(سوال نمبر 2012)
لڈو گیم شرط پر کھیلنا کیسا ہے؟
.....................................
السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
کیا فرماتے ہیں علماے اسلام اور مفتیان کرام اس مسلہ کے متعلق
کیا لڈو گیم اگر کوئی بغیر پیسہ کی شرط لگاۓ کھیلتا ہے تو کیا اس کا کھیلنا جائز ہے
سائل:- اسرار حسین شاہ شہر اٹک پاکستان
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نحمده ونشكره ونصلي على رسوله الأمين
وعليكم السلام ورحمة الله وبركاته
الجواب بعونه تعالى عز وجل
مسئلہ مسئولہ میں شرط لگاکر شطرنج و لڈو اور تاش کھیلنا حرام ہے، اور لڈو اور تاش آگر شرطیں نہ بھی ہوں تو تضییع اوقات کے سوا کچھ نہیں ہے ۔۔اس لئے منع ہے۔
حدیث صحیح میں ہے کہ جس نے شطرنج کھیلا گویا کہ اس نے اپنے ہا تھ کو خنزیر کے خون و گوشت سے آلودہ کر لیا ۔
وروى بريدة أن النبي صلى الله عليه وسلم قال: «من لعب بالنردشير، فكأنما غمس يده في لحم الخنزير ودمه»
(رواه أبو داود، ولمسلم: «من لعب بالنردشير، فكأنما صبغ يده في لحم خنزير ودمه۔(نصب الراية: 274/ 4)
بیہقی نے حضرت علی رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ سے روایت کی، وہ فرماتے ہیں شطرنج عجمیوں کا جوا ہے۔ اور ابن شہاب نے ابوموسیٰ اشعری
رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ سے روایت کی، وہ کہتے ہیں کہ شطرنج نہیں کھیلے گا مگر خطا کار۔ اور انھیں سے دوسری روایت یہ ہے کہ وہ باطل سے ہے اور ﷲ تعالیٰ باطل کو دوست نہیں رکھتا۔
(بہار شریعت ح ١٦ص ٥١٢ مكتبة المدينة)
شعب الإیمان باب في تحریم الملاعب والملاھی،الحدیث: ۶۵۱۸ ،ج ۵ ،ص ۲۴۱)
مجتهد في المسائل اعلی حضرت رضي الله عنه فرماتے ہیں
کافی وجامع الرموز و ردالمختار میں دربارہ اخیر ہے :ھوحرام وکبیرۃ عندنا وفی اباحتہ اعانۃ الشیطان علی الاسلام والمسلمین
ہمارے نزدیک شطرنج کھلینا حرام اور گناہ کبیرہ ہے اور اسے جائز ٹھہرانے میں اسلام او رمسلمانوں کےخلاف شیطان کو مدد دیناہے ۔
( ردالمحتار کتاب الکراہیۃ فصل فی البیع ادارۃ الطباعۃ المصریہ مصر ۵ /۲۵۳)
(فتاوی رضویہ ج ٩ص ١٢٩ دعوت اسلامي)
شطرنج کھیل اگر جوئے کی شرط کے ساتھ کھیلا جائے تو ناجائز اور حرام ہے اور ہارجیت کی شرط کے بغیر بھی کھیلنا منع ہے۔
اگر چہ شطرنج انصاب میں جو بمعنی بت کے ہے، داخل نہیں، مگر دوسرے دلائل سے حرام ہے، اگر مع القما ر ہو تو بالاجماع; لقوله تعالی:
{انما الخمروالمیسر...} الآیة
اور بدون قمار کے ہے تو مع الاختلاف، یعنی ہمارے نزدیک اس وقت بھی حرام ہے
لإطلاق ما روی صاحب الهدایة؛ لقوله علیه السلام: من لعب بالشطرنج والنردشیر فکأنما غمس یده في دم الخنزیر، ولقول علي رضي اﷲ عنه حین مر بقوم یلعبون بالشطرنج، فقال: ما هذه التماثیل التي أنتم لها عاکفون؟ وروی مثل هذا عن عمر رضي اﷲ عنه أیضاً حین مر بقوم یلعبون بالشطرنج، وقد شبه عملهم بعمل بعبادة الأوثان. اهـ غایة البیان ۱۲. وعن عبیداللّٰه بن عمر رضي ﷲ عنه أنه قال للقاسم بن محمد: هذه النرد یکرهونها فما بال الشطرنج؟ قال: کل ما ألهی من ذکر اللّٰه وعن الصلوٰة فهو میسر. تخریج زیلعی،
لڈو مع الشرط حرام ہے بدون شرط نہیں کھیلنا چاہئے ۔
کما فی الهداية في شرح بداية المبتدي (4/ 380)
ويكره اللعب بالشطرنج والنرد والأربعة عشر وكل لهو ۔لأنه إن قامر بها فالميسر حرام بالنص، وهو اسم لكل قمار، وإن لم يقامر فهو عبث ولهو. وقال عليه الصلاة والسلام: "لهو المؤمن باطل إلا الثلاث: تأديبه لفرسه، ومناضلته عن قوسه، وملاعبته مع أهله"، وقال بعض الناس: يباح اللعب بالشطرنج؛ لما فيه من تشحيذ الخواطر وتذكية الأفهام، وهو محكي عن الشافعي رحمه الله. لنا قوله عليه الصلاة والسلام: "من لعب بالشطرنج والنردشير فكأنما غمس يده في دم الخنزير"؛ ولأنه نوع لعب يصد عن ذكر الله وعن الجمع والجماعات فيكون حراماً؛ لقوله عليه الصلاة والسلام: "ما ألهاك عن ذكر الله فهو ميسر"ثم إن قامر به تسقط عدالته، وإن لم يقامر لا تسقط؛ لأنه متأول فيه.
شرح مختصر الطحاوي للجصاص (8/ 544)
قال(ويكره اللعب بالشطرنج، والنرد، وكل اللهو)، وذلك لقول الله تعالى: ﴿ وَمِنَ النَّاسِ مَنْ يَّشْتَرِىْ لَهْوَ الْحَدِيْثِ ﴾ فذم عليه، وأوعد عليه بالعقاب، وقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: "لست من دد، ولا الدد مني وقد روي في النهي عن اللعب بالشطرنج عن النبي عليه الصلاة والسلام أحاديث. وروي "أن علياً رضي الله عنه مر بقوم يلعبون بالشطرنج، فقال: ﴿ هٰذِهِ التَّمَاثِيْلُ الَّتِيْ اَنْتُمْ لَهَا عٰكِفُوْنَ ﴾وهذا يدل على كراهة شديدة لذلك"
تفسیر صراط الجنان میں ہے
شطرنج، تاش، لڈو، کیرم، بلیئرڈ، کرکٹ وغیرہ ہار جیت کے کھیل جن پر بازی لگائی جائے سب جوئے میں داخل اور حرام ہیں.
(صراط الجنان، ج 1، ص 337، مکتبۃ المدینہ، کراچی)
اور اگر کسی قسم کی شرط یا بازی نہ بھی لگائی جائے تب بھی منع ہے.
مجتہد فی المسائل اعلی حضرت رضی اللہ عنہ
(المتوفی 1340ھ)
گیند کھیلنے سے متعلق فرماتے ہیں
عبث ہے، اگرچہ صاحب ہدایہ نے ہر عبث کو حرام لکھا ہے لیکن صحیح یہ ہے کہ عبث باطل ہے ۔حدیث میں ہے
مسلمان کا ہر لَھو باطل ہے مگر تین باتوں میں اول گھوڑا پھرانا، دوسرے تیر اندازی ، تیسرے اپنی عورت سے ملاعبت.یہ ان تینوں باتوں میں داخل نہیں اس لیے باطل ہے.
(ملفوظات اعلی حضرت، ص 473، مکتبۃ المدینہ، کراچی)
مذکورہ توضیحات سے معلوم ہوا کہ کوئی بھی کھیل مع الشرط کھینا حرام ہے ۔
حتی لڈو اور تاش بھی ۔آگر شرطیں نہ بھی ہوں تو تضییع اوقات کے سوا کچھ نہیں ہے ۔۔اس لئے منع ہے
والله ورسوله اعلم بالصواب
لڈو گیم شرط پر کھیلنا کیسا ہے؟
.....................................
السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
کیا فرماتے ہیں علماے اسلام اور مفتیان کرام اس مسلہ کے متعلق
کیا لڈو گیم اگر کوئی بغیر پیسہ کی شرط لگاۓ کھیلتا ہے تو کیا اس کا کھیلنا جائز ہے
سائل:- اسرار حسین شاہ شہر اٹک پاکستان
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نحمده ونشكره ونصلي على رسوله الأمين
وعليكم السلام ورحمة الله وبركاته
الجواب بعونه تعالى عز وجل
مسئلہ مسئولہ میں شرط لگاکر شطرنج و لڈو اور تاش کھیلنا حرام ہے، اور لڈو اور تاش آگر شرطیں نہ بھی ہوں تو تضییع اوقات کے سوا کچھ نہیں ہے ۔۔اس لئے منع ہے۔
حدیث صحیح میں ہے کہ جس نے شطرنج کھیلا گویا کہ اس نے اپنے ہا تھ کو خنزیر کے خون و گوشت سے آلودہ کر لیا ۔
وروى بريدة أن النبي صلى الله عليه وسلم قال: «من لعب بالنردشير، فكأنما غمس يده في لحم الخنزير ودمه»
(رواه أبو داود، ولمسلم: «من لعب بالنردشير، فكأنما صبغ يده في لحم خنزير ودمه۔(نصب الراية: 274/ 4)
بیہقی نے حضرت علی رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ سے روایت کی، وہ فرماتے ہیں شطرنج عجمیوں کا جوا ہے۔ اور ابن شہاب نے ابوموسیٰ اشعری
رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ سے روایت کی، وہ کہتے ہیں کہ شطرنج نہیں کھیلے گا مگر خطا کار۔ اور انھیں سے دوسری روایت یہ ہے کہ وہ باطل سے ہے اور ﷲ تعالیٰ باطل کو دوست نہیں رکھتا۔
(بہار شریعت ح ١٦ص ٥١٢ مكتبة المدينة)
شعب الإیمان باب في تحریم الملاعب والملاھی،الحدیث: ۶۵۱۸ ،ج ۵ ،ص ۲۴۱)
مجتهد في المسائل اعلی حضرت رضي الله عنه فرماتے ہیں
کافی وجامع الرموز و ردالمختار میں دربارہ اخیر ہے :ھوحرام وکبیرۃ عندنا وفی اباحتہ اعانۃ الشیطان علی الاسلام والمسلمین
ہمارے نزدیک شطرنج کھلینا حرام اور گناہ کبیرہ ہے اور اسے جائز ٹھہرانے میں اسلام او رمسلمانوں کےخلاف شیطان کو مدد دیناہے ۔
( ردالمحتار کتاب الکراہیۃ فصل فی البیع ادارۃ الطباعۃ المصریہ مصر ۵ /۲۵۳)
(فتاوی رضویہ ج ٩ص ١٢٩ دعوت اسلامي)
شطرنج کھیل اگر جوئے کی شرط کے ساتھ کھیلا جائے تو ناجائز اور حرام ہے اور ہارجیت کی شرط کے بغیر بھی کھیلنا منع ہے۔
اگر چہ شطرنج انصاب میں جو بمعنی بت کے ہے، داخل نہیں، مگر دوسرے دلائل سے حرام ہے، اگر مع القما ر ہو تو بالاجماع; لقوله تعالی:
{انما الخمروالمیسر...} الآیة
اور بدون قمار کے ہے تو مع الاختلاف، یعنی ہمارے نزدیک اس وقت بھی حرام ہے
لإطلاق ما روی صاحب الهدایة؛ لقوله علیه السلام: من لعب بالشطرنج والنردشیر فکأنما غمس یده في دم الخنزیر، ولقول علي رضي اﷲ عنه حین مر بقوم یلعبون بالشطرنج، فقال: ما هذه التماثیل التي أنتم لها عاکفون؟ وروی مثل هذا عن عمر رضي اﷲ عنه أیضاً حین مر بقوم یلعبون بالشطرنج، وقد شبه عملهم بعمل بعبادة الأوثان. اهـ غایة البیان ۱۲. وعن عبیداللّٰه بن عمر رضي ﷲ عنه أنه قال للقاسم بن محمد: هذه النرد یکرهونها فما بال الشطرنج؟ قال: کل ما ألهی من ذکر اللّٰه وعن الصلوٰة فهو میسر. تخریج زیلعی،
لڈو مع الشرط حرام ہے بدون شرط نہیں کھیلنا چاہئے ۔
کما فی الهداية في شرح بداية المبتدي (4/ 380)
ويكره اللعب بالشطرنج والنرد والأربعة عشر وكل لهو ۔لأنه إن قامر بها فالميسر حرام بالنص، وهو اسم لكل قمار، وإن لم يقامر فهو عبث ولهو. وقال عليه الصلاة والسلام: "لهو المؤمن باطل إلا الثلاث: تأديبه لفرسه، ومناضلته عن قوسه، وملاعبته مع أهله"، وقال بعض الناس: يباح اللعب بالشطرنج؛ لما فيه من تشحيذ الخواطر وتذكية الأفهام، وهو محكي عن الشافعي رحمه الله. لنا قوله عليه الصلاة والسلام: "من لعب بالشطرنج والنردشير فكأنما غمس يده في دم الخنزير"؛ ولأنه نوع لعب يصد عن ذكر الله وعن الجمع والجماعات فيكون حراماً؛ لقوله عليه الصلاة والسلام: "ما ألهاك عن ذكر الله فهو ميسر"ثم إن قامر به تسقط عدالته، وإن لم يقامر لا تسقط؛ لأنه متأول فيه.
شرح مختصر الطحاوي للجصاص (8/ 544)
قال(ويكره اللعب بالشطرنج، والنرد، وكل اللهو)، وذلك لقول الله تعالى: ﴿ وَمِنَ النَّاسِ مَنْ يَّشْتَرِىْ لَهْوَ الْحَدِيْثِ ﴾ فذم عليه، وأوعد عليه بالعقاب، وقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: "لست من دد، ولا الدد مني وقد روي في النهي عن اللعب بالشطرنج عن النبي عليه الصلاة والسلام أحاديث. وروي "أن علياً رضي الله عنه مر بقوم يلعبون بالشطرنج، فقال: ﴿ هٰذِهِ التَّمَاثِيْلُ الَّتِيْ اَنْتُمْ لَهَا عٰكِفُوْنَ ﴾وهذا يدل على كراهة شديدة لذلك"
تفسیر صراط الجنان میں ہے
شطرنج، تاش، لڈو، کیرم، بلیئرڈ، کرکٹ وغیرہ ہار جیت کے کھیل جن پر بازی لگائی جائے سب جوئے میں داخل اور حرام ہیں.
(صراط الجنان، ج 1، ص 337، مکتبۃ المدینہ، کراچی)
اور اگر کسی قسم کی شرط یا بازی نہ بھی لگائی جائے تب بھی منع ہے.
مجتہد فی المسائل اعلی حضرت رضی اللہ عنہ
(المتوفی 1340ھ)
گیند کھیلنے سے متعلق فرماتے ہیں
عبث ہے، اگرچہ صاحب ہدایہ نے ہر عبث کو حرام لکھا ہے لیکن صحیح یہ ہے کہ عبث باطل ہے ۔حدیث میں ہے
مسلمان کا ہر لَھو باطل ہے مگر تین باتوں میں اول گھوڑا پھرانا، دوسرے تیر اندازی ، تیسرے اپنی عورت سے ملاعبت.یہ ان تینوں باتوں میں داخل نہیں اس لیے باطل ہے.
(ملفوظات اعلی حضرت، ص 473، مکتبۃ المدینہ، کراچی)
مذکورہ توضیحات سے معلوم ہوا کہ کوئی بھی کھیل مع الشرط کھینا حرام ہے ۔
حتی لڈو اور تاش بھی ۔آگر شرطیں نہ بھی ہوں تو تضییع اوقات کے سوا کچھ نہیں ہے ۔۔اس لئے منع ہے
والله ورسوله اعلم بالصواب
_________(❤️)_________
کتبہ :- فقیہ العصر حضرت علامہ مولانا مفتی محمد مجيب قادری صاحب قبلہ مدظلہ العالیٰ النورانی لهان ١٨خادم دارالافتاء البركاتي علماء فاونديشن شرعي سوال و جواب ضلع سرها نيبال
٢٦/٢/٢٠٢٢
٢٦/٢/٢٠٢٢