(سوال نمبر 7017)
اللہ ہی خصی ہے کہنا کیسا ہے؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اللہ ہی خصی ہے کہنا کیسا ہے؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
کیا فرما تے ہیں علماء کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ ولیمہ کے لئے خریدے ہوے خصی کی بابت یہ کہنا کہ یہ اللہ ہی خصی ہے کیسا ہے قرآن و حدیث کی روشنی میں جواب عنایت فرمائیں عین نوازش ہو گی
المستفتی:- محمد حضیر الدین انڈیا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نحمده ونشكره و نصلي علي رسوله الأمين الكريم
وعليكم السلام ورحمة الله وبركاته
الجواب بعونه تعالي عزوجل
١/ اللہ ہی خصی ہے یا خصی اللہ ہے ایسا کہنا کفر ہے زید اگر اب بھی اپنی بات پر قائم ہے اور رضا و رغبت سے کہا پھر خارج از اسلام ہے
اللہ مخلوق نہین کہ وہ نہ پیدا ہوا ہے اور نہ اس سے کوئی پیدا ہوگا۔وہ اپنی ذات و صفات میں یکتا ہے۔
قائل توبہ و استغفار کریں اور تجدید ایمان و نکاح بھی اور تجدید بیعت بھی اللہ کی ذات و صفات کے بارے میں جاننا ضروری ہے یہ فرض علوم میں سے ہے۔
٢/ اور اگر زید کچھ اور کہنا چاہ رہا تھا مگر بدون ارادہ مذکورہ الفاظ نکل گئے اب اس پر پچھتاوا ہے اپنی بات پر قائل نہیں ہیں اور نہ خصی کو اللہ اور نہ اللہ کو خصی کہنا مقصود تھا ہھر ایسا کہنا گناہ کبیرہ ہے توبہ استغفار کریں اور آئندہ اللہ کے بابت ایسے جملے سے اجتناب لازم ہے۔
اللہ سبحانہ و تعالی کے بارے میں یوں عقیدہ رکھنا ضروری ہے
اﷲ ایک ہے کوئی اس کا شریک نہیں نہ ذات میں نہ صفات میں نہ افعال میں نہ احکام میں نہ اسماء میں واجب الوجود ہے یعنی اس کا وجود ضروری ہے اور عَدَم مُحَال قدیم ہے یعنی ہمیشہ سے ہے اَزَلی کے بھی یہی معنی ہیں باقی ہے یعنی ہمیشہ رہے گا اور اِسی کو اَبَدی بھی کہتے ہیں وہی اس کا مستحق ہے کہ اُس کی عبادت و پرستش کی جائے۔ وہ بے پرواہ ہے، کسی کا محتاج نہیں اور تمام جہان اُس کا محتاج۔اس کی ذات کا اِدراک عقلاً مُحَال کہ جو چیز سمجھ میں آتی ہے عقل اُس کو محیط ہوتی ہے اور اُس کو کوئی اِحاطہ نہیں کر سکتا البتہ اُس کے افعال کے ذریعہ سے اِجمالاً اُس کی صفات پھر اُن صفات کے ذریعہ سے معرفتِ ذات حاصل ہوتی ہے۔ اُس کی صفتیں نہ عین ہیں نہ غیر یعنی صفات اُسی ذات ہی کا نام ہو ایسا نہیں اور نہ اُس سے کسی طرح کسی نحوِ وجود میں جدا ہوسکیں کہ نفسِ ذات کی مقتضٰی ہیں اور عینِ ذات کو لازم۔ جس طرح اُس کی ذات قدیم اَزلی اَبدی ہے، صفات بھی قدیم اَزلی اَبَدی ہیں اُس کی صفات نہ مخلوق ہیں نہ زیرِ قدرت داخل (بہار شریعت)
مصنف بہار شریعت رحمت اللہ علیہ فرماتے ہیں
ہاں اگر معلوم ہو کہ قائل نے معنی کفر کا ارادہ کیا مثلاً وہ خود کہتا ہے کہ میری مراد یہی ہے تو کلام کا محتمل ہونا نفع نہ دیگا۔ یہاں سے معلوم ہوا کہ کلمہ کے کفر ہونے سے قائل کا کافر ہونا ضرور نہیں.
(بہار ح ٩ ص ٤٥٨ مكتبة المدينة)
( ردالمحتار ،کتاب الجھاد،باب المرتد،مطلب: فی حکم من شتم دین مسلم، ج ۶ ،ص
۳۵۴۔ وغیرہ.)
والله ورسوله أعلم بالصواب
*كتبه/محمد مجيب قادري لهان ١٨خادم دارالافتاء البركاتي علماء فاونديشن شرعي سوال و جواب ضلع سرها نيبال*
09/08/2023
المستفتی:- محمد حضیر الدین انڈیا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نحمده ونشكره و نصلي علي رسوله الأمين الكريم
وعليكم السلام ورحمة الله وبركاته
الجواب بعونه تعالي عزوجل
١/ اللہ ہی خصی ہے یا خصی اللہ ہے ایسا کہنا کفر ہے زید اگر اب بھی اپنی بات پر قائم ہے اور رضا و رغبت سے کہا پھر خارج از اسلام ہے
اللہ مخلوق نہین کہ وہ نہ پیدا ہوا ہے اور نہ اس سے کوئی پیدا ہوگا۔وہ اپنی ذات و صفات میں یکتا ہے۔
قائل توبہ و استغفار کریں اور تجدید ایمان و نکاح بھی اور تجدید بیعت بھی اللہ کی ذات و صفات کے بارے میں جاننا ضروری ہے یہ فرض علوم میں سے ہے۔
٢/ اور اگر زید کچھ اور کہنا چاہ رہا تھا مگر بدون ارادہ مذکورہ الفاظ نکل گئے اب اس پر پچھتاوا ہے اپنی بات پر قائل نہیں ہیں اور نہ خصی کو اللہ اور نہ اللہ کو خصی کہنا مقصود تھا ہھر ایسا کہنا گناہ کبیرہ ہے توبہ استغفار کریں اور آئندہ اللہ کے بابت ایسے جملے سے اجتناب لازم ہے۔
اللہ سبحانہ و تعالی کے بارے میں یوں عقیدہ رکھنا ضروری ہے
اﷲ ایک ہے کوئی اس کا شریک نہیں نہ ذات میں نہ صفات میں نہ افعال میں نہ احکام میں نہ اسماء میں واجب الوجود ہے یعنی اس کا وجود ضروری ہے اور عَدَم مُحَال قدیم ہے یعنی ہمیشہ سے ہے اَزَلی کے بھی یہی معنی ہیں باقی ہے یعنی ہمیشہ رہے گا اور اِسی کو اَبَدی بھی کہتے ہیں وہی اس کا مستحق ہے کہ اُس کی عبادت و پرستش کی جائے۔ وہ بے پرواہ ہے، کسی کا محتاج نہیں اور تمام جہان اُس کا محتاج۔اس کی ذات کا اِدراک عقلاً مُحَال کہ جو چیز سمجھ میں آتی ہے عقل اُس کو محیط ہوتی ہے اور اُس کو کوئی اِحاطہ نہیں کر سکتا البتہ اُس کے افعال کے ذریعہ سے اِجمالاً اُس کی صفات پھر اُن صفات کے ذریعہ سے معرفتِ ذات حاصل ہوتی ہے۔ اُس کی صفتیں نہ عین ہیں نہ غیر یعنی صفات اُسی ذات ہی کا نام ہو ایسا نہیں اور نہ اُس سے کسی طرح کسی نحوِ وجود میں جدا ہوسکیں کہ نفسِ ذات کی مقتضٰی ہیں اور عینِ ذات کو لازم۔ جس طرح اُس کی ذات قدیم اَزلی اَبدی ہے، صفات بھی قدیم اَزلی اَبَدی ہیں اُس کی صفات نہ مخلوق ہیں نہ زیرِ قدرت داخل (بہار شریعت)
مصنف بہار شریعت رحمت اللہ علیہ فرماتے ہیں
ہاں اگر معلوم ہو کہ قائل نے معنی کفر کا ارادہ کیا مثلاً وہ خود کہتا ہے کہ میری مراد یہی ہے تو کلام کا محتمل ہونا نفع نہ دیگا۔ یہاں سے معلوم ہوا کہ کلمہ کے کفر ہونے سے قائل کا کافر ہونا ضرور نہیں.
(بہار ح ٩ ص ٤٥٨ مكتبة المدينة)
( ردالمحتار ،کتاب الجھاد،باب المرتد،مطلب: فی حکم من شتم دین مسلم، ج ۶ ،ص
۳۵۴۔ وغیرہ.)
والله ورسوله أعلم بالصواب
*كتبه/محمد مجيب قادري لهان ١٨خادم دارالافتاء البركاتي علماء فاونديشن شرعي سوال و جواب ضلع سرها نيبال*
09/08/2023