(سوال نمبر 7091)
کیا لڑکا مسلمان اور لڑکی غیر مسلم ہو تو نکاح ہو جاتا ہے؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
کیا فرماتے ہیں علماء کرام و مفتیان شرع متین اس مسئلہ کے مطلق
کہ کیا لڑکا مسلمان اور لڑکی غیر مسلم ہو تو نکاح ہو جاتا ہے ؟
کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ صرف لڑکے کا مسلمان ہونا ضروری ہے
شرعی رہنمائی فرمائیں جزاک اللہ خیرا
سائلہ:- بنت نصیر احمد شہر کراچی پاکستان
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نحمده ونشكره و نصلي علي رسوله الأمين الكريم
وعليكم السلام ورحمة الله وبركاته
الجواب بعونه تعالي عزوجل
شرائط نکاح میں سے یے کی لڑکا لڑکی اور شرعی گواہ سب مسلمان ہوں ورنہ نکاح منعقد ہی نہیں ہوگا۔
اللہ سبحانہ وتعالی کا حکم ہے
وَلَا تَنكِحُوا الْمُشْرِكَاتِ حَتَّىٰ يُؤْمِنَّ (سورة البقرة (آیت 221)
اور مشرک عورتوں سے نکاح نہ کرو، یہاں تک کہ وہ ایمان لے آئیں۔
انعقادِ نکاح کے لئے ضروری ہے کہ لڑکا لڑکی خود یا ان کی طرف سے مقرر کردہ وکیل دو عاقل بالغ مسلمان مرد یا اسی طرح کی دوعورتوں اور ایک مرد کے سامنے اس طرح ایجاب و قبول کریں کہ گواہان ان کے ایجاب و قبول کو سنیں۔
فتاوی شامی میں ہے
وشرط سماع کل من العاقدین لفظ الآخر لیتحقق رضاہما وشرط حضور شاہدین حرّین أو حرّ وحرّتین، مکلفین سامعین قولہما معاً الخ (درمختار مع الشامی ۴/۸۶،)
شرائط نکاح 8 ہیں
1/ عاقل ہونا
2/ بالغ ہونا نابالغ اگر سمجھ والا ہے تو منعقد ہو جائے گا مگر ولی کی اجازت پر موقوف رہے گا۔
3/ گواہ ہونا یعنی ایجاب و قبول دو مرد یا ایک مرد اور دو عورتوں کے سامنے ہو۔ گواہ آذاد ، عاقل ، بالغ ہوں۔ اور سب ایک ساتھ نکاح کے الفاظ سنیں۔ بچوں ، پاگلوں اور غلام کی گواہی سے نکاح نہیں ہو سکتا۔(بہار شریعت)
4/ ایجاب و قبول کا ایک مجلس میں ہونا:✫ (تو اگر دونوں ایک مجلس میں موجود تھے ،ایک نے ایجاب کیا دوسرا قبول سے پہلے اُٹھ کھڑا ہو یا کوئی ایسا کام شروع کر دیا جس سے مجلس بدل جاتی ہے ،تو ایجاب باطل ہو گیا ،اب قبول کرنا بیکار ہے ،پھر سے ہونا چاہیے۔
5/ ایجاب و قبول میں مخالفت نہ ہو: قبول ایجاب کے مخالف نہ ہو مثلاً اس نے کہا ہزار روپے مہر پر تیرے نکاح میں دی ،اُس نے کہا نکاح تو قبول کیا اور مہر قبول نہیں ،تو نکاح نہ ہوا۔ اور اگر نکاح قبول کیا اور مہر کی نسبت کچھ نہ کہا تو ہزار پر نکاح ہو گیا۔
6/ لڑکی اگر بالغہ ہے تو اس کا راضی ہونا شرط ہے۔ ولی کو یہ اختیار نہیں کہ بغیر اس کی رضا کے نکاح کر دے
7/ کسی زمانۂ آئندہ کی طرف نسبت نہ کی ہو ،نہ کسی شرطِ نامعلوم پر معلق کیا ہو ،مثلاً میں نے تجھ سے آئندہ روز میں نکاح کیا ،یا میں نے نکاح کیا اگر ذید آئے ،ان صورتوں میں نکاح نہ ہوا۔
8/ نکاح کی نسبت کُل کی طرف ہو یا اُن اعضاء کی طرف جن کو بول کر کُل مراد لیتے ہیں۔ تو اگر یہ کہا کہ فُلاں کے ہاتھ یا پاؤں یا نصف سے نکاح کیا تو صحیح نہ ہوا۔(بہار شریعت)
والله ورسوله اعلم بالصواب
کیا لڑکا مسلمان اور لڑکی غیر مسلم ہو تو نکاح ہو جاتا ہے؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
کیا فرماتے ہیں علماء کرام و مفتیان شرع متین اس مسئلہ کے مطلق
کہ کیا لڑکا مسلمان اور لڑکی غیر مسلم ہو تو نکاح ہو جاتا ہے ؟
کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ صرف لڑکے کا مسلمان ہونا ضروری ہے
شرعی رہنمائی فرمائیں جزاک اللہ خیرا
سائلہ:- بنت نصیر احمد شہر کراچی پاکستان
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نحمده ونشكره و نصلي علي رسوله الأمين الكريم
وعليكم السلام ورحمة الله وبركاته
الجواب بعونه تعالي عزوجل
شرائط نکاح میں سے یے کی لڑکا لڑکی اور شرعی گواہ سب مسلمان ہوں ورنہ نکاح منعقد ہی نہیں ہوگا۔
اللہ سبحانہ وتعالی کا حکم ہے
وَلَا تَنكِحُوا الْمُشْرِكَاتِ حَتَّىٰ يُؤْمِنَّ (سورة البقرة (آیت 221)
اور مشرک عورتوں سے نکاح نہ کرو، یہاں تک کہ وہ ایمان لے آئیں۔
انعقادِ نکاح کے لئے ضروری ہے کہ لڑکا لڑکی خود یا ان کی طرف سے مقرر کردہ وکیل دو عاقل بالغ مسلمان مرد یا اسی طرح کی دوعورتوں اور ایک مرد کے سامنے اس طرح ایجاب و قبول کریں کہ گواہان ان کے ایجاب و قبول کو سنیں۔
فتاوی شامی میں ہے
وشرط سماع کل من العاقدین لفظ الآخر لیتحقق رضاہما وشرط حضور شاہدین حرّین أو حرّ وحرّتین، مکلفین سامعین قولہما معاً الخ (درمختار مع الشامی ۴/۸۶،)
شرائط نکاح 8 ہیں
1/ عاقل ہونا
2/ بالغ ہونا نابالغ اگر سمجھ والا ہے تو منعقد ہو جائے گا مگر ولی کی اجازت پر موقوف رہے گا۔
3/ گواہ ہونا یعنی ایجاب و قبول دو مرد یا ایک مرد اور دو عورتوں کے سامنے ہو۔ گواہ آذاد ، عاقل ، بالغ ہوں۔ اور سب ایک ساتھ نکاح کے الفاظ سنیں۔ بچوں ، پاگلوں اور غلام کی گواہی سے نکاح نہیں ہو سکتا۔(بہار شریعت)
4/ ایجاب و قبول کا ایک مجلس میں ہونا:✫ (تو اگر دونوں ایک مجلس میں موجود تھے ،ایک نے ایجاب کیا دوسرا قبول سے پہلے اُٹھ کھڑا ہو یا کوئی ایسا کام شروع کر دیا جس سے مجلس بدل جاتی ہے ،تو ایجاب باطل ہو گیا ،اب قبول کرنا بیکار ہے ،پھر سے ہونا چاہیے۔
5/ ایجاب و قبول میں مخالفت نہ ہو: قبول ایجاب کے مخالف نہ ہو مثلاً اس نے کہا ہزار روپے مہر پر تیرے نکاح میں دی ،اُس نے کہا نکاح تو قبول کیا اور مہر قبول نہیں ،تو نکاح نہ ہوا۔ اور اگر نکاح قبول کیا اور مہر کی نسبت کچھ نہ کہا تو ہزار پر نکاح ہو گیا۔
6/ لڑکی اگر بالغہ ہے تو اس کا راضی ہونا شرط ہے۔ ولی کو یہ اختیار نہیں کہ بغیر اس کی رضا کے نکاح کر دے
7/ کسی زمانۂ آئندہ کی طرف نسبت نہ کی ہو ،نہ کسی شرطِ نامعلوم پر معلق کیا ہو ،مثلاً میں نے تجھ سے آئندہ روز میں نکاح کیا ،یا میں نے نکاح کیا اگر ذید آئے ،ان صورتوں میں نکاح نہ ہوا۔
8/ نکاح کی نسبت کُل کی طرف ہو یا اُن اعضاء کی طرف جن کو بول کر کُل مراد لیتے ہیں۔ تو اگر یہ کہا کہ فُلاں کے ہاتھ یا پاؤں یا نصف سے نکاح کیا تو صحیح نہ ہوا۔(بہار شریعت)
والله ورسوله اعلم بالصواب
_________(❤️)_________
کتبہ :- فقیہ العصر حضرت علامہ مولانا مفتی محمد مجيب قادری صاحب قبلہ مدظلہ العالیٰ النورانی لهان ١٨خادم دارالافتاء البركاتي علماء فاونديشن شرعي سوال و جواب ضلع سرها نيبال
16/08/2023
16/08/2023