(سوال نمبر 2014)
امام ایک مقتدی کے ساتھ نماز شروع کر دیا پھر دوسرے آئے تو کیا کرے کہاں کھڑا ہو؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
کیا فرماتے ہیں علماے اسلام اور مفتیان کرام اس مسلہ کے متعلق
اگر امام کے ساتھ ایک یا دو مقتدی ہو تو ان کو امام کی کس جانب کھڑا ہونا چاہیے اور اگر چند مقتدی اور آجائیں تو امام کس طرع آگے جانا چاہیے اور مقتدیوں کو کس پیچھے آنا چاہیے کیا امام اور کیا امام قدم اٹھا کر آگے مصلی پر جاسکتا ہے اور کیا مقتدی قدم اٹھا کر پیچھے آسکتا ہے راہنمائی فرما دیں
سائل:- اسرار حسین شاہ شہر اٹک پاکستان
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نحمده و نصلي على رسوله الأمين
وعليكم السلام ورحمة الله وبركاته
الجواب بعونه تعالى عز وجل
اگر امام کے ساتھ دو مقتدی ہو تو امام آگے اور دونوں مقتدی ایک ساتھ امام کے پیچھے کھڑیں ہوں ۔
اگر ایک مقتدی ہو تو امام داہنے طرف مقتدی کو کھڑا کرکے نماز پڑھیں دواران نماز اگر کوئی مقتدی اجائے تو افضل یہ ہے کہ مقتدی پیچھے آجائے اور اگر مقتدی مسئلہ معلوم نہ ہونے کی وجہ سے پیچھے نہ آئے، تو امام کو آگے بڑھنا چاہیے، لیکن اگر امام اور مقتدی میں سے کوئی بھی آگے پیچھے نہیں ہوا، تو آنےوالے کو چاہیے کہ مقتدی کو پیچھےلے آنے یا امام کو آگے بڑھنے کا اشارہ کر دے، پھر اگر مقتدی پیچھے اجائے تو امام اپنی جگہ رہتے ہوئے نماز مکمل کریں گے اور اگر امام اگے بڑھ جائے پھر نیا انے والا پہلے مقتدی کے ساتھ مل کر کھڑا ہوجائے ۔بعد میں جو لوگ آئیں گے وہ سب مقتدی کے ساتھ کھڑے ہوتے جائیں گے ۔
امام اگے مصلے پر چل کر جا سکتا ہے ۔
اسی طرح مقتدی چل کر پیچھے آسکتا ہے ۔ اس میں کوئی حرج نہیں ہے ۔
کما فی الدر المختار
إذا اقتدى بإمام فجاء آخر يتقدم الإمام موضع سجوده كذا في مختارات النوازل وفي القهستاني عن الجلابي أن المقتدي يتأخر عن اليمين إلى خلف إذا جاء آخر وفي الفتح: ولو اقتدى واحد بآخر فجاء ثالث يجذب المقتدي بعد التكبير ولو جذبه قبل التكبير لا يضره، وقيل يتقدم الإمام اهـ ومقتضاه أن الثالث يقتدي متأخرا ومقتضى القول بتقدم الإمام أنه يقوم بجنب المقتدي الأول. والذي يظهر أنه ينبغي للمقتدي التأخر إذا جاء ثالث فإن تأخر وإلا جذبه الثالث إن لم يخش إفساد صلاته۔
جب ایک شخص امام کی اقتدا کرے، پھر ایک اور نمازی آ جائے ،تو امام آگے اپنے سجدے کی جگہ کی طرف بڑھ جائے، جیسا کہ مختارات النوازل میں ہے۔ قہستانی میں جلابی سے یہ ہے کہ جب نیا مقتدی آئے ،تو مقتدی امام کی دائیں جانب سے ہٹ کر پیچھے آ جائے۔ فتح القدیر میں ہے کہ اگر ایک شخص نے اقتدا کی ہو اور پھر تیسرا شخص(دوسرا مقتدی) آ جائے تو وہ پہلے مقتدی کو تکبیرِ تحریمہ باندھ لینے کے بعد پیچھے کھینچ لے اور اگرتکبیر سے پہلے کھینچے تو اِس میں بھی کوئی مضائقہ نہیں اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ امام آگے بڑھ جائے۔(فتح القدیر کی عبارت مکمل ہوئی) اُن کی عبارت کا مقتضی یہ ہے کہ تیسرا شخص پچھلی صف میں اقتدا کرے اور امام کے آگے بڑھنے“والے قول کا مطلب یہ ہے کہ تیسرا شخص اُس مقتدی کے پہلو میں ہی کھڑا ہو جائے۔جو رائے زیادہ ظاہر ہے وہ یہ ہے کہ جب دوسرا مقتدی آئے تو پہلے مقتدی کو چاہیے کہ وہ پیچھے آجائے، اگر وہ پیچھے آ جاتا ہے تو ٹھیک، ورنہ نیا آنے والا اُسے پیچھے کھینچ لے، بشرطیکہ اُس پہلے مقتدی کی نماز ٹوٹنے کا اندیشہ نہ ہو۔
(ردالمحتار مع درمختار، ج 2،باب الامامۃ، ص371، ط کوئٹہ)
مجتہد فی المسائل اعلی حضرت رضی اللہ عنہ
(سالِ وفات:1340ھ/1921ء) فرماتے ہیں
جب امام کے ساتھ ایک مقتدی ہو اور دوسرا آئے توافضل یہ ہے کہ مقتدی پیچھے ہٹے،ہاں اگرمقتدی مسئلہ نہ جانتاہویاپیچھے ہٹنے کو جگہ نہیں تو ایسی صورت میں امام کوبڑھنا چاہئے کہ ایک کابڑھنادوکے ہٹنے سے آسان ہے، پھر اگر(مقتدی) مسئلہ جانتاہو، توجب کوئی دوسرا ملا چاہتاہے،توخودہی پیچھے ہٹنا چاہئے، خواہ امام خود ہی آگے بڑھ جائے، ورنہ اس آنے والے شخص کو چاہئے کہ مقتدی کو اور وہ مسئلہ نہ جانتاہو تو امام کواشارہ کرے،انہیں مناسب ہے کہ معاً اشارہ کے ساتھ ہی حرکت نہ کریں کہ امتثال ِامرِغیر کا شبہہ نہ ہو، بلکہ ایک تامل ِخفیف کے بعد اپنی رائے سے اتباعِ حکم شرع وادائے سنت کے لئے،نہ اس کااشارہ ماننے کی نیت سے حرکت کریں، اس صورت میں برابر ہے کہ یہ آنے والا مقتدی نیت باندھ کر اشارہ کرے خواہ بلانیت کے، بہرحال وہ اطاعتِ حکمِ شرع کریں گے،نہ اس کے حکم کی اطاعت اور جو جاہل اس کا حکم ماننے کی نیت کرے گا، تو اس کاتکبیر تحریمہ کے بعداشارہ کرنا کیا نفع دے گا، کہ امام یامقتدی کودوسرے مقتدی کاحکم ماننا کب جائز ہے، لقمہ قراءت میں یا افعال میں لینا کہ امام کو جائز ہے وہ بھی بحکم شرع ہے، نہ کہ اطاعتِ حکم مقتدی،جو اس کی نیت کرے گا، اس کی نماز خود ہی فاسد ہوجائے گی اور جب وہ امام ہے، تواس کے ساتھ سب کی جائے گی۔
(فتاویٰ رضویہ، ج 7،ص 138،ط رضا فاؤنڈیشن،لاھور)
مصنف بہار شریعت رحمت اللہ علیہ
(سالِ وفات:1367ھ/1947ء) فرماتے ہیں کہ
ایک شخص امام کے برابر کھڑا تھا ،پھر ایک اور آیا ،تو امام آگے بڑھ جائے اور وہ آنے والا اس مقتدی کےبرابر کھڑا ہو جائے یا وہ مقتدی پیچھے ہٹ آئے خود یا آنے والے نے اس کو کھینچا، خواہ تکبیر کے بعد یا پہلے یہ سب صورتیں جائز ہیں، جو ہو سکے کرے اور سب ممکن ہيں تو اختیار ہے، مگر مقتدی جبکہ ایک ہو تو اس کا پیچھے ہٹنا افضل ہے اور دو ہوں تو امام کا آگے بڑھنا، اگر مقتدی کے کہنے سے امام آگے بڑھا یا مقتدی پیچھے ہٹا اِس نیت سے کہ یہ کہتا ہے اِس کی مانوں، تو نماز فاسد ہو جائے گی اور حکم شرع بجالانے کے ليے ہو، کچھ حرج نہیں۔
(بہارِ ج 1، ح 3 ، ص 585، مکتبۃ المدینہ، کراچی)
والله ورسوله اعلم بالصواب
امام ایک مقتدی کے ساتھ نماز شروع کر دیا پھر دوسرے آئے تو کیا کرے کہاں کھڑا ہو؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
کیا فرماتے ہیں علماے اسلام اور مفتیان کرام اس مسلہ کے متعلق
اگر امام کے ساتھ ایک یا دو مقتدی ہو تو ان کو امام کی کس جانب کھڑا ہونا چاہیے اور اگر چند مقتدی اور آجائیں تو امام کس طرع آگے جانا چاہیے اور مقتدیوں کو کس پیچھے آنا چاہیے کیا امام اور کیا امام قدم اٹھا کر آگے مصلی پر جاسکتا ہے اور کیا مقتدی قدم اٹھا کر پیچھے آسکتا ہے راہنمائی فرما دیں
سائل:- اسرار حسین شاہ شہر اٹک پاکستان
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نحمده و نصلي على رسوله الأمين
وعليكم السلام ورحمة الله وبركاته
الجواب بعونه تعالى عز وجل
اگر امام کے ساتھ دو مقتدی ہو تو امام آگے اور دونوں مقتدی ایک ساتھ امام کے پیچھے کھڑیں ہوں ۔
اگر ایک مقتدی ہو تو امام داہنے طرف مقتدی کو کھڑا کرکے نماز پڑھیں دواران نماز اگر کوئی مقتدی اجائے تو افضل یہ ہے کہ مقتدی پیچھے آجائے اور اگر مقتدی مسئلہ معلوم نہ ہونے کی وجہ سے پیچھے نہ آئے، تو امام کو آگے بڑھنا چاہیے، لیکن اگر امام اور مقتدی میں سے کوئی بھی آگے پیچھے نہیں ہوا، تو آنےوالے کو چاہیے کہ مقتدی کو پیچھےلے آنے یا امام کو آگے بڑھنے کا اشارہ کر دے، پھر اگر مقتدی پیچھے اجائے تو امام اپنی جگہ رہتے ہوئے نماز مکمل کریں گے اور اگر امام اگے بڑھ جائے پھر نیا انے والا پہلے مقتدی کے ساتھ مل کر کھڑا ہوجائے ۔بعد میں جو لوگ آئیں گے وہ سب مقتدی کے ساتھ کھڑے ہوتے جائیں گے ۔
امام اگے مصلے پر چل کر جا سکتا ہے ۔
اسی طرح مقتدی چل کر پیچھے آسکتا ہے ۔ اس میں کوئی حرج نہیں ہے ۔
کما فی الدر المختار
إذا اقتدى بإمام فجاء آخر يتقدم الإمام موضع سجوده كذا في مختارات النوازل وفي القهستاني عن الجلابي أن المقتدي يتأخر عن اليمين إلى خلف إذا جاء آخر وفي الفتح: ولو اقتدى واحد بآخر فجاء ثالث يجذب المقتدي بعد التكبير ولو جذبه قبل التكبير لا يضره، وقيل يتقدم الإمام اهـ ومقتضاه أن الثالث يقتدي متأخرا ومقتضى القول بتقدم الإمام أنه يقوم بجنب المقتدي الأول. والذي يظهر أنه ينبغي للمقتدي التأخر إذا جاء ثالث فإن تأخر وإلا جذبه الثالث إن لم يخش إفساد صلاته۔
جب ایک شخص امام کی اقتدا کرے، پھر ایک اور نمازی آ جائے ،تو امام آگے اپنے سجدے کی جگہ کی طرف بڑھ جائے، جیسا کہ مختارات النوازل میں ہے۔ قہستانی میں جلابی سے یہ ہے کہ جب نیا مقتدی آئے ،تو مقتدی امام کی دائیں جانب سے ہٹ کر پیچھے آ جائے۔ فتح القدیر میں ہے کہ اگر ایک شخص نے اقتدا کی ہو اور پھر تیسرا شخص(دوسرا مقتدی) آ جائے تو وہ پہلے مقتدی کو تکبیرِ تحریمہ باندھ لینے کے بعد پیچھے کھینچ لے اور اگرتکبیر سے پہلے کھینچے تو اِس میں بھی کوئی مضائقہ نہیں اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ امام آگے بڑھ جائے۔(فتح القدیر کی عبارت مکمل ہوئی) اُن کی عبارت کا مقتضی یہ ہے کہ تیسرا شخص پچھلی صف میں اقتدا کرے اور امام کے آگے بڑھنے“والے قول کا مطلب یہ ہے کہ تیسرا شخص اُس مقتدی کے پہلو میں ہی کھڑا ہو جائے۔جو رائے زیادہ ظاہر ہے وہ یہ ہے کہ جب دوسرا مقتدی آئے تو پہلے مقتدی کو چاہیے کہ وہ پیچھے آجائے، اگر وہ پیچھے آ جاتا ہے تو ٹھیک، ورنہ نیا آنے والا اُسے پیچھے کھینچ لے، بشرطیکہ اُس پہلے مقتدی کی نماز ٹوٹنے کا اندیشہ نہ ہو۔
(ردالمحتار مع درمختار، ج 2،باب الامامۃ، ص371، ط کوئٹہ)
مجتہد فی المسائل اعلی حضرت رضی اللہ عنہ
(سالِ وفات:1340ھ/1921ء) فرماتے ہیں
جب امام کے ساتھ ایک مقتدی ہو اور دوسرا آئے توافضل یہ ہے کہ مقتدی پیچھے ہٹے،ہاں اگرمقتدی مسئلہ نہ جانتاہویاپیچھے ہٹنے کو جگہ نہیں تو ایسی صورت میں امام کوبڑھنا چاہئے کہ ایک کابڑھنادوکے ہٹنے سے آسان ہے، پھر اگر(مقتدی) مسئلہ جانتاہو، توجب کوئی دوسرا ملا چاہتاہے،توخودہی پیچھے ہٹنا چاہئے، خواہ امام خود ہی آگے بڑھ جائے، ورنہ اس آنے والے شخص کو چاہئے کہ مقتدی کو اور وہ مسئلہ نہ جانتاہو تو امام کواشارہ کرے،انہیں مناسب ہے کہ معاً اشارہ کے ساتھ ہی حرکت نہ کریں کہ امتثال ِامرِغیر کا شبہہ نہ ہو، بلکہ ایک تامل ِخفیف کے بعد اپنی رائے سے اتباعِ حکم شرع وادائے سنت کے لئے،نہ اس کااشارہ ماننے کی نیت سے حرکت کریں، اس صورت میں برابر ہے کہ یہ آنے والا مقتدی نیت باندھ کر اشارہ کرے خواہ بلانیت کے، بہرحال وہ اطاعتِ حکمِ شرع کریں گے،نہ اس کے حکم کی اطاعت اور جو جاہل اس کا حکم ماننے کی نیت کرے گا، تو اس کاتکبیر تحریمہ کے بعداشارہ کرنا کیا نفع دے گا، کہ امام یامقتدی کودوسرے مقتدی کاحکم ماننا کب جائز ہے، لقمہ قراءت میں یا افعال میں لینا کہ امام کو جائز ہے وہ بھی بحکم شرع ہے، نہ کہ اطاعتِ حکم مقتدی،جو اس کی نیت کرے گا، اس کی نماز خود ہی فاسد ہوجائے گی اور جب وہ امام ہے، تواس کے ساتھ سب کی جائے گی۔
(فتاویٰ رضویہ، ج 7،ص 138،ط رضا فاؤنڈیشن،لاھور)
مصنف بہار شریعت رحمت اللہ علیہ
(سالِ وفات:1367ھ/1947ء) فرماتے ہیں کہ
ایک شخص امام کے برابر کھڑا تھا ،پھر ایک اور آیا ،تو امام آگے بڑھ جائے اور وہ آنے والا اس مقتدی کےبرابر کھڑا ہو جائے یا وہ مقتدی پیچھے ہٹ آئے خود یا آنے والے نے اس کو کھینچا، خواہ تکبیر کے بعد یا پہلے یہ سب صورتیں جائز ہیں، جو ہو سکے کرے اور سب ممکن ہيں تو اختیار ہے، مگر مقتدی جبکہ ایک ہو تو اس کا پیچھے ہٹنا افضل ہے اور دو ہوں تو امام کا آگے بڑھنا، اگر مقتدی کے کہنے سے امام آگے بڑھا یا مقتدی پیچھے ہٹا اِس نیت سے کہ یہ کہتا ہے اِس کی مانوں، تو نماز فاسد ہو جائے گی اور حکم شرع بجالانے کے ليے ہو، کچھ حرج نہیں۔
(بہارِ ج 1، ح 3 ، ص 585، مکتبۃ المدینہ، کراچی)
والله ورسوله اعلم بالصواب
_________(❤️)_________
کتبہ :- فقیہ العصر حضرت علامہ مولانا مفتی محمد مجيب قادری صاحب قبلہ مدظلہ العالیٰ النورانی لهان ١٨خادم دارالافتاء البركاتي علماء فاونديشن شرعي سوال و جواب ضلع سرها نيبال
٢٦/٢/٢٠٢٢
٢٦/٢/٢٠٢٢