(سوال نمبر 2013)
کیا مرد کسی ولیہ کے مزار پر برائے فاتحہ خوانی جا سکتے ہیں؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
السلام علیکم و رحمت اللہ و برکاتہ
کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام مسئلہ ذیل میں کہ
کیا مرد حضرات کسی ولیہ کے مثلا حضرت رابعہ بصریہ رحمة اللہ علیہا وغیرہا
کے مزار پر فاتحہ خوانی کے لئے حاضر ھو سکتا ھے ؟
المستفتی :- سید محمد عامر کچھ گجرات انڈیا
.....................................
نحمده ونشكره ونصلي على رسوله الأمين
کیا مرد کسی ولیہ کے مزار پر برائے فاتحہ خوانی جا سکتے ہیں؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
السلام علیکم و رحمت اللہ و برکاتہ
کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام مسئلہ ذیل میں کہ
کیا مرد حضرات کسی ولیہ کے مثلا حضرت رابعہ بصریہ رحمة اللہ علیہا وغیرہا
کے مزار پر فاتحہ خوانی کے لئے حاضر ھو سکتا ھے ؟
المستفتی :- سید محمد عامر کچھ گجرات انڈیا
.....................................
نحمده ونشكره ونصلي على رسوله الأمين
وعلیکم السلام ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
الجواب باسمہ تعالی عزوجل
جس طرح اولیاء صالحین کی مزارات و قبور پر جانا مستحب ہے اسی طرح ولیہ صالحات کی مزار و قبر پر جا نا شرعا جائز ہے مثلا جب آپ مدینہ منورہ میں جنت البقیع میں جائیں تو قبر سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا اور ازواج مطہرات رضی اللہ عنہن کی قبور پر فاتحہ کے لئے ضرور جائیں ۔اسی طرح حضرت رابعہ بصریہ اور دیگر ولیہ کی قبور و مزارات پر فاتحہ خوانی کے لئے جانا جائز ہے ۔جیسا کہ نور الایضاح میں ہے
ندب زيارتها للرجال والنساء على الأصح ويستحب قراءة يس لما ورد أنه من دخل المقابر فقرأ يسین خفف الله عنهم يومئذ وكان له بعدد ما فيها حسنات ۔(نور الایضاح، فصل فی زیارة القبور)
اصح قول کے مطابق مردوں اور عورتوں کےلئے زیارت قبور مستحب ہے ۔
اور سورہ یسین پڑھنا بھی مستحب ہے کیونکہ حدیث پاک میں وارد ہوا ہے ، کہ جو شخص قبرستان میں داخل ہو کر سورہ یسین پڑھے تو اللہ تعالی اس دن اس پر آسانی فرما تا ہے، اور پڑھنے والے کو اہل قبور کی تعداد کے مطابق نیکیاں ملتی ہیں ۔
قبرستان میں یا کسی خاص مزار پر جانے کا ایک دینی مقصد ہوتا ہے، اگر اس دینی مقصد کو پیش نظر رکھا جائے،تو مردوں اور عورتوں دونوں کے لئے جائز ہے ،اگر وہ مقصد پیش نظر نہ ہو تو ناجائز ہے ،وہ مقصد یہ ہے کہ قبرستان میں جانے سے موت یاد آتی ہے، اہل قبور کےلئے فاتحہ خوانی کرکے ایصال و ثواب کیا جائے اور ان کے لئے بخشش کی دعاء مانگی جائے، نیز اولیاء کرام و صالحات کے مزارات مقدسہ پر حاضری دے کر انکی روحانی فیض سے استفادہ کیا جائے، اور ان کے وسیلے سے بارگاہ خدا وندی میں دست سوال دراز کیا جائے،
١/ حدیث شریف میں ہے
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا قبروں کی زیارت کرو، ،یہ تمھیں موت یاد دلانے والی ہے ،
٢/ ایک دوسری حدیث شریف میں ہے ،آقا علیہ السلام نے فرما میں تمھیں زیارت قبور سے منع کیا کرتا تھا، اب زیارت کرو اور ان لوگوں کے لئے رحمت اور مغفرت کی دعاء کرو
٣/ حضرت محمد بن نعمان رضی اللہ عنہ مرفوعا روایت کرتے ہیں،جس نے جمعہ کے دن اپنے ماں باپ دونوں یا کسی ایک کی قبر کی زیارت کی اسکو بخش دیا جاتا اور نیکو کار لکھا جاتا ہے ،
٤/ آقا علیہ السلام خود جنت البقیع میں تشریف لےجاتےاور فرماتے
*السلام علیکم دار قوم مومنین و انا ان شاء اللہ بکم لاحقون اسئل اللہ لی ولکم العافیہ*
اے مومن قوم کی بستی میں بسنے والوں بیشک ہم بھی اللہ نے چاہا تو تم سے آملیں گے۔اپنے اور تمہارے لئے عافیت کا سوال کرتا ہوں،
مذکورہ توضیحات سے معلوم ہوا کہ اولیاء کرام اور ولیہ صالحات کے مزارات پر جانے کا مقصود ایک ہی ہے جو اوپر مذکور ہوا ۔
والله ورسوله اعلم بالصواب
الجواب باسمہ تعالی عزوجل
جس طرح اولیاء صالحین کی مزارات و قبور پر جانا مستحب ہے اسی طرح ولیہ صالحات کی مزار و قبر پر جا نا شرعا جائز ہے مثلا جب آپ مدینہ منورہ میں جنت البقیع میں جائیں تو قبر سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا اور ازواج مطہرات رضی اللہ عنہن کی قبور پر فاتحہ کے لئے ضرور جائیں ۔اسی طرح حضرت رابعہ بصریہ اور دیگر ولیہ کی قبور و مزارات پر فاتحہ خوانی کے لئے جانا جائز ہے ۔جیسا کہ نور الایضاح میں ہے
ندب زيارتها للرجال والنساء على الأصح ويستحب قراءة يس لما ورد أنه من دخل المقابر فقرأ يسین خفف الله عنهم يومئذ وكان له بعدد ما فيها حسنات ۔(نور الایضاح، فصل فی زیارة القبور)
اصح قول کے مطابق مردوں اور عورتوں کےلئے زیارت قبور مستحب ہے ۔
اور سورہ یسین پڑھنا بھی مستحب ہے کیونکہ حدیث پاک میں وارد ہوا ہے ، کہ جو شخص قبرستان میں داخل ہو کر سورہ یسین پڑھے تو اللہ تعالی اس دن اس پر آسانی فرما تا ہے، اور پڑھنے والے کو اہل قبور کی تعداد کے مطابق نیکیاں ملتی ہیں ۔
قبرستان میں یا کسی خاص مزار پر جانے کا ایک دینی مقصد ہوتا ہے، اگر اس دینی مقصد کو پیش نظر رکھا جائے،تو مردوں اور عورتوں دونوں کے لئے جائز ہے ،اگر وہ مقصد پیش نظر نہ ہو تو ناجائز ہے ،وہ مقصد یہ ہے کہ قبرستان میں جانے سے موت یاد آتی ہے، اہل قبور کےلئے فاتحہ خوانی کرکے ایصال و ثواب کیا جائے اور ان کے لئے بخشش کی دعاء مانگی جائے، نیز اولیاء کرام و صالحات کے مزارات مقدسہ پر حاضری دے کر انکی روحانی فیض سے استفادہ کیا جائے، اور ان کے وسیلے سے بارگاہ خدا وندی میں دست سوال دراز کیا جائے،
١/ حدیث شریف میں ہے
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا قبروں کی زیارت کرو، ،یہ تمھیں موت یاد دلانے والی ہے ،
٢/ ایک دوسری حدیث شریف میں ہے ،آقا علیہ السلام نے فرما میں تمھیں زیارت قبور سے منع کیا کرتا تھا، اب زیارت کرو اور ان لوگوں کے لئے رحمت اور مغفرت کی دعاء کرو
٣/ حضرت محمد بن نعمان رضی اللہ عنہ مرفوعا روایت کرتے ہیں،جس نے جمعہ کے دن اپنے ماں باپ دونوں یا کسی ایک کی قبر کی زیارت کی اسکو بخش دیا جاتا اور نیکو کار لکھا جاتا ہے ،
٤/ آقا علیہ السلام خود جنت البقیع میں تشریف لےجاتےاور فرماتے
*السلام علیکم دار قوم مومنین و انا ان شاء اللہ بکم لاحقون اسئل اللہ لی ولکم العافیہ*
اے مومن قوم کی بستی میں بسنے والوں بیشک ہم بھی اللہ نے چاہا تو تم سے آملیں گے۔اپنے اور تمہارے لئے عافیت کا سوال کرتا ہوں،
مذکورہ توضیحات سے معلوم ہوا کہ اولیاء کرام اور ولیہ صالحات کے مزارات پر جانے کا مقصود ایک ہی ہے جو اوپر مذکور ہوا ۔
والله ورسوله اعلم بالصواب
_________(❤️)_________
کتبہ :- فقیہ العصر حضرت علامہ مولانا مفتی محمد مجيب قادری صاحب قبلہ مدظلہ العالیٰ النورانی لهان ١٨خادم دارالافتاء البركاتي علماء فاونديشن شرعي سوال و جواب ضلع سرها نيبال
26/2/2022
26/2/2022