Type Here to Get Search Results !

کیا دو طلاقیں الگ الگ دینے سے رجعی ہوگی؟

 (سوال نمبر 7016)
کیا دو طلاقیں الگ الگ دینے سے رجعی ہوگی؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
السلام عليكم و رحمة الله وبركاته 
کیا فرماتے ہیں علماء دین و مفتیان شرع اس مسئلہ   کے بارے میں کہ سائل نے چند سال پہلے اپنی زوجہ کو طلاق دی جسکی تفصیل یہ ہے ( زوجین کے مابین جھگڑے کے نتیجے میں یہ کہا کہ میں نشئی اور آوارہ ہوں تمہیں فارغ کرتا ہوں تم کوئی اچھا ڈھونڈ لو۔ چند دنوں بعد
 میں نے ایک طلاق کا لفظ بولا یعنی میسج کے ذریعہ بھیجوا دیا ) اس دوران زوجہ اپنے والدین کے پاس رہ رہی تھی۔ تقریباً آٹھ ماہ گزرنے کے
یہ معززین برادری کی مداخلت کرنے پر ہماری برادری کے بزرگ مولانا
عبد الجبار رحمتہ اللہ علیہ نے رجوع کیلئے نکاح ثانی کرا دیا ۔ بعد ازیں زوجین اپنی زندگی ہنستے خوشی گزارنے لگے ۔ اس کے بعد تقریباً 5 سال بعد دوبارہ گھریلو تنازعہ کے نتیجے میں سائل نے اپنی زوجہ کو 1 طلاق کا لفظ بولا تو زوجہ نے کہا کہ یہی لفظ اپنی ماں جی کے سامنے کہو تو سائل نے ماں کے سامنے یہ لفظ دہرا دیا جبکہ زوجہ6 ماہ سے حاملہ ہے مندرجہ بالا تفصیلات کی روشنی میں سائل کو رجوع کے لیے شرعی طور پر گنجائش درکار ہے تاکہ سائل اپنے بیوی بچوں سمیت ازدواجی زندگی گزار سکے اور شرعی طور پر گنہگار ہونے سے بچ سکےاللہ رب العزت ہماری کوتاہیوں سے درگزر فرمائے آئیں۔
سائل:- محمد ندیم شہر یار پاکستان
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نحمده ونشكره و نصلي علي رسوله الأمين الكريم 
وعليكم السلام ورحمة الله وبركاته 
الجواب بعونه تعالي عزوجل
مذکورہ صورت میں جب زید نے ہندہ سے کہا میں تمہیں فارغ کرتا ہوں۔اس جملے سے ایک طلا بائن واقع ہوئی۔
پھر 8 ماہ بعد مولانا نے نکاح کردیا جوکہ صحیح ہے۔
پھر 5 سال بعد ایک طلاق دیا اور اس کی تائید اپنی ماں کے سامنے کیا کہ سچ میں ایک طلاق دے دیا ہوں۔ تو اب اس صورت میں طلاق رجعی واقع ہوئی۔
یعنی کل 2 طلاقیں ہوئی ایک شروع طلاق بائن کی شکل میں اور ایک ابھی طلاق رجعی کی شکل میں۔ اس صورت میں زید وضع حمل سے پہلے رجوع کر سکتے ہیں، اور دونوں پہلے کی طرح میاں بیوی کی طرح رہ سکتے ہیں۔ وضع حمل کے بعد طلاق بائن واقع ہوگی تو پھر نکاح کے ذریعے ہی رجوع کرنا ہوگا۔
فقہائے کرام فرماتے ہیں:
الکنايات لايقع الطلاق الا بالنية او بدلالة الحال
'کنایات سے صرف نیت ہو یا دلالت حال تو طلاق واقع ہو گی(الہدایۃ شرح البدایہ، 1 : 241، المکتبۃ اسلامیۃ۔)
یعنی جب اشارہ کنایہ الفاظ بولے جائیں یعنی صریح طلاق کا لفظ نہ بولا جائے تو طلاق دو صورتوں میں واقع ہوتی ہے پہلی صورت یہ ہے کہ جب یہ الفاظ طلاق کی نیت سے بولے جائیں۔ دوسری صورت یہ ہے کہ جب ماحول ایسا پایا جائے یا ان الفاظ سے کچھ اور مراد نہ لیا جائے۔
واضح رہے کہ بیوی کو دو یا ایک طلاقِ رجعی دی ہوں تو اس سے رجوع کا طریقہ یہ ہے کہ شوہر اپنی بیوی سے عدت کے دوران وضعِ حمل سے پہلے یہ کہہ دے کہ میں نے رجوع کیا، اور اس پر دو آدمیوں کو گواہ بھی بنا لے، ایسا کرنے سے شرعاً رجوع ہو جائے گا، رجوع کے لیے ضروری نہیں کہ بیوی کے سامنے کہا جائے، اسی طرح بیوی کا سننا بھی ضروری نہیں، لہذا اگر بیوی کی غیر موجودگی میں بھی یوں کہہ دے کہ میں نے اپنی بیوی سے رجوع کر لیا اور گواہ موجود ہوں تو رجوع ہو جائے گا۔
واضح رہے کہ رجوع پر گواہ بنالینا مستحب ہے، تاکہ بوقتِ ضرورت رجوع ثابت کرسکے۔ اگر گواہ بنائے بغیر زبانی رجوع کرلیا اور بیوی نے بھی رجوع تسلیم کرلیا تو رجوع ثابت ہوگا۔ 
حدیث پاک میں ہے:
عنْ عِمْرَانَ بْنِ حُصَیْنٍ أَنَّه سُئِلَ عَنِ الرَّجُلِ یُطَلِّقُ امْرَأَتَه ثُمَّ یَقَعُ بِها وَلَمْ یُشْهدْ عَلٰی طَلاََقِها وَلَاَ عَلٰی رَجْعَتِها؟ فَقَالَ: طَلَّقْتَ لِغَیْرِ سُنَّة وَرَاجَعْتَ لِغَیْرِ سُنَّة، اِشْهدْ عَلٰی طَلاََقِها وَعَلٰی رَجْعَتِها‘(ابوداؤد)
حضرت عمران بن حصین رضی اللہ عنہ سے ایسے شخص کے بارے میں پوچھا گیا جو اپنی بیوی کو (ایک) طلاق دے، پھر اس سے (رجوع کے طور پر) صحبت کرلے اور نہ تو اس نے عورت کو طلاق دینے پر گواہ بنایا اور نہ اس سے رجوع کرنے پر گواہ بنایا۔ تو انہوں نے فرمایا کہ تم نے طلاق بھی غیر مسنون (یعنی غیر مستحب) طریقے پر دی اور رجوع بھی غیر مستحب طریقے پر کیا۔ (مستحب طریقہ یہ ہے کہ) عورت کو طلاق دینے پر اور اس سے رجوع کرنے پر گواہ بنا لیا کرو۔  
تاہم اگر عدت میں رجوع نہ کیا ہو، یا دو طلاقیں بائن دی ہوں تو  نئے مہر کے ساتھ گواہوں کی موجودگی میں تجدیدِ نکاح کرکے بھی دوبارہ ساتھ رہ سکتے ہیں۔
کما فی الفتاوى الهندية
إذا كان الطلاق بائنًا دون الثلاث فله أن يتزوجها في العدة وبعد انقضائها
الفتاوى الهندية (1 / 472)
اورحاملہ عورتوں کی عدّت (کی انتہا) ان کا وضع حمل ہے،(سورۃ الطلاق:4) وضعِ حمل سے مراد بچے کا پیداہونا ، خواہ کم مدت میں ہو یا زیادہ ۔
حدیث پاک میں ہے:
مسوربن مَخرمہ بیان کرتے ہیں: سُبیعہ اسلمیہ کے ہاں اُن کے شوہر کی وفات کے بعد بچے کی ولادت ہوئی ، تو وہ نبی اکرمﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئیں اور آپ ﷺ سے کسی دوسرے شخص سے نکاح کرنے کی اجازت مانگی تو آپ ﷺ نے اُنہیں اجازت دیدی اور اُنہوں نے نکاح کرلیا ، (صحیح بخاری)۔
والله ورسوله اعلم بالصواب
_________(❤️)_________ 
کتبہ :- فقیہ العصر حضرت علامہ مولانا مفتی محمد مجيب قادری صاحب قبلہ مدظلہ العالیٰ النورانی لهان ١٨خادم دارالافتاء البركاتي علماء فاونديشن شرعي سوال و جواب ضلع سرها نيبال
09/8/2023
مصدقہ :-
حضرت علامہ مولانا مفتی محمد کلام الدین نعمانی مصباحی امجدی نائب قاضی شرع ضلع مہوتری نیپال

Post a Comment

0 Comments
* Please Don't Spam Here. All the Comments are Reviewed by Admin.

Top Post Ad

Below Post Ad

Ads Area