Type Here to Get Search Results !

مرآۃ المناجیح شرح مشکوۃ المصابیح اول کتاب الایمان

مرآۃ المناجیح شرح مشکوۃ المصابیح اول
_________(❤️)_________
از:- حکیم الامت حضرت مفتی احمد یار خان نعیمی بدایونی علیہ الرحمہ
_________(❤️)_________
عَنْ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ: بَيْنَا نَحْنُ عِنْدَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ذَاتَ يَوْمٍ إِذْ طَلَعَ عَلَيْنَا رَجُلٌ شَدِيدُ بَيَاضِ الثِّيَابِ شَدِيدُ سَوَادِ الشَّعْرِ لَا يُرَى عَلَيْهِ أَثَرُ السَّفَرِ وَلَا يَعْرِفُهُ مِنَّا أَحَدٌ حَتَّى جَلَسَ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسلم فأسند رُكْبَتَيْهِ إِلَى رُكْبَتَيْهِ وَوَضَعَ كَفَّيْهِ عَلَى فَخْذَيْهِ وَقَالَ: يَا مُحَمَّدُ أَخْبِرْنِي عَنِ الْإِسْلَامِ قَالَ: الْإِسْلَامُ: أَنْ تَشْهَدَ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَأَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُ اللَّهِ وَتُقِيمَ الصَّلَاةَ وَتُؤْتِيَ الزَّكَاةَ وَتَصُومَ رَمَضَانَ وَتَحُجَّ الْبَيْتَ إِنِ اسْتَطَعْتَ إِلَيْهِ سَبِيلًا . قَالَ: صَدَقْتَ. فَعَجِبْنَا لَهُ يَسْأَلُهُ وَيُصَدِّقُهُ. قَالَ: فَأَخْبِرْنِي عَنِ الْإِيمَانِ. قَالَ: «أَنْ تُؤْمِنَ بِاللَّهِ وَمَلَائِكَتِهِ وَكُتُبِهِ وَرُسُلِهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ وَتُؤْمِنَ بِالْقَدَرِ خَيْرِهِ وَشَرِّهِ» . قَالَ صَدَقْتَ. قَالَ: فَأَخْبِرْنِي عَنِ الْإِحْسَانِ. قَالَ: «أَنْ تَعْبُدَ اللَّهَ كَأَنَّكَ تَرَاهُ فَإِنْ لَمْ تَكُنْ تَرَاهُ فَإِنَّهُ يَرَاكَ» . قَالَ: فَأَخْبِرْنِي عَنِ السَّاعَةِ. قَالَ: «مَا المسؤول عَنْهَا بِأَعْلَمَ مِنَ السَّائِلِ» . قَالَ: فَأَخْبِرْنِي عَنْ أَمَارَاتِهَا. قَالَ: «أَنْ تَلِدَ الْأَمَةُ رَبَّتَهَا وَأَنْ تَرَى الْحُفَاةَ الْعُرَاةَ الْعَالَةَ رِعَاءَ الشَّاءِ يَتَطَاوَلُونَ فِي الْبُنْيَانِ» . قَالَ: ثُمَّ انْطَلَقَ فَلَبِثْتُ مَلِيًّا ثُمَّ قَالَ لِي: «يَا عُمَرُ أَتَدْرِي مَنِ السَّائِلُ» ؟ قُلْتُ: اللَّهُ وَرَسُولُهُ أَعْلَمُ. قَالَ: «فَإِنَّهُ جِبْرِيل أَتَاكُم يعلمكم دينكُمْ» . رَوَاهُ مُسلم
_________(❤️)_________
كتاب الايمان ایمان کا بیان ۱؎ الفصل الاول پہلی فصل

۱؎ ایمان کے لغوی معنی ہیں امن دینا۔شریعت میں ایمان اُن اسلامی عقائد کا نام ہے جنہیں مان کر انسان عذابِ الٰہی سے امن میں آجاتا ہے،یعنی تمام ان چیزوں کو ماننا جو حضور رب کی طرف سے لائے،چونکہ ایمان محض ماننے اور تصدیق کا نام ہے اس لیئے اس میں مقدار ناممکن ہے،ہاں کیفیت کی زیادتی و کمی ممکن ہے،چونکہ ایمان عبادت کی اصل ہے اس لیئے پہلے اسے بیان فرمایا۔
حدیث نمبر :1
روایت ہے حضرت عمر ابن خطاب رضی اللہ عنہ سے فرماتے ہیں کہ ایک دن ہم نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر تھے کہ ایک صاحب ہمارے سامنے نمودار ہوئیں ۱؎ جن کے کپڑے بہت سفید اور بال خوب کالے تھے ۲؎ اُن پر آثارِ سفر ظاہر نہ تھے اور ہم سےکوئی اُنہیں پہچانتا بھی نہ تھا ۳؎ یہاں تک کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بیٹھے اور اپنے گھٹنے حضورصلی اللہ علیہ وسلم کے گھٹنوں شریف سے مَس کردیئے ۴؎ اور اپنے ہاتھ اپنے زانو پر رکھے ۵؎ اور عرض کیا اَے محمد(صلی اللہ علیہ وسلم)مجھے اسلام کے متعلق بتائیے ۶؎ فرمایا کہ اسلام یہ ہے کہ تم گواہی دو کہ اﷲ کے سواء کوئی معبود نہیں اورمحمد اﷲ کے رسول ہیں ۷؎ اور نماز قائم کرو،زکوۃ دو،رمضان کے روزے رکھو،کعبہ کا حج کرو اگر وہاں تک پہنچ سکو ۸؎ عرض کیا کہ سچ فرمایا ہم کو ان پر تعجب ہوا کہ حضور سے پوچھتے بھی ہیں اور تصدیق بھی کرتے ہیں ۹؎عرض کیا کہ مجھے ایمان کے متعلق بتائیے فرمایاکہ اﷲ اور اس کے فرشتوں اس کی کتابوں اور اس کے رسولوں اور آخری دن کو مانو ۱۰؎ اور اچھی بُری تقدیر کو مانو ۱۱؎ عرض کیا آپ سچے ہیں عرض کیا مجھے احسان کے متعلق بتائیے ۱۲؎ فرمایا اﷲ کی عبادت ایسے کرو کہ گویا اُسے دیکھ رہے ہو ۱۳؎ اگر یہ نہ ہوسکے تو خیال کرو کہ وہ تمہیں دیکھ رہا ہے ۱۴؎ عرض کیا کہ قیامت کی خبر دیجئے ۱۵؎ فرمایا کہ جس سے پوچھ رہے ہو وہ قیامت کےبارے میں سائل سے زیادہ خبردار نہیں ۱۶؎ عرض کیا کہ قیامت کی کچھ نشانیاں ہی بتا دیجئے ۱۷؎ فرمایا کہ لونڈی اپنے مالک کو جنے گی ۱۸؎ اور ننگے پاؤں ننگے بدن والے فقیروں،بکریوں کے چرواہوں کو محلوں میں فخر کرتے دیکھو گے ۱۹؎ راوی فرماتے ہیں کہ پھر سائل چلے گئے میں کچھ دیر ٹھہرا حضورصلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے فرمایا اے عمر جانتے ہویہ سائل کون ہیں مَیں نے غرض کیا اﷲ اوررسول جانیں ۲۰؎ فرمایا یہ حضرت جبریل تمہیں تمہارا دین سکھانے آئے تھے ۲۱؎ (مسلم)
شرح :
۱؎ یہ حضرت جبریل علیہ السلام تھے،جو شکل انسانی میں حاضر ہوئے تھے،جیسے بی بی مریم کے پاس مرد کی شکل میں گئے۔فرشتہ وہ نورانی مخلوق ہے جو مختلف شکلیں اختیار کرسکتی ہے۔جن وہ آتشی مخلوق ہے جو ہرقسم کی شکل بن جاتی ہے مگر روح وہ ہی رہتی ہے لہذا یہ اوا گون نہیں۔۲؎ یعنی وہ مسافر نہ تھے ورنہ ان کے بال و لباس غبار میں اٹے ہوتے۔خیال رہے کہ حضرت جبریل کے بال کالے،کپڑے سفید(چٹے)ہونا شکل بشری کا اثر تھا ورنہ وہ خود نوری ہیں،لباس اور سیاہ بالوں سے بری۔ہاروت ماروت فرشتے شکل انسانی میں آکر کھاتے پیتے بلکہ صحبت بھی کرسکتے تھے۔عصا موسوی سانپ کی شکل میں ہو کر سب کچھ نگل گیا تھا،ایسے ہی ہمارے حضور نوری بشر میں کھانا، پینا،نکاح اس بشریت کے احکام تھے،روزہ وصال میں نورانیت کی جلوہ گری ہوتی تھی،بغیر کھائے پیئے عرصۂ دراز گزار لیتے تھے،آج صد ہا سال سے حضرت عیسیٰ علیہ السلام بغیر کھائے پیئے آسمان پر جلوہ گر ہیں یہ نورانیت کا ظہور ہے۔۳؎ یعنی وہ مدینہ کے باشندے نہ تھے ورنہ ہم انہیں پہچانتے ہوتے،حضور تو انہیں خوب پہچانتے تھے جیسا کہ اگلے مضمون سے ظاہر ہے۔۴؎ یعنی حضور سے بہت قریب بیٹھے معلوم ہوتا ہے کہ حضور نے حضرت جبریل کو پہچان لیا تھا ورنہ پوچھتے کہ تم کون ہو اور اس طرح ملکر مجھ سے کیوں بیٹھتے ہو۔۵؎ جیسے نمازی التحیات میں دوزانو بیٹھتا ہے۔آج کل زائرین روضۂ مطہرہ پر نماز کی طرح کھڑے ہو کر سلام عرض کرتے ہیں اس ادب کی اصل یہ حدیث ہے۔حضرت جبریل نے قیامت تک کے مسلمانوں کو حضور کی بارگاہ میں حاضری کا ادب سکھا دیا اور بتادیا کہ نماز کی طرح یہاں کھڑا ہونا یا بیٹھنا حرام نہیں،ہاں سجدہ یا رکوع حرام ہے۔
۶؎ اسلام کبھی ایمان کے معنی میں ہوتا ہے،کبھی اس کے علاوہ یہاں دوسرے معنی میں ہے،یعنی ظاہر کا نام اسلام ہے،باطنی عقائد کا نام ایمان اسی لیے یہاں شہادۃ و اعمال کا ذکر ہوا۔خیال رہے کہ اب حضور کو صرف "یا محمد" کہہ کر پکارنا حرام ہے،رب فرماتا ہے:"لَا تَجْعَلُوۡا دُعَآءَ الرَّسُوۡلِ "الخ۔واقعہ غالبًا اس آیت کے نزول سے پہلے ہوا یا فرشتے اس آیت سے علیحدہ ہیں۔(مرقاۃ)۷؎ کلمہ پڑھنے سے مراد سارے اسلامی عقائد کا مان لینا ہے جیسے کہا جاتا ہے کہ نماز میں"الحمد"پڑھنا واجب ہے یعنی پوری سورۃ فاتحہ لہذا اس حدیث کی بنا پراب یہ نہیں کہا جاسکتا کہ تمام اسلامی فرقے مرزائی، چکڑالوی وغیرہ مسلمان ہیں کیونکہ یہ لوگ اسلامی عقائد سے ہٹ گئے۔۸؎ اس میں بظاہر حضرت جبریل سے خطاب ہے اور درحقیقت مسلمان انسانوں سے ورنہ فرشتوں پر نماز،روزہ،حج وغیرہ اعمال فرض نہیں،رب فرماتاہے:"وَلِلہِ عَلَی النَّاسِ حِجُّ الْبَیۡتِ"۔خیال رہے کہ یہ اعمال اسلام کا جزو نہیں کہ ان کا تارک کافر ہوجائے،یہاں کمال اسلام کا ذکر ہے،تارکِ اعمال مسلمان تو ہے مگر کامل نہیں۔۹؎ کیونکہ پوچھنا نہ جاننے کی علامت ہے اور تصدیق کرنا جاننے کی علامت۔اس سے معلوم ہوا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم گزشتہ تمام آسمانی کتابوں سے واقف ہیں کہ رب نے حضور کے بارے میں فرمایا:"مُصَدِّقٌ لِّمَا مَعَکُمْ "۔۱۰؎ خیال رہے کہ عن الایمان میں ایمان اصطلاحی مراد ہے،اور ان تؤمن میں ایمان لغوی یعنی ماننا،لہذا یہ تعریف الشی بنفسہ بھی نہیں اور اسمیں دور بھی نہیں۔تمام فرشتوں،نبیوں، کتابوں پر اجمالی ایمان کافی ہے،گو قرآن اور صاحبِ قرآن صلی اللہ علیہ وسلم پر تفصیلی ایمان لازم ہے۔
۱۱؎ اس طرح کہ ہربری بھلی بات جو ہم کررہے ہیں،اﷲ کے علم میں پہلے ہی سے ہے اور اس کی تحریر ہوچکی ہے،تقدیر کے معنی ہیں۔اندازہ۔تقدیر دوقسم کی ہے:مبرم اور معلق مبرم میں تبدیلی نہیں ہوسکتی،معلق دعاء،اعمال وغیرہ سے بدل سکتی ہے،ابلیس کی دعا سے اس کی عمر بڑھ گئی"فَاِنَّکَ مِنَ الْمُنۡظَرِیۡنَ" حضرت آدم علیہ السلام کی دعا سے داؤد علیہ السلام کی عمر بجائے ساٹھ سال کے سو برس ہوگئی۔تقدیر کی پوری بحث ہماری تفسیر نعیمی تیسرے پارے میں ملاحظہ کریں۔۱۲؎ یعنی رب نے فرمایا:"لِلَّذِیۡنَ اَحْسَنُوا الْحُسْنٰی"وغیرہ ان آیات میں احسان سے کیا مراد ہے جواب ملاکہ اخلاص عمل۔۱۳؎ اگر تو خدا کو دیکھتا ہے تو تیرے دل میں کس درجہ اس کاخوف ہوتا اورکس طرح تو سنبھال کرعمل کرتا،ایسے ہی خوف کیسا تھ دل لگا کر درست عمل کر۔۱۴؎ یوں تو ہر وقت ہی سمجھو کہ رب تمہیں دیکھ رہا ہے مگر عبادت کی حالت میں تو خاص طور پر خیال رکھو،تو ان شاءاﷲ عبادت آسان ہوگی،دل میں حضور و عاجزی پیدا ہوگی،آنکھوں میں آنسو آئیں گے،اﷲ ہم سب کو نصیب کرے۔آمین !۱۵؎ کہ کس دن کس تاریخ اورکس مہینہ کس سال ہوگی۔معلوم ہوتا ہے کہ جبرئیل امین کا یہ عقیدہ ہے کہ حضور کو اﷲ تعالٰی نے قیامت کا علم دیا ہےکیونکہ جاننے والے سے ہی پوچھا جاتا ہے۔یہاں جبرئیل امین حضور کے امتحان یا اظہار عجز کے لیے تو سوال کر نہیں رہے ہیں،بلکہ یہ دکھانا چاہتے ہیں کہ حضورصلی اللہ علیہ وسلم کو قیامت کا علم تو ہے مگر اس کا اظہار نہ فرمایا۔خیال رہے کہ حضور نے دوسرے موقعوں پر قیامت کا دن بھی بتادیا مہینہ بھی تاریخ بھی کہ فرمایا جمعہ کو ہوگی،دسویں تاریخ محرم کے مہینہ میں ہوگی۔
۱۶؎ یہاں علم کی نفی نہیں ورنہ فرمایا جاتا"لا اعلمُ"میں نہیں جانتا بلکہ زیادتی علم کی نفی ہے،یعنی اس کا مجھے تم سے زیادہ علم نہیں،مقصد یہ ہے کہ اے جبرائیل!یہاں لوگوں کا مجمع ہے اور قیامت کا علم اسرار الہیہ میں سے ہے یہ راز مجھ سے کیوں فاش کراتے ہو۔حق یہ ہے کہ اﷲ تعالٰی نے حضورصلی اللہ علیہ وسلم کو قیامت کا علم بھی دیا(تفسیرصاوی وغیرہ)اسی لیے حضرت جبرئیل نے حضور سے یہ سوال کیا،علم قیامت کی تحقیق ہماری کتاب "جاء الحق"حصہ اول میں ملاحظہ کرو،حضور کے اس جواب سے معلوم ہوا کہ حضور نے یہاں حضرت جبرئیل کو پہچان لیا تھا۔۱۷؎ یعنی اگر قیامت کی خبر دینا خلاف مصلحت ہے تو اس کی خصوصی علامت ہی بتا دیجئے۔اس سوال سے معلوم ہوتا ہے کہ حضورصلی اللہ علیہ وسلم کو قیامت کا علم تھا،علامتیں واقف ہی سے پوچھی جاتی ہیں۔۱۸؎ یعنی اولاد نافرمان ہوگی،بیٹا ماں سے ایسا سلوک کرے گا جیسا کوئی لونڈی سےتو گویا ماں اپنے مالک کو جنے گی،اس کی اوربھی تفسیریں ہیں۔۱۹؎ یعنی دنیا میں ایسا انقلاب آوے گا کہ ذلیل لوگ عزت والے بن جائیں گے اور عزیر لوگ ذلیل ہوجائیں گے جیسا آج دیکھا جارہا ہے۔سکندر ذوالقرنین نے حکم دیا تھا کہ کوئی پیشہ ور اپنا موروثی پیشہ نہیں چھوڑ سکتا تاکہ عالم کا نظام نہ بگڑ جائے۔(اشعۃ اللمعات)معلوم ہوا کہ کمینوں کا اپنا پیشہ چھوڑکر اونچا بن جانا علامت قیامت ہے۔اور اس سے نظام عالم کی تباہی ہے۔۲۰؎ یہ صحابہ کا ادب ہے کہ علم اللہ اور رسول کے سپرد کرتے ہیں۔اس سے دو مسئلے معلوم ہوئے: ایک یہ کہ حضور کا ذکر اﷲ کےساتھ ملا کر کرنا شرک نہیں بلکہ سنتِ صحابہ ہے،یہ کہہ سکتے ہیں کہ اﷲ اور رسول جانیں،اﷲ اور رسول فضل کریں،اﷲ اور رسول رحم فرمادیں،اﷲ اور رسول بھلا کرے۔دوسرے یہ کہ حضور کو خبرتھی کہ یہ سائل جبریل تھے ورنہ آپ فرمادیتے کہ مجھے بھی خبر نہیں یہ کون تھے۔
۲۱؎ یعنی اس لیے آئے تھے کہ تمہارے سامنے مجھ سے سوالات کریں تم جوابات سن کر دین سیکھ لو۔اس سے معلوم ہوا کہ مسلمان پر حضور کی اطاعت واجب ہے نہ کہ جبریل کی کہ یہاں جبریل نے حاضرین سے خود نہ کہہ دیا کہ لوگو! میں جبریل ہوں مجھ سے فلاں فلاں بات سیکھ لو بلکہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے کہلوایا تاکہ لوگوں کےلیے قابل قبول ہو۔جبریل کے معنی ہیں " عبد اﷲ" جبربمعنی عبد،ایل اﷲ بزبان عبرانی۔ اور ابوھریرہ رضی اللہ عنہ نے تھوڑے اختلاف سے روایت کی ان کی روایت میں ہے کہ جب تم ننگے پاؤں،ننگے بدن والے،بہروں،گونگوں کو زمین کا بادشاہ دیکھو قیامت ان پانچ میں سے ہے جنہیں خدا کے سواکوئی نہیں جانتا پھر یہ آیت تلاوت کی کہ قیامت کا علم اﷲ ہی کو ہے وہ ہی مینہ برساتا ہے ۱؎ (مسلم و بخاری) ۱؎ یعنی پانچ چیزیں رب تعالٰی کے سوا کوئی نہیں جانتا قیامت کب ہوگی،بارش کب آویگی،ماں کے پیٹ میں کیا ہے،اور میں کل کیا کروں گا،اور میں کہاں مروں گا۔اس میں سورۂ لقمان کی آخری آیت کی طرف اشارہ ہے۔اس آیت وحدیث کا مطلب یہ نہیں کہ اﷲ نے کسی کو یہ علم دیئے بھی نہیں،کاتب تقدیر فرشتہ اور ملک الموت کو یہ علوم بخشے گئے،ہمارے حضور نے بدرکی جنگ سے پہلے زمین پر خطوط کھینچ کر بتایاکہ کل یہاں فلاں فلاں کافر مارا جاوے گا،بلکہ مطلب یہ ہے کہ یہ علوم خمسہ قیاس تخمینہ حساب سے معلوم نہیں ہوسکتے صرف وحی الٰہی سے ان کا پتہ لگ سکتا ہے۔
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

Post a Comment

0 Comments
* Please Don't Spam Here. All the Comments are Reviewed by Admin.

Top Post Ad

Below Post Ad

Ads Area