(سوال نمبر 7069)
کیا پورانی مسجد دوسری جگہ منتقل کی جا سکتی ہے؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
السلام علیکم و رحمتہ اللہ و برکاتہ
کیا فرماتے ہیں علماء دین ومفتیان شرعِ متین مسئلہ ذیل میں زید کے گاؤں میں ایک جامع مسجد ہے جس میں جانے کا راستہ بہت تنگ ہے نیز مسجد کے آس پاس کوئی مسلم گھر بھی نہیں پہلے مسلمانوں کے گھر مسجد سے قریب میں تھے لیکن اب مسلمانوں نے اپنے اپنے گھر مسجد سے تھوڑی دور دوسری جگہ بنا لیا ہے ۔
سوال یہ ہے کہ آیا ایسی صورت میں مسجد شہید کرکے اور اس کی جگہ فروخت کرکے جہاں مسلمانوں نے اپنے مکان بناۓ ہیں اس کے قریب میں مسجد بنا سکتے ہیں، بلفظ دیگر مسجد کو ایک جگہ سے دوسری جگہ یوں منتقل کرنا درست ہے یا نہیں؟
از روۓ شرع کیا حکم ہے؟ بیان فرمائیں بڑا کرم ہوگا۔
المستفتی:- حافظ منور لوہاسیکر کوڈرما صوبہ جھارکھنڈ۔ انڈیا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نحمده ونشكره ونصلي على رسوله الأمين الكريم
وعليكم السلام ورحمة الله وبركاته
الجواب بعونه تعالي عزوجل
١/ مسئلہ مسئولہ میں مسجد منتقل کرنا جائز نہیں ہے راستے کے لیے جگہ خرید لیں
چونکہ جو مسجد ہے وہ ہمیشہ مسجد ہی رہے گی اسے شہید کرکے کسی دوسری جگہ منتقل نہیں کر سکتے ہیں اگر وہاں مصلی نہ ہوں پھر اسے باؤنڈری کرکے محفوظ کرلیا جائے اور دوسری جگہ جہاں مصلی ہوں اور حاجت ہوں تو دوسری مسجد بنائی جائے ۔
٢/جس نے مسجد کے لئے ایک بار وقف کردی تو پھر وہ زمیں واقف کی ملکیت سے نکل کر ملک خدا ہوگئی اب وہ ہمیشہ مسجد ہی رہے گی واقف کو بھی نہیں دے سکتے ہیں۔
٣/ وہ جگہ مسجد ہے مسجد ہی رہے گی اسے محفوظ کرلیا جائے اس جگہ کی احترام مسجد کی طرح ہے اس میں دکان و مکان بیع و شراء جائز نہیں ہے ۔
کیوںکہ مسجد صرف ظاہری دیوار کا نام نہیں بلکہ اتنی جگہ کہ جتنی میں مسجد بنی ہوئی ہے تحت الثریٰ سے ساتوں آسمان تک سب مسجد ہی ہے ۔
درمختار مع شامی جلد اول ص ۴۸۵ میں ہے ۔
انہ مسجد الی عنان السماء ۔ اھ
ایسا ہی فتاوی رضویہ ج سوم ص ۵۸۸ میں ہے
(ماخوذ فتاوی فقیہ ملت ج اول ص۱۹۰)
قال فی الشامی: فاذا تم لزم لا یملک ولا یملک ولا یعار ولا یرہن ۔ (شامی: ۳/۴۰۲)
مجتہد فی المسائل اعلی حضرت رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں
جو چیز جس غرض کے لیے وقف کی گئی دوسری غرض کی طرف پھیرنا ناجائز ہے, اگر چہ وہ غرض بھی وقف ہی کے فائدہ کی ہو.
(فتاوی رضویہ, ح:٦ ص:۴٥٥)
فتح القدیر میں ہے
الواجب إبقاء الوقف على ما كان عليه دون زيادة أخرى
یعنی وقف کو اسی طرح باقی رکھنا واجب ہے جس پر وقف ہوا بغیر کسی زیادتی کے۔
(فتح القدیر, ح:٥, ص:۴۴۰,کتاب الوقف, مکتبہ نوریہ رضویہ}
کیوں کہ شرائط واقف کا اتباع واجب ہے،
اشباہ والنظائر میں ہے،
شرط الواقف کنص الشارع فی وجوب العمل بہ۔
واجب العمل ہونے میں واقف کی شرط شارع کی نص کی طرح ہے۔
( الاشباہ والنظائر الفن الثانی کتاب الوقف ادارۃ القرآن کراچی ۱/ ۳۰۵)
والله ورسوله اعلم بالصواب
کیا پورانی مسجد دوسری جگہ منتقل کی جا سکتی ہے؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
السلام علیکم و رحمتہ اللہ و برکاتہ
کیا فرماتے ہیں علماء دین ومفتیان شرعِ متین مسئلہ ذیل میں زید کے گاؤں میں ایک جامع مسجد ہے جس میں جانے کا راستہ بہت تنگ ہے نیز مسجد کے آس پاس کوئی مسلم گھر بھی نہیں پہلے مسلمانوں کے گھر مسجد سے قریب میں تھے لیکن اب مسلمانوں نے اپنے اپنے گھر مسجد سے تھوڑی دور دوسری جگہ بنا لیا ہے ۔
سوال یہ ہے کہ آیا ایسی صورت میں مسجد شہید کرکے اور اس کی جگہ فروخت کرکے جہاں مسلمانوں نے اپنے مکان بناۓ ہیں اس کے قریب میں مسجد بنا سکتے ہیں، بلفظ دیگر مسجد کو ایک جگہ سے دوسری جگہ یوں منتقل کرنا درست ہے یا نہیں؟
از روۓ شرع کیا حکم ہے؟ بیان فرمائیں بڑا کرم ہوگا۔
المستفتی:- حافظ منور لوہاسیکر کوڈرما صوبہ جھارکھنڈ۔ انڈیا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نحمده ونشكره ونصلي على رسوله الأمين الكريم
وعليكم السلام ورحمة الله وبركاته
الجواب بعونه تعالي عزوجل
١/ مسئلہ مسئولہ میں مسجد منتقل کرنا جائز نہیں ہے راستے کے لیے جگہ خرید لیں
چونکہ جو مسجد ہے وہ ہمیشہ مسجد ہی رہے گی اسے شہید کرکے کسی دوسری جگہ منتقل نہیں کر سکتے ہیں اگر وہاں مصلی نہ ہوں پھر اسے باؤنڈری کرکے محفوظ کرلیا جائے اور دوسری جگہ جہاں مصلی ہوں اور حاجت ہوں تو دوسری مسجد بنائی جائے ۔
٢/جس نے مسجد کے لئے ایک بار وقف کردی تو پھر وہ زمیں واقف کی ملکیت سے نکل کر ملک خدا ہوگئی اب وہ ہمیشہ مسجد ہی رہے گی واقف کو بھی نہیں دے سکتے ہیں۔
٣/ وہ جگہ مسجد ہے مسجد ہی رہے گی اسے محفوظ کرلیا جائے اس جگہ کی احترام مسجد کی طرح ہے اس میں دکان و مکان بیع و شراء جائز نہیں ہے ۔
کیوںکہ مسجد صرف ظاہری دیوار کا نام نہیں بلکہ اتنی جگہ کہ جتنی میں مسجد بنی ہوئی ہے تحت الثریٰ سے ساتوں آسمان تک سب مسجد ہی ہے ۔
درمختار مع شامی جلد اول ص ۴۸۵ میں ہے ۔
انہ مسجد الی عنان السماء ۔ اھ
ایسا ہی فتاوی رضویہ ج سوم ص ۵۸۸ میں ہے
(ماخوذ فتاوی فقیہ ملت ج اول ص۱۹۰)
قال فی الشامی: فاذا تم لزم لا یملک ولا یملک ولا یعار ولا یرہن ۔ (شامی: ۳/۴۰۲)
مجتہد فی المسائل اعلی حضرت رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں
جو چیز جس غرض کے لیے وقف کی گئی دوسری غرض کی طرف پھیرنا ناجائز ہے, اگر چہ وہ غرض بھی وقف ہی کے فائدہ کی ہو.
(فتاوی رضویہ, ح:٦ ص:۴٥٥)
فتح القدیر میں ہے
الواجب إبقاء الوقف على ما كان عليه دون زيادة أخرى
یعنی وقف کو اسی طرح باقی رکھنا واجب ہے جس پر وقف ہوا بغیر کسی زیادتی کے۔
(فتح القدیر, ح:٥, ص:۴۴۰,کتاب الوقف, مکتبہ نوریہ رضویہ}
کیوں کہ شرائط واقف کا اتباع واجب ہے،
اشباہ والنظائر میں ہے،
شرط الواقف کنص الشارع فی وجوب العمل بہ۔
واجب العمل ہونے میں واقف کی شرط شارع کی نص کی طرح ہے۔
( الاشباہ والنظائر الفن الثانی کتاب الوقف ادارۃ القرآن کراچی ۱/ ۳۰۵)
والله ورسوله اعلم بالصواب
_________(❤️)_________
کتبہ :- فقیہ العصر حضرت علامہ مولانا مفتی محمد مجيب قادری صاحب قبلہ مدظلہ العالیٰ النورانی لهان ١٨خادم دارالافتاء البركاتي علماء فاونديشن شرعي سوال و جواب ضلع سرها نيبال
14/08/2023
14/08/2023