Type Here to Get Search Results !

حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ اورحضرت علی رضی اللہ عنہ کے درمیان کیا اختلاف تھا؟


 (سوال نمبر 2023)
حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ اورحضرت علی رضی اللہ عنہ کے درمیان کیا اختلاف تھا؟
.....................................
السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ 
کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس بارے حضرت امیر معاویہ رضی اللہ اور حضرت علی رضی اللہ کے درمیان کیا اختلاف تھا؟کیا حسین رضی اللہ سے جنگ کرنے والا یزید امیر معاویہ کا بیٹا تھا؟ اور اس اختلاف کے حوالہ سے اہلسنت کا موقف کیا ہے؟
سائل:- محمد اجمل چشتی پاکستان
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نحمده و نصلي على رسوله الأمين 
وعليكم السلام ورحمة الله وبركاته 
الجواب بعونه تعالى عز وجل 

١/ حضرت علی اور حضرت معاویہ رضی اللہ عنہما  کے درمیان جنگ صفین اور جنگ جمل ہوئی جس کا سبب بنیادی طور پر خلیفہ راشد، امیر المؤمنین سیدنا عثمان غنی رضی اللہ عنہ کی مظلومانہ شہادت تھی جس کے پس پردہ وہی یہودی و مجوسی سازش کارفرما تھی جو خلیفہ دوم حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کی شہادت کی ذمہ دار تھی۔ صحیح صورتحال کا ایک جگہ سے دوسری جگہ تک بروقت پہنچ جانا، اس زمانہ میں ممکن نہ تھا، جبکہ اسلام دشمن عناصر گمراہ کن افواہیں تسلسل سے پھیلانے میں مصروف تھے۔ ان حالات میں عوام و خواص میں غلط فہمیوں کا پیدا ہو جانا باعث تعجب نہیں۔ غلط فہمیاں پھیلیں اور اس کے نتیجہ میں باہمی جنگیں ہوئیں جسمیں مسلمانوں کو ایک طرف تو ناقابلِ بیان جانی و مالی نقصان ہوا، دوسری طرف ان کی ملی وحدت ٹکڑے ٹکڑے ہوئی اور تیسری طرف وہ فاتحانہ قدم جو بڑی تیزی کے ساتھ یورپ، افریقہ اور ایشیاء کی طرف بڑھتے چلے جا رہے تھے، یکدم رک گئے۔
یہ قضا و قدر کے وہ قطعی فیصلے تھے جن کی خبر مخبر صادق صلی اللہ علیہ وآلہ سلم نے ان واقعات کے رونما ہونے سے بہت پہلے دے دی تھی۔ دونوں طرف صحابہ کرام رضوان اللہ علیھم اجمعین تھے۔ کسی ایک کو موردِ الزام ٹھہرانا نہ تو درست ہے اور نہ ہی انصاف ہے۔ اس مسئلہ میں وہ لوگ بھی غلط ہیں جو حضرت علی کرم اﷲ وجہہ الکریم کی شان اقدس میں زبان طعن دراز کرتے ہیں اور وہ بھی غلط ہیں جو حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ یا دیگر صحابہ کرام رضوان اللہ علیھم اجمعین کی اجتہادی خطاء پر ان کی شان و عظمت میں گستاخی کے مرتکب ہوتے ہیں۔ہمارے نزدیک اﷲ تعالیٰ، رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم، صحابہ و اہل بیت رضوان اللہ علیھم اجمعین، آئمہ کرام، اولیائے عظام اور علماء و اہل اسلام کا ادب واحترام ہی ایمان اور تقویٰ ہے۔ 
حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ حضورنبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے عظیم المرتبت صحابی، کاتب اور ام المؤمنین ام حبیبہ رضی اللہ عنہا کے بھائی ہیں۔ قرآنِ مجید صحابہ کرام رضوان اللہ علیھم اجمعین کے گھوڑوں کی ٹاپوں سے اڑنے والے گرد و غبار کی قسمیں کھاتا ہے
وَالْعٰدِيٰتِ ضَبْحًاo فَالْمُوْرِيٰتِ قَدْحًاo فَالْمُغِيْرٰتِ صُبْحًاo فَاَثَرْنَ بِهِ نَقْعًاo
(میدانِ جہاد میں) تیز دوڑنے والے گھوڑوں کی قَسم جو ہانپتے ہیں۔ پھر جو پتھروں پر سم مار کر چنگاریاں نکالتے ہیں۔ پھر جو صبح ہوتے ہی (دشمن پر) اچانک حملہ کر ڈالتے ہیں۔ پھر وہ اس (حملے والی) جگہ سے گرد و غبار اڑاتے ہیں۔‘‘
(العاديت، 100: 4)
جن شہسواروں سے گھوڑوں کو، گھوڑوں سے گرد وغبار کو یہ مقام ملا، ان شہسواروں کی شان کیا ہو گی۔ ان میں حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ بھی یقینا شامل ہیں۔ لہٰذا کوئی مسلمان ان کی شان میں گستاخی کا تصور بھی نہیں کر سکتا اور جو گستاخی کرے وہ مسلمان نہیں ہو سکتا کیونکہ مسلمانوں کی پہچان قرآن میں یہ بتلائی گئی ہے کہ وہ اہل ایمان کے لئے ہمیشہ دعائے مغفرت کرتے ہیں
وَيَسْتَغْفِرُوْنَ لِلَّذِيْنَ اٰمَنُوْاج.(المومن، 40: 7)
اور اہلِ ایمان کے لیے دعائے مغفرت کرتے ہیں۔
٢/ یزید صحابی رسول حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کا بیٹا ہے 
حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ قبل وفات اپنا بیٹا یزید کو اپنا جانشیں مقرر فرمایا آپ کی وفات کے بعد یزید تخت سمبھالا یزید نے ایک نئی طرز پیدا کر دی۔ اُس بدبخت ملعون اسلامی تشخص کو پامال کرنا شروع کیا ۔
حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ نے یزید کو اپنا ولی عہد بنایا دیا، جس پر صحابہ کرام رضوان اللہ علیھم اجمعین نے اختلاف بھی کیا لیکن انہوں نے اپنا فیصلہ واپس نہ لیا جو بعد میں مسلمانوں کے لئے انتہائی نقصان دہ ثابت ہوا۔ یہ اُن کی اجتہادی خطاء تھی۔اسی طرح حضرت علی رضی اللہ عنہ کے ساتھ جنگ صفین و جمل بھی اجتہادی خطا تھی ۔ اہل سنت و جماعت کا موقف یہ ہے کہ ان دونوں جنگ میں خلیفہ رسول حضرت علی رضی اللہ عنہ حق پر تھے اور حضرت امیر معاویہ رضی اللہ کی اجتہادی خطا تھی پر کسی کو اس بابت کلام کرنے کی شرعا اجازت نہیں ہے ۔
 بعد میں یزید اور امام حسین رضی اللہ عنہ کے مابین کرب بلا کا جنگ واقع ہوئی ۔۔تفصیلات کے لئے خطبات محرم کا مطالعہ کریں ۔مصنف بہار شریعت رحمت اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ 
یزید پلید فاسق فاجر مرتکبِ کبائر تھا، معاذ ﷲ اس سے اور ریحانۂ رسول اللہ صلی ﷲ تعالیٰ علیہ وسلم سیّدنا امام حسین رضی ﷲ تعالیٰ عنہ سے کیا نسبت۔۔۔؟! 
(بہار شریعت ح 1)
آج کل جو بعض گمراہ کہتے ہیں کہ ہمیں ان کے معاملہ میں کیا دخل؟ ہمارے وہ بھی شہزادے، وہ بھی شہزادے‘‘۔ ایسا بکنے والا مردود، خارجی، ناصبی مستحقِ جہنم ہے۔ ہاں ! یزید کو کافر کہنے اور اس پر لعنت کرنے میں علمائے اہلِ سنّت کے تین قول ہیں اور ہمارے امامِ اعظم رضی ﷲ تعالیٰ عنہ کا مسلک سُکُوت، یعنی ہم اسے فاسق فاجر کہنے کے سوا، نہ کافر کہیں ، نہ مسلمان۔
مجتہد فی المسائل اعلی حضرت رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں 
یزید پلید علیہ ما یستحقہ من العزیز المجید قطعا یقینا باجماع اہلسنت فاسق و فاجر و جری علی الکبائر تھا اس قدر پر ائمہ اہل سنت کا اطباق و اتفاق ہے، صرف اس کی تکفیر ولعن میں اختلاف فرمایا۔ امام احمد بن حنبل رضی اللہ تعالی عنہ اور ان کے اتباع و موافقین اسے کافر کہتے اور بہ تخصیص نام اس پر لعن کرتے ہیں اور اس آیۂ کریمہ سے اس پر سند لاتے ہیں 
{فَهَلْ عَسَيْتُمْ اِنْ تَوَلَّيْتُمْ اَنْ تُفْسِدُوْا فِي الْاَرْضِ وَ تُقَطِّعُوْۤا اَرْحَامَكُم ۰22 اُولٰٓىِٕكَ الَّذِيْنَ لَعَنَهُمُ اللّٰهُ فَاَصَمَّهُمْ وَ اَعْمٰۤى اَبْصَارَهُم 23 }
کیا قریب ہے کہ اگر والی مُلک ہو تو زمین میں فساد کرو اور اپنے نسبی رشتہ کاٹ دو، یہ ہیں وہ لوگ جن پر اللہ نے لعنت فرمائی تو انہیں بہرا کر دیا اور ان کی آنکھیں پھوڑ دیں ۔
شک نہیں کہ یزید نے والی مُلک ہوکر زمین میں فساد پھیلایا ، حرمین طیبین و خود کعبہ معظمہ وروضہ طیبہ کی سخت بے حرمتیاں کیں ، مسجد کریم میں گھوڑے باندھے، ان کی لید اور پیشاب منبر اطہر پر پڑے، تین دن مسجد نبی صلی اللہ تعالی علیہ وسلم بے اذان و نماز رہی ، مکہ و مدینہ و حجاز میں ہزاروں صحابہ و تابعین بے گناہ شہید کئے، کعبہ معظمہ پر پتھر پھینکے، غلاف شریف پھاڑا اور جلادیا، مدینہ طیبہ کی پاکدامن پارسائیں تین شبانہ روز اپنے خبیث لشکر پر حلال کر دیں ، رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کے جگر پارے کو تین دن بے آب ودانہ رکھ کر مع ہمرائیوں کے تیغ ظلم سے پیاسا ذبح کیا، مصطفی صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کے گود کے پالے ہوئے تن نازنین پر بعد شہادت گھوڑے دوڑائے گئے کہ تمام استخوان مبارک چور ہو گئے ، سر انور کہ محمد صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کا بوسہ گاہ تھا کاٹ کر نیزہ پر چڑھایا اور منزلوں پھرایا، حرم محترم مخدرات مشکوئے رسالت قید کئے گئے اور بے حرمتی کے ساتھ اس خبیث کے دربار میں لائے گئے ، اس سے بڑھ کر قطع رحم اور زمین میں فساد کیا ہو گا ، ملعون ہے وہ جو ان ملعون حرکات کو فسق و فجور نہ جانے، قرآن عظیم میں صراحۃ اس پر {لَعَنَهُمُ اللّٰهُ }
(ان پر اللہ کی لعنت ہے۔)
فرمایا، لہذا امام احمد اور ان کے موافقین ان پر لعنت فرماتے ہیں اور ہمارے امام اعظم رضی اللہ تعالی عنہ نے لعن و تکفیر سے احتیاطا سکوت فرمایا کہ اس سے فسق وفجور متواتر ہیں کفر متواتر نہیں اور بحال احتمال نسبت ِکبیرہ بھی جائز نہیں نہ کہ تکفیر، اور امثال و عیدات مشروط بعدم ِ توبہ ہیں لقولہ تعالی
{فَسَوْفَ يَلْقَوْنَ غَيًّاۙ۰۰۵۹ اِلَّا مَنْ تَابَ }
( تو عنقریب دوزخ میں غی کا جنگل پائیں گے مگر جو تائب ہوئے۔)
اور توبہ تادم ِ غرغرہ مقبول ہے اور اس کے عدم پر جزم نہیں اور یہی احوط و اسلم ہے، مگر اس کے فسق وفجور سے انکار کرنا اور امام مظلوم پر الزام رکھنا ضروریات مذہب اہل سنت کے خلاف ہے اور ضلالت و بدمذہبی صاف ہے ،بلکہ انصافاً یہ اس قلب سے متصور نہیں جس میں محبت ِ سید عالم صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کا شمّہ ہو،
{وَ سَيَعْلَمُ الَّذِيْنَ ظَلَمُوْۤا اَيَّ مُنْقَلَبٍ يَّنْقَلِبُوْنَؒ 227 }
(اب جانا چاہتے ہیں ظالم کہ کس کروٹ پر پلٹا کھائیں گے۔)،
شک نہیں کہ اس کا قائل ناصبی مردود اور اہل سنت کا عدو وعنود ہے
(الفتاوی الرضویۃ‘‘، کتاب السیر، ج 14، ص 591 ۔ 593۔)
احکام شریعت میں فرماتے ہیں 
یزید پلید کے بارے میں ائمہ اہل سنت کے تین قول ہیں امام احمد وغیرہ اکابر اسے کافر جانتے ہیں تو ہرگز بخشش نہ ہوگی اور امام غزالی وغیرہ مسلمان کہتے ہیں تو اس پر کتنا ہی عذاب ہو بالآخر بخشش ضرور ہے اور ہمارے امام سکوت فرماتے ہیں کہ ہم نہ مسلمان کہیں نہ کافر لہذا یہاں بھی سکوت کریں گے
(احکام شریعت ص 165)
والله ورسوله اعلم بالصواب
_________(❤️)_________ 
کتبہ :- فقیہ العصر حضرت علامہ مولانا مفتی محمد مجيب قادری صاحب قبلہ مدظلہ العالیٰ النورانی لهان ١٨خادم دارالافتاء البركاتي علماء فاونديشن شرعي سوال و جواب ضلع سرها نيبال
٢٨/٢/٢٠٢٢ 

Post a Comment

0 Comments
* Please Don't Spam Here. All the Comments are Reviewed by Admin.

Top Post Ad

Below Post Ad

Ads Area