(سوال نمبر 7038)
کیا دیوبندی وہابی رشتے دار سے قطع تعلق کرنا ضروری ہے؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
کیا دیوبندی وہابی رشتے دار سے قطع تعلق کرنا ضروری ہے؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین مسئلہ ذیل کے بارے میں کہ زید سنی صحیح العقیدہ لڑکا ھے,اس کے گھر مہمان آیا جو کہ تبلیغی و دیوبندی جماعت سے تعلق رکھتا تھا,زید نے اس سے اکیلے میں 1,2 گھنٹے بات چیت کی اور اسے 4 کفریا عبارات بتائیں مصنف کے ناموں کے ساتھ تو وہ حقہ بقہ رہ گیا اور کہا کہ میرے استاد صاحب نے تو آج تک یہ باتیں نہیں بتائیں میں اس کی تحقیقی کروں گا کہ یہ سچ ہیں بھی کہ نہیں اپنے استاذ صاحب سے پوچھوں گا۔ اب اگر وہ مان جاۓ اور اس جماعت سے الگ ھو جاۓ تو سبحان اللہ لیکن اگر وہ صدہا مرتبہ پوچھنے کے بعد بھی کوئ جواب نہ دے, حتہ کہ اس کو پی ڈی ایف میں کتاب بھی بھیجی جاۓ وہ میسیج سین کر کے بھی جواب نہ دے تو اب کیا وہ شخص بھی من شک فی کفرہ و عزاب فقد کفر کے تحت کافر ھو جاۓ گا ؟۔زید سے متعلق کیا حکم ھو گا کہ اس سے رشتہ داری کا پاس رکھے یہ نہیں؟نیز زید تو 19 سال کا لڑکا ھے تو اس طرح رشتہ داری نہ رکھنے سے زید کے گھر والے اسے اکثر شدت پسند کہتے ہیں اور کہتے ہیں تو مولویوں کو سن سن کر پاگل ھو گیا ھے۔بھلا اپنے رشتہ داروں سے کون قطع تعلق کرتا ھے۔تو زید کو بھی کیا کرنا چاھیۓ؟
تفصیلی و تسلی بخش جواب عنایت فرمائیں۔جزاک اللہ
تفصیلی و تسلی بخش جواب عنایت فرمائیں۔جزاک اللہ
سائل:- محمد عمر عبد المصطفیٰ از پاکستان ,راولپنڈی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نحمده ونشكره و نصلي علي رسوله الأمين الكريم
وعليكم السلام ورحمة الله وبركاته
الجواب بعونه تعالي عزوجل
عناصر اربعہ دیابنہ و وہابیہ کی عقائد کفریہ عبارات سن کر وہ اگر قائلین کو کافر و مرتد مانتا ہے یا نہیں اگر نہیں مانتا ہے یا سکوت اختیار کرتا ہے تو چونکہ وہ رشتہ دار ہیں اس لئے بجائے قطع تعلق کے اس کی اصلاح کی جائے ممکن اللہ ہدایت دے گناہ سے نفرت کریں گنہگار سے نہیں البتہ کھانے پینے میں ان کا ذبیحہ حلال نہیں ہے۔
مذکورہ صورت میں فتنہ کا بھی خوف ہے اس لئے حکمت سے کام لے۔
البتہ جب آپ کو یہ خطرہ ہو کہ وہ آپ کے عقائد بھی خراب کر سکتے ہیں پھر ان سے قطع تعلق کر لیں
قرآنِ مجید میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے
إِنَّمَا يَنْهَاكُمُ اللَّهُ عَنِ الَّذِينَ قَاتَلُوكُمْ فِي الدِّينِ وَأَخْرَجُوكُم مِّن دِيَارِكُمْ وَظَاهَرُوا عَلَى إِخْرَاجِكُمْ أَن تَوَلَّوْهُمْ وَمَن يَتَوَلَّهُمْ فَأُوْلَئِكَ هُمُ الظَّالِمُونَO
اللہ تو محض تمہیں ایسے لوگوں سے دوستی کرنے سے منع فرماتا ہے جنہوں نے تم سے دین (کے بارے) میں جنگ کی اور تمہیں تمہارے گھروں (یعنی وطن) سے نکالا اور تمہارے باہر نکالے جانے پر (تمہارے دشمنوں کی) مدد کی۔ اور جو شخص اُن سے دوستی کرے گا تو وہی لوگ ظالم ہیں۔(الْمُمْتَحِنَة، 60: 8)
یہ حکم محاربین یعنی ان کفار کے بارے میں ہے جو مسلح ہو کر مسلمانوں کو نقصان پہنچانے کے لیے کوشاں ہیں اور دینِ خدا کے خلاف اعلانیہ یا غیراعلانیہ طور پر برسرِ پیکار ہیں جہاں تک غیرحربی کفار یا عام گنہگار افراد کا معاملہ ہے تو ان سے معاشرتی تعلق کے بارے میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے
لَا يَنْهَاكُمُ اللَّهُ عَنِ الَّذِينَ لَمْ يُقَاتِلُوكُمْ فِي الدِّينِ وَلَمْ يُخْرِجُوكُم مِّن دِيَارِكُمْ أَن تَبَرُّوهُمْ وَتُقْسِطُوا إِلَيْهِمْ إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ الْمُقْسِطِينَO
اللہ تمہیں اس بات سے منع نہیں فرماتا کہ جن لوگوں نے تم سے دین (کے بارے) میں جنگ نہیں کی اور نہ تمہیں تمہارے گھروں سے (یعنی وطن سے) نکالا ہے کہ تم ان سے بھلائی کا سلوک کرو اور اُن سے عدل و انصاف کا برتاؤ کرو، بیشک اللہ عدل و انصاف کرنے والوں کو پسند فرماتا ہے (الْمُمْتَحِنَة، 60: 7)
جب اللہ تعالیٰ غیر حربی یعنی امن پسند اور غیرمسلح کفار سے معاشرتی مقاطع کا حکم نہیں دے رہا بلکہ ان کے ساتھ بھلائی کا سلوک کرنے اور عدل و انصاف کا برتاؤ رکھنے میں کوئی حرج بھی قرار نہیں دیتا۔
والله ورسوله اعلم بالصواب
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نحمده ونشكره و نصلي علي رسوله الأمين الكريم
وعليكم السلام ورحمة الله وبركاته
الجواب بعونه تعالي عزوجل
عناصر اربعہ دیابنہ و وہابیہ کی عقائد کفریہ عبارات سن کر وہ اگر قائلین کو کافر و مرتد مانتا ہے یا نہیں اگر نہیں مانتا ہے یا سکوت اختیار کرتا ہے تو چونکہ وہ رشتہ دار ہیں اس لئے بجائے قطع تعلق کے اس کی اصلاح کی جائے ممکن اللہ ہدایت دے گناہ سے نفرت کریں گنہگار سے نہیں البتہ کھانے پینے میں ان کا ذبیحہ حلال نہیں ہے۔
مذکورہ صورت میں فتنہ کا بھی خوف ہے اس لئے حکمت سے کام لے۔
البتہ جب آپ کو یہ خطرہ ہو کہ وہ آپ کے عقائد بھی خراب کر سکتے ہیں پھر ان سے قطع تعلق کر لیں
قرآنِ مجید میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے
إِنَّمَا يَنْهَاكُمُ اللَّهُ عَنِ الَّذِينَ قَاتَلُوكُمْ فِي الدِّينِ وَأَخْرَجُوكُم مِّن دِيَارِكُمْ وَظَاهَرُوا عَلَى إِخْرَاجِكُمْ أَن تَوَلَّوْهُمْ وَمَن يَتَوَلَّهُمْ فَأُوْلَئِكَ هُمُ الظَّالِمُونَO
اللہ تو محض تمہیں ایسے لوگوں سے دوستی کرنے سے منع فرماتا ہے جنہوں نے تم سے دین (کے بارے) میں جنگ کی اور تمہیں تمہارے گھروں (یعنی وطن) سے نکالا اور تمہارے باہر نکالے جانے پر (تمہارے دشمنوں کی) مدد کی۔ اور جو شخص اُن سے دوستی کرے گا تو وہی لوگ ظالم ہیں۔(الْمُمْتَحِنَة، 60: 8)
یہ حکم محاربین یعنی ان کفار کے بارے میں ہے جو مسلح ہو کر مسلمانوں کو نقصان پہنچانے کے لیے کوشاں ہیں اور دینِ خدا کے خلاف اعلانیہ یا غیراعلانیہ طور پر برسرِ پیکار ہیں جہاں تک غیرحربی کفار یا عام گنہگار افراد کا معاملہ ہے تو ان سے معاشرتی تعلق کے بارے میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے
لَا يَنْهَاكُمُ اللَّهُ عَنِ الَّذِينَ لَمْ يُقَاتِلُوكُمْ فِي الدِّينِ وَلَمْ يُخْرِجُوكُم مِّن دِيَارِكُمْ أَن تَبَرُّوهُمْ وَتُقْسِطُوا إِلَيْهِمْ إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ الْمُقْسِطِينَO
اللہ تمہیں اس بات سے منع نہیں فرماتا کہ جن لوگوں نے تم سے دین (کے بارے) میں جنگ نہیں کی اور نہ تمہیں تمہارے گھروں سے (یعنی وطن سے) نکالا ہے کہ تم ان سے بھلائی کا سلوک کرو اور اُن سے عدل و انصاف کا برتاؤ کرو، بیشک اللہ عدل و انصاف کرنے والوں کو پسند فرماتا ہے (الْمُمْتَحِنَة، 60: 7)
جب اللہ تعالیٰ غیر حربی یعنی امن پسند اور غیرمسلح کفار سے معاشرتی مقاطع کا حکم نہیں دے رہا بلکہ ان کے ساتھ بھلائی کا سلوک کرنے اور عدل و انصاف کا برتاؤ رکھنے میں کوئی حرج بھی قرار نہیں دیتا۔
والله ورسوله اعلم بالصواب
_________(❤️)_________
کتبہ :- فقیہ العصر حضرت علامہ مولانا مفتی محمد مجيب قادری صاحب قبلہ مدظلہ العالیٰ النورانی لهان ١٨خادم دارالافتاء البركاتي علماء فاونديشن شرعي سوال و جواب ضلع سرها نيبال
11/08/2023