Type Here to Get Search Results !

امام مسلم بن عقیل کے بچوں کا جھوٹا قصہ قسط دوم


امام مسلم بن عقیل کے بچوں کا جھوٹا قصہ
(سلسلہ "کربلا کے کچھ جھوٹے واقعات" سے منسلک)
◆ــــــــــــــــــــ۩۞۩ـــــــــــــــــــــ◆
کتب تاریخ میں امام مسلم کا اپنے بچوں کو ساتھ لے جانا ہی ثابت نہیں ہے۔ اس کے علاوہ شیعوں کی معتبر کتب میں بھی اس کا ثبوت نہیں ہے۔ شیعوں کی سب سے بڑی اور ضخیم کتاب "بحار الانوار" جو 110 جلدوں پر مشتمل ہے، اس میں بھی امام مسلم بن عقیل اور راستہ بتانے والوں کا تو ذکر ہے لیکن بچوں کا کوئی تذکرہ نہیں ہے۔
(بحار الانوار، ج44، ص335، مطبوعہ تہران) 
تاریخ کی دیگر کتابوں میں بھی امام مسلم کے بچوں کا کوئی ذکر نہیں ہے جس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ یہ قصہ جو ہمارے درمیان مشہور ہے محض ایک افسانہ ہے جسے رونے رلانے کے لیے گھڑا گیا ہے۔ جو دلائل پیش کیے گئے وہ اس واقعے کی تردید کے لیے کافی ہیں اور ان کے علاوہ امام مسلم کی وصیت بھی قابل غور ہے جس کا ذکر سنی و شیعہ دونوں طرف کی کتب میں موجود ہے، چناں چہ امام مسلم نے شہید ہونے سے پہلے چند وصیتیں فرمائیں اور وہ یہ تین ہیں:
(1) اس شہر (کوفہ) میں جو میرا قرض ہے اسے ادا کر دیا جائے۔
(2) شہادت کے بعد میرے جسم کو زمین میں دفن کر دیا جائے۔
(3) کسی کو بھیج کر امام حسین کو واپس جانے کا پیغام دے دیا جائے۔
(البدایۃ والنھایۃ، ج8، ص56، مطبوعہ بیروت۔
کتاب الفتوخ تصنیف احمد بن عاصم الکوفی، ص99، مطبوعہ حیدرآباد دکن۔
الکامل فی التاریخ، ج4، ص34، مطبوعہ بیروت۔
مقتل حسین مصنفہ ابو المؤید خوارزمی، ص212، مطبوعہ ایران۔
تاریخ طبری، ج6، ص212، مطبوعہ بیروت۔
ناسخ التواریخ، ج2، ص98، مطبوعہ تہران جدید) 
یہاں غور کرنے کی بات یہ ہے کہ جب امام مسلم اپنے قرض اور اپنے جسم کے لیے وصیت کر رہے ہیں تو پھر اپنے بچوں کو کیسے بھول گئے؟ 
امام مسلم بن عقیل کی وصیت میں یہ بات ضرور موجود ہونی چاہیے تھی کہ میرے بچوں کو فلاں جگہ پہنچا دیا جائے لیکن ایسا کچھ بھی نہیں ہے۔ بے شک امام مسلم اپنے بچوں سے محبت کرتے تھے تو ایسا کیسے ہو سکتا ہے کہ آپ انھیں بھول جائیں؟ مذکورہ تمام باتوں سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ امام مسلم کا اپنے بچوں کو کوفہ لے جانا، ان بچوں کا یہاں سے وہاں بھٹکنا اور شہید کر دیا جانا سب قصے کہانیاں بے اصل و من گھڑت ہیں۔
اس قصے کو سب سے پہلے ملا حسین واعظ کاشفی نے روضۃ الشھداء میں لکھا ہے اور آپ کو شاید یہ بات کڑوی لگے لیکن سچ یہی ہے کہ ملا حسین کاشفی سُنی نہیں بلکہ اہل تشیع تھا۔ یہ اور اس کی کتاب اہل سنت کے نزدیک کوئی حجت نہیں۔ 
اس مکمل بحث کے بعد بھی اگر کوئی امام مسلم کے بچوں کے اس قصے کو روضۃ الشھداء میں ہونے کی وجہ سے ہضم کر لیتا ہے تو اسے چاہیے کہ اسی کتاب میں موجود دیگر واقعات کو بھی ہضم کر کے دکھائے جن میں سے کچھ مزے دار واقعات ہمارے ایک دوسرے قسط وار مضمون "اسے بھی ہضم کیجیے" میں موجود ہے، وہاں ملاحظہ فرمائیں۔
◆ــــــــــــــــــــ۩۞۩ـــــــــــــــــــــ◆
کتبہ:- عبد مصطفی

Post a Comment

0 Comments
* Please Don't Spam Here. All the Comments are Reviewed by Admin.

Top Post Ad

Below Post Ad

Ads Area