Type Here to Get Search Results !

کیا وقف شدہ چیز کو واقف کی شرط کے مطابق استعمال کرنا ضروری ہے؟

 (سوال نمبر 305)
 کیا وقف شدہ چیز کو واقف  کی شرط کے مطابق استعمال کرنا ضروری ہے؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
السلام علیکم ورحمۃاللہ تعالیٰ وبرکاتہ
کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین مسئلہ ذیل کے بارے میں کہ 
 ہمارے یہاں انجمن اسلامیہ کے زیر نگرانی قدیم اوقاف کی پراپرٹی جیسے دوکانیں مکانات کھیتی کی زمین کھالی پلاٹ اور خاص کر دو پلاٹ اردو اسکول کے نام وقف ہیں ان دونوں پلاٹوں پر انجمن اسلامیہ نے لڑکوں اور لڑکیوں کے لئے اردو میڈیم اسکول قائم کیا تھا كافی عرصہ تک دونوں اسکول چلتے رہے جس سے قوم کے بچوں اور بچیوں کو کافی فائدہ ہوا. کچھ حالات ایسے بنے کی دونوں اسکول بند ہو گئے. ٹیچروں کے دھیان نہ دینے کیوجہ سے یا انجمن کے پاس روپئے نہ ہو نے کیوجہ سے کہ ٹیچروں کو دیں بہرحال اسکول بند کر دئیے گئے. اسوقت کی انتظامیہ نے ایک اسکول کے پلاٹ پر چند ہ کر کے شادی گھر کا کام شروع کردیا جو گورنمنٹ کی مدد لیکر کام مکمل ہو گیا. اور دوسرے اسکول کے پلاٹ پر آج آٹھ نو سال پہلےکمیٹی کے لوگوں نے پھر سے دو بارہ اردو میڈیم اسکول شروع کیا ہے جس میں اردو اور دینیات کے ساتھ اسکول کی پوری تعلیم دی جاتی ہے جیسے ہندی انگریزی گڑت وغیرہ. شادی ہال کی آمدنی سے اردو اسکول کے ٹیچروں کی تنخواہیں دی جاتی ہیں. دریافت طلب امر یہ ہے کہ اردو اسکول کے لئے وقف صحیح ہے کہ نہیں. اردو اسکول بند کر کے اس پلاٹ پر شادی ہال بنانا جائز ہے یا ناجائز. شادی ہال کی آمدنی پھر سے قائم کئے ہوئے اردو اسکول پر خرچ کر نا جائز ہے یا ناجائز. شادی ہال کی آمدنی کے دو طریقے ہیں. 1 شادی ہال کا کرایہ تین چار پانچ ہزار روپے جیسی کنڈیشن ویسا کرایہ ایک شادی کا. 2 شادی ہال میں اگر شادی کرنے والا ٹینٹ ہاؤس والے سے کرسی میز اور ٹینٹ کا کام کرواتا ہے تو کمیٹی بڑے پروگرام میں ٹینٹ والے سے پانچ ہزار روپے اور چھوٹے پروگرام میں دو ڈھائی تین ہزار روپے لیتی ہے. کمیٹی کا ٹینٹ والے سے روپیہ لینا جائز ہے یا ناجائز. قدیم اوقاف میں سے کئی پراپرٹی کے متعلق شرط کا ذکر نہیں ہے کہ اس کی آمدنی کہاں خرچ کیجائے. قدیم اوقاف کی آمدنی کے مصارف کیا کیا ہیں. اور کمیٹی شادی ہال کی آمدنی کو ہر جائز کام میں خرچ کرسکتی ہے کہ نہیں. جیسے کوئی دینی پروگرام کسی غریب بچی کی شادی کسی غریب میت کے کفن اور ضرورت مندوں پر. شریعت مطہرہ کی روشنی میں تفصیلی جواب عنایت فرمائیں. نوازش ہوگی.
 سائل:- محمد زاہد رضا بہرائچ شریف یوپی
.....................................
نحمده ونشكره ونصلي على رسوله الأمين
وعليكم السلام ورحمة الله وبركاته
الجواب بعونه تعالى عز وجل
صورت مسئولہ میں
وقف کے ضابطوں میں سے ایک ضابطہ یہ ہے کہ وقف شدہ چیز کو واقف  کی شرط کے مطابق استعمال کیا جائے،  واقف کی شرط کی خلاف ورزی ہرگز نہ کی جائے، 
١/ انجمن اسلامیہ کے زیر نگرانی خاص کر دو پلاٹ جو اردو اسکول کے لئے وقف تھے، 
اردو اسکول قائم بھی ہوئے کافی دن چلا بھی بعدہ بوجہ مجبوری بند کر دئے گئے، پھر ایک پلاٹ پر پھر سے اردو اسکول قائم کردئے ۔پر دوسرے پلاٹ پر شادی ہال بنا دئے جو بالکل درست نہیں ہے بصحت سوال دونوں پلاٹ مختص تھے اردو اسکول کے لئے اس لئے واقف کے منشاء کے خلاف مذکورہ پلاٹ کو شادی ہال کے لئے استعمال کرنا جائز نہیں ہے ۔
البتہ اگر واقف نے بوقت وقف فلاح عامة المسلیمین كے لئے وقف عام کئے یوں اس صورت میں نگراں کو شادی ہال کے لئے استعمال کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے کہ فی الوقت عامة الناس کا فائدہ اسی میں ہے ۔
اور اگر بوقت وقف یہ شرط مفقود ہوں اور اس کی شرعا کوئی شواہد بھی نہ ملے پھر نگران کو چاہئے کہ شادی ہال کو اردو اسکول میں منتقل کریں ورنہ عند الشرع عاصی و گنہگار ہوں گے اگر نگراں ایسا نہیں کرتا تو محلے والے سب مل کر ایسا کریں اور ایساہی کرنا سب لازم و ضروری ہے ۔
کہ وقف شدہ زمین کا مسئلہ بہت سخت ہے عند الشرع ۔۔
٢ جب شادی ہال بنا نا ہی ناجائز ہے تو اس کی رقم کسی بھی جگہ صرف کرنا کب جائز ہوگا؟
٣/ قدیم موقوف کے بابت اگر کوئی تصریح حاصل نہیں کہ رقم کہاں صرف کی جائے اولا پہلے کے نگراں جہاں صرف کر رہیں ہوں وہیں صرف کی جائے دوم اس صورت میں اس موقوف سے منسلک لوگوں کی کثرت رائے سے رقم فلاح المسلیمین میں صرف کی جائے ۔کسی بھی دینی شرعی عوامی یتامی غرباء ان سب کا ر خیر میں صرف کی جائے ۔
جیسا کہ 
البحر الرائق شرح كنز الدقائق میں ہے ۔۔
 لايجوز لمتولي صرف أحد الوقفين للآخر"۔(البحر الرائق ۔کتاب الوقف)
چونکہ کوئی بھی وقف شدہ اشیاء ملکِ خدا ہے، اس میں بیع، ہبہ یا کوئی دوسرا تصرف جو اس نوع کا ہو مثلاً تبادلہ،یا ذاتی استعمال،تو یہ شرعاً جائز نہیں ہے۔
جیسا کہ در مختار میں ہے 
 (الوقف) ہو حبسہا علی حکم ملک اللہ تعالیٰ وصرف منفعتہا علی من أحبّ (درمختار) وفي رد المحتار: قدر لفظ حکم لیفید أن المراد أنہ لم یبق علی ملک الواقف ولا انتقل إلی ملک غیرہ، بل صار علی حکم ملک اللہ تعالی الذی لا ملک فیہ لأحد سواہ
(الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) - 2469/ص4257)
 فإذا تمّ ولزم لا یُمٴلَکُ ولا یُمَلَّکُ ولا یعار ولا یُرہَن 
(الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) 2483/4257)
اسی طرح کے ایک سوال کے جواب میں مجتہد فی المسائل اعلی حضرت رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں 
وقف میں شرائط واقف کا اتباع واجب ہے،
اشباہ والنظائر میں ہے:شرط الواقف کنص الشارع فی وجوب العمل بہ۔
واجب العمل ہونے میں واقف کی شرط شارع کی نص کی طرح ہے۔
(الاشباہ والنظائر الفن الثانی کتاب الوقف ادارۃ القرآن کراچی ۱/ ۳۰۵)
اگران مواقع میں صرف کرنا شرط واقف سے جدا ہے جیسا کہ ظاہر یہی ہے تو یہ صرف محض ناجائز ہے اور اگر واقف نے ہی ان مواقع میں صرف کی اجازت دی ہے جو ان میں مصرف خیر ہو اس میں صرف کرنا جائز ہے اور اگر شرائط واقف معلوم نہ ہوں تو متولیوں کے عملدرآمد قدیم پرنظر ہوگی 
کما فی الخیریۃ وغیرہا جیسا کہ خیریہ وغیرہ میں ہے
(۲) جہاں انہوں نے صرف کیا اگر وہ موافق شرط واقف یا اس کے معلوم نہ ہونے کی حالت میں موافق عملدرآمد قدیم متولیان ہے تو وہ صرف جائز ہوا اور ان سے مطالبہ و باز پرس کی کوئی وجہ نہیں ورنہ ناجائز ہوا اور ضرور باز پرس ہے اور ان پر لازم ہوگا کہ اس کا تاوان وقف کےلئے ادا کریں۔(۳) اگر روپیہ بیجا صرف کریں تو ضرور ان کا معزول کرنا واجب ہے
درمختار میں ہے
ینزع وجوبا ولوالواقف، بزازیہ، فغیرہ بالاولی، درر، لوغیر مامون
لازمی طور پر معزول کیا جائے اگرچہ واقف ہو، بزازیہ تو غیر کو بطریق اولی، درر، اگر وہ قابل اعتماد نہ ہو۔۔
(فتاویٰ رضویہ ج ١٦ص ٢٢٢ دعوت اسلامی سوفٹویر)(درمختار کتاب الوقف مطبع مجتبائی دہلی ۱/ ۳۸۳)
والله ورسوله اعلم بالصواب
_________(❤️)_________ 
کتبہ :- فقیہ العصر حضرت علامہ مولانا مفتی محمد مجيب قادری صاحب قبلہ مدظلہ العالیٰ النورانی لهان ١٨خادم دارالافتاء البركاتي علماء فاونديشن شرعي سوال و جواب ضلع سرها نيبال 
 14/1/2021

Post a Comment

0 Comments
* Please Don't Spam Here. All the Comments are Reviewed by Admin.

Top Post Ad

Below Post Ad

Ads Area