Type Here to Get Search Results !

حالت استحاضہ میں جماع کرنا کیسا ہے؟

 (سوال نمبر 4195)
حالت استحاضہ میں جماع کرنا کیسا ہے؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ 
کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین مسئلہ ذیل کے بارے میں کہ 
(1) عورت کو دس دن سے زیادہ یعنی گیارہویں دن بھی خون جاری رہتا ہے تو اسکا حکم استحاضہ کا ہے؟ اور اس میں شوہر سے جماع کرتی ہے تو کیا جائز ہے؟   
(2) جب بھی عورت شوہر سے جماع کرتی ہے تو خون کچھ بہت جاری ہو جاتا ہے تو اسں خون کا کیا حکم ہے؟ کیا اس سے دونوں گناہگار ہوتے ہیں ایسے خیالات آتے ہیں انکی بھی وضاحت فرمائیں      
(3) دس دن بعد عورت پاک ہوتی ہے اور 15 دن کے وقفے سے پہلے دوبارہ خون جاری ہوگیا تو اب اسکا کیا حکم ہے ؟ تمام سوالات کا تسلی بخش جواب عطا فرمائے 
سائلہ:- بنت عباس دارلسلام ٹوبہ ٹیک سنگھ پاکستان 
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نحمده ونصلي علي رسوله الكريم 
وعلیکم السلام ورحمة الله وبركاته 
الجواب بعونه تعالي عز وجل 
(1) دس دن سے زیادہ خون آیا تو دس دن حیض یے باقی استحاضہ ہے ۔
حیض کی مدت کم سے کم تین دن اور زیادہ سے زیادہ دس دن ہے اور پاکی کی کم سے کم مدت پندرہ دن اور زیادہ سے زیادہ کوئی حد نہیں ہے۔
حیض و نفاس کے علاوہ جو خون عورت کی شرمگاہ سے آئے وہ استحاضہ کہلاتاہے اور استحاضہ کا حکم یہ ہے کہ ان دنوں میں مستحاضہ نماز روزہ تلاوت و دیگر تما م عبادات کرے گی اور ایسی خواتین جنہیں استحاضہ کا خون آتاہو وہ ہرنماز کے وقت کے لیے وضو کرے گی اور اسی وقت کے ختم ہونے تک اس وضو سے نماز تلاوت طواف وغیرہ کر سکتی ہیں بشرطیکہ کوئی اور ناقض وضو پیش نہ آئے اور اگر مستحاضہ سے اس دوران نمازیں یا روزے قضا ہو جائے تو اس کی قضا لازم ہے۔
یاد رہے کہ عورت کی حیض کے بارے میں کوئی عادت ہے یا نہیں؟ اگر اس کی سابقہ کوئی عادت ہے اور اسے عادت کے ایام سے زائد خون آئے تو وہ عورت فی الحال نماز نہیں پڑھے گی بلکہ انتظار کرے گی اگر خون دس دن سے زیادہ جاری رہا تو ایام عادت سے زائد ایام استحاضہ کے شمار ہوں گے اور ان دنوں کی نماز وں کی قضا لازم ہوگی نیز استحاضہ کے دنوں میں عورت روزے بھی رکھے گی اور نماز بھی پڑھے گی اگرچہ اس دوران خون جاری ہو اور اگر دس دن یا اس سے پہلے خون رک گیا تو یہ تمام ایام حیض کے شمار ہوں گے۔
(2) استحاضہ کی حالت میں بیوی سے ہمبستری کرنا جائز ہے۔
جماع کے وقت یا 
جماع کے بعد جو خون آتا ہے اس کی مدت اگر تین دن یا اس سے زیادہ ہو تو یہ حیض شمار ہوگا اور اگر تین دن سے کم ہوں تو یہ حیض شمار نہ ہوگا ہھر استحاضہ ہے۔
اگر حیض کا خون نہیں اور جماع کی وجہ سے خون ائے ہھر استحاضہ ہے یعنی مرض ہے علاج کروائے پر دونوں میں سے کوئی گنہگار نہیں۔
مراقی الفلاح ميں هے 
أقل ‌الحيض ثلاثة وأكثره عشرة وأقل ما بين الحيضتين خمسة عشر يومًا و لا حد لأكثره" لأنه قد يمتد أكثر من سنة.(مراقی الفلاح)
الھندیۃ میں ہے 
(ودم الاستحاضة) كالرعاف الدائم لا يمنع الصلاة ولا الصوم ولا الوطء. كذا 
في الهداية (الھندیۃ 39/1، ط: دار الفکر)
(3) دو حیضوں کے درمان کم از کم 15 دن پاکی کا ہونا چایئے اگر 15 دن کے وقفہ سے پہلے خون اگیا تو ممکن عادت بدلی ہو 10 دن حیض شمار کریں اور باقی استخارہ 
فتاوی شامی میں ہے 
تتمة اختلفوا في المعتادة هل تترك الصلاة والصوم بمجرد رؤيتها الزيادة على العادة قيل لا لاحتمال الزيادة على العشرة وقيل نعم استصحابا للأصل وصححه في النهاية والفتح وغيرهما وكذا الحكم في النفاس۔(ردالمحتار، كتاب الطهارة، باب الحيض، ج:1، ص499)
ہندیہ میں ہے 
وأما إذا زاد على عادتها المعروفة دون العشرة فقد اختلف فيه المشايخ فذهب أئمة بلخ إلى أنها تؤمر بالاغتسال والصلاة ؛ لأن حال الزيادة متردد بين الحيض والاستحاضة ؛ لأنه إن انقطع الدم قبل العشرة كان حيضا ، وإن جاوز العشرة كان استحاضة فلا تترك الصلاة مع التردد. وقال مشايخ بخارى : لا تؤمر بالاغتسال والصلاة ؛ لأنا عرفناها حائضا بيقين ، ودليل بقاء الحيض هو رؤية الدم قائم ولا يكون استحاضة حتى تستمر فيجاوز۔(العناية، كتاب الطهارة، باب الحيض والاستحاضة، ج:1، ص:150)
شامی میں ہے 
(ودم استحاضة) حكمه (كرعاف دائم) وقتا كاملا (لا يمنع صوما وصلاة) ولو نفلا (وجماعا) لحديث توضئي وصلي وإن قطر الدم على الحصير (ردالمحتار على الدرالمختار ،باب الحيض،ج:1،ص:298)
والله ورسوله اعلم بالصواب
_________(❤️)_________ 
کتبہ :- فقیہ العصر حضرت علامہ مولانا مفتی محمد مجيب قادری صاحب قبلہ مدظلہ العالیٰ النورانی لهان ١٨خادم دارالافتاء البركاتي علماء فاونديشن شرعي سوال و جواب ضلع سرها نيبال
26/08/2023

Post a Comment

0 Comments
* Please Don't Spam Here. All the Comments are Reviewed by Admin.

Top Post Ad

Below Post Ad

Ads Area