(سوال نمبر 6075)
کیا کسی یتیم بچے کی کفالت زکوٰۃ سے کر سکتے ہیں؟
_________(❤️)_________
السلام علیکم و رحمتہ اللہ و برکاتہ
کیا فرماتے ہیں علماء کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ کسی یتیم بچہ کو کھانا کھلانا اس کے اسکول کا خرچ اٹھانا اس پر جو بھی خرچ ہو وہ کرنا اور ان تمام اخراجات کو زکوتہ میں شمار کرنا ۔کیا یہ صحیح ہے کیا زکوتہ اس طرح ادا ہو جاتی ہےکیا ذکوٰۃ کا حساب الگ سے کرنا ہوگا۔وضاحت کے ساتھ جواب عنایت فرمائیں۔۔
سائل:- محمد کاشف جموں کشمیر انڈیا
_________(❤️)_________
کیا کسی یتیم بچے کی کفالت زکوٰۃ سے کر سکتے ہیں؟
_________(❤️)_________
السلام علیکم و رحمتہ اللہ و برکاتہ
کیا فرماتے ہیں علماء کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ کسی یتیم بچہ کو کھانا کھلانا اس کے اسکول کا خرچ اٹھانا اس پر جو بھی خرچ ہو وہ کرنا اور ان تمام اخراجات کو زکوتہ میں شمار کرنا ۔کیا یہ صحیح ہے کیا زکوتہ اس طرح ادا ہو جاتی ہےکیا ذکوٰۃ کا حساب الگ سے کرنا ہوگا۔وضاحت کے ساتھ جواب عنایت فرمائیں۔۔
سائل:- محمد کاشف جموں کشمیر انڈیا
_________(❤️)_________
نحمده ونشكره و نصلي علي رسوله الأمين الكريم
وعلیکم السلام ورحمة الله وبركاته
الجواب بعونه تعالي عزوجل
مذکورہ صورت میں کسی یتیم بچے کی کفالت میں زکات صرف کر سکتے ہیں۔
یعنی اپنے زیر کفالت یتیم بچہ کی کفالت زکوة کے پیسے سے کرسکتے ہیں مگر زکوة کے پیسے مشترکہ کھانے اور دیگر مشترکہ چیزوں میں استعمال نہ کیے جائیں ورنہ بصورت دیگر اتنی زکوة ادا نہیں ہوگی۔
بدائع الصنائع میں ہے
وذكر في العيون عن أبي يوسف أن من عال يتيما فجعل يكسوه ويطعمه وينوي به عن زكاة ماله يجوز وقال محمد: ما كان من كسوة يجوز وفي الطعام لا يجوز إلا ما دفع إليه، وقيل: لا خلاف بينهما في الحقيقة؛ لأن مراد أبي يوسف ليس هو الإطعام على طريق الإباحة بل على وجه التمليك، ثم إن كان اليتيم عاقلا يدفع إليه وإن لم يكن عاقلا يقبض عنه بطريق النيابة ثم يكسوه ويطعمه؛ لأن قبض الولي كقبضه لو كان عاقلا
(بدائع الصنائع: (39/2، ط: دار الکتب العلمیہ)
و فیہ ایضاً
وأما الذي يرجع إلى المؤدى إليه فأنواع: منها أن يكون فقيرا فلا يجوز صرف الزكاة إلى الغني إلا أن يكون عاملا عليها لقوله تعالى {إنما الصدقات للفقراء والمساكين والعاملين عليها والمؤلفة قلوبهم وفي الرقاب والغارمين وفي سبيل الله وابن السبيل} [التوبة: ٦٠] جعل الله تعالى الصدقات للأصناف المذكورين بحرف اللام وأنه للاختصاص فيقتضي اختصاصهم باستحقاقها (43/2، ط: دار الکتب العلمیہ)
والله ورسوله اعلم بالصواب
وعلیکم السلام ورحمة الله وبركاته
الجواب بعونه تعالي عزوجل
مذکورہ صورت میں کسی یتیم بچے کی کفالت میں زکات صرف کر سکتے ہیں۔
یعنی اپنے زیر کفالت یتیم بچہ کی کفالت زکوة کے پیسے سے کرسکتے ہیں مگر زکوة کے پیسے مشترکہ کھانے اور دیگر مشترکہ چیزوں میں استعمال نہ کیے جائیں ورنہ بصورت دیگر اتنی زکوة ادا نہیں ہوگی۔
بدائع الصنائع میں ہے
وذكر في العيون عن أبي يوسف أن من عال يتيما فجعل يكسوه ويطعمه وينوي به عن زكاة ماله يجوز وقال محمد: ما كان من كسوة يجوز وفي الطعام لا يجوز إلا ما دفع إليه، وقيل: لا خلاف بينهما في الحقيقة؛ لأن مراد أبي يوسف ليس هو الإطعام على طريق الإباحة بل على وجه التمليك، ثم إن كان اليتيم عاقلا يدفع إليه وإن لم يكن عاقلا يقبض عنه بطريق النيابة ثم يكسوه ويطعمه؛ لأن قبض الولي كقبضه لو كان عاقلا
(بدائع الصنائع: (39/2، ط: دار الکتب العلمیہ)
و فیہ ایضاً
وأما الذي يرجع إلى المؤدى إليه فأنواع: منها أن يكون فقيرا فلا يجوز صرف الزكاة إلى الغني إلا أن يكون عاملا عليها لقوله تعالى {إنما الصدقات للفقراء والمساكين والعاملين عليها والمؤلفة قلوبهم وفي الرقاب والغارمين وفي سبيل الله وابن السبيل} [التوبة: ٦٠] جعل الله تعالى الصدقات للأصناف المذكورين بحرف اللام وأنه للاختصاص فيقتضي اختصاصهم باستحقاقها (43/2، ط: دار الکتب العلمیہ)
والله ورسوله اعلم بالصواب
_________(❤️)_________
کتبہ :- فقیہ العصر حضرت علامہ مولانا مفتی محمد مجيب قادری صاحب قبلہ مدظلہ العالیٰ النورانی لهان ١٨خادم دارالافتاء البركاتي علماء فاونديشن شرعي سوال و جواب ضلع سرها نيبال
04/08/2023