(سوال نمبر 7087)
کہاں کون مرے گا کیا یہ علم آقا علیہ السلام کو ہے؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
السلام علیکم ورحمت اللہ و برکاتہ
کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین مسئلہ ذیل کے بارے خدا نے علم لدنی دیا ہے آقا ﷺ کو کہاں پہ کون مرے گا حضور جانتے ہیں؟
قران اور حدیث کی روشنی میں وضاحت فرمادیں
سائل:- محمد ریاض الدین رضا امگاوں مدھوبنی بہار انڈیا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نحمده ونشكره ونصلي على رسوله الأمين الكريم
وعليكم السلام ورحمة الله وبركاته
الجواب بعونه تعالي عزوجل
ہاں آقا علیہ السلام کو علم لدنی بھی اور اس سے بڑھ کر تمام غیوب حاصل ہے کہ کون کہاں اور کب مرے گا یاد رہے یہ علم علم عطائی ہے جو رب نے اپنے محبوب کو عطا کیا ہے۔
حدیث پاک میں ہے
حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جنگ بدر کے موقع پر نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے فر مایا کہ:یہ فلاں کافر کے مر نے کی جگہ ہے {یہ کہتے جاتے تھے} اور اپنے ہاتھ مبارک کو زمین پر اِدھر اُدھر رکھتے تھے ، پھر کوئی کافر حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی بتا ئی ہو ئی جگہ سے ذرّا برابر بھی اِدھر اُ دھر نہیں مرا (صحیح مسلم مترجم ج دوم ص نمبر 671)،(صحیح مسلم،کتاب الجھاد والسیر،باب غزوۃ بدر ،حدیث:۱۷۷۹) ، (سنن النسائی رقم الحدیث : ٢٠٧٣)
اس حدیث سے ثابت ہوا کہ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کو یہ بھی معلوم تھا کہ کون کب اور کہاں مرے گا۔اور یہ بات غیب کی ہے ۔ لہٰذا اس سے حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کا علم غیب واضح طر یقے سے ثا بت ہوا ۔
حضرت جابر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ : رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم ایک سفر سے آئے جب مدینہ شر یف کے قر یب پہونچے تو بڑے زور کی آندھی چلی یہاں تک کہ سوار زمین میں دھنسنے کے قر یب ہو گیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے فر مایا کہ یہ آندھی ایک منافق کی موت کے لئے بھیجی گئی ہے جب آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم مدینہ شر یف پہونچے تو منافقوں میں سے ایک بڑا منافق مر چکا تھا (صحیح مسلم،کتاب صفات المنا فقین واحکامھم، حدیث نمبر:۲۷۸۲،)
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے مدینہ شر یف میں قدم رکھنے سے پہلے ہی ایک منافق کے مرنے کی خبر دے دی اور یہ خبر بالکل صحیح ثابت ہو ئی یہی تو علم غیب ہے ۔
حضرت انس رضی اللہ عنہ بیا ن کر تے ہیں کہ حضرت زید،حضرت جعفراور حضرت ابن رواحہ رضی اللہ عنہم سے متعلق خبر آنے سے پہلے ہی حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے ان کے شہید ہو جانے کی خبر لوگوں کو بتا دیا تھا ، چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے فر مایا کہ : اب جھنڈا زید نے سنبھا لا ہے لیکن وہ شہید ہو گئے ۔ اب جھنڈا جعفر نے سنبھال لیا ہے ، اوروہ بھی شہید ہو گئے ۔ اب ابنِ رواحہ نے جھنڈا لیا ہے لیکن وہ بھی جام شہادت نوش کر گئے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم یہ بیان فر مارہے تھے اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی چشمانِ مبارک سے آنسو کے قطرے ٹپک ر ہے تھے ۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے فر مایا کہ اب جھنڈا اللہ کی تلواروں میں ایک تلوار{خالد بن ولید} نے سنبھالا ہے اللہ تعالیٰ نے ان کے ہاتھ پر مسلمانوں کو کافروں پر فتح عطا فر مائی ہے (صحیح بخاری،کتاب المغازی،باب غزوۃ موتہ من ارض الشام،حدیث:۴۲۶۲)
یہ جنگ ملک شام میں لڑی گئی اور مجا ہدین اسلام سے متعلق خبر آنے سے پہلے ہی حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے مدینہ شر یف میں رہتے ہوئے وہاں کی ساری باتیں یہاں پر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے بیان کر دیا اور کسی صحابی نے اِس پر اعترا ض بھی نہ کیا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم آپ مدینہ شر یف میں رہتے ہو ئے ملک شام میں ہو نے والے واقعے کے بارے میں کیسے خبر دے رہے ہیں ؟
معلوم ہوا کہ صحابہ رضی اللہ عنہم بھی یہ مانتے تھے کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی نگاہوں کے سامنے کوئی چیز آڑ نہیں بن سکتی اور جس طرح آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم اپنی نگا ہوں کے سامنے ہو نے والے واقعات کو دیکھتے ہیں اُسی طر ح دور دراز مقامات پر ہو نے والے واقعات کو بھی بغیر کسی ظا ہری ذریعے کے دیکھتے اور جانتے ہیں یہی تو غیب کا جاننا ہے ۔
واضح رہے کہ عِلْم کی دو قِسْمیں ہیں (1) علمِ کَسْبی اور (2) علمِ لَدُنِّی۔ اللہ کی دی ہوئی قُوَّت کو اِسْتِعْمال کرتے ہوئے بندہ اپنی کوشش سے جس علم کو حاصل کرے وہ علم کَسْبی ہے، اور جو علم کسی کو خدا تعالیٰ کی طرف سے براہِ راست بغیر استاد کے حاصل ہو علمِ لدنّی ہے۔(ماخوذ از مرقاۃ المفاتیح ج1،ص445)
اس کے ذریعے قرآن و حدیث میں اُس معاملہ کی سمجھ بوجھ حاصل ہوجاتی ہے جس تک عام لوگوں کی رسائی نہیں (شرح الزرقانی علی المواہب ج9،ص123 ماخوذاً)
حضرت سیّدنا امام غزالی علیہ رحمۃ اللہ الوَالی فرماتے ہیں یوں تو ہر علم اللہ عَزَّوَجَلَّ کی طَرَف سےملتا ہےلیکن بعض عُلُوم مخلوق کے سِکھانے سےحا صل ہوتے ہیں توایسے علمِ کو علم لدنّی نہیں کہتے بلکہ علمِ لدنّی تو وہ ہوتا ہے جس کاظُہُور کسی خارِجی معروف سَبَب کے بغیر ہی قَلْب(دل) پر ہوجاتاہے۔(احیاء العلوم، ج3،ص30)
علمِ لدنّی کی بہت سی قسمیں ہیں وَحْی اِلْہام فِراست وغیرہ وحی انبیا سے خاص ہے الہام اولِیاءُ اللہ سے، فِراست ہر مؤمن کو بقَدْرِ ایمان نصِیب ہوتی ہے، فراست و الہام وہی مُعْتَبر ہے جو خِلافِ شَرْع نہ ہو، خلاف شرع ہو تو وَسْوَسہ ہے۔(مراٰۃ المناجیح، ج1،ص185)
والله ورسوله اعلم بالصواب
کہاں کون مرے گا کیا یہ علم آقا علیہ السلام کو ہے؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
السلام علیکم ورحمت اللہ و برکاتہ
کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین مسئلہ ذیل کے بارے خدا نے علم لدنی دیا ہے آقا ﷺ کو کہاں پہ کون مرے گا حضور جانتے ہیں؟
قران اور حدیث کی روشنی میں وضاحت فرمادیں
سائل:- محمد ریاض الدین رضا امگاوں مدھوبنی بہار انڈیا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نحمده ونشكره ونصلي على رسوله الأمين الكريم
وعليكم السلام ورحمة الله وبركاته
الجواب بعونه تعالي عزوجل
ہاں آقا علیہ السلام کو علم لدنی بھی اور اس سے بڑھ کر تمام غیوب حاصل ہے کہ کون کہاں اور کب مرے گا یاد رہے یہ علم علم عطائی ہے جو رب نے اپنے محبوب کو عطا کیا ہے۔
حدیث پاک میں ہے
حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جنگ بدر کے موقع پر نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے فر مایا کہ:یہ فلاں کافر کے مر نے کی جگہ ہے {یہ کہتے جاتے تھے} اور اپنے ہاتھ مبارک کو زمین پر اِدھر اُدھر رکھتے تھے ، پھر کوئی کافر حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی بتا ئی ہو ئی جگہ سے ذرّا برابر بھی اِدھر اُ دھر نہیں مرا (صحیح مسلم مترجم ج دوم ص نمبر 671)،(صحیح مسلم،کتاب الجھاد والسیر،باب غزوۃ بدر ،حدیث:۱۷۷۹) ، (سنن النسائی رقم الحدیث : ٢٠٧٣)
اس حدیث سے ثابت ہوا کہ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کو یہ بھی معلوم تھا کہ کون کب اور کہاں مرے گا۔اور یہ بات غیب کی ہے ۔ لہٰذا اس سے حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کا علم غیب واضح طر یقے سے ثا بت ہوا ۔
حضرت جابر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ : رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم ایک سفر سے آئے جب مدینہ شر یف کے قر یب پہونچے تو بڑے زور کی آندھی چلی یہاں تک کہ سوار زمین میں دھنسنے کے قر یب ہو گیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے فر مایا کہ یہ آندھی ایک منافق کی موت کے لئے بھیجی گئی ہے جب آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم مدینہ شر یف پہونچے تو منافقوں میں سے ایک بڑا منافق مر چکا تھا (صحیح مسلم،کتاب صفات المنا فقین واحکامھم، حدیث نمبر:۲۷۸۲،)
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے مدینہ شر یف میں قدم رکھنے سے پہلے ہی ایک منافق کے مرنے کی خبر دے دی اور یہ خبر بالکل صحیح ثابت ہو ئی یہی تو علم غیب ہے ۔
حضرت انس رضی اللہ عنہ بیا ن کر تے ہیں کہ حضرت زید،حضرت جعفراور حضرت ابن رواحہ رضی اللہ عنہم سے متعلق خبر آنے سے پہلے ہی حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے ان کے شہید ہو جانے کی خبر لوگوں کو بتا دیا تھا ، چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے فر مایا کہ : اب جھنڈا زید نے سنبھا لا ہے لیکن وہ شہید ہو گئے ۔ اب جھنڈا جعفر نے سنبھال لیا ہے ، اوروہ بھی شہید ہو گئے ۔ اب ابنِ رواحہ نے جھنڈا لیا ہے لیکن وہ بھی جام شہادت نوش کر گئے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم یہ بیان فر مارہے تھے اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی چشمانِ مبارک سے آنسو کے قطرے ٹپک ر ہے تھے ۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے فر مایا کہ اب جھنڈا اللہ کی تلواروں میں ایک تلوار{خالد بن ولید} نے سنبھالا ہے اللہ تعالیٰ نے ان کے ہاتھ پر مسلمانوں کو کافروں پر فتح عطا فر مائی ہے (صحیح بخاری،کتاب المغازی،باب غزوۃ موتہ من ارض الشام،حدیث:۴۲۶۲)
یہ جنگ ملک شام میں لڑی گئی اور مجا ہدین اسلام سے متعلق خبر آنے سے پہلے ہی حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے مدینہ شر یف میں رہتے ہوئے وہاں کی ساری باتیں یہاں پر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے بیان کر دیا اور کسی صحابی نے اِس پر اعترا ض بھی نہ کیا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم آپ مدینہ شر یف میں رہتے ہو ئے ملک شام میں ہو نے والے واقعے کے بارے میں کیسے خبر دے رہے ہیں ؟
معلوم ہوا کہ صحابہ رضی اللہ عنہم بھی یہ مانتے تھے کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی نگاہوں کے سامنے کوئی چیز آڑ نہیں بن سکتی اور جس طرح آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم اپنی نگا ہوں کے سامنے ہو نے والے واقعات کو دیکھتے ہیں اُسی طر ح دور دراز مقامات پر ہو نے والے واقعات کو بھی بغیر کسی ظا ہری ذریعے کے دیکھتے اور جانتے ہیں یہی تو غیب کا جاننا ہے ۔
واضح رہے کہ عِلْم کی دو قِسْمیں ہیں (1) علمِ کَسْبی اور (2) علمِ لَدُنِّی۔ اللہ کی دی ہوئی قُوَّت کو اِسْتِعْمال کرتے ہوئے بندہ اپنی کوشش سے جس علم کو حاصل کرے وہ علم کَسْبی ہے، اور جو علم کسی کو خدا تعالیٰ کی طرف سے براہِ راست بغیر استاد کے حاصل ہو علمِ لدنّی ہے۔(ماخوذ از مرقاۃ المفاتیح ج1،ص445)
اس کے ذریعے قرآن و حدیث میں اُس معاملہ کی سمجھ بوجھ حاصل ہوجاتی ہے جس تک عام لوگوں کی رسائی نہیں (شرح الزرقانی علی المواہب ج9،ص123 ماخوذاً)
حضرت سیّدنا امام غزالی علیہ رحمۃ اللہ الوَالی فرماتے ہیں یوں تو ہر علم اللہ عَزَّوَجَلَّ کی طَرَف سےملتا ہےلیکن بعض عُلُوم مخلوق کے سِکھانے سےحا صل ہوتے ہیں توایسے علمِ کو علم لدنّی نہیں کہتے بلکہ علمِ لدنّی تو وہ ہوتا ہے جس کاظُہُور کسی خارِجی معروف سَبَب کے بغیر ہی قَلْب(دل) پر ہوجاتاہے۔(احیاء العلوم، ج3،ص30)
علمِ لدنّی کی بہت سی قسمیں ہیں وَحْی اِلْہام فِراست وغیرہ وحی انبیا سے خاص ہے الہام اولِیاءُ اللہ سے، فِراست ہر مؤمن کو بقَدْرِ ایمان نصِیب ہوتی ہے، فراست و الہام وہی مُعْتَبر ہے جو خِلافِ شَرْع نہ ہو، خلاف شرع ہو تو وَسْوَسہ ہے۔(مراٰۃ المناجیح، ج1،ص185)
والله ورسوله اعلم بالصواب
_________(❤️)_________
کتبہ :- فقیہ العصر حضرت علامہ مولانا مفتی محمد مجيب قادری صاحب قبلہ مدظلہ العالیٰ النورانی لهان ١٨خادم دارالافتاء البركاتي علماء فاونديشن شرعي سوال و جواب ضلع سرها نيبال 16/08/2023