جو مردوں کی انگوٹھی کی طرح ہو یعنی ایک نگینہ کی ہو اور اگر اسمیں کئی نگینے ہوں تو اگرچہ وہ چاندی ہی کی ہو مرد کے لیے ناجائز ہے،اسی طرح مردوں کے لیے ایک سے زیادہ انگوٹھی پہننا یا چھلے پہننا بھی ناجائز ہے کہ یہ انگوٹھی نہیں، عورتیں چھلے پہن سکتی ہیں۔
(بہار شریعت ، ح 16،ص 429 دعوت اسلامی)
یادرہے انگوٹھی کا حلقہ تو صرف چاندی ہی کا ہونا چاہیے، چاندی کے علاوہ سے درست نہیں، البتہ نگینے میں چاندی کے علاوہ کوئی بھی قیمتی پتھر عقیق یاقوت وغیرہ کا لگانا درست ہے كما في الدر المختار:
 والعبرة بالحلقة من الفضة لا بالفص فیجوز من حجر و عقیق و یاقوت وغیرہا ،
 (الدرالمختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) - 3802/4257)
 مسلم شریف میں  حدیث پاک ہے،
عن انس ابن مالک ان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم لبس خاتم فضۃ فی یمینہ فیہ فص حبشی کان یجعل فصہ مما یلی کفہ“
حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے داہنے ہاتھ میں انگوٹھی پہنی جس میں حبشی نگینہ تھا، آپ اس کا نگینہ ہتھیلی شریف سے متصل رکھتے تھے ۔
(مسلم ،ج 2،ص 197،مطبوعہ کراچی) 
اسی حدیث کے تحت مرقاۃ میں علامہ ملا علی قاری علیہ الرحمہ حدیث مبارک نقل کرتے ہیں: تختموا بالعقیق فانہ مبارک، 
انگوٹھیوں میں عقیق کا نگینہ پہنو کہ یہ برکت والا ہے۔
دوسری روایت میں ہے ،
عن انس بلفظ: تختموا بالعقیق فانہ ینفی الفقر،
یہ عقیق کا نگینہ فقر کو ختم کرتا ہے ۔
ایک روایت میں ہے:
ان التختم بالیاقو ت الاصفر یمنع الطاعون،
پیلے یاقو ت کی انگوٹھی طاعون سے حفاظت کرتی ہے ۔
(مرقاۃالمفاتیح شرح مشکوۃالمصابیح ، ج 6، ص 185، مطبوعہ کوئٹہ) 
آقا علیہ السلام کی انگوٹھی چاندی کی تھی اور اس کا
نگینہ بھی اسی کا تھا (بخاری)
حضور صلی اللہ علیہ و سلم کی انگوٹھیاں مختلف رہی ہیں۔کبھی ایسی انگوٹھی پہنی ہے جس کا نگینہ حبشی پتھر کا تھا اور کبھی ایسی کہ اس کا نگینہ بھی چاندی ہی تھا ۔ (المرأة ج ٦ ص ٢٣٦)
 فیض القدیر میں ہے:
فی حدیث لہ شأن،من تختم بالعقیق وفق لکل خیر وأحبہ الملکان ومن خواصہ تسکین الروع عند الخصام ویقطع نزف الدم،
حدیث مبارک میں عقیق کی خوبی بیان ہوئی کہ جو اسے پہنے گا اس کو ہر قسم کی بھلائی ملے گی اور فرشتے اس سے محبت کریں گے۔اس کے خواص سے ہے کہ دل مدِمقابل کے وقت سکون میں رہتا ہے اور نکسیر پھوٹنا ختم ہو جاتا ہے۔
(فیض القدیر، ج 3،ص 308،دارالکتب العلمیۃ ،بیروت)
غالبا علامہ ثمر عباسی عطاری یہ کہنا چاہ رہے ہیں کہ کسی بھی پتھر پر اعتماد و توکل کلی نہیں کرنی چاہئے 
اور بلا حاجت نہیں پہنے تو بہتر ہے، اور حقیقت بھی یہی ہے کہ اکثر لوگ اسی اعتماد کے ساتھ پہنتے ہیں ۔اور یہ بھی صحیح ہے کہ قاتل عمر فاروق رضی اللہ عنہ ابو لوئلو فیروز ہی ہے، پر کسی پتھر کا نا فیروز ہو جانے سے اسکا نگینہ بنا نا عند الشرع ممنوع نہیں ہوگا، اور اسی طرح تشیع کے پہننے سے بھی اباحت میں کوئی قباحت نہیں ۔
صاحب مرآة المناجيح فرماتے ہیں کہ 
علماء فرماتے ہیں کہ سوا بادشاہوں،قاضیوں مفتیوں کے اور لوگ انگوٹھی نہ پہنیں تو اچھا ہے کہ انگوٹھی کی ضرورت ان ہی لوگوں کو رہتی ہے دوسروں کو
ضرورت نہیں۔
 
والله ورسوله أعلم بالصواب
کتبہ :- فقیہ العصر حضرت علامہ مولانا مفتی محمد مجيب قادری  صاحب قبلہ مدظلہ العالیٰ النورانی لہان ١٨سرها نيبال۔٥/١٢/٢٠٢٠

Post a Comment

0 Comments
* Please Don't Spam Here. All the Comments are Reviewed by Admin.

Top Post Ad

Below Post Ad

Ads Area