Type Here to Get Search Results !

ایک مفتی صاحب جماعت سے نماز نہیں پڑھتے ہیں شرعا کیا حکم ہے؟

 (سوال نمبر 7086)
ایک مفتی صاحب جماعت سے نماز نہیں پڑھتے ہیں شرعا کیا حکم ہے؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ 
کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین کہ مفتی محمد محمود عالم صاحب جو رہنے والے ہیں بالی بتھنا عرف رسول پور مدھول کے اور پڑھاتے ہیں سون بھدر یوپی میں مفتی محمد محمود صاحب جب اپنے گھر آتے ہیں تو صرف جمعہ کی نماز مسجد میں ادا کرتے ہیں باقی پنجوقتہ ایک بھی نماز جماعت سے مسجد میں ادا نہیں کرتے ہیں جب کہ ان والد پانچوں وقت کی نماز مسجد میں جماعت سے ادا کرتے ہیں مفتی محمد محمود عالم صاحب جمعہ کی نماز جس امام کے پیچھے پڑھتے ہیں اس امام سے کچھ نہ کہکر اپنے والد سے کہتے ہیں کہ امام کی قرأت میں نقص ہے جبکہ اس امام کے پیچھے اور بھی عالم اور حافظ نماز پڑھتے ہیں لیکن کوئی بھی نقص نہیں نکالتے ہیں تو کیا مفتی محمد محمود صاحب کی نظر میں اگر امام کی قرأت میں نقص ہے تو مفتی محمد محمود صاحب کو بعد نماز امام سے کہنا چاہیے تھا کہ آپ کی قرأت میں نقص ہے لیکن امام کے غیر موجودگی میں مفتی محمد محمود صاحب کا اپنے والد سے یہ کہنا کہ امام کی قرأت میں نقص ہے غیبت کہلاے گا یا نہیں اگر ہاں تو پھر مفتی محمد محمود صاحب کو شریعت کیا کہیگی فسق معلن یا کچھ اور۔اور بغیر عذر شرعی مفتی صاحب جماعت سے نماز نہیں پڑھتے ہیں تو اس کے لئے شریعت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا کیا حکم ہے؟ مکمل جواب عنایت فرمائیں عین کرم ہوگا 
سائل:-  محمد زبیر احمد قادری موجولیا بازار ضلع سیتا مڑھی بہار انڈیا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نحمده ونشكره ونصلي على رسوله الأمين الكريم 
وعليكم السلام ورحمة الله وبركاته 
الجواب بعونه تعالي عزوجل
 
١/ بصحت سوال مفتی صاحب اپنے گھر میں نماز پڑھتے ہیں نماز تو ہوجائے گی مگر بلا عذر شرعی جماعت چھوڑنے کی وجہ سے گنہگار ہوگا۔
فتاوی رضویہ میں ہے 
پانچوں وقت کی نماز مسجد میں جماعت کے ساتھ واجب ہے ایک وقت کا بھی بلا عذر ترک گناہ ہے (ج:7/ص:195/ جماعت کا بیان / دعوت اسلامی) 
فتاوی ھندیہ میں ہے 
و فی البدائع تجب علی الرجال العقلاء البالغین الاحرار القادرین علی الصلوٰۃ بالجماعۃ من غیر حرج " اھ(ج:1/ص:82/ الباب الخامس فی الامامۃ / الفصل الاول فی الجماعۃ / بیروت)
(اور اسی طرح درمختار ج:2/ص:290/291/ کتاب الصلاۃ / باب الامامۃ / دار عالم الکتب)
بہار شریعت میں ہے 
عاقل, بالغ حر (آزاد) قادر پر جماعت واجب ہے بلا عذر ایک بار بھی چھوڑنے والا گنہگار اور مستحق سزا ہے اور کئی بار ترک کرے تو فاسق مردود الشہادہ اور اسکو سزا دی جائے گی اگر پڑوسیوں نے سکوت کیا تو وہ بھی گنہگار ہوئے اھ(ح:3/ص:582/ جماعت کا بیان / مجلس المدینۃ العلمیۃ دعوت اسلامی) 
مذکورہ توضیحات سے معلوم ہوا کہ مفتی صاحب فاسق مردود الشہادہ ہوے توبہ و استغفار کریں اور مسجد میں باجماعت نماز ادا کریں 
احادیثِ مبارکہ میں ترکِِ جماعت پر سخت وعیدیں آئی ہیں بلاعذر جماعت ترک کرنا گناہ ہے۔
سنن النسائي میں ہے 
قال أبو الدرداء: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: «ما من ثلاثة في قرية ولا بدو لا تقام فيهم الصلاة إلا قد استحوذ عليهم الشيطان، فعليكم بالجماعة؛ فإنما يأكل الذئب القاصية»۔ قال السائب۔يعني بالجماعة الجماعة في الصلاة(سنن النسائي (2/ 106)
ابو درداء  رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے رسولِ کریم ﷺ سے سنا، آپ ﷺ ارشاد فرماتے تھے کہ جس وقت کسی بستی یا جنگل میں تین افراد  ہوں اور وہ نماز کی جماعت نہ کریں تو سمجھ لو کہ ان لوگوں پر شیطان غالب آگیا ہے اور تم لوگ اپنے ذمہ جماعت سے نماز لازم کرلو ، کیوں  کہ بھیڑیا اسی بکری کو کھاتا ہے جو کہ اپنے ریوڑ سے علیحدہ ہوگئی ہو۔ حضرت سائب نے فرمایا کہ اس سے مراد نماز باجماعت ہے۔
سنن أبي داود میں ہے 
'عن ابن عباس، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «من سمع المنادي فلم يمنعه من اتباعه، عذر»، قالوا: وما العذر؟، قال: «خوف أو مرض، لم تقبل منه الصلاة التي صلى (سنن أبي داود (1/ 151)
حضرت ابنِ عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جو مؤذن کی آواز سنے اور کسی عذر کے نہ ہونے کے باوجود مسجد کو  نہ جائے (بلکہ گھر میں ہی نماز پڑھ لے)  تو اس کی نماز قبول نہیں ہوتی۔صحابہ نے پوچھا: عذر کیا ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا: خوف (یعنی دشمن کا) یا مرض۔
الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) میں ہے 
'(والجماعة سنة مؤكدة للرجال)(الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (1/ 552)
فقہاء کرام کے نزدیک جماعت چھوڑنے والے کی شہادت قبول نہیں کی جائے گی اور وہ گناہ گا رہوگا بلکہ جو اسے اس عمل پر دیکھیں اور اسے نصیحت نہ کریں وہ بھی گناہ گار ہوں گے۔ 
حلبي کبیر قال في شرح المنیۃ وکذا الأحکام تدل علی الوجوب من أن تارکہا من غیر عذر یعزر ، وترد شہادتہ، ویأثم الجیران بالسکوت عنہ ، وہذہ کلہا أحکام الواجب۔ (ص/۵۰۹ ، فصل فی الإمامۃ)
لہٰذا ہر مسلمان مرد پر ضروری ہے کہ وہ مساجد میں جاکر باجماعت نماز ادا کرنے کا اہتمام کرے، اور اس بارے میں قطعاً سستی اور غفلت سے کام نہ لے۔ اور اگر کسی مسلمان کو اس حوالے سے غفلت میں دیکھے تو بہت ہی حکمت اور نرمی کے ساتھ خیرخواہی کے جذبے سے نصیحت کرے، نہ یہ کہ اسے وعیدیں سنائے یا سخت رویہ رکھے
٢/ امام صاحب کی اگر قرات میں غلطی ہے تو ان کی اصلاح کریں اصلاح نہ کرکے اپنے والد سے بیان کرنا یہ غیبت ہے جو کہ حرام ہے توبہ کریں اور ائندہ اس سے بچیں 
چونکہ کسی شخص کے ایسے عیوب جو اس کی پیٹھ پیچھے بیان کئے جائیں اور جب اس کو معلوم ہو تو اس کو برا لگے یہ غیبت ہے۔
جیسا کہ قرآن شریف میں ہے:
یا ایھاالذین اٰمنوااجتنبوا کثیرا من الظن ان بعض الظن اثم ولا تجسسوا ولا یغتب بعضکم بعضا ایحب احدکم ان یاکل لحم اخیہ میتافکرھتموہ واتقوااللہ ان اللہ تواب رحیم۔
اے ایمان والو بد گمانوں سے بچو بے شک کوئی گمان گناہ ہو جاتا ہے اور عیب نہ ڈھونڈھو اور ایک دوسرے کی غیبت نہ کرو کیا تم میں کوئی پسند رکھے گا کہ اپنے مرے ہوئے بھائی کا گوشت کھائے تو یہ تمہیں گوارا نہ ہوگا اور اللہ سے ڈرو بیشک اللہ بہت توبہ قبول کرنے والا مہربان ہے۔
حدیث شریف میں ہے
 مسلمان بھائی کے پیٹھ پیچھے ایسی بات کہی جائے جو اسے ناگوار گزرے اگر وہ بات سچی ہے تو غیبت ہے ورنہ بہتان ہے (کنزالایمان پ ، ٢٦ س الحجرٰت ، آیت١٢)
حاصل کلام یہ ہے کسی کے پیٹھ پیچھے اس کی بری غلطی کو بیان کرنا جو اس کو معلوم ہونے پر اس کو ناگوار گزرے یہ غیبت ہے اور اگر اس کے اندر وہ بری عادتیں نہیں ہے اس کے باوجود بیان کرنا یہ تہمت یے جس کی شرعا سزا ہے۔
والله ورسوله اعلم بالصواب
_________(❤️)_________ 
کتبہ :- فقیہ العصر حضرت علامہ مولانا مفتی محمد مجيب قادری صاحب قبلہ مدظلہ العالیٰ النورانی لهان ١٨خادم دارالافتاء البركاتي علماء فاونديشن شرعي سوال و جواب ضلع سرها نيبال
16/08/2023

Post a Comment

0 Comments
* Please Don't Spam Here. All the Comments are Reviewed by Admin.

Top Post Ad

Below Post Ad

Ads Area