Type Here to Get Search Results !

کیا جماعت میں صفیں سیدھی کرنا واجب ہے؟

 (سوال نمبر 2021)
کیا جماعت میں صفیں سیدھی کرنا واجب ہے؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ 
کیا فرماتے علماے اسلام اور مفتیان کرام اس مسلہ کے متعلق 
کیا امام کو مقتدیوں کی صفیں درست کرانی چاہیے اور اگر کوئی مقتدی یہ کہے کہ کسی مسجد کے اندر صفیں درست نہیں کراتے بس آپ ہی صفیں درست کرواتے ہیں تو ایسے مقتدیوں کو کیسے سمجھایا جاۓ اور صفیوں کو سب سے پہلے کس جانب سے پر کرنا چاہیے دائن جانب سے یا بائیں جانب سے راہنمائی فرما دیں
سائل:- اسرار حسین شاہ شہر اٹک پاکستان 
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نحمده و نصلي على رسوله الأمين
وعليكم السلام ورحمة الله وبركاته 
الجواب بعونه تعالى عز وجل
 
امام صاحب کو مقتدیوں کی صفیں درست کروانا ضروری ہے اور مقتدی کو بھی صفیں درست کرنا واجب ہے ورنہ ترک وجوب کا گناہ ہوگا ۔
جو مقتدی مذکورہ کلام کرے یہ اس کی سخت غلطی ہے صفیں درست کرنا حکم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور اطاعت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہے جو واجب ہے ۔قائل کو چاہئے کہ اپنی بات سے رجوع کرے قائل کو معلوم ہونا چاہئے کہ واجب کا قَصْدا چند بار ترک کرنا کبیرہ ہے۔ دائیں جانب سے صف کو مکمل کرے اگر تین چار لوگ ہوں تو امام کے پیچھے صف کے پیچ کھڑا ہوجائے۔
قابل غور باتیں 
صفوں میں کندھے سے کندھا ملا کر رکھنا  یعنی آپس میں ایسے مل کرکھڑا ہونا واجب ہے کہ درمیان میں بالکل بھی فاصلہ نہ ہو، کیونکہ شریعتِ مطہرہ میں نمازکی صفوں کے حوالے سے تین چیزوں کی بہت زیادہ تاکید ہے۔
١/ تسویہ یعنی نماز کی صفیں بالکل سیدھی ہوں اس طرح  کہ مقتدی آگے پیچھے نہ ہوں،سب کی گردنیں، شانے(کندھے)اور ٹخنےایک سیدھ میں ہوں 
٢/ اتمام یعنی جب تک اگلی صف مکمل نہ ہو جائے، اُس وقت تک دوسری صف شروع نہ کی جائے 
٣/ تراصّ یعنی نمازی ایک دوسرے کے ساتھ خوب مل کر کھڑے ہوں،اس طرح کہ ایک کا کندھا  دوسرے کے کندھے کے ساتھ  ملا ہو،ان میں بالکل بھی فاصلہ نہ ہو۔یہ تینوں چیزیں واجب ہیں ، بلاعذرِ شرعی ان میں سے کسی ایک کو بھی چھوڑنا،
ناجائز اورگناہ ہے البتہ صفوں کے واجبات میں سے کوئی واجب چھوٹ جائے،تو اس کی وجہ سے نماز کا اعادہ  واجب نہیں ہوگا۔
مجتہد فی المسائل اعلی حضرت رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں 
دربارۂ صفوف شرعاً تین باتیں بتاکیدِ اکید ماموربہ ہیں اور تینوں آج کل معاذﷲ کالمتروک ہورہی ہیں، یہی باعث ہے کہ مسلمانوں میں نااتفاقی پھیلی ہوئی ہے۔اول تسویہ کہ صف برابر ہو،خم نہ ہو، کج نہ ہو،مقتدی آگے پیچھے نہ ہوں،سب کی گردنیں، شانے، ٹخنے آپس میں محاذی ایک خط مستقیم پرواقع ہوں جو اس خط پرکہ ہمارے سینوں سے نکل کر قبلہ معظمہ پر گزرا ہے، عمود ہو،دوم اتمام کہ جب تک ایک صف پوری نہ ہو، دوسری نہ کریں، اس کا شرع مطہرہ کو وہ اہتمام ہے کہ اگرکوئی صف ناقص چھوڑے ،مثلاً ایک آدمی کی جگہ اس میں کہیں باقی تھی، اسے بغیر پورا کیے پیچھے اور صفیں باندھ لیں، بعد کو ایک شخص آیا ،اس نے اگلی صف میں نقصان پایا، تو اسے حکم ہے کہ ان صفوں کو چیرتا ہوا جاکر وہاں کھڑا ہو اور اس نقصان کو پورا کرے،کہ انہوں نے مخالفتِ حکم شرع کرکے خود اپنی حرمت ساقط کی۔ جو اس طرح صف پوری کرے گا ﷲ تعالی اس کے لیے مغفرت فرمائے گا۔
سوم تراص یعنی خوب مل کر کھڑاہونا کہ شانہ سے شانہ چھلے۔ﷲعزوجل فرماتاہے:﴿صَفًّا کَاَنَّہُمۡ بُنۡیَانٌ مَّرْصُوۡصٌ﴾گویا وہ عمارت ہے رانگاپلائی ہوئی۔رانگ پگھلا کر ڈال دیں،تو سب درزیں بھرجاتی ہیں،کہیں رخنہ فرجہ نہیں رہتا، ایسی صف باندھنے والوں کو مولی سبحٰنہ وتعالی دوست رکھتاہے۔۔یہ بھی اسی اتمام صفوف کے متممات سے اور تینوں امرشرعاً واجب ہیں۔ کماحققناہ فی فتاوٰنا وکثیر من الناس عنہ غافلون
جیسا کہ ہم نے اپنے فتاوٰی میں اس کی  تحقیق کردی ہے اور بہت سے لوگ اس سے غافل ہیں۔۔(فتاوی رضویہ،ج7،ص219تا223،رضا فاؤنڈیشن،لاھور)
شارح بخاری مفتی شریف الحق امجدی رحمت اللہ علیہ فرماتے ہیں۔
 اگر اقامت کے بعد بھی صفیں درست نہ ہوں، تو جب تک صفیں درست نہ ہوں ، تکبیرِ تحریمہ میں تاخیر ہو سکتی ہے اور یہی حضور اقدس صلی اللہ علیہ والہ وسلم اور خلفائے راشدین کا معمول تھا۔ (نزھۃ القاری، ج2، ص372، فرید بک سٹال، لاھور)
حدیث پاک میں ہے.
 ١/ حضوراکرم  صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے تسویۂ صفوف کے متعلق ارشاد فرمایا سووا صفوفکم .
اپنی صفیں سیدھی کرو۔
(صحیح مسلم،ج1،ص182 ط کراچی)
٢/ حضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم نےاتمامِ صفوف کے متعلق ارشاد فرمایا اتموا الصف المقدم ثم الذی يليه فما كان من نقص فليكن في الصف المؤخر
آگے والی صف کو مکمل کروپھر اس کے بعد والی کو،پس جو کمی ہو ،وہ آخری صف میں ہو۔
(مسند احمد بن حنبل،ج21،ص114 ،مؤسسۃ الرسالہ بیروت)
 ٣/ ایک اور حدیث میں تراص یعنی خوب مل کر کھڑا ہونے کا حکم دیتے ہوئے نبی پاک صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے ارشاد فرمایا الا تصفون خلفی کما تصف الملائکۃ عند ربھم ؟قالو! وکیف تصف الملائکۃ عند ربھم؟ قال:یتمون الصفوف المقدمۃ ویتراصون فی الصف..
تم میرے پیچھے اس طرح صف کیوں نہیں بناتے،جس طرح فرشتے اپنے رب کے حضور  صف بناتے ہیں؟صحابہ کرام علیہم الرضوان نے عرض کیا:فرشتے اپنے رب کے حضور  کیسے صف بناتے ہیں؟ارشاد فرمایا:وہ اگلی صفوں کو مکمل کرتے ہیں اور صف میں خوب مل کر کھڑے ہوتے ہیں۔
(سنن ابی داؤد،ج1،ص106،  مطبوعہ لاھور)
یاد رہے کہ صفوں کے واجبات میں سے کوئی واجب چھوٹ جائے،تو اس کی وجہ سے نماز کا اعادہ واجب نہیں ہوگا۔چنانچہ جب حضرت سیدنا
انس بن مالک رضی اللہ  عنہ  مدینہ طیبہ تشریف لائے،تو ان سے پوچھا گیا کہ آپ نے ہمارے اندر حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے کے خلاف کون سی بات دیکھی ہے؟تو آپ رضی اللہ عنہ نے ارشاد فرمایا ’ما انکرت شیئا  الا انکم لا تقیمون الصفوف‘
میں نے ایسی کوئی چیز نہیں  دیکھی،سوائے اس  بات کے کہ تم صفوں کو سیدھا نہیں کرتے۔ (صحیح بخاری،ج1،ص100، ط کراچی)
اس حدیث  مبارک کے تحت علامہ بدر الدین  عینی الحنفی  علیہ الرحمۃ ارشاد فرماتے ہیں 
 ومع القول بوجوب التسوية فتركها لا يضر صلاته لانها خارجة عن حقيقة الصلاة الا ترى ان انسا(رضی اللہ عنہ) مع انكاره عليهم لم يامرهم باعادة الصلاة۔
اور صف سیدھی رکھنے کے وجوب والے قول کے مطابق بھی اس کا ترک نماز میں نقصان پیدا نہیں کرے گا،کیونکہ یہ نماز کی حقیقت سے خارج ہے ،کیا دیکھتے نہیں کہ حضرت سیدنا انس رضی اللہ  عنہ نے ان کے اس فعل کو ناپسند کرنے کے باوجود انہیں نماز کے اعادے کا حکم نہیں دیا۔
(عمدۃ القاری شرح صحیح بخاری،ج4،ص359ط ملتان)
٢/ جب اقامت  کہی جائے، تو اس کے بعد امام کا مقتدیوں کو صفیں درست کرنے کی تلقین کرنایا مخصوص اعلان کرنا کہ جس میں صفوں  کے واجبات کی طرف نمازیوں کوتوجہ دلائی جائے،یہ بالکل جائز ہے، بلکہ متعدد احادیث طیّبہ سے ثبوت ملتا ہے کہ حضوراکرم  صلی اللہ علیہ والہ وسلم اقامت ہو جانے کے بعد صفیں درست کرواتے تھے۔
 نیز خلفائے راشدین رضی اللہ عنہم اجمعین کا بھی یہی معمول تھا۔
حضرت سیدنا نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہ  ارشاد فرماتے ہیں
کان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یسویز صفوفنا  حتی کانما یسوی بھا القداح حتی رای انا قد عقلنا عنہ ثم خرج یوما فقام حتی کاد یکبر فرای رجلا بادیا صدرہ من الصف فقال عباد اللہ  لتستون صفوفکم لیخالفن اللہ بین وجوھکم.
رسول اللہ صلی اللہ علیہ و الہ وسلم ہماری صفیں اتنی سیدھی کرواتے  تھے  کہ گویا ان کے ذریعے تیروں کو سیدھا کرتے ہوں حتی کہ  حضور  
صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے دیکھا کہ ہم یہ بات سمجھ گئے ہیں پھر ایک دن حضور 
صلی اللہ علیہ والہ وسلم 
(نماز کے لیے)تشریف لائے اور قریب تھا کہ نماز کے لیے تکبیرتحریمہ  کہتے کہ اچانک آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم  کی نظر مبارک ایک ایسے شخص پر پڑی جو صف سے اپنے سینے کو باہر نکالے ہوئے تھا، تو نبی پاک  صلی اللہ علیہ و الہ و سلم نے ارشاد فرمایا اے  اللہ کے بندو! تم ضرور اپنی صفوں کو درست کر لوگے یا اللہ تعالیٰ تمہارے درمیان  اختلاف (بغض و عداوت) پیدا کر دے گا۔              
(صحیح مسلم، ج1، ص182، ط کراچی)
حضرت سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے
اقیمت الصلاۃ فاقبل علینا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  بوجھہ قال: اقیموا صفوفکم و تراصوا  فانی اراکم من وراء ظھری
:نماز کے لیے اقامت کہی گئی، تو نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے اپنے رُخ  انور سے ہماری طرف متوجہ ہوئے  اور فرمایا : تم اپنی صفوں کو سیدھا کرو  اور مل کر کھڑے ہو ۔بلاشبہ میں تمہیں پسِ پشت بھی دیکھتا ہوں۔
(صحیح بخاری، ج1، ص100،طکراچی)
علامہ عینی علیہ الرحمۃ  اس حدیث  مبارک کے تحت فرماتے ہیں
مما یستفاد منہ جواز الکلام بین الاقامۃ و بین الصلاۃ و وجوب تسویۃ الصفوف وفیہ معجزۃ النبی صلی اللہ علیہ والہ وسلم.
 اس حدیث پاک سے یہ مسائل مستفاد (حاصل) ہوتے ہیں کہ اقامت اور نماز کے درمیان کلام کرنا، جائز ہے اور صفیں سیدھی رکھنا واجب ہے اور اس میں نبی پاک صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے (ایک)معجزے کا ثبوت ہے۔
 (عمدۃ القاری، ج4، ص355، ط ملتان)
خلفائے راشدین رضی اللہ عنہم اجمعین  کا بھی یہی معمول  تھا۔چنانچہ امام ترمذی علیہ الرحمۃ نقل فرماتے ہیں
روی عن عمر انہ کان یوکل رجلا باقامۃ الصفوف و لا یکبر حتی یخبر ان الصفوف قد استوت و روی عن علی و عثمان انھما کانا یتعاھدان ذلک و یقولان : استووا و کان علی یقول تقدم یا فلان  تاخر یا فلان۔حضرت سیدنا عمرفاروق رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ آپ رضی اللہ عنہ  ایک  شخص  کو نماز کی صفیں سیدھی کرنے کے لیے مقرر فرماتے اور اُس وقت تک نماز کی تکبیر نہ کہتے جب تک کہ وہ خبر نہ دے دیتا کہ صفیں سیدھی ہو چکی ہیں  اور حضرت سیدنا علی المرتضیٰ و سیدنا عثمان غنی رضی اللہ عنہما  سے منقول ہے کہ وہ صفیں سیدھے کروانے کا خاص خیال رکھتے تھے اور فرماتے تھے  کہ صفیں سیدھی کر لو اور حضرت سیدنا علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ فرماتے  تھے اے فلاں آگے ہو جاؤ۔ اے فلاں پیچھے ہو جاؤ۔
(جامع ترمذی، ج1، ص53،  ط کراچی)
والله ورسوله اعلم بالصواب
_________(❤️)_________ 
کتبہ :- فقیہ العصر حضرت علامہ مولانا مفتی محمد مجيب قادری صاحب قبلہ مدظلہ العالیٰ النورانی لهان ١٨خادم دارالافتاء البركاتي علماء فاونديشن شرعي سوال و جواب ضلع سرها نيبال
27/2/2022

Post a Comment

0 Comments
* Please Don't Spam Here. All the Comments are Reviewed by Admin.

Top Post Ad

Below Post Ad

Ads Area