Type Here to Get Search Results !

کیا یا رسول اللہ کرم کیجیے خدا کے واسطے کہنا جائز نہیں ہے؟

 (سوال نمبر 2022)
کیا یا رسول اللہ کرم کیجیے خدا کے واسطے کہنا جائز نہیں ہے؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
کیا فرماتے ہیں علماء دین و مفتیان شرع متین اس مسئلہ ذیل میں، کہ زید کا یہ کہنا کہ اعلی حضرت امام احمد رضا خان بریلوی علیہ الرحمہ کا دعائیہ شعر
یا رسول اللہ کرم کیجیے خدا کے واسطے
لکھتا ہے کہ ناعوذباللہ یہ اوپن یعنی کھلم کھلا شرک ہے ،جس کی مرنے کے بعد کوئی معافی نہیں، کیا اس طرح کہنا از روئے شرع درست ہے؟۔اگر نہیں تو زید پر کیا حکم شرع ہے؟ نوٹ زید کو سمجھا گیا پر وہ سمجھنے کے لیے تیار نہیں لہذا اس معاملے میں زید پر کیا حکم ہے؟گزارش ہے کہ قرآن و حدیث کی روشنی میں مدلل و مفصل جواب عنایت فرمائیں۔۔۔۔۔بینوا وتجروا ۔۔۔۔۔
المستفتی :-باشندگان نیا ٹولہ بست پور بڑکا گاؤں مظفرپور بہار انڈیا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نحمده و نصلي على رسوله الأمين
وعليكم السلام ورحمة الله وبركاته
الجواب بعونه تعالى عز وجل

اعلی حضرت رضی اللہ کا مکمل شعر اس طرح ہے 
یا الہیٰ رحم فرما مصطفی کے واسطے 
یا رسول اللہ کرم کیجیے خدا کے واسطے۔
تشریح
امام اہلسنت مقتداء اہلسنت شعر کے پہلے مصرعے میں بارگاہ خداوندی میں عرض گزار ہیں اے اللہ مجھ پر کرم فرما رحم فرما اپنے پیارے نبی حضرت مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کے وسیلے سے ان کے توسل سے ان کے طفیل جو تیرا نبی ہے 
دوسرے مصرع میں حضور جان عالم صلی اللہ علیہ وسلم کی بیکس پناہ میں عرض کرتے ہیں اے میرے کریم آقا آپ بھی مجھ پر نظر عنایت فرمایۓ کرم کی بارش کیجیے اپنے پروردگار کے وسلیے سے جیسا کہ ہر بندہ کہتا ہے مجھے اللہ کے واسطے یہ دے دو وہ دے دو اعلی حضرت کا یہ شعر دراصل حدیث رسول کی ہی ترجمانی ہے۔
 توسل کے باب متعدد صحیح احادیث واد ہیں تفصیلات اخیر میں ملاحظہ فرمائیں ۔
بصحت سوال زید کا قول اعلی حضرت رضی اللہ عنہ کا یہ شعر ۔۔یا رسول اللہ کرم کیجئے خدا کے واسطے ۔۔۔شرکیہ یے ۔اور اس شعر کا قائل کی مرنے کے بعد کوئی معافی نہیں ہے نرا جہالت ہے ۔مندرجہ بالا شعر کو دعا میں اور دعا کے علاوہ بھی پڑھناجائز و مستحسن ہے اورزید کی باتیں درست نہیں اور زید گناہ گار ہوا  اس پر توبہ لازم ہے کہ اپنی اٹکل سےشرعی  مسئلہ بیان کرنا حرام ہے زید کو کچھ خبر ہے کہ مذکورہ شعر کس کا ہے ان کا جن کو عرب کے بڑے بڑے علمائے کرام مفتیان عظام نےمجدد الدین و الملۃ ، شیخ الاساتذہ،امام کامل ،امام الائمۃ جیسے القابات سے یاد فرمایایعنی مذکورہ شعرولی کامل امام اہلسنت امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ تعالی علیہ کا ہےجو کہ عین شریعت کے مطابق ہےجس کے جواز میں کسی عاقل و عالم  کو  تو کوئی شبہ نہیں  ہو سکتا ہاں جاہل اپنی جہالت کی وجہ سے معترض ہو تو کوئی بعید نہیں ۔    
١/ زید نے شعرکو شرکیہ کہ کر شریعت پر افتراء باندھا اوروسیلے کو ناجائز کہا
حالانکہ وسیلہ بنانے کا جواز قرآن وحدیث سے اور حضرت آدم علیہ السلام اور ان کے بعد آنے والے انبیائے  کرام کے عمل سے،یہاں تک کہ نبی کریم ﷺ کے قول اور عمل سے ثابت ہے پھر صحابہ کرام اور بزرگان دین کے اقوال وافعال سے بھی وسیلے کا جواز ثابت ہے یہاں تک کہ دعامیں وسیلہ پیش کرنے کے جائز ومستحب ہونے پر ائمہ اربعہ متفق ہیں ان کاکوئی اختلاف نہیں لہٰذا وسیلے کا منکر سخت بری راہ پر چلنے والا ہے اور مطلق وسیلہ کا انکار ایت قرآنی کا انکار ہے جو کہ کفر ہے ۔وسیلے کا انکار ہمارے یہاں کے بد مذہبوں کی مشہور علامت ہے زید پر علی الاعلان اپنے قول سے رجوع اور توبہ و استغفار لازم و ضروری ہے قبل ازیں اس کی امامت و شرعی شہادت جائز نہیں ہے ۔
٢/ زید کا قول یہ (شعر شرکیہ ہے اور اس شعر کے قائل کو کبھی معافی نہیں) سے مراد اگر اس شعر کے لکھنے والے اور پڑھنے والے کو خارج از اسلام گردانا پھر زید خود خارج از اسلام ہے کیوں کہ کسی بھی مسلمان پربغیرکسی شرعی دلیل کے کافر و مشرک ہونے کاحکم لگانا،اس کوکھیل بنالیناسخت گناہ اورحرام ہے،اس سے آدمی کا اپنادین وایمان سلامت نہیں رہتا
لہذا شرعی مسائل اور کسی اکابر کے بابت کچھ بکنے سے قبل سو بار سوچنا چاہئے 
زید پر علی الاعلان اپنے قول سے رجوع اور توبہ و استغفار کے ساتھ تجدید ایمان و نکاح ضروری ہے نئے مہر و شرعی گواہ کے ساتھ۔ اگر وہ ایسا نہیں کرتا ہے تو اس سے قطع تعلق اور اس کا بائکاٹ کیا جلائے 
مشکوۃ شریف میں ہے
حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جس شخص نے اپنے مسلمان بھائی کو کافر کہا تو ان دونوں میں سے ایک پر کفر لوٹ گیا یعنی یا تو کہنے والا خود کافر ہوگیا یا وہ شخص جس کو اس نے کافر کہا ہے۔ (بخاری ومسلم)
دوسری روایت میں ہے
حضرت ابوذر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ جس شخص نے جانتے بوجھتے کسی دوسرے کو باپ بنایا تو یہ بھی کفر کی بات ہے اور جس شخص نے ایسی بات کو اپنی طرف منسوب کیا جو اس میں نہیں ہے تو ایسا شخص ہم میں سے نہیں ہے اور اس کو اپنا ٹھکانہ جہنم میں بنانا چاہئے اور جس نے کسی کو کافر کہا یا اللہ کا دشمن کہہ کر پکارا حالانکہ وہ ایسا نہیں ہے تو یہ کلمہ اسی پر لوٹ آئے گا'۔(صحیح مسلم:جلد اولحدیث نمبر 219 )
یاد رہے کہ زید کا یہ دعویٰ 
 بلا دلیل ہے اور دعوی بغیر دلیل باطل ہوتا ہے لہٰذا زید کا یہ کہنا باطل ہے بلکہ اس کے بر خلاف دلائل سے ثابت ہے کہ دعامیں سرکار کی طرف متوجہ ہونے میں کوئی حرج نہیں کہ نماز جو سب سے افضل عبادت ہے  جب اس میں حضور ﷺ کو یاد کیا جاتا ہے اور صیغہ خطاب کے ساتھ سلام عرض کیا جاتا ہے اور علمائے کرام فرماتے ہیں کہ اولا دل کو نبی کریم ﷺ کی طرف متوجہ کرے پھر سلام  عرض کرے تو دعا میں بھی آپ کو پکارنے ،آپ کی توجہ طلب کر کے کرم کی بھیک مانگنے میں کیا حرج ہوسکتا ہے۔
 توسل کے باب میں احادیث مبارکہ ملاحظہ فرمائیں
حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے توسل سے دعا مانگنا صحیح احادیث شریفہ سے ثابت ہے؛ لہٰذا آپ کے توسل سے دعا کرنا صرف جائز ہی نہیں؛ بلکہ دعا کے قبول ہونے میں زیادہ مؤثر ہے۔ احادیث میں صحابہ کرام کا حضور ﷺ کے وسیلے سے دعا مانگنا ثابت ہے۔
١/ عن عثمان بن حنيف، أن رجلاً ضرير البصر أتى النبي صلى الله عليه وسلم فقال: ادع الله أن يعافيني قال: «إن شئت دعوت، وإن شئت صبرت فهو خير لك». قال: فادعه، قال: فأمره أن يتوضأ فيحسن وضوءه ويدعو بهذا الدعاء: «اللّٰهم إني أسألك وأتوجه إليك بنبيك محمد نبي الرحمة، إني توجهت بك إلى ربي في حاجتي هذه لتقضى لي، اللّٰهم فشفعه في'
عثمان بن حنیف سے روایت ہے کہ ایک نابینا شخص نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور کہاکہ آپ دعا فرمائیے کہ اللہ تعالیٰ مجھے عافیت عطا فرمائے! آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اگر تم چاہو تو میں تمہارے لیے دعا کروں، اور چاہو تو تم صبر کرو، یہ تمہارے لیے بہترہوگا، اس نے کہا: آپ میرے لیے دعا فرمائیے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے حکم دیا کہ اچھی طرح وضو کرو اور ان الفاظ سے دعا کرو.
اللّٰهم إني أسألك وأتوجه إليك بنبيك محمد نبي الرحمة، إني توجهت بك إلى ربي في حاجتي هذه لتقضى لي، اللّٰهم فشفعه في.
اے اللہ میں آپ سے سوال کرتاہوں اور آپ کی طرف متوجہ ہوتاہوں آپ کے نبی محمد ﷺ کے وسیلے سے جو نبی الرحمہ ہیں، اے میرے رب بے شک میں اپنی اس حاجت میں آپ کی طرف آپ کے ذریعے متوجہ ہوتاہوں تاکہ آپ میری حاجت پوری فرمائیں، اے اللہ میرے بارے میں ان (نبی کریم ﷺ) کی سفارش قبول فرمائیے
 ٢/ حدیث میں آتا ہے
قحط اهل المدينه قحطاً شديداً فشکوا الی عائشة، فقالت انظر قبر النبی صلی الله عليه وآله وسلم فاجعلوا منه کووا الی السماء حتی لا يکون بينه و بين السماء سقف ققال ففعلو فمطروا مطراً حتی نبت العشب، و سمنت الابل حتی تفتقت من الشهم فسمی عام الفتق.
(دارمی، السنن، ج 1ص 43، الرقم : 93)
ایک مرتبہ مدینہ پاک میں سخت قحط پڑ گیا انہوں نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے شکایت کی آپ نے فرمایا حضور علیہ الصلوۃ والسلام کی قبر کے پاس جاؤ اور اس سے ایک کھڑکی آسمان کی طرف کھولو کہ قبر انور اور آسمان کے درمیان کوئی پردہ حائل نہ ہو۔ روای کہتے ہیں کہ انہوں نے ایسا ہی کیا پس بہت زیادہ بارش ہوئی حتی کہ خوب سبزہ اگ آیا اور اونٹ اتنے موٹے ہوگئے کہ محسوس ہوتا تھا جیسے وہ چربی سے پھٹ پڑیں گے۔ لہذا اس سال کا نام ہی عام الفتق رکھا دیا گیا۔
امام تقِیُّ الدّین سُبْکی شافعی علیہ رحمۃ اللہ القَوی
 (سالِ وفات 756ھ) لکھتے ہیں نبیِّ کریم صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے وسیلے سے دعا کرنا جائز و مستحسن ہے، چاہے ولادتِ باسعادت سے قبل ہو، حیاتِ ظاہری میں ہو یا وِصال مبارک کے بعد ہو۔ اسی طرح آپ علیہ السَّلام سے خاص نسبت رکھنے والے بُزُرگوں کو وسیلہ بنانا بھی جائز و مستحسن ہے۔(شفاء السقامص358،376)
٣/ حضرت سیّدنا آدم علیہ  الصلاۃ وَ السَّلام نےحضرت محمدِ مصطفےٰ صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے وسیلے سے دعا کی تو ارشادِ باری تعالیٰ ہوا:بے شک! محمد
صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم تمام مخلوق میں میرے نزدیک سب سے زیادہ محبوب ہیں اور اب کہ تو نے ان کے  حق کے  واسطے سے سوال کیا ہے تو تو میں نے تمہاری مغفرت کردی اور اگر محمد صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم نہ ہوتے تو میں تمہیں بھی پیدا نہ کرتا۔(دلائل النبوۃ للبیہقی،ج5،ص489) 
امام اعظم ابوحنیفہ رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ بارگاہِ رسالت میں عرض کرتے ہیں
 اَنْتَ الَّذِیْ لَمَّا تَوَسَّلَ اٰدَمُ مِنْ زَلَّۃٍ بِکَ فَازَوَھُوَ اَبَاکَ
 آپ ہی وہ ہستی ہیں کہ جب جَدِّاعلیٰ آدم علیہ السَّلام نے لَغْزِش کے سبب آپ کا وسیلہ پکڑا تو وہ کامیاب ہوئے۔(مجموعۂ قصائد، ص40)
تابوتِ سکینہ میں انبیائے
 کرام علیہم السَّلام کے تبرکات تھے، بنی اسرائیل مشکل وقت میں اُس تابوت کے وسیلے سے دعا کرتے اور دشمنوں کے مقابلے میں فتح پاتے۔
(جلالین، پ2، البقرۃ، تحت الآیۃ: 248،ج1ص142) 
دعائے مصطفٰے نبیِّ کریم صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے حضرت سیّدنا علی کَرَّمَ اللہ تعالٰی وجہَہُ کی والدہ کے لئے یوں دعا کی
اغْفِرْ لِاُمِّي فَاطِمَةَ بِنْتِ اَسَدٍ، ولَقِّنْهَا حُجَّتَها، وَوَسِّعْ عَلَيْهَا مَدْخَلَهَا، بِحَقِّ نَبِيِّكَ وَالْأَنْبِيَاءِ الَّذِينَ مِنْ قَبْلِي
(اےاللہ عَزَّوَجَلَّ!) میری ماں فاطمہ بنتِ اسد کی مغفرت فرما اور انہیں ان کی حجت سکھااور میرے اور مجھ سے پہلےنبیوں کے حق کے وسیلے سے اس  کی قبرکو وسیع فرما
(معجم کبیر،ج24،ص351، حدیث871) 
امیر المؤمنین حضرتِ سَیِّدُنا عمر فاروقِ اعظم رضی اللہ تعالٰی عنہ قحط کے وقت یوں دعا کیا کرتے: اے اللہ عَزَّوَجَلَّ پہلے ہم تیرے نبی کے وسیلے سے دعا کرتے تھے، اب اپنے نبی کے چچا عباس رضی اللہ تعالٰی عنہ کے وسیلے سے دعا کرتے ہیں، ہمیں بارش عطا فرما
(بخاری،ج1،ص346، حدیث: 1010) 
حضرت سیّدنا امیر معاویہ رضی اللہ تعالٰی عنہ حضرت سیّدنا ابنِ اَسْوَد جُرَشی
رضی اللہ تعالٰی عنہ کے وسیلے سے بارش کی دعا مانگا کرتے تھے
(طبقات ابن سعد،ج 7،ص309ملخصاً) (3)
علامہ شامی رحمتہ اللہ علیہ  امام اعظم اور دیگر صالحین علیہ رحمۃ اللہ علیہ کی وسیلے سے دعا کرتے تھے۔  (ردالمحتار،ج 1،ص18ملخصاً)
 فرمانِ غوثِ اعظم علیہرحمۃ اللہ الاَکرم: مَنْ تَوَسَّلَ بِیْ اِلَی اللہِ فِیْ حَاجَۃٍ قُضِیَتْ حَاجَتُہ جو مجھے وسیلہ بنا کر اللہ عَزَّوَجَلَّ سے کوئی حاجت طَلَب کرے اس کی حاجت پوری کی جاتی ہے۔(نزہۃ  الخاطر  الفاتر، ص67)
میرے غوث کا وسیلہ رہے شاد سب قبیلہ
انہیں خُلد میں بسانا مدنی مدینے والے
(وسائل بخشش(مرمّم)، ص 429 بحوالہ ماہنامہ فیضان مدینہ 2018)
والله ورسوله اعلم بالصواب
_________(❤️)_________ 
کتبہ :- فقیہ العصر حضرت علامہ مولانا مفتی محمد مجيب قادری صاحب قبلہ مدظلہ العالیٰ النورانی لهان ١٨خادم دارالافتاء البركاتي علماء فاونديشن شرعي سوال و جواب ضلع سرها نيبال
28/2/2022
تائیدات و تصدیقات مفتیان کرام و علمائے عظام 
١/حضرت مفتی ابو عطر عبد السلام برکاتی امجدی صاحب قبلہ 
٢/ شہاب ملت حضرت مولانا شہاب الدین حنفی صاحب قبلہ ۔

Post a Comment

0 Comments
* Please Don't Spam Here. All the Comments are Reviewed by Admin.

Top Post Ad

Below Post Ad

Ads Area