(سوال نمبر 2002)
جو شخص پنج وقتہ نماز با جماعت ادا نہ کرے اس کے پیچھے نماز جمعہ پڑھنا کیسا ہے؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
السلام علیکم و رحمة الله و بركاته
کیا فرماتے ہیں علماء دین اس مسلہ میں کہ میرے گھر سے قریب جو مسجد ہے۔ اس میں امام صاحب صرف جمعہ پڑھانے آتے ہیں باقی نمازوں میں کسی مسجد میں نہیں جاتے تو کیا ایسے امام کے پیچھے نماز درست ہے؟ جبکہ وہ شخص لوگوں کی نظر میں معزز بھی ہے اور پنج وقتہ کا امام بھی ۔
برائے کرم قرآن وحدیث کے حوالہ کے ساتھ جواب عنایت فرماٸیں نوازش ہوگی۔
سائل:-حافظ عبداللہ محمود بنارس انڈیا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نحمده و نصلي على رسوله الأمين
وعليكم السلام ورحمة الله وبركاته
الجواب بعونه تعالى عز وجل
بصحت سوال اگر زہد پنجوقتہ امام ہے اسی مسجد کا یا دیگر مسجد کا پھر کسی مسجد میں باجماعت نماز ادا نہیں کرتے ہیں یہ بات سمجھ سے بالا تر ہے اگر ایک دو نماز میں شرعی عذر کے تحت نماز باجماعت نہ پڑھی تو زید کے پیچھے پنجوقتہ نماز جائز ہے ۔
زید کو متنبہ کیا جائے کہ باجماعت نمازادا کریں ورنہ آپ پنجوقتہ نماز کی امامت کے لائق نہیں ہوں گے ۔
اور اگر معاملہ ایسا ہی ہے جیسا کہ سوال میں ذکر ہے اور زید جماعت چھوڑنے کا عادی ہے بایں طور کہ بلا عذر جماعت ترک کرتا ہے تو وہ فاسق معلن مردود الشھادہ ہے اس کے پیچھے فقط نماز
جمعہ پڑھنا جائز ہے ۔البتہ اگر دوسری جگہ نماز جمعہ ہوتی ہو پھر وہاں جمعہ پڑھیں
جیسا کہ مصنف بہار شریعت رحمت اللہ علیہ فرماتے ہیں
فاسق کی اقتدا نہ کی جائے مگر صرف جمعہ میں کہ اس میں مجبوری ہے، باقی نمازوں میں دوسری مسجد کو چلا جائے اور جمعہ اگر شہر میں چند جگہ ہوتا ہو تو اس میں بھی اقتدا نہ کی جائے، دوسری مسجد میں جا کر پڑھیں .
(بہار ح ٣ص ٥٧٣ مكتبة المدينة)
(ردالمحتار کتاب الصلاۃ،باب الإمامۃ، مطلب في تکرار الجماعۃ في المسجد، ج ۲ ، ص ۳۵۵۔
غنیہ. فتح القدیر)
یاد رہے کہ جو شخص پنجوقتہ نماز با جماعت ترک کرنے کا عادی ہو تو اس کے پیچھے پنجوقتہ نماز با جماعت پڑھنا مکروہ تحریمی واجب الاعادہ ہے. جو شرعا لائق امامت ہوں وہ نماز پڑھائے اور اگر کوئی دوسرا لائق امامت نہ ہو تو سب تنہا تنہا نماز پڑھیں.
رد المحتار میں ہے
والجماعة سنة موٴکدة للرجال وأقلھا اثنان وقیل:واجبة و علیه العامة (أي: عامة مشایخنا وبه جزم في التحفة وغیرھا، قال في البحر: وھو الراجح عند أھل المذھب، فتسن أو تجب ثمرته تظھر في الإثم بترکھا) علی الرجال العقلاء البالغین الأحرار القادرین علی الصلاة بالجماعة من غیر حرج
(کتاب الصلٰوۃ باب الامامت ج:٢ ص:٢٨٧/دار عالم الکتب ریاض)
بہار شریعت میں ہے
عاقِل، بالغ،حر، قادر پر جماعت واجب ہے، بلاعذر ایک بار بھی چھوڑنے والا گنہگار اور مستحق سزا ہے اور کئی بار ترک کرے،تو فاسق، مردود الشہادۃ اور اس کو سخت سزا دی جائے گی،اگر پروسیوں نے سکوت کیا تو وہ بھی گنہگار ہوئے
(بہار شریعت ج:١ ح:٣ ص:٥٨٦/مجلس المدینۃ العلمیہ)
فتاویٰ رضویہ میں ہے:کبیرہ کا علانیہ مرتکب فاسق معلن اور فاسق معلن کو امام بنانا گناہ اوراس کے پیچھے نماز مکروہ تحریمی کہ پڑھنی گناہ اور پھیرنی واجب ۔فتاویٰ حجہ میں ہے و قدموا فاسقا یاثمون اگر انھوں نے فاسق کو مقدم کیا تو گنہگار ہوں گے۔
تبیین الحقائق میں ہے
لأن فی تقدیمه للإمامة تعظیمة وقد وجب علیھم إھانته شرعا
کیونکہ امامت کے لئے فاسق کی تقدیم میں اس کی تعظیم ہے حالانکہ اس کی اہانت شرعًا واجب ہے
اسی صفحہ پر آگے ہے :اگر علانیہ فسق وفجور کرتا ہے اور دوسرا کوئی امامت کے قابل نہ مل سکے تو تنہا نماز پڑھیں۔
فإن تقدیم الفاسق إثم والصلاۃ خلفه مکروھة تحریما والجماعة واجبة فھما فی درجة واحدۃ ودرء المفاسد أھم من جلب المصالح
کیونکہ تقدیم ِ فاسق گناہ ہے اور اس کے پیچھے نماز پڑھنا مکروہ تحریمی ہے اور جماعت واجب ہے، پس دونوں کا درجہ ایک ہوا، لیکن مصالح کے حصول سے مفاسد کو ختم کرنا اہم اور ضروری ہوتا ہے
( فتاویٰ رضویہ مترجم ج:٦ ص:٦٠٢/مرکز اہلسنت برکات رضا)
والله ورسوله اعلم بالصواب
جو شخص پنج وقتہ نماز با جماعت ادا نہ کرے اس کے پیچھے نماز جمعہ پڑھنا کیسا ہے؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
السلام علیکم و رحمة الله و بركاته
کیا فرماتے ہیں علماء دین اس مسلہ میں کہ میرے گھر سے قریب جو مسجد ہے۔ اس میں امام صاحب صرف جمعہ پڑھانے آتے ہیں باقی نمازوں میں کسی مسجد میں نہیں جاتے تو کیا ایسے امام کے پیچھے نماز درست ہے؟ جبکہ وہ شخص لوگوں کی نظر میں معزز بھی ہے اور پنج وقتہ کا امام بھی ۔
برائے کرم قرآن وحدیث کے حوالہ کے ساتھ جواب عنایت فرماٸیں نوازش ہوگی۔
سائل:-حافظ عبداللہ محمود بنارس انڈیا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نحمده و نصلي على رسوله الأمين
وعليكم السلام ورحمة الله وبركاته
الجواب بعونه تعالى عز وجل
بصحت سوال اگر زہد پنجوقتہ امام ہے اسی مسجد کا یا دیگر مسجد کا پھر کسی مسجد میں باجماعت نماز ادا نہیں کرتے ہیں یہ بات سمجھ سے بالا تر ہے اگر ایک دو نماز میں شرعی عذر کے تحت نماز باجماعت نہ پڑھی تو زید کے پیچھے پنجوقتہ نماز جائز ہے ۔
زید کو متنبہ کیا جائے کہ باجماعت نمازادا کریں ورنہ آپ پنجوقتہ نماز کی امامت کے لائق نہیں ہوں گے ۔
اور اگر معاملہ ایسا ہی ہے جیسا کہ سوال میں ذکر ہے اور زید جماعت چھوڑنے کا عادی ہے بایں طور کہ بلا عذر جماعت ترک کرتا ہے تو وہ فاسق معلن مردود الشھادہ ہے اس کے پیچھے فقط نماز
جمعہ پڑھنا جائز ہے ۔البتہ اگر دوسری جگہ نماز جمعہ ہوتی ہو پھر وہاں جمعہ پڑھیں
جیسا کہ مصنف بہار شریعت رحمت اللہ علیہ فرماتے ہیں
فاسق کی اقتدا نہ کی جائے مگر صرف جمعہ میں کہ اس میں مجبوری ہے، باقی نمازوں میں دوسری مسجد کو چلا جائے اور جمعہ اگر شہر میں چند جگہ ہوتا ہو تو اس میں بھی اقتدا نہ کی جائے، دوسری مسجد میں جا کر پڑھیں .
(بہار ح ٣ص ٥٧٣ مكتبة المدينة)
(ردالمحتار کتاب الصلاۃ،باب الإمامۃ، مطلب في تکرار الجماعۃ في المسجد، ج ۲ ، ص ۳۵۵۔
غنیہ. فتح القدیر)
یاد رہے کہ جو شخص پنجوقتہ نماز با جماعت ترک کرنے کا عادی ہو تو اس کے پیچھے پنجوقتہ نماز با جماعت پڑھنا مکروہ تحریمی واجب الاعادہ ہے. جو شرعا لائق امامت ہوں وہ نماز پڑھائے اور اگر کوئی دوسرا لائق امامت نہ ہو تو سب تنہا تنہا نماز پڑھیں.
رد المحتار میں ہے
والجماعة سنة موٴکدة للرجال وأقلھا اثنان وقیل:واجبة و علیه العامة (أي: عامة مشایخنا وبه جزم في التحفة وغیرھا، قال في البحر: وھو الراجح عند أھل المذھب، فتسن أو تجب ثمرته تظھر في الإثم بترکھا) علی الرجال العقلاء البالغین الأحرار القادرین علی الصلاة بالجماعة من غیر حرج
(کتاب الصلٰوۃ باب الامامت ج:٢ ص:٢٨٧/دار عالم الکتب ریاض)
بہار شریعت میں ہے
عاقِل، بالغ،حر، قادر پر جماعت واجب ہے، بلاعذر ایک بار بھی چھوڑنے والا گنہگار اور مستحق سزا ہے اور کئی بار ترک کرے،تو فاسق، مردود الشہادۃ اور اس کو سخت سزا دی جائے گی،اگر پروسیوں نے سکوت کیا تو وہ بھی گنہگار ہوئے
(بہار شریعت ج:١ ح:٣ ص:٥٨٦/مجلس المدینۃ العلمیہ)
فتاویٰ رضویہ میں ہے:کبیرہ کا علانیہ مرتکب فاسق معلن اور فاسق معلن کو امام بنانا گناہ اوراس کے پیچھے نماز مکروہ تحریمی کہ پڑھنی گناہ اور پھیرنی واجب ۔فتاویٰ حجہ میں ہے و قدموا فاسقا یاثمون اگر انھوں نے فاسق کو مقدم کیا تو گنہگار ہوں گے۔
تبیین الحقائق میں ہے
لأن فی تقدیمه للإمامة تعظیمة وقد وجب علیھم إھانته شرعا
کیونکہ امامت کے لئے فاسق کی تقدیم میں اس کی تعظیم ہے حالانکہ اس کی اہانت شرعًا واجب ہے
اسی صفحہ پر آگے ہے :اگر علانیہ فسق وفجور کرتا ہے اور دوسرا کوئی امامت کے قابل نہ مل سکے تو تنہا نماز پڑھیں۔
فإن تقدیم الفاسق إثم والصلاۃ خلفه مکروھة تحریما والجماعة واجبة فھما فی درجة واحدۃ ودرء المفاسد أھم من جلب المصالح
کیونکہ تقدیم ِ فاسق گناہ ہے اور اس کے پیچھے نماز پڑھنا مکروہ تحریمی ہے اور جماعت واجب ہے، پس دونوں کا درجہ ایک ہوا، لیکن مصالح کے حصول سے مفاسد کو ختم کرنا اہم اور ضروری ہوتا ہے
( فتاویٰ رضویہ مترجم ج:٦ ص:٦٠٢/مرکز اہلسنت برکات رضا)
والله ورسوله اعلم بالصواب
_________(❤️)_________
کتبہ :- فقیہ العصر حضرت علامہ مولانا مفتی محمد مجيب قادری صاحب قبلہ مدظلہ العالیٰ النورانی لهان ١٨خادم دارالافتاء البركاتي علماء فاونديشن شرعي سوال و جواب ضلع سرها نيبال
21/2/2022
21/2/2022