Type Here to Get Search Results !

جاہل دیوبندی و وہابی کے بارے میں شرعا کیا حکم ہے اسے کافر و مرتد گردانا جائے یا مسلمان ؟

 (سوال نمبر 247)
جاہل دیوبندی و وہابی کے بارے میں شرعا کیا حکم ہے اسے کافر و مرتد گردانا جائے یا مسلمان ؟
_________(❤️)_________
السلام عليكم و رحمۃ اللہ وبرکاتہ 
کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین اس مسئلہ کے بارے میں کہ وہابی اور دیوبندیوں میں ایسا شخص جس کو شریعت کے تعلق سے کچھ جانکاری نہیں ہے اور جب ان سے پوچھا جاتا ہے کہ تمہارا عقیدہ کیا ہے تو وہ کہتا ہے کہ میں مسلمان ہوں اللہ اور اس کے رسول کو مانتا ہوں تو ایسا شخص شریعت کی روشنی میں مسلمان ہے یا نہیں ایسے شخص کے نکاح اور جنازے کا کیا حکم ہے مدلل و مفصل جواب عنایت فرمائیں عین نوازش ہوگی۔
العارض :-محمد ریاض الدین اعظمی انڈیا (ممبر اشرف العلماء فاونڈیشن)
_________(❤️)_________
 نحمده ونشكره ونصلي على رسوله الأمين
وعليكم السلام ورحمة الله وبركاتہ
الجواب بعونه تعالى عز وجل
مسئلہ مسئولہ میں جو بھی شخص اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی گستاخی کرتا ہے اس کا تعلق چاہے کسی بھی فرقے یا جماعت سے ہو وہ کافر ہوجاتا ہے، یہ کسی فرقے کے ساتھ خاص نہیں جو بھی کوئی عمل کرے گا خود ذمہ دار ہوگا دوسرا شخص اسکی وجہ سے کافر نہیں ہوگا۔ من حیث الجماعت کسی پر کفر کا فتویٰ لگانا جائز نہیں، ہر ایک بندے کے ایمان کی کیفیت الگ الگ ہوتی ہے۔
اس لئے سارے دیوبندی وہابی کافر و مرتد نہیں، جب تک بالتحقیق معلوم نہ ہو جائے کہ وہ ضروریات دینیہ کا منکر ہے ۔یا نہیں،
جیسا کہ شارح بخاری مفتی شریف الحق امجدی رحمت اللہ علیہ فرماتے ہیں ۔ 
دیوبندی عوام جو دیوبندی بزرگوں کی کفریہ عبارات سے باخبر نہیں ہے اور انکی ظاہری حالت کو دیکھ کر یا کسی اور وجہ سےان کو اپنا بزرگ اور پیشوا مانتے ہیں وہ کافر نہیں ہیں۔ مفتی شریف الحق امجدی صاحب مزید لکھتے ہیں زیادہ تر دیوبندی عوام اسی طرح کے ہیں ۔
فتاویٰ شارح بخاری ،جلد سوم ،ص ۳۳۰
ناشر دائرۃ البرکات ،گھوسی ،ضلع مئو ،جون ۲۰۱۳
قائل کا قول میں مسلمان ہوں اللہ و رسول کو مانتا ہوں، اور بھی دیگر ضروریات دینیہ کے بابت پوچھ لیا جائے اگر قبول کر لیں فبہا پھر ایسے شخص کو ضرور مسلمان کہیں گے اس پر نکاح و جنازہ کا وہی حکم ہے جو دیگر صحیح العقیدہ مسلمانوں کے ساتھ ہے، 
مجتہد فی المسائل اعلی حضرت رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں، 
ضروریات دین کے سوا کسی شے کا انکار کفر نہیں اگرچہ ثابت بالقواطع ہوکہ عند
التحقیق آدمی کو اسلام سے خارج نہیں کرتا مگر انکار اس کا جس کی تصدیق نے اسے دائرہ اسلام میں داخل کیا تھا اور وہ نہیں مگر ضروریات دین۔
کماحققہ العلماء المحققون من الائمۃ المتکلمین 
جیسا کہ ائمہ متکلمین کے محقق علماء نے تحقیق کی ہے۔ ولہذا خلافت خلفائے راشدین رضوان اللہ تعالی علیہم اجمعین کا منکر مذہب تحقیق میں کافر نہیں حالانکہ اس کی حقانیت بالیقین قطعیات سے ثابت، وقد فصل القول فی ذلک سیدنا العلامۃ الوالد رضی اللہ تعالی عنہ فی بعض فتاوہ
اس موضوع پر سیدنا علامہ والد ماجد رضی اللہ عنہ نے اپنے بعض فتاوی میں مفصل گفتگو کی ہے۔
 (فتاویٰ رضویہ ج 5ص 15)
ضروریاتِ دین وہ مسائلِ دین ہیں جن کو ہر خاص و عام جانتے ہوں ،جیسے اﷲ
 عزوجل کی وحدانیت، انبیا کی نبوت، جنت و نار، حشر و نشر وغیرہا 
مثلاً یہ اعتقاد کہ حضور اقدس صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم خاتم النبیین ہیں  ، حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کے بعد کوئی نیا نبی نہیں ہوسکتا۔
عوام سے مراد وہ مسلمان ہیں جو طبقۂ علما میں نہ شمار کیے جاتے ہوں، مگر علما کی صحبت سے شرفیاب ہوں   اور مسائلِ علمیہ سے ذوق رکھتے ہوں نہ وہ کہ کوردہ
(یعنی کم آباد اور چھوٹا گاؤں جسے کوئی نہ جانتا ہواور نہ ہی وہاں تعلیم کا کوئی سلسلہ ہو) اور جنگل اور پہاڑوں کے رہنے والے ہوں، جو کلمہ بھی صحیح نہیں پڑھ سکتے، کہ ایسے لوگوں کا ضروریاتِ دین سے ناواقف ہونا اُس ضروری کو غیر ضروری نہ کر دے گا، البتہ ان کے مسلمان ہونے کے لیے یہ بات ضروری ہے کہ ضروریاتِ دین کے منکر نہ ہوں اور یہ اعتقاد رکھتے ہوں کہ اسلام میں جو کچھ ہے حق ہے، ان سب پر اِجمالاً ایما ن لائے ہوں ۔
 في شرح العقائد النسفیۃ إنّ الإیمان في الشرع ھو التصدیق بما جاء بہ من عند اللّٰہ تعالی، أي ،تصدیق النبي بالقلب في جمیع ما علم بالضرورۃ مجیئہ بہ من عند اللّٰہ تعالی (شرح العقائد النسفیۃ ،مبحث الإیمان، ص ۱۲۰)
في المسامرۃ و المسایرۃ  الکلام في متعلق الإیمان، ص۳۳۰( الإیمان(ھو التصدیق بالقلب فقط) أي ،قبول القلب وإذعانہ لما علم بالضرورۃ أنّہ من دین محمد صلی اللّٰہ علیہ وسلم بحیث تعلمہ العامۃ من غیر افتقار إلی نظر ولا استدلال کالوحدانیۃ والنبوۃ والبعث والجزاء ووجوب الصلاۃ والزکاۃ وحرمۃ الخمر ونحوہا، ویکفي الإجمال فیما یلاحظ إجمالاً کالإیمان
 بالملا ئکۃ والکتب والرسل، ویشترط التفصیل فیما یلاحظ تفصیلا کجبریل ومیکائیل وموسی وعیسی والتوراۃ والإنجیل، حتی إنّ من لم یصدق بواحد معین منہاکافر  ( و )  القول بأن مسمی الإیمان ہذا التصدیق فقط  (ہو المختار عند جمہور الأشاعرۃ ) 
وبہ قال الماتریدي )الأشباہ والنظائر، الفن الثاني، کتاب السیر،ص ۱۵۹۔البحر الرائق ‘کتاب السیر، باب أحکام المرتدین، ج ۵  ص ۲۰۲، الدر المختار ‘ کتاب الجھاد، باب المرتد، ج ۶ ص ۳۴۲۔
في  الہندیۃ ‘‘کتاب السیر، الباب في أحکام المرتدین، ج ۲،ص ۲۶۳، ( إذا لم یعرف الرجل أنّ محمداً صلی اللّٰہ علیہ وسلم آخر الأنبیاء علیہم وعلی نبینا السلام فلیس بمسلم؛ لأنّہ من الضروریات )۔الأشباہ والنظائر،الفن الثاني، کتاب السیر، ص ۱۶۱۔
وفسرت الضروریات بما یشترک في علمہ الخواص والعوام، أقول، المراد العوام الذین لہم شغل بالدین واختلاط بعلمائہ إلخ ۔
(الفتاوی الرضویۃ ،کتاب الطھارۃ، باب الوضوء، ج ۱، ص ۱۸۱)
والله ورسوله أعلم بالصواب
_________(❤️)_________
کتبہ :- فقیہ العصر حضرت علامہ مولانا مفتی
محمد مجيب قادری صاحب قبلہ مدظلہ العالیٰ النورانی لہان ١٨سرها، 
 خادم دارالافتاء البرکاتی علماء فاونڈیشن سرہا نیپال۔
١٦/١٢/٢٠٢٠

Post a Comment

0 Comments
* Please Don't Spam Here. All the Comments are Reviewed by Admin.

Top Post Ad

Below Post Ad

Ads Area